زیادہ عرصہ نہیں گزرا جناب شمیم طارق نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی‘‘۔ عنوان پڑھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ کیا شعر بھی ضرب المثل کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے؟ تلاش کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ اردو میں ایسے کافی اشعار ہیں جنھیں ضرب الامثال میں شامل سمجھا جاتا ہے ؎
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
۰۰۰۰
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
۰۰۰۰
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
۰۰۰۰
خط ان کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی
اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ
اے خال رخِ یار تجھے ٹھیک بناتا
جا چھوڑ دیا حافظِ قرآن سمجھ کر
مندرجہ بالا اشعار کو ضرب المثل کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ ضرب الامثال محاوروں کی طرح مستعمل ہیں مگر محاوروں اور ضرب الامثال میں فرق یہ ہے کہ محاورے جملوں میں استعمال کیے جانے کے محتاج ہیں جب کہ ضرب المثل اپنے آپ میں مکمل ہے۔ قدیم شاعروں نے ایسے اشعار کہے ہیں جن میں کئی ضرب المثل شامل ہے۔ مثلاً ؎
نصیر اس کج ادا کی کج ادائی کوئی جاتی ہے
مثل مشہور ہے رسی جلی لیکن نہ بل نکلا
۰۰۰۰
یہ قتل سچ ہے جو جاگے یہاں سو پائے گا
بخت بیدار آشنا ہے دیدۂ بیدار کا
۰۰۰۰
کھا گیا بے فائدہ مجھ کو فلک
اونٹ کے منہ کا میں زیرہ ہو گیا
مندرجہ بالا تمام شعر اساتذہ کے ہیں۔ ان شعروں میں ’’رسی جل گئی پر بل نہیں گیا‘‘، ’’جو جاگے گا سو پائے گا‘‘ اور ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ کو تصرف کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ زبان داں محاوروں اور ضرب الامثال میں تصرف کو جائز نہیں سمجھتے مگر مندرجہ بالا شعروں میں تصرف کیا گیا ہے۔ ہمارے شعرا نے ایسے شعر بھی کہے ہیں جو کسی خاص موقعے یا واقعے کے پس منظر میں فوراً زبان پر آ جاتے ہیں۔ مثلاً ؎
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
۰۰۰۰
موذن مرحبا بر وقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
۰۰۰۰
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
۰۰۰۰
یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
۰۰۰۰
کیوں جوشؔ الجھ رہا ہے عبث شیخِ شہر سے
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
۰۰۰۰
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
مندرجہ بالا اشعار تو اساتذہ کے ہیں کئی ایسے شعر بھی ضرب المثل کی طرح مشہور ہیں جن کے بارے میں لوگ جانتے بھی نہیں اور جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ یہ کس کے تخلیق کردہ ہیں۔ موقع محل پر برجستہ استعمال کرتے ہیں اس لیے ان کو ضرب المثل میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ جناب شمیم طارق کی زیادہ توجہ نثر پر رہی ہے مگر وہ بلا کے شاعر بھی ہیں۔ ان کے کئی شعر ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور نقاد حقانی القاسمی کی یہ رائے بہت صحیح ہے:
’’شمیم طارق کی شہرت اور شناخت ناقد، محقق اور صحافی کی حیثیت سے ہے مگر وہ شاعری کے میدان میں بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ کلاسیکی شعری روایت سے آگہی نے ان کی شاعری کو جداگانہ رنگ بھی عطا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں گہری معنویت کے ساتھ ساتھ رمزیت بھی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہر ایک حرف میں ایک کائنات آباد ہے۔ گو کہ ان کی شاعرانہ شخصیت پر بہت کم لوگوں نے لکھا ہے مگر معاصر شعری منظر نامہ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔ وہ معاصر شاعری کی روشن دستخط ہیں۔‘‘
شمیم طارق کے ابتدائی دور کے اشعار پر فراق گورکھپوری،ظ انصاری، گیان چند جین اور حسن نعیم نے جو رائے دی تھی یا تبصرہ کیا تھا وہ شائع ہوتا رہا ہے۔ ان کو کتابوں اور رسالوں سے جمع کیا جا سکتا ہے مگر شمیم طارق نے اس کی طرف کبھی توجہ نہیں کی اس لیے حقانی القاسمی کو محسوس ہوا کہ شمیم طارق کی شاعری پر کم لکھا گیا ہے۔ یہاں ان کے شعری مجموعے ’’شہ رگ‘‘ میں شامل ظ انصاری کی رائے نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
’’شمیم طارق کی صرف یہ شاعری نہیں، جینے کی ادا بھی ہے، کجکلاہی کی شان بھی ہے اور مستقبل کا نشان بھی جو انھوں نے کہا ہے ؎
طارقؔ جو عیش کرتے ہیں ایمان بیچ کر
ان میں یہ خاکسار نہ کل تھا نہ آج ہے‘‘
یہاں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ شاعر کی تخلیقات کا مزاج و معیار اپنی جگہ تنقید نگار کا مزاج اور مفاد بھی کسی شاعر کے حق میں فیصلہ کرنے اور کسی کو نظر انداز کرنے کے لیے کم ذمہ دار نہیں ہے۔ شمس الرحمن فاروقی بڑے نقاد ہیں مگر فراقؔ گورکھپوری کے بارے میں انھوں نے جو رویہ اختیار کیا یا علی سردار جعفری نے کیفی اعظمی کو بڑھانے کے لیے جس طرح مجروحؔ سلطانپوری اور جاں نثار اختر کی شاعری پر بہت سطحی نظر ڈالی وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ کئی شاعروں نے بڑے عہدے پر فائز ہونے اور رابطہ مہم کا گر جاننے کی وجہ سے اپنی شہرت کے زینے تیار کر لیے، جو ایسا نہیں کر سکے وہ گوشۂ گمنامی میں پڑے رہے۔
شمیم طارقؔ سے یہ شکایت کی جا سکتی ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری پر کم توجہ دی مشاعروں میں انھوں نے کم شرکت کی یہ ان کے مزاج کا معاملہ تھا، مگر چھپنے چھپانے میں بھی انھوں نے باقاعدگی نہیں برتی حالانکہ ان کی غزلیں ہر بڑے رسالے میں شائع ہوتی تھیں۔ پتا نہیں کیوں وہ باقاعدگی سے اپنی غزلیں رسائل کو نہیں بھیجتے تھے۔ سہ ماہی ارتقا بنارس کے شمیم طارق نمبر (جنوری تا جون ۲۰۱۸ء) میں ان کے منتخب اشعار شامل ہیں۔ ان میں یہ مطلع بھی ہے ؎
تقدیس بڑھا دی ہے شہادت نے لہو کی
اب غسل کی حاجت رہی مجھ کو نہ وضو کی
یہ شعر معنوی حسن کے ساتھ صوتی حسن کا بھی نمونہ ہے۔ اس میں شہیدوں کے خون کی تقدیس اور ان کی تدفین کے احکام کو رنگِ تغزل عطا کیا گیا ہے۔ غزل کے فن، مذہب کے احکام اور لفظوں کی تہذیب و تحسین سے واقفیت نہ ہو تو اس شعر کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ اسی طرح ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء میں جب نرسمہا راؤ کی حکومت میں بابری مسجد شہید کی گئی اور نرسمہا راؤ کے علاوہ ان کی پارٹی کے دوسرے لیڈروں نے اظہارِ افسوس کیا تو میرے ذہن میں شمیم طارق کا یہ مطلع آیا ؎
اسی نے قتل کیا ہے جو ہاتھ ملتا ہے
کہیں فریب ندامت سے کام چلتا ہے
یہ معلوم نہیں کہ شمیم طارق نے یہ شعر بابری مسجد کی شہادت سے متاثر ہو کر کہا تھا یا اس سانحے سے پہلے مگر اس شعر کی حیثیت ضرب المثل کی ہے اور بابری مسجد کے سانحے جیسے موقعوں پر اس کا زبان پر آ جانا فطری ہے۔ غالبؔ کے کئی شعروں کو بھی ان کی تخلیق کے بہت بعد کے واقعات سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسا کیا جانا شعر کی خاصیت ہے عیب نہیں ہے۔ جب راقم نے شمیم طارق کا ایک شعر محترم ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحلؔ کو سنایا تو وہ خوش ہوئے۔ شعر تھا ؎
میں نہ موسیٰ ہوں نہ پیچھے لشکرِ فرعون ہے
ایڑیاں گھستی گئیں اور راستہ ہوتا گیا
موصوف نے بتایا کہ یہ شعر یوں تو بہتوں کی زندگی پر صادق آتا ہے مگر شمیم طارق کے لیے یہ شعر شاید ان کی آپ بیتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک دوسرے صاحب نے جو ممبئی میں مقیم ہیں اس شعر کے حوالے سے شمیم طارق کی خود داری کی داستان بیان کی۔
تازہ واقعہ یہ ہے کہ وہ انجمن اسلام سے وابستہ تھے۔ اس ادارے کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ۲۲؍ سال وہ اس ادارے کی خدمت کرتے رہے۔ پہلے بلا معاوضہ اور پھر بہت معمولی اعزازیہ پر۔ ملک بھر میں ان کے کیے ہوئے کاموں کا شہرہ بھی ہوا۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ کیوں استعفیٰ دیا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے اپنا یہ شعر پڑھا ؎
اتفاقاً کھینچ گئی تھی ایک ہلکی سی لکیر
میرے ان کے بیچ لمبا فاصلہ ہوتا گیا
پھر میں نے دوبارہ پوچھا کہ اب کیا کریں گے۔ زندگی بسر کرنے کے لیے روپے پیسے کہاں سے آئیں گے تو انھوں نے برجستہ اپنا شعر پڑھا ؎
پتھر میں بھی کیڑے کو جو دیتا ہے ہری گھاس
بد خواہوں سے کہہ دو کہ وہی میرا بھی رب ہے
ظاہر ہے یہ شعر پہلے کا کہا ہوا تھا مگر جس موقع پر یہ زبان پر آیا اس وقت یہ محسوس ہوا کہ یہ شعر اسی موقع کے لیے کہا گیا ہے۔ شمیم طارق نے ایسے سینکڑوں شعر کہے ہیں جو موقع محل پر یاد آتے ہیں اور ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کچھ شعر بہت پہلے کہے گئے تھے مگر بعد کے واقعات پر صادق آئے اور کچھ شعر کسی خاص واقعہ سے متاثر ہو کر کہے گئے تھے۔ دسمبر ۹۲ اور جنوری ۹۳ میں جب ممبئی میں ہر طرف آگ بھڑکی ہوئی تھی تو انھوں نے ایک شعر میں اپنا درد بھی سمیٹ لیا تھا اور اس وقت کا ہولناک منظر بھی۔ شعر تھا ؎
تمام شہر بیک وقت جل اٹھا کیسے
محافظوں کے دلوں میں فتور تھا کیا تھا
اس شعر میں جن حقائق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کی زد میں محکمۂ پولس ہی نہیں آگ بجھانے والا محکمہ بھی آتا ہے۔ اس سلسلے میں دستاویزات بھی تیار کی جا چکی ہیں۔ اس دور میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کس پر بھروسا کیا جائے؟ کون، کب اور کتنے میں بک جائے گا یا کس کو کب اس کی سادہ مزاجی کے سبب استعمال کر لیا جائے گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ قومی اور ملی اور عالمی پس منظر میں بھی اس حقیقت کی صداقت پر اصرار کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے کچھ کہتے بنتا ہے نہ سنتے بنتا ہے۔ غزل کی زبان میں کتنی خوبصورت عکاسی کی ہے شمیم طارق نے اس صورتِ حال کی ؎
کس سے پوچھیں کون بتائے کس نے محشر دیکھا ہے
چپ چپ ہے آئینہ جس نے سارا منظر دیکھا ہے
اچھے شعروں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ذہن میں محفوظ ہو جاتے ہیں یا موقع محل کے اعتبار سے یاد آتے ہیں۔ بعض واقعات کے پس منظر کو سمجھنے میں بھی ایسے شعروں سے مدد ملتی ہے۔ شمیم طارق کا ادھر ۳۵ برسوں میں کوئی شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ہے۔ ۱۹۸۲ء میں ’’شہ رگ‘‘ کے نام سے جو مجموعہ منظرِ عام پر آیا تھا وہ ایک کاتب کی محبت کا نتیجہ تھا۔ اس نے شمیم طارقؔ کے اشعار خود ہی کتابت کر کے شمیم طارقؔ سے اصرار کیا تھا کہ وہ اسے شائع کریں۔ اس مجموعے میں ان کا وہ کلام ہے جو بیس برس سے کم عمر میں کہا گیا تھا۔ اس پر بھی ناقدین نے بہت اچھی رائے دی تھی۔ ان کی جو غزلیں ادھر شائع ہوئی ہیں یا مشاعروں اور شعری نشستوں کے ذریعہ جن شعروں کو شہرت حاصل ہوئی ہے وہ اچھی تعداد میں ہیں۔ ایسے کئی شاعروں سے میری واقفیت ہے جو آدھے درجن سے زیادہ شعری مجموعوں کے خالق ہیں تقریباً ہر رسالے میں چھپتے بھی رہتے ہیں مگر ان کا ایک بھی شعر ذہن میں محفوظ نہیں رہتا۔ شمیم طارق کے بیشتر اشعار ذہن میں محفوظ ہیں۔ یہاں چند شعروں پر اکتفا کیا جا رہا ہے ؎
وہ سرہانے بیٹھ کر اظہارِ غم کرتے رہے
قبر کی مٹی مری اشکوں سے نم ہوتی رہی
گردِ ماہ و سال میں بھی دھوپ کی تاثیر تھی
عمر اپنی برف کی مانند کم ہوتی رہی
ابتلا و آزمائش کا کرم ہوتا رہا
زندگی شہرِ ستم میں تازہ دم ہوتی رہی
دو بدن کے درمیاں کی دوریاں مٹتی رہیں
ایک ہستی دوسری ہستی میں ضم ہوتی رہی
۰۰۰۰
نا کردہ گناہی کی سزا ہم کو ملی ہے
انساں ہیں وراثت میں خطا ہم کو ملی ہے
امکاں کی حدوں پر بھی نہیں ملتی رہائی
زندانِ تمنا کی سزا ہم کو ملی ہے
جیسے ہی سکوں پائیں گے مرجائیں گے طارقؔ
تا عمر تڑپنے کی دعا ہم کو ملی ہے
۰۰۰۰
شرحِ معنی کے لیے لفظوں کے بت کافی نہیں
زندگی کو ایک بامعنی اشارا چاہیے
اک اکیلی کشتیِ جاں سر پھری موجوں کے بیچ
سانس کے گہرے سمندر کو کنارا چاہیے
موت کتنی رحم دل ہے یہ بتانے کے لیے
عمر بھر کے حادثوں کا گوشوارہ چاہیے
عیش ہو یا طیش ہو ہر حال میں طارقؔ میاں
آدمی کو آدمیت کا سہارا چاہیے
۰۰۰۰
ہم کہ خوش فہم علاقے کے ہیں رہنے والے
ہم نے حافظ کا ہی دیوان اٹھایا ہے میاں
خوش بیانی سے بھی آئے ہیں زباں پر چھالے
خوش گمانی میں بھی نقصان اٹھایا ہے میاں
۰۰۰۰
ستم شعار چرالیں گے ان کی خو بو بھی
جنھیں خود اپنی انا بھی گراں گزرتی ہے
اجرٹی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں شب زادے
انھیں سحر کی دعا بھی گراں گزرتی ہے
متاعِ صبر و توکل پہ جینے والوں کو
کسی سخی کی عطا بھی گراں گزرتی ہے
۰۰۰۰
نگار خانۂ معنی سے آ رہی ہے صدا
ہر ایک حرف میں اک کائنات ہے کہ نہیں
چراغِ خونِ شہیداں کی لو سے پوچھیں گے
کہ زیرِ خنجرِ قاتل حیات ہے کہ نہیں
جو یارِ غار کا مفہوم دے گئی طارقؔ
ہزار صبحوں پہ بھاری وہ رات ہے کہ نہیں
۰۰۰۰
اک صاحبِ نسبت کی اسیری کا اثر تھا
ہر حلقۂ زنجیر سے خوشبو کا گزر تھا
رہ رہ کے ڈراتا تھا جو آواز بدل کے
کم بخت مری روح میں بیٹھا ہوا ڈر تھا
۰۰۰۰
آنسوؤں نے یاوری کی رات کے پچھلے پہر
سونے گھر میں آہٹوں کا قافلہ اچھا لگا
ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا پر سچ کہا جو کچھ کہا
مجھ کو ٹوٹے آئینے کا حوصلہ اچھا لگا
۰۰۰۰
اس آستیں سے توقع تھی اشک پوچھے گی
جس آستیں میں زمانے کا سانپ پلتا ہے
قبیلہ دار عداوت کا سلسلہ طارقؔ
فسادِ شہر کی صورت میں اب بھی چلتا ہے
۰۰۰۰
غزل کا فن ایمائیت اور اشاریت سے عبارت ہے۔ غزل میں لفظوں کا استعمال معنی کے اعتبار سے جامد نہیں ہوتا، بہت کچھ سمجھنے کے بعد بھی بہت کچھ سمجھنے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ تہہ داری اور معنی کے پرتوں کی کثرت غزل کو تاثیر عطا کرتی ہے اور اس کو پڑھنے اور سننے والے محسوس کرتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے روشنیوں اور رنگوں کی کئی قطار سج گئی ہے مگر ایمائیت اور اشاریت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شعر ناقابلِ فہم ہو جائے۔ شعر جب ناقابلِ فہم ہو جاتا ہے تو عام لوگوں کی فہم و فراست سے اس کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جدید شعرا نے بہت اچھے شعر کہے ہیں۔ جدیدیت کی تحریک کو ہم مسترد نہیں کر سکتے۔ اس سے ہیئت اور اسلوب کے تجربے میں مدد ملی ہے مگر جہاں تک عوامی مقبولیت کا تعلق ہے اردو شاعری کو کلاسیکی دور میں، ترقی پسندی کے دور میں، یا رومانیت کے دور میں جو شہرت ملی وہ جدیدیت کی تحریک کے دوران نہیں ملی۔ ترقی پسندی کے تحت صرف بیانیہ شعر کہے گئے یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ مخدوم، جاں نثار اختر اور فیض کے شعروں میں داخلیت یا معنی کی تہہ داری کی کمی نہیں ہے مگر انھوں نے عوامی شعور و ضمیر سے اپنا رشتہ براہِ راست استوار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پچھلے دنوں ماہنامہ آج کل نئی دہلی (جون ۲۰۱۹ء) میں شمیم طارق کی ایک غزل شائع ہوئی تھی جس کے دو شعروں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا تھا ؎
اتنی خطا ہوئی کہ غلط کو غلط کہا
دنیا نے مجھ کو دشمنِ جانی سمجھ لیا
برتی جو طوطا چشم عزیزوں نے بے رخی
میں نے بھی ان کے خون کو پانی سمجھ لیا
دونوں شعروں کو ان کے تیور کے علاوہ اس پس منظر میں بھی سمجھا جا سکتا ہے جس میں یہ کہے گئے ہیں۔ یہ دونوں شعر بظاہر بیانیہ ہیں مگر ان کو پڑھتے ہوئے نگاہوں میں روشنیوں کی قطار سج جاتی ہے۔
شمیم طارق کو زبان و بیان پر اتنی قدرت حاصل ہے کہ وہ پازیب اور سلاسل دونوں کی جھنکار کو جیسے چاہتے ہیں بیان کر لیتے ہیں۔ کہیں بھی تکلف اور تردد کا شکار نہیں ہوتے کمال تو یہ ہے کہ کبھی کبھی سخت بات بھی کہہ جاتے ہیں مگر وہ سخت بات بھی بری نہیں معلوم ہوتی ؎
بہادری کے جو قصے سنارہا ہے بہت
محاذِ جنگ سے بھاگا ہوا سپاہی ہے
ہمہ شناس گنے جا رہے ہیں حرفِ شناس
ہمارے عہد کی پہچان کم نگاہی ہے
وہ ایک آئینہ چہرا ہے جو بہ فیضِ نفاق
گناہ کر کے بھی تصویرِ بے گناہی ہے
میں جب سے جاگتی آنکھوں کا خواب ہارا ہوں
مرے نصیب میں جو کچھ ہے رتجگاہی ہے
شاعر فلم سے وابستہ ہو، اس کی غزلیں ریڈیو یا ٹی وی پر گائی جاتی ہوں، یا وہ مشاعروں کے سامعین سے کھیلنا جانتا ہو تو وہ بہت مشہور ہو جاتا ہے مگر کچھ شعروں میں خود ایسی معنویت اور غنائیت ہوتی ہے کہ وہ ذہن میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ شمیم طارق کو عوامی مقبولیت یا وہ مقبولیت جو اپلم چپلم چپلائی رے جیسے مکھڑوں کو حاصل رہی ہے، حاصل نہیں ہے مگر وہ چند اہلِ ذوق جو اچھے برے شعروں میں تمیز کرتے ہیں شمیم طارق کے کئی شعروں کو ذہن میں محفوظ کیے ہوئے ہیں اور نہ صرف محفوظ کیے ہوئے ہیں بلکہ موقع محل پر انھیں دوہراتے بھی رہتے ہیں۔ ایسے شعر کہنے میں ان کے شعور کو بھی دخل ہوتا ہے اور لاشعور کو بھی۔ ضرب المثل اشعار کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ محاوروں اور کہاوتوں کی طرح زبان پر آ جائیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ شعروں میں ضرب المثل شامل ہو۔ ضرب المثل اشعار وہ ہیں جو خود ضرب المثل کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔ بعض مصروں میں بھی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ ضرب المثل کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔ شمیم طارقؔ کے یہاں ایسے مصرعوں کی کثرت ہے مثلاً ؎
؎ جلتے گئے چراغ جہاں تک نظر گئی
؎ قطرۂ اشک بھی لو دیتے ہیں جگنو کی طرح
؎ کچھ کعبہ نشینوں میں ابھی بولہبی ہے
؎ چہروں کا اعتبار نہ کل تھا نہ آج ہے
؎ میں بھی بازار میں بیٹھا ہوں مقدر لے کر
٭٭٭
مطبوعہ : سہ ماہی ہندوستانی زبان ممبئی، اپریل تا جون ۲۰۲۰ء