ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ساری کہانیاں ایسے ہی شروع ہوتی ہیں اس لیے ہماری کہانی بھی ایسے ہی شروع ہوگی۔ کوہ ہمالیہ کے دامن میں ایک خوبصورت سا ملک کالاش تھا۔ ہمالیہ پاکستان کے شمال میں دنیا کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ہے۔ یہاں بڑی بڑی جھیلیں ہیں سرسبزوشاداب پہاڑ ہیں جن کی چوٹیاں بادلوں سے بھی اوپر ہیں۔ یہاں انتہائی بڑے بڑے گلیشیئرز ہیں۔ جن کو پار کرنا کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ ملک کالاش بھیڑیوں کا ایک چھوٹا سا ملک تھا۔ جو چاروں طرف سے اونچے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔ بھیڑیے۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کا کالاش ملک انسانوں کا ہوگا تو جناب آپ غلط ہیں۔ یہ واقعی بھیڑیوں کا ملک ہے۔ انسان نما بھیڑئیے جو انسانی شکل میں رہتے ہیں اور صرف شکار کرنے کے لیے ہی بھیڑیوں کا روپ دھارتے ہیں۔ آج سے کئی سو سال پہلے یہ بھیڑیے مختلف ممالک میں انسانی آبادیوں میں ہی رہتے تھے۔ یہ انسانی شکل میں لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے اور انہیں پہچاننا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ یہ انسانوں کے مقابلے میں دس گناہ زیادہ طاقتور ہوتے تھے اور ہزار ہزار سال ان کی عمر ہوتی تھی۔ بھیڑیوں کی یہی طاقت اور عمر ان کے لیے خطرہ بن گئی۔ ان کے خون میں بھی طاقت تھی۔ سو سال کا ایک انتہائی بوڑھا اور لاغر ترین انسان بھی اگر ان کا خون پی لیتا تووہ بیس سال کا طاقت ور نوجوان بن جاتا۔ انسانوں کو جب اس طریقے کا پتہ چلا تو وہ خود انسانی بھیڑیوں کو مار کر خون پی پی کر جوان ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ ان بھیڑیوں کی تعداد ختم ہونے لگی۔ انسان پوری دنیا سے ان کو تلاش کرکے مارنے اور خون پینے لگے۔ لاکھوں کی تعداد میں پائے جانے والے بھیڑیئے کم ہوتے ہوتے ہزاروں میں آگئے۔ انسان ان کے خون کے پیاسے تھے۔ اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کچھ بھیڑیے ہمالیہ کا دشوار گزار سفر کرکے یہاں بس گئے۔ کیونکہ یہ علاقہ چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا اس لیے یہاں تک کوئی بھی انسان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یہاں صرف پچاس بھیڑیے ہی آئیے اور صرف وہی بچ سکے باقی پوری دنیا میں ان کی آبادی ختم ہوگئی۔ اب دنیا میں صرف کالاش ہی ایک ملک تھا جہاں انسانی بھیڑیے رہتے تھے۔ ان کی تعداد بھی پچاس سے بڑھ کر پانچ ہزار ہو گئی تھی۔ انسانوں نے یہاں پہنچنے کی بھی کوشش کی لیکن یہاں ہمالیہ میں ایک بہت بڑا بزرگ تھا۔ اس کا نام نورشاہ تھا۔ بزرگ نور شاہ نے ملک کا لاش کے گرد ایک روحانی حصار قائم کر دیا۔ اس حصار کی وجہ سے کوئی بھی انسان ان پہاڑوں کو عبور کرکے کالاش نہیں پہنچ سکتا تھا۔ کالاش کا بادشاہ کاشان ایک رحمدل بھیڑیا تھا۔ وہ اپنے ملک میں انصاف اور محبت سے حکومت کرتا تھا۔ ان کی ایک ہی بیٹی شہزادی جولیا تھی۔ شہزادی جولیا اپنے باپ شاہ کاشان کے برعکس ایک مغرور اور ظالم شہزادی تھی۔ پورے ملک کالاش میں اس سے زیادہ خوبصورت اور کوئی بھی لڑکی نہیں تھی۔ کالاش ملک کے تمام بھیڑیے اس سے شادی کے خواہش مند تھے۔ وہ سارے شہزادی جولیا کی ایک جھلک پر بھی جان دینے کو تیار ہو جاتے تھے۔ لیکن شہزادی جولیا ان میں سے کسی کو بھی پسند نہیں کرتیں تھیں۔ وہ ہمیشہ ان کی بےعزتی کرتی تھی اور ان پر بہت ظلم بھی کرتی تھی۔ شہزادی جولیا کے ظلم سے کوئی بھی انسان یا جانور محفوظ نہیں تھا۔ کالاش میں ایک نوجوان چرواہا علی اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ سارا دن پہاڑوں پر بکریاں چراتا رہتا تھا اور شام کو اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کرتا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھانا بنا کر اپنی ماں کو کھلاتا تھا۔ علی کی بوڑھی ماں اسے ہمیشہ دعائیں دیتی رہتی تھی۔ ایک دن شہزادی جولیا اپنی سہیلیوں کے ساتھ جنگل میں گھوم رہی تھی جب اسے بکری کا ایک چھوٹا بچہ نظر آیا جو بالکل سفید رنگ کا تھا۔ بلکل روئی کی طرح سفید شہزادی جولیا کو وہ بچہ بڑا خوبصورت لگا اور وہ اس بچے کو پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگی۔ شہزادی جولیا چونکہ ایک ظالم شہزادی تھی اس لئے بکری کے بچے کو بھی پتہ تھا اور وہ شہزادی سے بچنے کے لیے پہاڑوں کی طرف بھاگنے لگا۔ وہاں اس کی ماں دوسری بکریوں کے ساتھ گھاس چر رہی تھی۔ یہ ساری بکریاں علی چرواہے کی تھیں۔ شہزادی جولیا بھی بچے کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگی۔ بچے نے ایک چٹان سے دوسری چٹان کی طرف لمبی چھلانگ لگائی لیکن وہ دوسری چٹان تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور نیچے گہرائی میں گر گیا۔ علی چرواہے نے جب بچے کو چٹان سے نیچے گرتے ہوئے دیکھا تو وہ بھاگ کر نیچے آیا تاکہ بچے کو بچا سکے لیکن وہ چھوٹا بچہ چٹان سے نیچے گرتے ہی مر گیا تھا۔ علی نے اس کا بے جان جسم اٹھایا اور شہزادی جولیا کے پاس آ گیا۔ شہزادی بکری کا بچہ مرگیا ہے علی نے بچے کا مردہ جسم شہزادی جولیا کے قدموں میں رکھتے ہوئے کہا۔ علی کو بھی شہزادی جولیا بہت پیاری لگتی تھی وہ بھی شہزادی کو چھپ چھپ کر دیکھتا تھا لیکن اسے شہزادی کے غصے سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اسے معلوم تھا شہزادی جولیا بڑی ظالم شہزادی ہے۔
تم بکری کے بچے کی موت کا الزام ہم پر لگا رہے ہو شہزادی جولیا نے غصے سے کہا۔ نہیں۔۔نہیں۔۔۔۔ شہزادی صاحبہ میں ایسی جرات کیسے کر سکتا ہوں۔ علی نے شہزادی جولیا کا غصہ دیکھا تو فورا اس سے معافی مانگنے لگا۔ نہیں تم نے ہماری بےعزتی کی ہے تم نے شہزادی جولیا کی بےعزتی کی ہے۔ تمہیں اس کی سزا ملے گی۔ شہزادی جولیا نے غصے سے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔ اس کی شکل بدلی اور وہ ایک خونخوار بھیڑیا بن گئی۔ بھیڑیا بنتے ہی شہزادی جولیا نے چھلانگ لگائی اور علی چرواہے کی ٹانگ دانتوں سے پکڑ لی وہ علی کی ٹانگ کو غصے سے چیرنے لگی۔ کچھ دیر تک علی کی ٹانگ کو بھمبوڑنے کے بعد اس نے ٹانگ چھوڑ دی اور علی کو چٹان سے نیچے دھکا دیا۔ علی نیچے گرا تو اس کی زخمی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو گیا۔ علی اپنی بوڑھی ماں کا اکلوتا سہارا تھا ٹانگ ٹوٹنے کے بعد وہ اب بکریاں نہیں چرا سکتا تھا۔ اس لیے اس نے بکریاں بیچ دیں اور چوک میں بیٹھ کر ٹوکریاں بنانے لگا۔ دونوں ماں بیٹے شہزادی جولیا کے ظلم کا شکار ہوئے تھے لیکن وہ بے چارے شہزادی کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔
کالاش سے ہزاروں کلومیٹر دور اٹلی کے شہر میلان میں مونیکا جادوگرنی ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھی منتر پڑھ رہی تھی۔ کمرے کے بالکل درمیان میں موم بتیوں کا ایک دائرہ بنا ہوا تھا اور مونیکا جادوگرنی اس دائرے میں بیٹھی منتر پڑھنے میں مصروف تھی۔ اس کے سامنے آگ جل رہی تھی جس میں سے دھواں نکل رہا تھا۔ پورے کمرے میں ہلکی ہلکی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ مونیکا جادوگرنی کی آواز بلند سے بلند تر ہورہی تھی۔ اچانک آگ سے نکلنے والے دھونے کی مقدار زیادہ سے زیادہ ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک مکروہ صورت شیطان نمودار ہوگیا۔ اس کے بڑے بڑے دو سینگ تھے اور بالوں کی جگہ پر چھوٹے چھوٹے سانپ لٹک رہے تھے۔ سانپ اس کے سر پر رینگ رہے تھے۔ یہ کالا شیطان تھا کالی طاقتوں کا سب سے بڑا شیطان۔ مونیکا جادوگرنی بتاو تم نے ہمیں کیوں بلایا ہے۔ کالے شیطان کی چنگھاڑتی ہوئی آواز آئی تو مونیکا جادوگرنی نے منتر پڑھنا بند کر دیا اور آنکھیں کھول دیں۔ کالے شیطان اے میرے مالک اے کالی طاقتوں کے سب سے بڑے مہان شیطان مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ مونیکا جادوگرنی نے سامنے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ بولو اے جادوگروں کی ملکہ تمہیں ہماری کونسی مدد کی ضرورت ہے۔ کالے شیطان نے کھڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا۔ کالی طاقتوں کے سب سے بڑے شیطان کالے شیطان مجھے ہمیشہ زندہ اور جوان رہنے کا کوئی طریقہ بتائیں۔ میں ہمیشہ زندہ اور جوان رہنا چاہتی ہوں۔ مونیکا جادوگرنی نے اس سے پوچھا۔ نہیں مونیکا جادوگرنی یہ نہیں ہوسکتا ہمیشہ زندہ رہنے کا عمل بہت مشکل ہے تم اسے نہیں کر سکتی ہو اس لیے تم اسے بھول جاؤ۔ کالے شیطان نے اسے منع کرتے ہوئے کہا۔ نہیں اے شیطانی طاقتوں کے بادشاہ مجھے عمل بتائیں میں اسے ضرور پورا کروں گی اور ہمیشہ اس دنیا میں زندہ رہوں گے۔ مونیکا جادوگرنی نے اس کی منت کرتے ہوئے کہا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے کا راز آج معلوم کرلینا ہی چاہتی تھی۔ ٹھیک ہے مونیکا جادوگرنی اگر تم سننا چاہتی ہوں تو ٹھیک ہے میں تمہیں عمل بتا دیتا ہوں۔ لیکن یاد رکھنا اس دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ جب بھی کالی طاقتیں حرکت میں آتی ہیں اس کے مقابلے میں روحانی طاقتیں بھی آجاتی ہیں۔ اس عمل سے تمہاری جان کو بھی خطرہ ہوگا۔ کالے شیطان نے مونیکا جادوگرنی سے کہا لیکن وہ بضد رہیں تو وہ عمل بتانے لگا۔ مونیکا جادوگرنی یہاں سے ہزاروں کلومیٹر دور ہمالیہ کے دامن میں بھیڑیوں کا ایک ملک کالاش ہے۔ وہاں کے بادشاہ کاشان کی ایک اکلوتی بیٹی ہے۔ اس کا نام شہزادی جولیا ہے۔ اگر تم کسی بھی طریقے سے شہزادی جولیا کو مار کر اس کے خون سے غسل کرو اور اسکے دل سے نکلے ہوئے خالص خون کا ایک پیالہ پی لو تو تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاو گی۔ تم قیامت تک زندہ اور جوان رہو گی۔ کالے شیطان نے اسے طریقہ بتاتے ہوئے کہا۔ ارے یہ تو انتہائی آسان طریقہ ہے میں اس دنیا کی سب سے بڑی جادوگرنی ہوں۔ میں ابھی جاتی ہوں اور شہزادی جولیا کو اٹھا کر لے آتی ہوں۔ مونیکا جادوگرنی نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ نہیں مونیکا جادوگرنی یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ کالاش ملک کے گرد ایک روحانی بزرگ نورشاہ نے حصار قائم کیا ہوا ہے۔ تم اس حصار کو توڑ کر کالاش میں داخل نہیں ہو سکتی ہو۔ تم جیسے ہی کالاش کی حدود کو کراس کروگی جل کر بھسم ہو جاؤ گی۔ تمہیں کسی بھی طریقے سے شہزادی جولیا کو کالاش سے باہر لانا ہوگا۔ لیکن وہ جیسے ہی روحانی حصار سے باہر آئے گی اس کی یاداشت چلی جائے گی اور وہ بھیڑیا بھی نہیں بنے گی۔ شہزادی جولیا روحانی حصار سے باہر نکلتے ہی عام انسان بن جائیں گی۔ تم اس کو تب ہی مار کر خون پی سکتی ہو جب وہ مکمل بھیڑیا بن گئی ہو۔ اگر تم نے اس کو انسانی حالت میں مار کر خون پیا تو تمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کالے شیطان نے پوری تفصیل سے اسے بتاتے ہوئے کہا۔