بیسویں صدی کے چھٹے دہے میں شعر و ادب کے جدید تقاضوں اور بدلتی ہوئی تہذیبی قدروں کے زیرِاثر ناگپور کے جن شاعروں نے اپنی شعری تخلیق کے لیے ایک نیا اسلوب اور نیا انداز اپنایا ان میں خضرؔ ناگپوری کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خضرؔ ناگپوری ایک جدید شاعر ہیں لیکن انھوں نے شدت پسندی سے کام نہیں لیا اور نہ ہی دیگر جدیدیوں کی طرح اپنی شاعری کو ابہام سے قریب کیا بلکہ وہ عروض و لسانی قواعد کی پابندی کرتے ہوئے کلاسیکی شاعری سے ہمیشہ جڑے رہے۔
خضرؔ ناگپوری ناطقؔ کے لائقِ احترام شاگرد تھے اور ناگپور کے شعری و ادبی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ بقول عبدالرحیم نشترؔ وہ بہت سے اوصافِ حمیدہ رکھتے تھے۔ ان میں بہت سی خوبیاں اور صلاحیتیں موجود تھیں لیکن وہ ایک سیدھے سادے اور خاکسار مزاج کے انسان تھے۔ شو بازی اور لاف زنی سے کوسوں دور ان کے شعری و ادبی کارناموں کی بدولت دوسروں میں بھی جینے کا حوصلہ اور کام کرنے کی امنگ پیدا ہوتی تھی۔ وہ زبان دوست ہی نہیں، انسان دوست بھی تھے اور انسانیت نوازی ان کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔ ان کی شاعری بھی اسی وصف سے مزین ہے۔ ان کی شاعری انسانی درد اور خلوص مندی سے رچی ہوئی ہے۔ وہ قوم اور ملت کا درد رکھتے تھے اور معاشرے کی پس ماندگی سے ان کا دل کڑھتا تھا۔ اسی لیے وہ جہاں کہیں بھی قوم و ملت کو ضرر پہنچنے والے عوامل کو سر گرم کار دیکھتے تو ان کی نشاندہی بھی کرتے اور اکثر دھیمی آواز لیکن تیز دھار نشتروں سے جراحت کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے۔ وہ ایک نیک سرشت، خوش خصال، سادہ دل آدمی تھے اور ان کی شاعری بھی انہی رنگوں سے نکھری ہوئی ہے۔
’’رازِ حیات‘‘ خضر ناگپوری کا مجموعۂ کلام ہے جو ان کے فکر و فن کا آئینہ ہے۔ یہاں ان کی تخلیقی شان اور قوتِ نمو کا شاندار پرتو دکھائی دیتا ہے۔ ساتھ ہی مرحوم عبدالجبار صاحب کی خضر شناسی سے بھی قارئین کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ’’رازِ حیات‘‘ میں شامل غزلیں فکر کی گہرائی اور معنویت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ ان کے افکار و خیالات ایک تسلسل اور منطقی ربط کے ساتھ ان غزلوں میں نمایاں ہوئے ہیں۔ ان کے یہاں ایک مخصوص قسم کی سنجیدگی کی فضا پائی جاتی ہے۔ عصری آگہی، خوبصورت پیکر تراشی، نفسیاتی مسائل، انانیت کا پہلو، وجودیت کے اثرات، جنسی موضوعات و مسائل، تصورِ مرگ، ہجر و وصال اور دیگر خصوصیات بھی ان کے یہاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اس مجموعہ میں ایک مخصوص فضا اور وہ خصوصیت برقرار ہے جو غزل کو اردو شاعری کی آبرو بناتی ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل غزلیں ملاحظہ کیجیے ؎
اک اضطراب ہے الجھن ہے کیا کیا جائے
دل و دماغ میں ان بن ہے کیا کیا جائے
درست ہی سہی، دشمن سے دوستی کا خیال
ہمارا دوست ہی دشمن ہے کیا کیا جائے
ہر ایک پھول دہکتا ہوا ہے انگارہ
عجیب صورتِ گلشن ہے کیا کیا جائے
یہ شوخیاں یہ شرارت، رقیبِ جاں ہی سہی
مگر یہ اس کا لڑکپن ہے کیا کیا جائے
چمک رہا ہے جو اے خضرؔ دردِ قلب و جگر
نوازشِ رخِ روشن ہے کیا کیا جائے
۰۰۰۰۰
مشکل ہے مری قوتِ رفتار سمجھنا
اس پار نظر آؤں تو اس پار سمجھنا
طوفاں سے خطرناک ہے ساحل کے مگر مچھ
جو بچ کے نکل جائے اسے پار سمجھنا
سر درد نہ بن جائے کہیں چارہ گرِ درد
اس کو بھی ذرا اے دلِ بیمار سمجھنا
اللہ رکھے عزمِ جواں میرا سلامت
سیکھا نہیں دشوار کو دشوار سمجھنا
ائے خضرؔ کبھی خواب حقیقت نہیں بنتے
غربت میں انھیں سایۂ دیوار سمجھنا
۰۰۰۰۰
نام ہی رہ گیا دنیا میں وفاداری کا
یہ زمانہ ہے تصنع کا اداکاری کا
روز مر مر کے جئے جانے میں حاصل تھا کمال
موت نے دیکھا تماشا، مری جی داری کا
گھر پہ روزانہ وہ آتے تھے، عیادت کے لیے
کیا سہانا تھا زمانہ مری بیماری کا
آگ سے کھیلنے کا شوق ہوا ہو جائے
شعلہ بن جانا اگر دیکھ لیں چنگاری کا
مصلحت نے کیا مجبور بہت خضرؔ مگر
میں نے دامن کہیں چھوڑا نہیں خوداری کا
۰۰۰۰۰
لا ملے تو، میرے زخمِ قلب مضطر کا جواب
ڈھونڈکچھ دن ائے بہار اور اس گل تر کا جواب
اپنی ویرانی میں دونوں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں
گھر بیاباں کا بیاباں ہے مرے گھر کا جواب
میری خاموشی سے چلا اٹھے گا ایک دن رقیب
طعنہ زن کو آدمیت دے گی نشتر کا جواب
نیچی نظریں، دل پریشاں، لب پہ مہرِخامشی
اور کیا ہو گا سوالِ روزِ محشر کا جواب
خضرؔ اس کی ایک نگاہِ لطف مجھ کو چاہیے
جس نے دنیا میں شرافت سے دیا شر کا جواب
۰۰۰۰۰
بن کر مری محفل سے تو خورشیدِ ازل جا
مغرب میں اگر ڈوبے تو مشرق سے نکل جا
دریا ہے تو دریا کی طرح رہ، کہا کس نے
برسات کے نالے کی طرح بھر کے ابل جا
اے شامِ بلا، شامِ مصیبت، مری شامت
کیوں سر پہ کھڑی ہے مرے، ٹل جا ارے ٹل جا
یہ کیا کہ نظر صرف نظر تک رہے محدود
خنجر ہے تو دل چیر دے، جادو ہے تو چل جا
پتھر کے مقدر میں پگھلنا نہیں لکھا
یہ بات غلط کر کے دکھا یار، پگھل جا
اک پل کی ضمانت نہیں دے سکتی یہ ہستی
اے خضرؔ ترے سامنے ہے موت، سنبھل جا
’’رازِ حیات‘‘ میں اس طرح کی اور بھی خوبصورت اور جاندار غزلیں موجود ہیں جو خضر ناگپوری کی تخلیقی تجزیہ کاری اور ان کی فنی پختگی کی واضح دلیل ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تشبیہات و استعارات، تضاد، تکرار لفظی، تجانیس، با محاورہ زبان اور بلند خیالی خضرؔ ناگپوری کی شاعری کی وہ خوبیاں ہیں جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔
میں نے شروع میں خضرؔ ناگپوری کو جدیدیت کی اولین آوازوں میں شمار کیا ہے لیکن وہ شاہدؔ کبیر، مدحتؔ الاختر اور عبدالرحیم نشترؔ کی طرح کے جدید شاعر نہیں ہیں۔ ان کی غزلوں میں ان کی زبان ہی انہیں جدید شاعر ٹھہرانے کا جواز بنتی ہے۔ وہ اصلاً زبان کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں داغؔ کے اتباع میں زبان کا استعمال دکھائی دیتا ہے مگر ان کے موضوعات اور زبان کے بامحاورہ اور برجستہ چبھتے ہوئے اظہارات ان کی شاعری کو جدید لب و لہجے سے قریب کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور اسی طرح وہ جدید شاعری کی اولین آوازوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ قرطاس ناگپور، خضرؔ ناگپوری نمبر، جولائی تا اکتوبر ۲۰۱۶ء