غزل اردو شاعری کی سب سے نمایاں اور ممتاز صنفِ سخن ہے۔ اس صنف میں رمز و ایما اور ایجاز و اختصار کا ہنر کمال کا ہے اور اسی سے اس کی جمالیات کا تعین ہوتا ہے۔ غزل میں شائستگی، سنجیدگی و پاکیزگی کی جو فضا ہے اور جلوہ خیزی وسحر آمیزی کی جو کیفیت ملتی ہے وہ اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ خطۂ کوکن میں غزل کے گیسوؤں کو سنوارنے اور اسے آبرو عطا کرنے میں جن شاعروں نے اہم کردار ادا کیا ان میں قاضی فرازؔ احمد کا نام بطور خاص قابلِ ذکر ہے۔
ایک عرصے سے قاضی فرازؔ احمد صاحب کو جانتا تھا لیکن یہ تعارف غائبانہ تھا۔ جب چپلون میں ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو ان کے مزاج کی سادگی اور شائستگی سے متاثر ہوا۔ اس ملاقات کو تقریباً پندرہ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے لیکن جب محترم رشید احمد انصاری صاحب (سابق مدرس ابراہیم بابا ٹھاکور ہائی اسکول ترلوٹ) نے ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’زخمہ (۱۹۸۸ء)‘‘ عنایت فرمایا تو پچھلا سارا منظر نظروں میں گھوم گیا۔ ’’زخمہ‘‘ کو پڑھتے ہوئے بار بار مجھے یہ احساس ہوا کہ قاضی فرازؔ احمد کے مزاج کی سادگی اور شائستگی جو ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف تھے اور جن سے میں متاثر ہوا تھا ان کی شاعری میں بھی صاف نظر آنے لگے جسے میں اچھی شاعری کا خاصہ سمجھتا ہوں۔ لہجے کی شائستگی کے ساتھ نئے نئے استعارے اور حالِ دل کہنے کی ایک خاص ادا ان کی شعر گوئی کے خوبصورت انداز ہیں۔ وہ اپنے گرد و پیش کی دنیا سے بے خبر نہیں ہیں لیکن اپنے حال کی خبر زیادہ رکھتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیا کو دیکھا تو ہے لیکن وہ اسے لائقِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ مگر پھر بھی ان کے کلام میں ایسے شعر موجود ہیں جہاں دونوں دنیائیں ایک ہو جاتی ہیں۔ اپنے ماحول میں وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس میں انھیں اپنا ہی المیہ نظر آتا ہے۔ لہجے کی یہ شائستگی جذبے کا یہ خلوص ان دنوں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
خطۂ کوکن سے ادبی سطح پر جن شاعروں نے اپنی شناخت مستحکم کی ہے ان میں قاضی فرازؔ احمد کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ قاضی فرازؔ احمد نے نظمیں بھی خوب لکھی ہیں اور ان کی نظموں کے دو مجموعے ’’عرضانہ (۱۹۹۹ء)‘‘ اور ’’شرد زاد (۲۰۰۴ء)‘‘ شائع بھی ہو چکے ہیں جنھیں ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
لیکن میرے ادنی خیال میں وہ بنیادی طور پر صرف غزل کے شاعر ہیں۔ انھوں نے غزل کو اس کی تمام فنی باریکیوں کے ساتھ ذریعۂ اظہار بنایا ہے۔ انھوں نے غزل کو عہدِ حاضر کے مسائل سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں جدت مصنوعی نہیں ہے اور نہ ہی انھوں نے ایسی علامتوں کا استعمال کیا ہے جو غزل کے روایتی اسلوب سے مطابقت نہ رکھتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں زبان کی سادگی، اندازِ بیان کے حسن کا احساس قدم قدم پر ہوتا ہے۔ ان کے لہجے میں سنجیدگی اور وقار ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہوں ؎
وہی ہم ہیں، وہی حالات کی ٹوٹی چھتری
زندگی ہے، وہی برسات کی ٹوٹی چھتری
۰۰۰۰
وہ چیخنے کو تھا بیتاب بند کمرے میں
مگر یہ خوف تھا، چھت کا نہ مسئلہ آئے
۰۰۰۰
یہ سازشیں تھیں ہوا کی ہماری کیا چلتی
سفینہ ڈوب گیا اور بادبان اڑا
۰۰۰۰
میں اس سے خوف زدہ تھا وہ مجھ سے خوف زدہ
کہ رات گھر میں تھا اک میہمان پوشیدہ
۰۰۰۰
تمام چہروں میں سب سے الگ وہ اک چہرا
جو اپنے بولتے نقش و نگار میں چپ ہے
ان اشعار میں نرمی اور معصومیت کی کیفیت کے ساتھ ایک طرح کی توانائی اور بلند حوصلگی بھی ہے۔ آج جب کہ شاعری کو روایتی، ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید تحریک اور رجحانات کے خانوں میں بانٹ کر ہم ناقدینِ شعر و ادب اپنی سہولت کے مطابق تخلیق کاروں کو اس میں فٹ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ قاضی فرازؔ احمد کی شاعری ان میں سے کس خانے میں فٹ ہو گی مگر میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی شاعری براہِ راست زندگی کے مسائل و مصائب سے مکالمہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے جو سیاسی سماجی اور تہذیبی فکر و شعور سے لبریز ایک ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے جس سے ادب کا کوئی بھی سنجیدہ طالبِ علم صرف نظر نہیں کر سکتا۔
اس لحاظ سے دیکھیں تو ہمیں قاضی فرازؔ احمد کی شاعری کے ڈکشن، اسلوب اور فکری نظام کو شاعری میں براہِ راست مکالمے کی صورتِ حال اور ان کی سوچ کے سروکار کو واضح کرتی ہے اور چونکہ ان کے یہاں کوئی پیچیدہ علامتی نظام بھی کار فرما نہیں ہے لہذا ترسیل کے المیے کا کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی تہہ در تہہ معنویت کے امکانات ان کی شاعری کو مشکل بناتے ہیں اور شاید یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری میں استعمال ہونے والے الفاظ مثال کے طور پر ٹوٹی چھتری، بند کمرہ، چھت، ہوا، سفینہ، بادبان، گھر، مہمان، چہرا، لہو، رنگ ریت، گلدان پتھر، صحرا، مکان، صدا، دوربین، اندھیرا، پنچھی، آنسو، سمندر، سڑک وغیرہ غزل کی تہذیبی وراثتوں کے حوالے سے بعض ناقدین کے نزدیک غیر شاعرانہ قرار دے دئیے جائے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قاضی فرازؔ احمد کے یہاں شاعری کے موضوعات بالکل عصری اور زمین سے جڑے ہوئے ہیں اور معاشرے کے ایک عام آدمی کے مسائل و مصائب سے عبارت ہیں۔ میرے نزدیک اچھی شاعری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے۔
قاضی فرازؔ احمد کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ماہنامہ شاعر ممبئی کے مدیر محترم افتخار امام صدیقی نے لکھا ہے:
’’اچھی شاعری تو ہم سے مکالمہ کرتی ہی ہے۔۔ ۔۔ ۔ قاضی فرازؔ کی شاعری اپنے قاری کے ساتھ مکالمہ کرتی ہے۔۔ ۔۔ ۔ ’زخمہ ‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے پہلا احساس تو یہی ابھرتا ہے کہ یہ تقلیدی شاعری نہیں ہے اور یہی خصوصیت کسی شاعر کو امکانات سے قریب کرتی ہے۔۔ ۔۔ ۔ شاعری عشق کا تخلیقی روپ ہی ہے اور یہی تخلیقی روپ ’زخمہ‘ کی غزلوں میں موجود ہے۔‘‘
(نئی نفسیات، نئی کائنات، زخمہ، صفحہ نمبر ۱۱؍ ۱۲)
میں محترم افتخار امام صدیقی کے خیال سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ قاضی فرازؔ احمد کی شاعری کا کینوس وسیع اور مشاہدہ طویل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری تخلیقی رعنائی اور دلکشی سے پر ہے۔ ان کے اندر انسان فہمی اور اس کے توسط سے زمانے کے احساس و ادراک کا کافی اچھا شعور ملتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے مسائل و مباحث پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس کے پیچ و خم سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ انھوں نے اپنی غزل میں انسان کے ذاتی اور اجتماعی کرب کو خصوصی طور پر جگہ دی ہے۔ ان کی شاعری میں عصری حسیت کے علاوہ کلاسیکی اقدار اور روایات کے اہتمام و انسلاک کی بہت خوبصورت اور زندہ جاوید تصویریں ملتی ہیں۔ ان کے یہاں زندگی مختلف رنگوں میں رقص کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کیفیتوں سے بیشتر رنج و غم اور ظلم و جبر کی تصویریں ابھرتی ہیں لیکن وہ انسانیت کے درد و غم اور مصائب و آلام کو ہی پیش نہیں کرتے بلکہ ظلم و زیادتی، جبر و استحصال، نا انصافی اور حقوق کی پامالی پر بھی آنسو بہاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی زبان بھی شگفتہ و سریع الفہم ہے۔ موضوعات بھی اہم اور اسلوب بھی دلکش و جاذبِ نظر۔ شعر ملاحظہ کیجیے ؎
روحِ مجروح کو زندانِ بدن میں رکھا
اپنے ہر زخم کو پارینہ کفن سے باندھا
۰۰۰۰
تم نے دیکھا فرازؔ آنکھوں کو!
ہو گئیں زیرِ آب تقریباً
۰۰۰۰
داستانِ کشتیِ عمرِ رواں پانی میں ہے
ضبط کی پتوار چھوٹی بادباں پانی میں ہے
۰۰۰۰
شہرِ پناہ بند کیے سارے در رہا
سایہ فصیلِ شہر کی چھاؤں نے دے دیا
۰۰۰۰
خطوں کی شکل میں کاغذ کے آئینے میں ہے
جو دیکھنا ہو غمِ روزگار کا چہرا
ان اشعار میں کچھ ایسے کلیدی الفاظ ہیں جو معانی و مطالب کی مختلف جہات کی طرف ہمارا ذہن موڑ دیتے ہیں۔ مثلاًزندانِ بدن، زیرِ آب، کشتیِ عمر، فصیلِ شہر اور غمِ روزگار وغیرہ۔ الفاظ کے انہی اختراعات سے قاضی فرازؔ احمد کے شعروں میں فکرِ سبک خرامی اور اظہار کی نرم روی در آئی ہے۔ ان کی شعری ترکیب اور فکر و تخیل اچھی شاعری کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ انھوں نے اپنے شعروں میں ندرتِ فکر کو کبھی بھی اپنی گرفت سے باہر جانے نہیں دیا۔
نقادوں نے آج کی غزل کو تہہ دار غزل کہا ہے۔ جس کا اصلی چہرا پردے کے پیچھے کہیں چھپ گیا ہے لیکن قاضی فرازؔ احمد کی غزل کی خوبی ان کا شعری اسلوب ہے جو صراحت کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ اصل موضوع اور مضمون کو پسِ پردہ رکھ کر صرف استعاروں اور اشاروں کی وساطت سے بات کہنا ان کا شیوہ نہیں۔ اس لیے ان کے اشعار سیدھے دل تک پہنچتے ہیں۔ جدید لب و لہجے میں یہ اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
اس طرح پھونک دیا کس نے بھری بستی کو
صرف شعلے ہیں جہاں تک بھی نظر جاتی ہے
۰۰۰۰
ساحل پہ کچھ گھروندے تھے لہروں کے سامنے
جب تک بچے رہے تھے انھیں گھر کہا گیا
۰۰۰۰
اتنا تو رحم تھا کہ کڑی دھوپ سے بچے!
بچہ کسی نے پیڑ کی چھاؤں میں رکھ دیا
۰۰۰۰
قریب آ گیا گھر کے تو یہ خیال آیا
کہ اپنے پاؤں کے چھالے اتار کر جاؤں
۰۰۰۰
میں تو مدت سے بجھ گیا ہوں مگر
میرے سینے میں جل رہا ہے تو
یہ اشعار بھی اپنی سادگی اور نفاست سے قاری کے دل میں گھر کر جاتے ہیں جن میں تازگی بھی موجود ہے۔
مجموعی طور پر قاضی فرازؔ احمد کی شاعری عصری حسیت، کلاسیکی اقدار اور حیاتِ انسانی کی تصویروں کو واقعیت کے ساتھ پیش کرنے کا فن جانتی ہے اور ان عناصر سے اٹھتے ہوئے شعلوں نے ان کے اشعار میں بھر پور رعنائی و دلکشی کے ساتھ جادو کا سا اثر پیدا کر دیا ہے۔
٭٭٭
مطبوعہ : ہفت روزہ کوکن کی آواز مہاڈ، ۲۶؍ جولائی تا یکم اگست ۲۰۱۹ء