۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد اردو شاعری کی تمام اصنافِ سخن زوال کا شکار ہوئیں۔ ہئیت اور خیال پر جو شاعری کے اہم نکات ہیں جمود طاری تھا۔ غزل جو اپنی دلکشی کے سبب سب سے زیادہ مقبول اور عام رہی ہے معاشرے کے اخلاقی زوال کا اثر بھی سب سے زیادہ اسی پر پڑا۔ مشکل پسندی، تصنع، بناوٹ غزل پر حاوی تھے۔ اعلیٰ جذبات نگاری، حقیقت پسندی اور آمد سے غزل محروم تھی۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ اور ان کے رفقا اس صورتِ حال سے اچھی طرح آشنا تھے۔ حالیؔ نے غزل کی خامیوں کو واضح کر کے اس کی اصلاح کے لیے چند تدبیریں کیں جس کا خاطر خواہ اثر دیر سے سہی مگر دیرپا ثابت ہوا۔ حسرتؔ موہانی، جگر مرادآبادی، فانیؔ بدایونی اور اصغر گونڈوی یہ وہ نام ہیں جن کی کوششوں سے غزل کو نئی زندگی ملی۔ عشق و محبت جو غزل کا بنیادی موضوع ہے وقت اور زمانے کی تبدیلیوں کی پیشِ نظر اس میں نیا پن پیدا کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ اردو غزل کے یہ چار ستون اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ حسرتؔ ایک معتبر شاعر ہونے کے علاوہ بہترین صحافی تھے اور محبِ وطن بھی۔ گاندھی، نہرو اور آزاد جیسے جید رہنما ان کی عزت کرتے تھے۔ جگر رومانی شاعر تھے۔ فانی نے اپنی شاعری میں حیات و موت کے فلسفے کو بہترین انداز میں پیش کیا اور اصغرؔ گونڈوی رنگِ تصوف میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
علامہ اقبال کا ایک مشہور مصرعہ ہے ’’نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ ایک بندۂ مومن کا تصور جب ہمارے ذہن میں آتا ہے تو حسرتؔ موہانی کی سیرت ابھر کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ طالبِ علمی کے زمانے ہی سے انھیں جن مزاحمتوں اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اس کی مثال دوسرے مجاہدینِ آزادی کی زندگی میں مشکل سے ملے گی۔ حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں جو قیدِ بامشقت کی سزا انھیں ۱۹۰۸ء میں جھیلنی پڑی اس کی دل دہلا دینے والی داستان انھوں نے اپنے اخبار ’’اردوئے معلی‘‘ میں قسط وار شائع کی تھی۔ اس ایک سال قیدِ با مشقت میں روزآنہ صبح تا شام ایک من آٹا پیس کر انھوں نے جس صبر و شکر کا مظاہرہ کیا اس کی مثال کسی اور مجاہدِ آزادی کی قید و بند کی زندگی میں نہیں ملتی۔ اس دوران ماہِ رمضان کے پورے روزے رکھے اور نماز و تلاوت کی بھی پابندی کی۔ انھوں نے فرمایا ؎
کٹ گیا قید میں ماہِ رمضاں بھی حسرتؔ
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
ان کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ غیر معمولی علمی صلاحیتوں اور استعداد کے باوجود انھوں نے فقر و فاقہ کی زندگی گزاری۔ ان کے بارے میں یہ بھی پڑھا کہ انھوں نے ایک یا دو بار نہیں بلکہ بارہ مرتبہ حج کیا ہے۔
حسرتؔ موہانی نے مصروف ترین زندگی گزاری ہے مگر ان کی راہ الگ تھی۔ وہ وطن پرستی کے صمیمِ قلب سے قدر داں تھے۔ تصنع، بناوٹ ریاکاری انھیں چھو تک نہیں گئی تھی۔ وہ ایک ٹھوس عملی انسان تھے۔ ان کی ساری زندگی سراپا جد و جہد تھی۔ انھوں نے ملک کو آزاد کرانے کا بیڑا اٹھایا اور علمِ بغاوت بلند کیا۔ کانگریس دو خیموں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک طرف اعتدال پسند تھے اور دوسری طرف انتہا پسند جن کے سربراہ لوکمانیہ تلک تھے۔ حسرتؔ نے لوکمانیہ تلک کو اپنا رہبر جانا تھا جن کا نعرہ تھا ’’آزادی میرا پیدائشی حق ہے اور میں اسے لے کر رہوں گا‘‘ حسرتؔ نے اپنے اخبار ’’اردوئے معلی‘‘ کے ذریعہ ہر ممکن طریقے سے مسلمانوں کی سیاسی تربیت کی اور انھیں کانگریس میں بردران وطن کے دوش بدوش لا کھڑا کر دیا۔ ہندوستانی سیاست میں ’’ستیہ گرہ‘‘ کا نعرہ سب سے پہلے حسرتؔ نے ہی بلند کیا تھا۔ اس وقت کی کہی گئی حسرتؔ کی ایک مشہور غزل کے یہ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
دولتِ ہندوستاں ہے قبضۂ اغیار میں
بے عدو و بے حساب دیکھیے کب تک رہے
ہے تو کچھ اکھڑا ہوا بزمِ حریفاں کا رنگ
اب یہ شراب و کباب دیکھئے کب تک رہے
حسرتؔ موہانی کٹر قدامت پسند تھے، سنی تھے اور صوم و صلاۃ کے پابند بھی۔ وہ ہر اس بات کی مخالفت کرتے جو ان کی طبیعت کے خلاف ہوتی۔ کانگریس میں تھے تو گاندھی جی سے بھڑ جاتے۔ مسلم لیگ میں رہے تو پاکستان اور آزادیِ وطن پر محمد علی جناح سے لڑ پڑتے۔ آزادی کے بعد ڈاکٹر امبیڈکر کا پیش کردہ آئین انھیں پسند نہیں تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ عمر بھر سیاست میں رہنے کے باوجود وہ سیاسی لیڈر کم پہچانے گئے اور پر گو شاعر زیادہ مشہور ہوئے۔ انھوں نے اس وقت اردو غزل کو نئے انداز اور نئے لب و لہجہ سے آشنا کیا جب وہ تہذیبی زوال کا شکار تھی۔ انھوں نے غزل کو حقیقی جذبات سے قریب تر کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے غزل کو جس نئے اسلوب، سادگی اور بے تکلفی سے آشنا کیا ہے وہ حسرتؔ کے عہد میں یا ان کے قریبی پیش روؤں کے یہاں نہیں ملتی۔
عام طور سے ہمارے شعراء نے عشقیہ مضامین میں محبوب کو عیار، دغا باز، حیلہ باز قاتل، ستم گر، بے حیا، بے وفا وغیرہ جیسے الفاظ سے نوازا ہے اور عموماً ایسے الفاظ ایک بازاری عورت کے لئے ہی استعمال کیے جاتے ہیں مگر حسرتؔ نے جس محبوب کا تصور پیش کیا وہ ان سے پہلے اردو شاعری میں عام نہیں تھا۔ ان کا محبوب ہماری دنیا کا چلتا پھرتا اور جیتا جاگتا محبوب ہے جو اپنے عاشق کے غم اور خوشی دونوں میں برابر کا شریک رہتا ہے۔ وہ دوپہر کی گرم دھوپ میں چھت پر ننگے پاؤں بلانے کے لیے آ سکتا ہے۔ عاشق کی بے باکی پر دانتوں میں انگلی دبا سکتا ہے۔ ڈوپٹے سے اپنے منہ کو چھپا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حسرتؔ کا مطالعہ وسیع تھا اور انھوں نے اردو اور فارسی شعراء کے کلام کا تنقیدی نظر سے مطالعہ بھی کیا تھا اسی وجہ سے ان کے کلام میں اساتذہ کا رنگ جھلکتا ہے مگر ان کی آواز صاف طور پر پہچانی جاتی ہے۔ وہ حسن پرست بھی ہیں اور عاشق مزاج بھی۔ ان کا عشق خالص عشقِ مجازی ہے جس میں کسی حد تک مقدس بے باکی بھی شامل ہے۔ مومنؔ کی غزل کی طرح کلامِ حسرتؔ میں بھی عشق کی ساری کیفیتیں اور حسن کے سارے روپ نظر آتے ہیں۔ حسرتؔ نے سیاسی شاعری بھی کی لیکن فکر، فلسفہ اور پیغام جیسی چیزیں ان کے مزاج سے کوئی مناسبت نہیں رکھتیں۔ وہ اپنی شاعری کے لیے صرف ایک ہی پہلو کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ ہے عشق۔ اسے وہ ہر زاویے اور مختلف ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں۔ اس کی تمام کیفیتوں کا مزہ لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ ان کا عشق واضح طور پر ارضی و مادی تھا جس میں جسم کی خوشبو اور جنس کی مہک تھی۔ ان کی فطری شرافت اور مشرقیت ان کے عشق کو معصومیت اور پاکیزگی عطا کرتی ہے جس سے ان کے یہاں جسم کی پکار کے ساتھ ساتھ روح کی پکار بھی ہم آہنگ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی حسن پرستی کسی حسین چہرے تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ خوبصورت لفظوں، دلکش ترکیبوں اور مترنم بحروں کو ایک عاشق کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انھیں اپنے شعروں میں سمو لیتے ہیں۔ میرے خیال سے حسرتؔ حسن و عشق کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے۔ بھری محفل میں آہستہ سے ہاتھ دبا دینے یا راستے میں ملنے پر ہونٹ کاٹنے کا تذکرہ وہی شاعر کر سکتا ہے جو عشق کے تجربات سے خود گزرا ہو، جو حسن کے جلوۂ صد رنگ کو آنکھوں کے دریچوں سے دل کی وادی میں اتار لینے کا فن جانتا ہو اور ساتھ ہی عشق کی گرمی اور اس کی کسک کو زندگی سے لے کر شعری سانچے میں ڈھالنے کا ہنر جانتا ہو۔ زندگی کے معمولی تجربات کو اپنے فن میں اس طرح سمو کر پیش کر سکتا ہو کہ ان میں ایک ہمہ گیر موہنی اور دلوں میں گھلنے والی صلاحیت پیدا کر سکے۔ یہ اشعار دیکھئے ؎
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترکِ الفت میں وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
برق کو ابر کے دامن میں چھپا رکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبورِ حیا دیکھا ہے
۰۰۰۰۰
سوتے میں جو دیکھا تھا رخِ یار کا عالم
آنکھوں میں یہ خنکی ہے اسی نورِ سحر کی
۰۰۰۰۰
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن
آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے
۰۰۰۰۰
توڑ کر عہدِ کرم نا آشنا ہو جایئے
بندہ پرور جایئے اچھا خفا ہو جایئے
۰۰۰۰۰
سر کہیں، بال کہیں، ہاتھ کہیں، پاؤں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو
۰۰۰۰۰
زلفِ شب رنگ پہ گلنار لباسی کی بہار
آج حسرتؔ نے رخ یار میں کیا کیا دیکھا
۰۰۰۰۰
رنگ سونے میں چمکتا ہے طرح داری کا
طرفہ عالم ہے ترے حسن کی بیداری کا
یہ اشعار اس لیے متاثر کرتے ہیں کہ ان میں نہ تو ماورائی عشق کا بیان ہے اور نہ ہی کسی ایسے معشوق کا تذکرہ ہے جو ہماری دنیا کے علاوہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہو۔ حسرتؔ کی غزلوں کی کامیابی کا راز صرف ان کے موضوعات، ان کے جذبے کی صداقت اور ان کے خلوص و سادگی کے جوہر ہی میں مضمر نہیں ہے بلکہ اس میں بڑی حد تک ان کے اس لہجہ کا بھی ہاتھ ہے جس میں ایک کلاسیکی رچاؤ اور قدیم شعرا کی آوازوں کی گونج موجود ہے۔
کلاسیکی شعراء کے کلام کے مطالعہ کے ساتھ حسرتؔ کے احساسِ جمال اور ان کی تخلیقی قوت نے انہیں قدیم الفاظ اور ترکیب ہی پر اکتفا کرنے نہیں دیا بلکہ انھوں نے کتنی ایسی تراکیب تراشیں جو اردو شاعری میں رائج ہو گئیں اور بہت سی تراکیب اور استعارات و تشبیہات کو اس طرح نئے انداز میں اپنے شعروں میں سمویا کہ ان کی معنویت میں اضافہ ہو گیا۔ حسرتؔ کی انتخابی صلاحیت کے ساتھ ان کی اس تخلیقی قوت نے ان کی غزلوں کو کلاسیکی حیثیت سے شاعری کے نئے رجحانات اور نئے زاویوں کا بھی نقیب بنا دیا ہے۔
**
کتابیات:
۱ اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ: ڈاکٹر سنبل نگار، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۲۰۰۱ ء
۲ تاریخِ ادبِ اردو: نور الحسن نقوی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۹۷ء
۳ شعورِ فن: ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی، شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ، ۲۰۰۴ء
۴ نئے تنقیدی زاویے: ڈاکٹر خوشحال زیدی، ادارہ بزمِ خضر راہ نئی دہلی، ۲۰۰۴ء
۵ منتخب غزلیں اور نظمیں: مرتبہ پروفیسر صاحب علی، کتاب دار ممبئی، ۲۰۱۳ء
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ انشاء کلکتہ، ستمبر تا اکتوبر ۲۰۱۶ ء
ISSN: 0971-6009