یوں تو غزل کا بنیادی موضوع معاملاتِ عشق کی مختلف کیفیات کی ترجمانی رہا ہے لیکن اس میں فلسفیانہ گہرائیاں بھی موجود ہیں، سماجی اور معاشرتی احساس بھی موجود ہے اور تاریخی واقعات اور عمرانی نظریات کا عکس بھی موجود ہے گویا اس کے موضوعات زندگی ہی کی طرح وسیع، ہمہ گیر اور متنوع ہیں۔ اس کی تبدیلی کسی بھی فکر سے وابستہ نہیں ہے کیونکہ یہ زمان و مکان کے ماحول کے زیرِ اثر تخلیق پاتی رہی ہے جو ایک طرح سے شعر کی ضرورت ہے۔ چونکہ غزل خالص مشرقی اندازِ فکر کی حامل صنف ہے اسی لیے اس کا ایک مخصوص رنگ و آہنگ ہے جو اپنی سیمابیت کے باعث ہر دور میں وقت کے مطابق خود کو بدلتی، سنوارتی اور نکھارتی رہی ہے۔ چنانچہ آزادؔ و حالیؔ کی اصلاحات اور وقت کے عصری میلانات نے اس کے موضوعات میں انقلابی تبدیلی پیدا کی اور وہ صرف معشوق کے سراپا کی شیدائی نہ رہ کر قومی و سیاسی اور سماجی شعور کو متحرک رکھنے کا ذریعہ بنی۔ اکبرؔ و اقبالؔ اور چکبستؔ کی پذیرائی نے اسے شادؔ ، اصغرؔ ، حسرتؔ، فانیؔ ، یگانہؔ ، سیمابؔ ، فراقؔ ، اور فیضؔ جیسے شاعر دیئے جنھوں نے غزل کو روایتی حصار سے باہر نکال کر اپنے عہد کے ابھرتے ہوئے تقاضوں کا ترجمان بنایا۔ خود ترقی پسند شعرا نے غزل کے نئے امکانات تلاش کیے اور غزل کی بے پناہ اشاریت اور رمزیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی معنویت میں اضافہ کیا۔ آزادی کے بعد غزل کے موضوعات میں نمایاں تبدیلیاں پیدا ہونے لگیں۔ غزل نے مغربی ادب سے اثرات قبول کیے جس سے اس کے موضوعات میں تنوع پیدا ہوا اور اس نے جدید اردو غزل کی شکل و صورت اختیار کی۔ جدید اردو غزل نے جہاں فکر و خیال کو وسعت اور موضوعات کو رنگارنگی عطا کی وہیں فنی اعتبار سے اردو غزل میں طرح طرح کی خامیاں بھی پیدا ہوئیں لیکن اس زمانے میں بھی ہمیں کچھ شعرا ایسے نظر آتے ہیں جنھوں نے فکر وفن کے درمیان ہم آہنگی ملحوظ رکھی اور تجربہ کے نام پر فن کو مجروح کرنا کسی طرح بھی گوارا نہیں کیا۔ غنی اعجازؔ کا شمار بھی یقیناً ایسے ہی شعرا میں کیا جا سکتا ہے۔
غنی اعجازؔ کی شخصیت میں برار کی کالی اور چکنی مٹی کی بوباس رچی ہوئی تھی لہذا دیہی ماحول اور قدرتی مناظر کے آب و تاب سے نکھری ہوئی ان کی غزل کلاسیکی طرزِ اظہار کی حامل ہے۔ ان کے یہاں انسانی قدروں کے تحفظ کا احساس اور ان کی بازیافت کا جذبہ موجود ہے۔ وہ عام فہم اشارات و استعارات کے ذریعہ عصری زندگی کے مختلف گوشوں کی مصوری کرتے ہیں۔ ان کی آواز میں کسی حد تک ترقی پسند تحریک کی گونج بھی شامل تھی لیکن نئی غزل کے تقاضوں کی طرف بھی وہ متوجہ تھے۔ چونکہ ایک عمر تک روایتی غزل سے منسلک رہے اور روایتی غزل کے علاقہ سے مربوط تھے اس لیے ان کے یہاں جدیدیت کا شدید احساس نمایاں نہیں ہوا لیکن وہ ایک ڈرے سہمے، ٹوٹے ہوئے اور مایوس و تنہا انسان کی زندگی کے مبصر نہیں تھے بلکہ ان کے یہاں رجائیت کے پہلو نظر آتے ہیں۔ حوصلہ مندی اور خود اعتمادی ان کی غزل کے خاص جوہر ہیں۔ کہیں کہیں عصری مسائل نے بھی اظہار کی راہ نکالی ہے۔ ان کی غزل بہ یک نظر روایتی معلوم ہوتی ہے لیکن انھوں نے اپنی غزل میں مشاہدے اور تجربے کے جو رنگ بھرے ہیں اور اظہار میں تاثر جگانے کی جو کاوش کی ہے وہ انہیں جدیدیت کے زمرے میں شامل کرتی ہے۔
پروفیسر مظفرؔ حنفی کے مطابق:
’’اگر غنی اعجازؔ صاحب اپنی کم سنی پر اصرار نہ کریں تو عرض کروں گا کہ خورشید احمد جامیؔ کے بعد وہ دوسرے ہندوستانی غزل گو ہیں جنھوں نے تقریباً نصف صدی کلاسیکی رنگِ سخن کے ماحول میں گزارنے کے بعد پختہ عمری کی منزل میں پہنچ کر شعوری طور پر جدیدیت کو لبیک کہا ہے اور نئے رنگ و آہنگ میں ایسے ایسے شعر نکالے ہیں جو آج کی جدید تر نسل کے لیے بھی لائقِ رشک ہو سکتے ہیں۔‘‘
(ایک شخص ایک شاعر، فصیح اللہ نقیب،ص ۷۲)
اس طرح غنی اعجازؔ جدیدیت کی سطحی جذباتیت، غیر صحت مند رومانیت اور لفظی بازیگری سے ہمیشہ دور رہے ہیں۔ ان کی غزلوں کا بیشتر حصہ زندگی کی مختلف واردات و کیفیات سے متعلق ہے لیکن وہ اپنی زندگی کی خاطر دنیا سے دور نہیں جاتے بلکہ وہ اسی دنیا میں رہتے ہیں اور کھلی ہوئی آنکھ سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ وہ زندگی کے مختلف مسائل اور حالات کے تقاضوں سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کہتے ہیں:
’’غنی اعجازؔ کے یہاں وارداتِ عشق کے بالمقابل وارداتِ حیات کے مضامین ہی زیادہ تر برتے گئے ہیں۔ معاصر دنیا کے چل چلاؤ میں معصومیت کے برعکس مصیبت، شفقت کی بجائے شقاوت انکسار کی بجائے تکبر، توقیر کے برخلاف تذلیل، محبت کے بالمقابل نفرت، حق کی بجائے باطل اور اخوت کی بجائے منافقت کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ یہ سارے رزائل آدمی کی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ شاعر نے ان حالات کو غمِ دوراں بنا کر غمِ جاناں کی جگہ استعمال کیا ہے اس وجہ سے ان کی غزلوں میں غم کی شدت کا محرک معشوق نہیں حالاتِ دنیا ہے۔ تغزل کے لیے انھوں نے اسی غم سے محبت کر لی ہے اور کبھی افسردگی، کبھی مایوسی، کبھی نفرت، کبھی طنز و مزاح اور کبھی جرأت مندی کے ساتھ وہ ان وارداتِ حیات کو بیان کرتے ہیں مگر وہ شعریت کو مجروح نہیں ہونے دیتے، شانِ دلربائی کا عنصر ایسے اشعار میں باقی رہتا ہے۔‘‘
(ناشنیدہ، ص ۷)
غنی اعجازؔ کے شعری لب و لہجہ کی ندرت و لطافت کا اعتراف کرتے ہوئے ظفرؔ گورکھپوری لکھتے ہیں:
’’غنی اعجازؔ دھیمے لہجے کے شاعر ہیں۔ کلاسیکی رنگِ سخن میں جدید حسیت کی رنگ آمیزی نے ان کی شاعری کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کر دیا ہے۔ نئی ردیفوں کی تلاش اور چھوٹی بحروں کا انتخاب ان کے تخلیقی مزاج کی پہچان ہے۔ بالخصوص چھوٹی بحروں میں انھوں نے غضب کے شعر کہے ہیں۔‘‘
(ایک شخص ایک شاعر، فصیح اللہ نقیب،ص ۸۲)
حقیقت بھی یہی ہے کہ الفاظ کے انتخاب اور تراکیب کی دل آویز آمیزش نے غنی اعجازؔ کی غزلوں میں ایک خاص لطف پیدا کر دیا ہے۔ ان کی غزلوں میں تغزل کے ساتھ اختصار برجستگی اور رنگینی بھی ہے لیکن ان کی ایک اہم خوبی جو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ زبان کی کشش ہے۔ زبان کی صفائی اور لطافت میں مشکل سے بھی فرق نمایاں نہیں ہوتا بلکہ ایسے مزے کے ساتھ الفاظ کو شعر میں ڈھالتے ہیں کہ خودبخود ترنم پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کی غزلیں معنوی و فکری خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی فنکارانہ بصیرت کا بھی پتہ دیتی ہیں۔ انھوں نے ماضی کے ادبی ورثے اور کلاسیکی روایات سے انحراف کرنے کی بجائے ان سے خاطر خواہ استفادہ کیا۔ نیز ادبی روایت اور لسانی و صوتی موزونیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نئی نئی تراکیب، امیجز اور تشبیہات ایجاد کیں۔ ’’مئے کے لبریز پیالے‘‘، ’’لپکتے ہوئے شعلے‘‘، ’’غنچۂ سرِ شاخ‘‘، ’’صبحِ بہاراں‘‘، ’’بکھرے گیسو‘‘، ’’قامتِ رعنا‘‘ اور ’’طاؤس کا رقص‘‘ وغیرہ جیسی تراکیب اور امیجز ان کی تخلیقی صلاحیت کی آئینہ دار ہیں۔ دشتِ آرزو، گردِ سفر اور کانٹوں کی چبھن غنی اعجاز کے مجموعۂ کلام ہیں۔ ذیل میں ان تینوں مجموعوں سے کچھ منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
بے خیالی میں سہی ٹوٹ گیا ہے رشتہ
ان کا اصرار کے پھر بیٹھ کے جوڑا جائے
۰۰۰۰۰
روشنی کا فریب جاری ہے
اپنے سائے سے انحراف کرو
۰۰۰۰۰
نفرتوں کے سہارے اگا پیار بھی
ایک ہی ڈال پر پھول بھی خار بھی
۰۰۰۰۰
موسم کی خبر لے کے صبا بھی نہیں آتی
ساون کا مہینہ ہے گھٹا بھی نہیں آتی
۰۰۰۰۰
لوگ خوش ہیں اسے دے دے کے عبادت کا فریب
وہ مگر خوب سمجھتا ہے خدا ہے وہ بھی
۰۰۰۰۰
تیرے جانے سے ہوا تھا ان کے آنے کا یقیں
تجھ سے بھی بادِ صبا نامہ بری ہوتی نہیں
۰۰۰۰۰
معمول ہے اس شوخ کے وعدوں پہ بھروسہ
معلوم ہے وہ قول کا صادق تو نہیں ہے
۰۰۰۰۰
ہوا میں اڑنے والے ظالموں سے عرض کرنا ہے
قضا نزدیک ہو تو چیونٹیوں کے پر نکلتے ہیں
۰۰۰۰۰
یہ بھی کیا ضد ہے کہ کانٹوں کو مہکنے دیجیے
یعنی خوشبو کو گلابوں میں نہ رکھے کوئی
۰۰۰۰۰
اف یہ یادوں کا تسلسل یہ خیالوں کا ہجوم
چھین لی آپ نے مجھ سے مری تنہائی بھی
۰۰۰۰۰
شبنم کے دل سے پوچھیے وہ کیوں فدا ہوئی
کیا بات آفتاب کی پہلی کرن میں ہے
۰۰۰۰۰
ہمیں صلہ یہ ملا اپنی تیز گامی کا
وہ حادثے جو بہت دور تھے قریب ہوئے
۰۰۰۰۰
مصلحت کرتی گئی نزدیک تر
اور دلوں کا فاصلہ بڑھتا گیا
۰۰۰۰۰
بجلی گری تو سوچ کے سب تار کٹ گئے
یکلخت روشنی سے اندھیرے لپٹ گئے
مندرجہ بالا اشعار میں تغزل کی وہی خوشبو اور رنگت ہے جو روایتی شاعری کی عام خصوصیات رہی ہیں۔ غنی اعجازؔ نے جدید یت کا وہ اثر قبول نہیں کیا جو ان کے بعض ہم عصروں کے یہاں پایا جاتا ہے۔ انھیں تو اپنا قدیم روایتی اسلوب ہی عزیز تھا۔ ان کی شاعری کی بنیاد اسی روایتی بنیاد پر قائم تھی جو برسوں کی ریاضت سے متعین ہوئی تھی اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ قطعی طور پر بے تعلق رہے ہوں کیونکہ کہیں کہیں جدید و قدیم فکری رویوں کی آمیزش بھی دکھائی دے جاتی ہے۔
غنی اعجازؔ کی غزل کا افق بہت بلند اور وسیع ہے اور ان کی تجربات میں سرشاری کے ساتھ گہرائی بھی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے فکر و ادراک سے ایک نئے تغزل کی بازیافت کی جس میں زندگی کے متنوع تجربات اور مشاہدات کو سمویا گیا ہے۔ لہذا ان کے یہاں معنوی آہنگ اور غنائیت جیسی خوبیاں پیدا ہوئیں جن سے ان کی غزل نرم و لطیف اور نازک خیالات کی ترجمان بن گئی ہے۔
٭٭٭
مطبوعہ : عالمی ادبی گزٹ مؤ ناتھ بھنجن، جولائی ۲۰۱۶ ء
ISBN: 978-81-931245-9-8