حالیؔ نے وقت اوراس کی رفتار کا اندازہ صحیح وقت پر کیا تھا۔ انھوں نے اپنی تاریخ ساز تصنیف ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کے توسط سے شاعری کے مروجہ اصولوں کا سختی سے احتساب کیا۔ بے جا تقلید اور روایت سے انحراف کیا اور غزل کے موضوعات میں وسعت پیدا کی۔ حسن و عشق کے موضوع کی پیش کش میں پاکیزگی اور سنجیدگی کی فضا ہموار کی۔ قومی ملکی، اخلاقی اور عمرانی موضوعات سے اردو شاعری کے دامن کو وسیع کیا۔ آزادؔ نے اپنی تحریروں کے ذریعہ شاعری کی فرسودگی کی طرف توجہ دلائی چنانچہ حالیؔ و آزادؔ کی اصلاحات اور وقت کے عصری میلانات نے اس کے موضوعات میں انقلابی تبدیلی پیدا کی اور وہ صرف معشوق کے سراپا کے شیدائی نہ رہ کر قومی و سیاسی شعور کو متحرک رکھنے کا ذریعہ بنی بلکہ ایمائیت اور رمزیت میں اضافہ بھی کیا۔ اس طرح غزل نے زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا اور وہ حسن و عشق کے محدود دائرے سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں سے نظریں ملانے لگی۔ غزل کو یہ نیا آہنگ اور لب و لہجہ دینے والوں میں جگر مرادآبادی کا نام قابلِ ذکر ہے۔
جگر مراد آبادی کا تعلق تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کے جدِ اعلی مولوی محمد سمیع شاہجہاں کے استاد تھے۔ کسی طرح ان پر شاہی عتاب نازل ہوا تو وہ مراد آباد منتقل ہو گئے۔ جگر کے دادا حافظ نور محمد شاعر تھے اور نور تخلص فرماتے تھے۔ والد مرحوم بھی شاعر تھے جن کا تخلص نظر تھا۔ اس طرح جگر کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ پہلے جگر نے منشی حیات رضاؔ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا پھر داغؔ سے اصلاح لینے لگے۔ ۱۹۰۵ء میں داغؔ کا انتقال ہوا تو کچھ دن تک امیر اللہ تسلیمؔ سے اصلاح لیتے رہے۔ یہ سلسلہ ضرور چل نکلا تھا مگر وہ پوری طرح ابھر کر سامنے نہیں آئے۔ پیشے کے اعتبار سے جگر عینک فروش تھے اور اس پیشے کے تعلق سے اکثر اعظم گڑھ جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ اعظم گڑھ میں ان کی ملاقات وہاں کے مشہور وکیل مرزا احسان احمد سے ہوئی جو نہ صرف اچھے شاعر تھے بلکہ ادیب اور نقاد بھی تھے۔ ان دنوں لاہور سے ایک رسالہ ’’مخزن‘‘ نکلتا تھا۔ جگر کی شاعری پر مرزا احسان احمد صاحب کا ایک مضمون ’’مخزن‘‘ میں شائع کیا ہوا جگر واقعی جگر بن گئے۔ دلی اور لکھنؤ والوں نے جگر کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مرزا احسانؔ احمد کے احسان کا شکریہ جگر نے یوں ادا کیا ؎
میں جگر لاکھ ہوں آوارہ و سرگشتہ مگر
دل ہر اک حال میں ہے حضرتِ احساں کے قریب
غزل کے لغوی معنی ہے وہ کلام جس میں عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف اور عشق و عاشقی کا ذکر ہو۔ اس لحاظ سے غزل کے موضوعات میں عشقیہ مضامین کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے لیکن ایسے مضامین انھیں کو باندھنا چاہئے جو عشق کی کیفیت سے دوچار ہو چکے ہوں مثلاً میرؔ ایک عطار کے لونڈے کو دل دے بیٹھے، غالبؔ ایک ڈومنی کے عشق میں مبتلا ہوئے۔ داغؔ نے منی جان سے محبت کا سودا کیا، فانیؔ ایک طوائف کی گیسوؤں کے اسیر رہے۔ اقبالؔ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک عرصہ تک کسی عطیہ بیگم کی محبت کا شکار رہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں سے کسی نے بھی صرف عشقیہ شاعری کو ہی اظہار کا وسیلہ بنایا ہو بلکہ ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ پر بھی عمل کیا۔ جگر کے بارے میں بیشتر اکابرینِ ادب نے کہا ہے کہ وہ رومان کے بہترین شاعر تھے اور ایک ہی کے نہیں بلکہ متعدد مہ جبینوں کی زلفِ گرہ گیر کا شکار بھی ہوئے۔ جگر نے اس کی تصدیق بھی اس طرح فرمائی ہے ؎
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے
۰۰۰۰۰
ترے حسنِ حیات افروز کو دیکھا ہے جس دن سے
بہت مجھ کو عزیز اس دن سے میری زندگانی ہے
۰۰۰۰۰
دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں
کیا جانیے غریب کہاں کام آ گیا
۰۰۰۰۰
نگاہوں میں کچھ ایسے بس گئے ہیں حسن کے جلوے
کوئی محفل ہو لیکن ہم تری محفل سمجھتے ہیں
۰۰۰۰۰
حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
۰۰۰۰۰
الٰہیٰ بھیج دے ایسے میں اس جانِ تمنا کو
سکوتِ شب کا سناٹا ہے اور دل کی کہانی ہے
یہ اشعار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جگر خالص دنیائے حسن و عشق کے شاعر تھے۔ وہ حسن و جمال کے شیدائی، گل رخوں اور زہرہ جبینوں کے پرستار تھے اور کوچۂ عشق کی راہوں سے بھی بخوبی آشنا تھے۔
جگر کی زندگی کے بیشتر لمحات دوڑ دھوپ اور گہما گہمی میں گزرے۔ مشاعروں میں شرکت کی غرض سے گھر سے نکلتے تو دو دو ماہ تک گھر کی صورت نہیں دیکھتے تھے۔ وہ مشاعروں کے بہترین شاعر تھے۔ ان کا سب سے بڑا داؤ پیچ ان کی خوش الحانی تھی۔ لوگ مشاعرے میں ان کی غزل نہیں بلکہ ان کو سننے جاتے تھے۔ ان کے مداحوں کی کمی نہیں تھی۔ ایک مشاعرہ شروع بھی نہیں ہوتا تھا کہ دوسرے مشاعرے کا پروگرام بن جاتا تھا۔ اس طرح ان کا زیادہ تر وقت گھر کے باہر ہی گزرتا تھا۔ مشاعرے سے ان کو اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی لیکن جگر کے بیشتر لمحات شراب نوشی میں ہی گزرے۔ اس کا اعتراف بھی انھوں نے اپنی شاعری میں کیا ہے۔ وہ ہمیشہ شیشہ بدست اور جام بکف رہتے تھے۔ اس بلا نوشی سے ان کی صلاحیتوں کو گھن لگ گیا تھا۔ تخلیق کا سوتا خشک ہونے لگا اور صحت بھی ڈھلنے لگی تھی۔ نیاز فتح پوری ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ان کی زندگی کے دو دور تھے۔ ایک سرشاری کا اور دوسرا ہشیاری کا اور اصولاً دونوں زمانوں کی شاعری میں فرق و امتیاز ہونا چاہیے لیکن جگر جیسے پہلے رند تھے ویسے ہی بعد میں بھی رہے۔‘‘
ان کی بادہ خواری کے متعلق رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں:
’’جگر کی شاعری سے جتنا نفع شراب کو پہنچا اتنا شراب سے جگر کو نہیں پہنچا۔‘‘
آخر وہ وقت بھی آ گیا جب جگر یہ کہنے پر مجبور ہوئے ؎
کیا خبر تھی کہ عشق کے ہاتھوں
ایسی حالت تباہ ہوتی ہے
۰۰۰۰۰
سانس لیتا ہوں دم الجھتا ہے
بات کرتا ہوں آہ ہوتی ہے
۰۰۰۰۰
کس طرف جاؤں کدھر دیکھوں کسے آواز دوں
اے ہجومِ نامرادی جی بہت گھبرائے ہے
۰۰۰۰۰
اے رحمتِ تمام مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پروفیسر ساحل احمد اپنی کتاب ’’غزل: پس منظر اور پیش منظر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جگر نے عشق کو شراب سے ہم رشتہ کر کے پیش کیا ہے۔ یوں کہیں کہیں حسنِ معرفت بھی شامل ہے جو ان کے تصورِ عشق کی وصفی صورت ہے جس کے درون انسانی جذبات و حسیات کی مرتعش تصویریں اور درد آمیز خوشی کا احساس ملتا ہے جو نازِ حسن اور نیازِ عشق سے عبارت ہے۔ جگر نے اس تصورِ عشق کو معنوی شراب میں گھول کر رنگین و پرکار بنایا ہے اور اکثر جگہوں پر عشق کی اختراعی صفتوں اور خوبیوں کو نفسیات کے ترک و قبول کے اصول سے بچنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ جگر کی غزلیں گرمیِ اظہار کی ایک ایسی والہانہ کیفیت رکھتی ہیں جو جذب و مستی کو دو چند کر دیتی ہیں حالانکہ جگر نے یہ کیفیت شراب و شباب سے کشید کی ہے لیکن یہ کیفیت شعوری احساس کا ردِ عمل ہے جو شاعر کے صداقت و خلوص اور اس کے اندازِ بیان سے ہم آہنگ ہے۔ بہر حال جگر کا کلام رنگین و رعنا اور دل کش ہے جو ان کے تغزل کا نمایاں وصف بھی ہے اور سر خوشی کا نقطۂ عروج بھی۔ جگر کے کچھ سدا بہار اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
نگاہِ شوق نے بدلے ہزار ہا منظر
مرے لیے کوئی شایانِ حال ہو نہ سکا
۰۰۰۰۰
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
۰۰۰۰۰
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں
۰۰۰۰۰
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
۰۰۰۰۰
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
۰۰۰۰۰
اک تری آنکھوں کا ساغر اک ترے رخ کی بہار
یہ میسر ہو تو ہر جنت کو ٹھکراتا ہوں میں
۰۰۰۰۰
وہ ہم سے ملتے نہ ملتے یہ ان کی مرضی تھی
ہمارا کام یہی تھا کہ جستجو کرتے
۰۰۰۰۰
روک سکتی ہو تو بڑھ کر روک لے منزل مجھے
لے اڑی ہے ایک موجِ بیقرارِ دل مجھے
ان اشعار سے جگر کی قدرتِ شعر اور قدرتِ شاعری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جن میں فارسی تراکیب کے ساتھ ساتھ تغزل، معاملہ بندی، بے خودی اور والہانہ انداز بھی موجود ہے۔ اسی طرح متانت، دل کشی، رنگینی اور پختگی یہ سبھی خوبیاں جگر کے مجموعۂ کلام ’’داغِ جگر‘‘، ’’شعلۂ طور‘‘ اور ’’آتشِ گل‘‘ میں موجود ہے۔
جگر کی غزلوں میں سادگی و سلاست کے ساتھ اثر پذیری اور اثر انگیزی بھی ہے ناز و نیاز کے ساتھ سوز و گداز بھی ہے، سر شاری کے ساتھ ہوش مندی بھی ہے، ترنم کے ساتھ تفکر بھی ہے، موسیقی اور روانی کے ساتھ غمِ حیات و کائنات بھی ہے گویا وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو ایک اچھی غزل کے لیے ضروری ہے۔ ان خصوصیات کے ساتھ جگر کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے لطافت و پاکیزگی، معصومیت و دلکشی، رعنائی و زیبائی، درد و تڑپ اور نیاز و بے نیازی کے ایسے لازوال نقوش غزل کو عطا کیے جو اردو کے کسی اور غزل گو شاعر سے نہ ہو سکا۔ جگر نے غزل کو نئی آب و تاب اور نئی زندگی عطا کی۔ انھوں نے اپنی محنت و ریاضت سے غزل کو نہ صرف نئے افق سے روشناس کرایا بلکہ اسے زندگی و تابندگی کی جلوہ سامانیوں سے بھی مزین کر دیا۔ اسی لیے اردو شاعری اور غزل گوئی میں ان کا ایک اہم مقام ہے۔
**
کتابیات:
۱ مختصر تاریخِ اردو ادب: سید اعجاز حسین، اردو کتاب گھر، دہلی، ۱۹۶۴ء
۲ آتشِ گل: جگر مراد آبادی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی، ۱۹۷۲ء
۳ غزل پس منظر پیش منظر: ساحل احمد، اردو رائٹرس گلڈ، الہ آباد، نئی دہلی، ۱۹۷۶ء
۴ تاریخِ اردو ادب: نور الحسن نقوی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۹۷ء
۵ نئے تنقیدی زاویئے: خوشحال زیدی، ادارہ بزمِ خضر راہ، نئی دہلی، ۲۰۰۱ء
۶ شعورِ فن: ڈاکٹر فخرالاسلام اعظمی، شبلی نیشنل کالج، اعظم گڑھ، ۲۰۰۴ء
٭٭٭
مطبوعہ : سہ ماہی ہندوستانی زبان ممبئی، اپریل تا جون ۲۰۱۷ء