اردو نظم نگاری کو پروان چڑھانے میں ترقی پسند تحریک کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ چونکہ ترقی پسند شعرا عام طور پر ہیئت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اس لیے انھوں نے نظم کے فنی پہلوؤں سے رو گردانی کی۔ اس کا دوسرا سبب یہ بھی تھا کہ ان کے لیے شاعری میں خیال اور نقطۂ نظر کی کچھ زیادہ ہی اہمیت تھی اور وہ خیال کی واضح ترسیل بھی ضروری سمجھتے تھے۔ اس لیے نظم کے قدیم سانچے ہی ان کو اپنے اظہار کے لیے موزوں معلوم ہوئے۔ انہوں نے جدید سانچوں کو بھی قدیم انداز میں برتنے کی کوشش کی لیکن چند ترقی پسند شاعر ایسے تھے جو فن کی جدید تحریکات اور رجحانات سے متاثر تھے اور جو محض خیالات کو نظم کر دینے کے بجائے اپنی تخلیقات اپنے منفرد تجربات اور محسوسات کو فن کارانہ انداز میں پیش کرتے تھے۔ ان شعرا میں فیضؔ احمد فیض، اختر الایمان، کیفی اعظمی، جاں نثار اختر اور ساحرؔ لدھیانوی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
لیکن یہ بات بھی یہاں اہمیت رکھتی ہے کہ ترقی پسند تحریک نے اردو شاعری کو فکر و خیال سے مالا مال کرنے کے باوجود اچھے شاعر نسبتاً کم پیدا کیے۔ جذبہ و فکر کی باہمی آمیزش میں عدمِ توازن اور فکر و فن میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تخلیقات پایۂ اعتبار کو نہ پہنچ سکیں اور سطحی جذباتیت اور فنی نا پختگی کی وجہ سے پروپیگنڈہ اور نعرہ بازی سے زیادہ حیثیت نہ حاصل کر سکیں۔ تاہم جن شعرا نے فکر و نظریہ کو اپنی شخصیت کا جز بنایا اور تمام شعری روایتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے فکر و تجربہ کو شعری پیکر میں ڈھالا تو ان کی تخلیقات جمالیاتی شان کا ایسا نمونہ بن گئیں جنھیں تنقید کے سخت سے سخت معیار پر پرکھنے کے باوجود کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی کا شمار بھی ایسے ہی شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے کہ وہ فکر کو جذبہ میں ڈالنے اور فکر و فن دونوں کو صحیح طور پر برتنے کا ہنر جانتے تھے۔ مجنوں گورکھپوری ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ساحرؔ شاعری کی فطری صلاحیت اور بے دریغ قوت لے کر آئے ہیں۔ وہ چاہے غزل کہیں چاہے نظم، چاہے غزل نما نظم کہیں یا نظم نما غزل، وہ بہر صورت شاعری کا پورا حق ادا کرنے کی قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں اور یہ بڑی بات ہے کہ وہ خارجی عوارض اور داخلی تاثرات کو سلیقے کے ساتھ سمو کر ایک آہنگ بنانے کا فن خوب جانتے ہیں۔ ان کے ہر مصرعے میں مادی محرکات و موثرات کے احساس کے ساتھ وہ کیفیت بڑے سلیقے کے ساتھ گھلی ملی ہوتی ہے جو صرف بے ساختہ داخلی ابھار سے پیدا ہو سکتی ہے۔ ہم کو اصرار ہے کہ ساحر نظم کہیں یا غزل ان کے کلام کی سب سے زیادہ ناگزیر اور ناقابلِ انکار خصوصیت غزلیت یا تغزل ہے۔
(سہ ماہی ادب ساز دہلی، جنوری تا مارچ ۲۰۱۰ء، ص ۱۶۹)
اس لیے ان کی نظموں پر رومانی اور عشقیہ شاعری کے اثرات نمایاں ہیں۔ اسی رومانی و عشقیہ رنگ کی وجہ سے ان کی نظموں میں ایک طرح کی قنوطیت اور گریز پائی کا احساس ہوتا ہے۔ ’’شکست‘‘، ’’یکسوئی‘‘، ’’شاہکار‘‘، ’’کسی کو اداس دیکھ کر‘‘، ’’ناکامی‘‘، ’’سوچتا ہوں‘‘، ’’مجھے سوچنے دو‘‘، ’’شعاعِ فردا‘‘، ’’ایک تصورِ رنگ‘‘، ’’متاعِ غیر‘‘ اور ’’انتظار‘‘ وغیرہ میں یہ رنگ کافی نمایاں ہے۔
اگرچہ ساحرؔ نے نظم نگاری کے لیے پرانے سانچے استعمال کیے ہیں لیکن ان سانچوں کو روایتی انداز سے نہیں برتا۔ ان کی نظموں میں کوئی بند غیر ضروری یا کوئی مصرعہ بھرتی کا نہیں ملے گا۔ جب تک نظم پوری نہ پڑھ لی جائے مرکزی خیال نہیں ہو پاتا۔ ہر نظم اپنا ایک تاثر رکھتی ہے۔ عام ترقی پسند شاعروں کی طرح ساحرؔ نے سپاٹ قسم کی بیانیہ شاعری نہیں کی اور نہ ہی جذباتی انداز میں پر جوش نعرے لگائے۔ دوسری طرف جدیدیت سے وابستہ شاعروں کی طرح بہت زیادہ ابہام سے بھی کام نہیں لیا بلکہ ایک صاف ستھرا اور سیدھا سادہ راستہ اختیار کیا۔ اس لیے ساحرؔ کی نظمیں عموماً مسلسل اور مربوط ہوتی ہیں۔ ربط اور تسلسل زیادہ تر ایسی نظموں میں ملتا ہے جن میں شاعر کی آپ بیتی کے حوالے سے جذبات کا اظہار ہوا ہے اور یہ صورت بالعموم عشقیہ نظموں میں ہی پائی جاتی ہے۔ چند نظمیں ایسی بھی ملتی ہیں جن میں جذبات اور خیالات براہِ راست پیش کیے گئے ہیں۔ ایسی نظموں میں تعمیر کی کمی محسوس ہوتی ہے مثلاً ’’نور جہاں کے مزار پر‘‘، ’’نذرِ کالج‘‘، ’’کچھ باتیں‘‘، ’’چکلے‘‘ اور ’’آوازِ آدم‘‘ وغیرہ۔
ساحرؔ لدھیانوی نے جب شعر گوئی کی ابتداء کی تو ادب کی فضا میں دونوں طرح کی رومانیت بسی ہوئی تھی۔ اخترؔ شیرانی، فیضؔ احمد فیض اور مجازؔ نوجوانوں کے مقبول اور پسندیدہ شاعر تھے۔ ساحرؔ بھی ان شاعروں کے راستوں پر چل پڑے۔ ان کی ابتدائی نظموں پر فیضؔ کے اسلوب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ اخترؔ شیرانی سے خود فیضؔ اور مجازؔ متاثر تھے۔ ساحرؔ اگرچہ ابتدائی دور میں اخترؔ شیرانی والی خیالی اور تخیلی رومانیت سے متاثر رہے لیکن ان کی رومانیت شروع ہی سے ایک سماجی شعور کی حامل رہی ہے۔ وہ طالبِ علمی کے زمانے ہی سے طلبہ تنظیم سے وابستہ ہو کر سیاست سے دلچسپی لینے لگے تھے۔ پھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے۔ ترقی پسند شاعروں کا تصورِ انقلاب بھی رومانی تھا۔ انقلاب ایک محبوب تھا جس کے لیے وہ ہر وقت چشمِ براہ رہتے۔
ترقی پسند رومانویت نے ساحرؔ کو ایک خاص زاویے سے زندگی کو دیکھنا سکھایا اور یہ زاویۂ نظر ان کی شخصیت کا جز بن گیا۔ ساحرؔ کی شاعری اور دوسرے ترقی پسند شعرا کی شاعری میں مماثلت اسی زاویۂ نظر کی حد تک ملتی ہے ورنہ جن تجربات اور مشاہدات کو ساحرؔ نے اپنے کلام میں پیش کیا ہے مستعار نہیں ہیں بلکہ ان کے اپنے مشاہدات اور تجربات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساحرؔ کے کلام میں جو شخصیت جھلکتی ہے اس کی انفرادیت بہت ہی نمایاں ہے۔ احمد ندیم قاسمی اپنے ایک مضمون ’’ساحرؔ کی انفرادیت اور شدتِ احساس‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’ساحرؔ کی شاعری آج کی شاعری ہے۔ اس کے تین ادوار مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ رومان، حقیقت اور رومان۔۔ ۔۔ ۔! پہلا رومان ابتدائے شباب کو کوئی سانحہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد حقیقت کا دور جس پر مارکسی تعلیمات کا اثر نمایاں ہے۔ تیسرا دور بھی کسی رومان ہی سے وابستہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں نئی قسم کی اٹھان ہے جو پہلے رومانی دور سے قطعی مختلف ہے۔‘‘
(فن اور شخصیت بمبئی، فروری ۱۹۸۵ء، ص ۱۶۷)
مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ ساحرؔ کی نظموں میں رومانوی رجحان کے ساتھ دو طرح کے موضوعات ملتے ہیں۔ پہلا عشق اور دوسرا انقلاب۔
عشقیہ نظموں میں ایک سماجی مسئلہ بالعموم پیش کیا جاتا رہا ہے کہ ہندوستانی سماج میں محبت ایک گناہ اور جرم ہے۔ اس سماج میں عورت اتنی بے بس، لاچار اور مجبور ہے کہ وہ خاندان والوں کی مرضی کے خلاف اپنی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ کر ہی نہیں سکتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عشق کا خاتمہ اکثر جدائی اور محرومی پر ہوتا ہے۔ ساحرؔ کی نظمیں ’’شکست‘‘ ’’یکسوئی‘‘، ’’شہکار‘‘، ’’کسی کو اداس دیکھ کر‘‘، ’’ناکامی‘‘، ’’سوچتا ہوں‘‘ وغیرہ اسی ناکامی اور محرومی سے پیدا ہونے والی کیفیات اور احساسات کی آئینہ دار ہیں۔ کبھی طبقاتی تفاوت حائل ہو جاتا ہے۔ محبوبہ کا تعلق اعلیٰ طبقے سے ہو تو یہ نا ممکن ہے کہ وہ کسی غریب نوجوان سے شادی کرے۔ ایسے ہی غریب عاشق کا جو تلخ ردِ عمل ہو سکتا ہے اس کی ایک مثال ساحرؔ کی نظم ’’شہکار‘‘ میں ملتی ہے۔ جس میں ناکام عاشق اپنی محبوبہ کی تصویر مصور کو لوٹاتے ہوئے تلخ طنز کے ساتھ کہتا ہے کہ اب یہ تصویر حقیقت سے دور ہو گئی ہے۔ اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے محبوبہ کو بینچ کے بجائے صوفے پر بٹھا دے اور عاشق کی جگہ ایک چمکتی ہوئی کار دکھلا دے۔ نظم ملاحظہ کیجئے ؎
مصور! میں ترا شہکار واپس کرنے آیا ہوں
اب ان رنگین رخساروں میں تھوڑی زردیاں بھر دیں
حجاب آلود نظروں میں ذرا بے با کیاں بھر دے
لبوں کی بھیگی بھگی سلوٹوں کو مضمحل کر دے
نمایاں رنگ پیشانی پہ عکسِ سوزِ دل کر دے
تبسم آفریں چہرے میں کچھ سنجیدہ پن بھر دے
جواں سینے کی مخروطی اٹھانیں سرنگوں کر دے
گھنے بالوں کو کم کر دے مگر رخشندگی دے دے
نظر سے تمکنت لے کر مذاقِ عاجزی دے دے
مگر ہاں بنچ کے بدلے اسے صوفے پہ بٹھلا دے
یہاں میری بجائے اک چمکتی کار دکھلا دے
اس نظم میں عاشق نچلے طبقے سے تعلق رکھنے کے علاوہ ایک با شعور انقلابی بھی ہے۔ اونچے طبقے کے استحصال کو وہ پوری تہذیب اور تاریخ میں پھیلا ہوا دیکھتا ہے۔ ’’تاج محل‘‘ اور ’’نور جہاں کے مزار پر‘‘ جیسے نظموں میں اس انقلابی شعور کا آفریدہ روش نمایاں ہے۔
ترقی پسند رومانی شاعروں کی نظموں میں عشق کے تعلق سے ایک عام رویہ یہ ملتا ہے کہ اجتماعی مفاد کی خاطر عاشق اپنے عشق کی قربانی بھی دے سکتے ہیں۔ فیضؔ اور جاں نثار اخترؔ کی نظموں میں ہم اس رویے کو جان سکتے ہیں۔ ساحرؔ کی نظم ’’گریز‘‘ کا موضوع بھی یہی ہے کہ جب نوجوان عاشق کو اپنی سماجی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے تو اس کا جنونِ وفا زوال پر آمادہ ہو جاتا ہے اور وہ ترکِ الفت پر مائل ہو جاتا ہے۔
ساحرؔ کا تصورِ انقلاب بھی رومانی ہے۔ اس رومانی تصور نے ساحرؔ کی شاعری میں محبوب کی جگہ وطن کو دے دی اور عشقیہ شاعری کے تمام علائم اور استعاروں کا استعمال انقلابی مفہوم میں ہونے لگا۔ ساحرؔ کی انقلابی شاعری میں وہ جذباتی ابال نہیں ہے جو ہمیں فیضؔ کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ کسی قدر سنبھلی ہوئی کیفیت ملتی ہے۔ وہ نظموں میں اپنے انقلابی خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے عشقیہ شاعری کی زبان بھی کم ہی استعمال کرتے ہیں۔ انقلابی شاعری میں ساحرؔ کا لہجہ طنزیہ ہو گیا ہے۔ ان کی نظم ’’مادام‘‘ ملاحظہ ہو ؎
آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہیں گے
نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
لوگ کہتے ہیں تو لوگوں پہ تعجب کیسا
سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی
لوگ کہتے ہیں مگر آپ ابھی تک چپ ہیں
آپ ہی کہیے غریبوں میں شرافت کیسی
نیک مادام! بہت جلد وہ دور آئے گا
جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہو گے
اپنی ذلت کی قسم، آپ کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے معیار پرکھنے ہو گے
ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیا بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں کو حنا بخشی ہے
لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میں جہاں ہوں وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے
وجۂ بے رنگیِ گلزار کہوں یا نہ کہوں!!
کون ہے کتنا گناہ گار کہوں یا نہ کہوں!!
بعض انقلابی نظموں میں استعارے اور علامتوں کی زبان استعمال کی گئی ہے مثال کے طور پر ان کی نظم ’’ایک منظر‘‘ پیش کی جا سکتی ہے۔ اس نظم کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے ؎
افق کے دریچے سے کرنوں نے جھانکا
فضا تن گئی راستے مسکرائے
سمٹنے لگی نرم کہرے کی چادر!
جواں شاخ ساروں نے گھونگھٹ اٹھائے
آخر تک نظم میں اس اسلوب کو برتا گیا ہے اور انقلاب کی مخصوص نوعیت اس سے وابستہ امنگوں اور شک و شبہات ان ساری چیزوں کو بڑی فن کاری کے ساتھ پیش کیا گیا۔ انقلابی موضوعات پر قلم اٹھاتے ہوئے ساحرؔ مکمل طور پر مارکسی نقطۂ نظر اختیار کرتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی میں انتشار سے قبل تک ساحرؔ نے جتنی نظمیں لکھیں وہ ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی سے بھی مطابقت رکھتی ہیں۔ اس کے بعد کے دور میں بعض نظموں میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کی پالیسیوں کی تبدیلی سے خوش نہیں تھے۔ ساحرؔ کی نظم ’’بہت گھٹن ہے‘‘ پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ آزادی کے بعد کے ہندوستان کی صورتِ حال سے ٖغیر مطمئن اور کسی قدر مایوس بھی تھے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کمیونسٹ پارٹی میں نظریاتی اختلافات کی وجہ سے پھوٹ پڑ گ ئی اور وہ مختلف جماعتوں میں منقسم ہو کر رہ گئی۔ ہندوستان سے ہٹ کر دیکھیں تو دیگر ملکوں کی کمیونسٹ پارٹیوں میں بھی پہلا سا نظریاتی اتحاد باقی نہیں رہا۔ روس اور چین دونوں بھی اگرچہ مارکس و لینن کے نام لیوا ہیں لیکن دونوں کے نظریوں میں بڑا بعد پیدا ہو گیا۔ لینن کی سوویں سالگرہ پر ساحرؔ نے ایک نظم بعنوان ’’لینن (۱۹۷۰ء)‘‘ لکھی اور اس میں کمیونسٹ پارٹیوں کے ان اختلافات پر شدید طنز کیا۔ ملاحظہ ہو ؎
کیا جانے تری امت کس حال کو پہنچے گی
بڑھتی چلی جاتی ہے تعداد اماموں کی
ہر گوشۂ مغرب میں، ہر خطہ مشرق میں
تشریح دگرگوں ہے اب تیرے پیاموں کی
وہ لوگ جنہیں کل تک دعویٰ تھا رفاقت کا
تذلیل پہ اترے ہیں، اپنوں ہی کے ناموں کی
بگڑے ہوئے تیور ہیں نو عمرِ سیاست کے
بپھری ہوئی سانسیں ہیں نو مشقِ نظاموں کی
طبقوں سے نکل کر ہم فرقوں میں نہ بٹ جائیں
بن کر نہ بگڑ جائے تقدیر غلاموں کی
’’جواہر لعل نہرو‘‘، ’’گاندھی ہو یا غالب ہو‘‘ اور ’’لینن (۱۹۱۷ء)‘‘ بھی ایسی ہی نظمیں ہیں جن میں شدید طنز کیا گیا ہے لیکن یہ نظمیں ساحرؔ کے دلی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ پروفیسر نظیر صدیقی ’’ساحرؔ لدھیانوی: ایک سچا شاعر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ساحرؔ لدھیانوی کی ساحری نے شاعری کی شکل اختیار کی اور ان کی شاعری میں ساحری کا عنصر کسی نہ کسی حد تک ہر جگہ موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری خواہ سیاسی ہو یا رومانی، اس میں دلوں کو مس کرنے والے مصرعے ضرور ملتے ہیں۔‘‘ (فن اور شخصیت بمبئی، ساحر لدھیانوی نمبر، فروری ۱۹۸۵ء،ص ۲۸۷)
خلیل الرحمن اعظمی کے مطابق:
’’ساحرؔ کے مزاج میں شاعرانہ بے ساختگی اور تغزل کے عناصر شروع ہی سے ملتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ اس شعری روح نے ساحرؔ کے لب و لہجے میں ایک شادابی و رنگینی پیدا کر دی ہے اور مجازؔ کی طرح ان کی نظمیں بھی بہت گہرے تجربات و شعور کی حامل نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر دلکشی رکھتی ہیں۔‘‘
(اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک،ص ۱۵۲)
اور ساحرؔ کی مقبولیت کا راز بھی یہی تھا۔
ساحرؔ کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سیدھی سادی زبان عام فہم الفاظ کے ذریعے اپنے سچے افکار و خیالات اور جذبات کو پیش کر دیتے ہیں۔ ان کی نظم ’’ردِ عمل‘‘ پڑھئے ؎
چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
دھیمی لئے، آسان زبان، مانوس الفاظ میں یہ مختصر نظم سادگی کے ساتھ محبت بھرے دل کی کہانی سناتی ہے جس میں ناکامی کا شدید احساس ملتا ہے اور غمناک فضا اپنا اثر دکھاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اس نظم میں بھی انقلاب کی دھیمی آواز ہم محسوس کر سکتے ہیں۔ تقریباً یہی تاثر ان کی تمام تر نظموں کو پڑھنے سے ہوتا ہے اور پھر ان کی نظمیں عشقیہ اور انقلابی رنگ و آہنگ رکھنے کے ساتھ فنی لطافت اور شعری روایات کے اعتبار سے بھی نمایاں ہیں۔ یہ نظمیں ارتقا کے مختلف مدارج سے گزرتی ہوئی پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں موضوع اور ماحول کے اعتبار سے ہم آہنگ الفاظ استعمال کرتے ہیں، ان کا لہجہ نرم ہوتا ہے اور بڑے دھیمے لہجے میں دل کی آگ باہر انڈیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ساحر کی عشقیہ اور انقلابی شاعری ضد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور نعری بازی سے پاک ہے۔ انہوں نے بے باکی کے ساتھ دو ٹوک انداز میں براہِ راست اپنے خیالات پیش کر دیے ہیں۔
**
کتابیات:
۱ سہ ماہی ادب ساز دہلی، ساحرؔ لدھیانوی نمبر، جنوری تا مارچ ۲۰۱۰ء
۲ اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک: خلیل الرحمن اعظمی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۲۰۰۲ء
۳ ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری: یعقوب یاور، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۹۷ء
۴ ساحرؔ لدھیانوی: شخص اور شاعر: ڈاکٹر ناز صدیقی، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی ۲۰۰۵ء
۵ فن اور شخصیت بمبئی، ساحر لدھیانوی نمبر، فروری ۱۹۸۵ء
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ پرواز لندن، اکتوبر ۸ ۲۰۱ء