ترقی پسند تحریک نے اردو شاعری کو ایک نکھرا نکھرا سا صاف لب و لہجہ، زبان کی مٹھا س، صحت مند الفاظ کی آمیزش، معیارِ سلاست، روانی، روزمرہ کے بولے جانے والے الفاظ، جدت اور نیا پن، ہندی و فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں کے الفاظ کا مناسب استعمال نظموں کی کثرت، غزل کا صاف ستھرا اور وسیع میدان، ہیئت کے تجربے اور تجزیئے، نئی اصناف کی ترقی اور امیجری و ڈکشن کو ترقی عطا کی جس سے شاعری میں صحت مند رجحان منظرِ عام پر آیا اور اردو شاعری دنیا کے ادب میں اپنا نمایاں مقام بنانے میں کامیاب رہی۔ آزادیِ ہند کے بعد معاشی و اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس نے شعر و ادب پر بھی اپنے نقوش واضح کیے۔ اردو شاعری اپنی روش سے ہٹ کر پراگندہ خیالات، رنج و غم، انتشار، شوریدہ سری، کشمکش اور ذہنی و روحانی افسردگی کے ساتھ گھومنے لگی۔ ۱۹۶۰ء کے بعد یہ شاعری جدید کہلائی اور اس کا رجحان بھی عام ہو گیا۔ شعرا نے اسی انداز و فکر کو اپنالیا اور اس میں نت نئے تجربات و مشاہدات کرنے لگے۔ ۱۹۸۰ء تک جن شاعروں نے جدید شاعری کو اپنا میدان بنا کر اس میں فن اور ہیئت کے تجربات کیے اور ادب کے عصری و ضروری تقاضوں کو پورا کیا، اپنی شعری روایات سے رشتہ جوڑے رکھتے ہوئے نئے ادبی اور شعری رجحانات کو اپنے کلام میں جگہ دی اور ایک صاف ستھری اور کھلی فضا کو برقرار رکھا ان میں ساحرؔ شیوی کا نام قابلِ ذکر ہے۔
ساحرؔ شیوی کا شعری سفر ۱۹۵۰ء سے شروع ہوا۔ ان کی شعر گوئی کا آغاز طالبِ علمی کے زمانے ہی سے ہو گیا تھا۔ شروع میں انھوں نے اپنے کلام پر قمر نعمانی سہسرامی سے اصلاح لی اور بعد میں ماہرِ غالیبیات کالی داس گپتا رضاؔ سے وابستگی ان کے کلام میں پختگی کا باعث بنی۔ ان کی شعری زندگی تقریباً نصف صدی پر محیط ہے۔ انہوں نے مختلف اصنافِ سخن مثلاً غزل، نظم (پابند و آزاد)، قصیدہ، مرثیہ، قطعہ، ماہیہ وغیرہ میں افراط کے ساتھ طبع آزمائی کی۔ ان کے پانچ شعری مجموعے شائع ہو کر مقبولِ عام ہو چکے ہیں۔ ’’نیم شگفتہ‘‘ سے لے کر ’’ابھی منزل نہیں آئی‘‘ تک کی شاعری میں کوکن کی دھیمی دھیمی خوشبو در آ کر مشامِ جاں کو معطر کیے ہوئے ہے۔ ان کے نوک و زباں سے نکلے ہوئے سینکڑوں اشعار برِ صغیر ہند و پاک افریقہ، برطانیہ، اور کینیا کے اہلِ نقد و نظر کے لیے چشمِ کشا ہی نہیں بلکہ ان کے دلوں کے حق میں سرمۂ بصیرت بن گئے ہیں۔ یہاں مثال کے طور پر چند شعر پیش کیے جا رہے ہیں جس سے ان کی شاعری کا معیار و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ؎
بہتے ہوئے دیکھا ہے دریا کی طرح ہم نے
اشکوں کے ٹپکنے کی آواز نہیں ہوتی
۰۰۰۰۰
محسوس کر رہا تھا میں اس کے وجود کو
آنکھوں سے دور ہو کے ہوا کی طرح لگا
۰۰۰۰۰
خود کشی کرنا بھی آسان نہیں
کچھ اذیت تو اٹھانی ہو گی
۰۰۰۰۰
کوئی لنگر کوئی ساحل نہ رہا
موج اک ایسی اٹھی پانی میں
دم بھر میں سارے شہر کو بیدار کر گئے
جو کام ہم نہ کر سکے اخبار کر گئے
مذکورہ اشعار میں فکر کی تازگی، سادگی و سلاست، روانی، معنی آفرینی، حسنِ بیان اور لطافت کے ساتھ ساتھ معاملہ بندی اور موسیقیت بھی پائی جاتی ہے۔ ساحرؔ شیوی ایک فطری شاعر ہیں جنھیں قدرت نے بڑا رسا ذہن دیا ہے۔ میرے خیال سے خطۂ کوکن (یہ اور بات ہے کہ وہ ایک عرصہ سے دیارِ غیر میں ہیں لیکن ان کا خمیر تو کوکن کا ہی ہے اور ان کی پہچان بھی ایک کوکنی کی حیثیت سے ہی ہوتی ہے) میں جدید رجحانات پر قلم اٹھانے والوں میں وہ سرِ فہرست نظر آتے ہیں گو کہ ان کا انداز ترقی پسند انہ اور کسی حد تک روایتی رہا ہے لیکن ان کے کلام میں جدید خیالات و رجحانات بھی اچھی طرح ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس طرح ساحرؔ کے یہاں قدیم کے ساتھ جدید رجحان بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے۔ بقول شاداب قدیر:
’’انھوں نے اپنے تخلیقی ہنر مندی سے اپنے افکار میں وسعت پیدا کی ہے۔ ان کی آواز کسی فارمولائی پروگرام تنظیم و تحریک کے راسخ اصولوں پر قائم نہیں بلکہ ان کے تفکر و تعقل کا انداز بالکل جدا گانہ ہے۔ انھوں نے اپنے کلام کو عصری آگہی سے ہمکنار کرنے کے باوجود غزل کے طرۂ امتیاز کو بر قرار رکھا ہے۔‘‘
(ساحرؔ شیوی کا رنگِ تغزل، کوکن میرا مہان،ص ۴۹)
اس سلسلے میں سلیم انصاری کا خیال بھی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ ساحرؔ شیوی کی غزلیہ شاعری کے متعلق رقمطراز ہیں:
’’ان کے یہاں شاعری محض تفنن طبع نہیں بلکہ جذبات و احساسات نیز مطالعات و مشاہدات کا سیدھا اور سچا اظہار ہے۔ وہ نہ تو اشاروں کنایوں میں گفتگو کرتے ہیں اور نہ بھاری بھر کم لفظوں کے ذریعے شاعری کو بوجھل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
(ساحرؔ شیوی: ز ندگی اور محبت کا شاعر، کوکن میرا مہان،ص ۵۹)
لیکن پروفیسر مظفر حنفی کی رائے کچھ مختلف ہے۔ ان کو ساحرؔ شیوی کے کلام میں زبان کا کچا پن اور ناہمواری نظر آتی ہے جس کا انھوں نے بڑا خوبصورت جواز بھی پیش کیا ہے۔ ملاحظہ ہوں:
’’خالص اردو علاقے سے دور زندگی بسر کرنے کی وجہ سے ان کی زبان میں ایک نوع کی ہمواری اور کچا پن ضرور ملتا ہے لیکن اس کی تلافی ان افکارِ تازہ نے کر دی ہے جو زبان کے اصل سر چشمے سے کسی قدر دور رہ کر تجرباتِ نو کی شکل میں شاعر کے ہاتھ لگے ہیں۔‘‘
(صحرا کی دھوپ،ص ۱۳)
مگر پھر بھی مظفر حنفی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ’’اپنے صحت مند رجحانات، نادر تجربات اور تازہ خیالات کو دل کش اسلوب میں پیش کرنے کا ہنر ساحرؔ شیوی کا آتا ہے۔‘‘
میں نے شروع میں ہی عرض کیا ہے کہ ساحرؔ شیوی کی شعری خدمات نصف صدی پر محیط ہے اور انھوں نے غزل، نظم، قصیدہ، مرثیہ، ہائیکو، ماہیہ وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ اس کے باوجود راقم نے ان کی غزل اور نظم پر گفتگو کرنے کی جسارت کی ہے۔ غزل کے اشعار پیش کرنے کے بعد چند ایسی نظموں کے اقتباس نذرِ قارئین کیے جا رہے ہیں جس میں ساحرؔ شیوی کی شاعری بامِ عروج پر جلوہ افروز نظر آتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے ؎
مگر کسی کو خبر نہیں
میں کس طرح جی رہا ہوں صحرا کی دھوپ کھا کر
یہ میرے ارماں
مری امیدیں
مری تمنائیں، آرزوئیں
یہ حسرتیں میری شوق میرے
اٹھتے ہیں جب موج بن کے دل میں
تو کیسا رکھا انہیں دبا کر
خدا ہے شاہد
ملا نہ کچھ مجھ کو دل جلا کر
(صحرا کی دھوپ)
جسے تم میری منزل کہہ رہے ہو
وہ سنگِ میل ہے منزل نہیں ہے
میری منزل
ابھی تک دور ہے مجھ سے
وہ رستہ
جو مجھے لے جائے منزل تک
نہیں آیا
ابھی منزل نہیں آئی
مری منزل نہیں آئی
(ابھی منزل نہیں آئی)
میں عہدِ رفتہ کو کیوں بھلاؤں
ہے عہدِ رفتہ سے پیار مجھ کو
وہ میری ماضی کی داستاں ہے
یہ دورِ حاضر تو ظلمتوں سے
نکھر رہا ہے، سنور رہا ہے
کہیں ہے سازش
کہیں ہے سوزش
یہ دورِ حاضر کی برکتیں ہیں
(عہدِ رفتہ)
وہ بے شک تب مہاجر تھے
مگر آدھی صدی کے بعد وہ
اب تک مہاجر ہیں
مہاجر جو نہیں اس دیس کے باسی
مگر اس دیس کو
اپنا بنانے آئے تھے اک دن
اسے اپنا سمجھتے ہیں
نہ سمجھیں تو کہاں جائیں!!
(مہاجر)
کبھی سوچا نہیں میں نے
کہ تم پھیرو گے منہ مجھ سے
تمہاری دوستی میرے لیے پھر اجنبی ہو گی
اندھیرے مسکرائے گے اجیرن زندگی ہو گی
گزر کر پیچ و خم سے میں تمھارے پاس آیا تھا
مجھے جینا تمھارے ساتھ چھ دن راس آیا تھا
خدا جانے نظر یہ لگ گئی کس اپنے محسن کی
کہ میں پھر سے پرایا ہو گیا ہوں
اپنی نظروں سے
(نظر)
مندرجہ بالا نظموں کے ٹکڑوں کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عام انسانوں کے مسائل، سماجی انتشار، خود غرضی، ناکام حسرتیں، ملکی مسائل، عدمِ تحفظ کے خلاف احتجاج وغیرہ ساحرؔ شیوی کے نظموں کے موضوعات ہیں۔ ’’یہ رشتہ کیسا رشتہ ہے‘‘، ’’مہاجر‘‘، ’’یہ کیسا شہر ہے‘‘، ’’پیار کی منزل‘‘، ’’فاختہ‘‘، ’’مسکراتے رہو‘‘، ’’تلاشِ محبت‘‘، ’’تنہائی‘‘ اور ’’حیاتِ فانی‘‘ وغیرہ نظمیں ان کے جذبات و احساسات کی عکاس ہیں جن میں انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی دوسری نظموں میں بھی وہی زندگی کے حالات واقعات اور واردات کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔ ان نظموں کو بھی ہم ان کی ذات کے بیان کا وسیلہ کہہ سکتے ہیں۔ ان کی بیشتر نظموں میں گھر بار چھوڑنے کا غم، دوست احباب کے بچھڑنے کا شدید احساس، بچپن کے دور کی میٹھی میٹھی اور سہانی یادیں، گاؤں کے لہلاتے کھیت اور کھلے کھلے باغوں کے خوشنما مناظر، سسکتی ہوئی زندگی، تڑپتی ہوئی روح، مدفون آرزوئیں، امیدیں، مایوسیاں، گھٹن اور الجھن کی کامیاب تصویر کشی ملتی ہے۔
ساحرؔ شیوی کی نظموں میں علامتیں بڑی معیاری اور بامعنی ہوتی ہیں۔ تاثر، تسلسل لطفِ بیان، گہرائی، مقصد اور مفہوم کی وضاحت ان کی نظموں کی خاص خوبیاں ہیں۔ فن اور ہیئت کے بھی چونکا دینے والے تجربے بھی ان کی نظموں میں پائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے یہاں کلاسیکی ادب سے لگاؤ اور قدیم روایات کا احترام پایا جاتا ہے۔ ان کی فنی خوبیوں اور جدید رجحانات و خیالات کو سراہتے ہوئے برِ صغیر کے معروف شاعر و نقاد پروفیسر احتشام اختر کہتے ہیں:
’’ساحرؔ شیوی کی پابند نظمیں کسی قدر طویل ہیں اور ان میں کلاسیکیت بدرجۂ اتم موجود ہے ساتھ ہی یہ نظمیں ساحرؔ کی زبان پر قدرت اور ان کی فنی چابک دستی کی روشن مثال ہیں۔ اس سلسلے میں گردشِ ایام ساتھی، جستجو اور کوکن وطن ہمارا وغیرہ نظمیں خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ پابند نظموں کے علاوہ ساحرؔ نے نظمِ معری، آزاد نظم اور آزاد غزل کی ہیئت کو بھی اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف قدیم کلاسیکی ادب اور روایات کا احترام کرتے ہیں بلکہ ادب کی بدلتی ہوئی قدروں اور رجحانات کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘
(ساحرؔ شیوی: حیات اور شاعری، ہاشم عبدالرزاق دھامسکر،ص ۱۳۸)
اس عبارت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ساحرؔ شیوی کی شاعری کلاسیکل اور قدیم شاعری کی روایات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔
مجموعی طور پر ساحرؔ شیوی کی نظموں اور غزلوں پر کلاسیکی شاعری کا انداز، لب و لہجے اور آہنگ کے گہرے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی شاعری کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی نظموں اور غزلوں میں اپنے نجی اور ذاتی تجربات و مشاہدات اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان پر ان کی شخصیت کا گہرا عکس نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم ان کی شاعری کے متعلق یہ کہیں کہ وہ ان کی زندگی کے قیمتی حصے ہیں تو یہ غلط بات نہ ہو گی۔
٭٭٭
مطبوعہ : سہ ماہی عالمی انتساب سرونج، جنوری تا مارچ ۲۰۱۷ء
ISSN: 2348-5035
ماہنامہ پرواز لندن، مئی ۲۰۱۹ء