’’یار مجھے تیرے سے یہ امید نہیں تھی۔‘‘ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر آتے ہوئے میجر ارتضی نے پیچھے سے ایک دھپ میجر بلال کی کمر پر رسید کی۔ زور سے دھپ لگنے کی وجہ سے میجر بلال اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائے اور لڑکھراتے ہوئے صوفے پر گر گئے۔
’’آپ کو کسی کے گھر جانے کی تمیز نہیں ہے ارتضی صاحب؟‘‘ کمر کو سہلاتے ہوئے وہ سنبھل کربیٹھ گئے۔
تمیز کی بات اور وہ بھی بلال صاحب کے منہ سے۔کچھ ہضم نہیں ہوئی ہمیں یہ بات۔‘‘ میجر ارتضی صوفےپر ڈھے جانے کے انداز میں بیٹھ گئے۔
’’ارتضی صاحب بس آپ کو ہی ہم میں تمیز نظر نہیں آتی ورنہ دنیا گواہ ہے کہ مجھ سے زیادہ سلجھا ہوا بچہ اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے فرضی کالر جھاڑے۔
’’بھئی ہم تو شروع دن سے ہی اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا آپ کو آنکھیں بند کرکے دیکھتی ہے۔‘‘میجر ارتضی نے اپنا موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس بحث میں میجر بلال ان کے موبائل کو نقصان پہنچانے کی ضرور کوشش کریں گے۔
’’اچھا اب میرا برائی نامہ پڑھنا نہ شروع کردینا۔‘‘ میجر بلال نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے۔
’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آپ اپنے برائی نامہ میں ایک عدد اور برائی کا اضافہ کرچکے ہیں۔‘‘ میز پرپڑی چلغوزوں کی پلیٹ سے کچھ چلغوزے اٹھا کر انہوں نے منہ میں ڈالے۔
’’اللہ خیر کرے۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ جناب اس دفعہ میری کونسی برائی لیکر حاضر ہوئے ہیں۔‘‘ صوفے کی ٹیک سے کہنی ٹکاتے ہوئے وہ ہمہ گوش ہوئے۔
’’تم نے منگنی کروالی اور مجھے بتایا تک نہیں۔‘‘ وہ ابھی تک شاکڈ تھے۔
’’تو مجھے کونسا کسی نے بتایا تھا۔وہ توجب ماما نے ابرش کو انگوٹھی پہنائی تھی تب مجھے پتا چلا۔حالانکہ میں تو وہاں انہیں صرف لڑکی دکھانے کے لیے لیکر گیا تھا۔اب مجھے کیا پتا کہ ماما کو اپنے بیٹے کی پسند اتنی پسند آئے گی۔‘‘ وہ کتنا انجان بن رہے تھے اس وقت۔میجر ارتضی جانتے تھے سب۔
’’تم مجھ سے پہلے منگنی کیسے کرسکتے ہو؟‘‘ اصل مدعا تو یہ تھا جو انہیں میجر بلال کے پاس کھینچ کرلایا تھا۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ میجر بلال جو فریج میں سے دودھ نکالنے کے لیے گئے تھے ،اصل بات سمجھتے ہوئے پلٹے۔
’’میں بھی کہوں کہ ارتضی صاحب کو میری منگنی پر اعتراض کیونکر ہوسکتا ہے۔‘‘
’’جو بھی سمجھو لیکن تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی ہے۔‘‘وہ بھی اٹھ کر کیچن میں میجر بلال کے پاس آگئے۔
’’بلال وعدہ خلافی نہیں کرتا۔لیکن اب تمہاری قسمت میں ہی نہیں تھی مجھ سے پہلے منگنی تو میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ چولہا جلاتے ہوئے انہوں نے کندھے اچکائے۔
’’اچھا چھوڑو۔آملیٹ ہی بنا لو میں تب تک چائے بنا لیتا ہوں۔ بھوک بہت لگی ہے۔‘‘ انہوں نے فرائنگ پین میجر ارتضی کی جانب بڑھایا۔
’’میں یہاں تمہاری پیٹ پوجا کروانے نہیں آیا۔‘‘ آسان لفظوں میں انکار کرتے ہوئے وہ شیلف پر سپرنگ کی طرح اچھل کربیٹھ گئے۔
’’تو پھر کیا یہاں آم لینے آؤ ہو؟‘‘ ساس پین میں پانی ڈال کر چولہے پرچڑھاتے ہوئے وہ ان کی جانب متوجہ ہوئے۔
’’میں یہاں نہ ہی آم لینے آیا اور نہ ہی چلغوزے۔میں تو یہاں تمہاری کہانی سننے آیا ہوں۔‘‘وہ شیلف سے آملیٹ بنانے کے اتر آئے کیونکہ انہیں بھی اس وقت زبردست بھوک لگی ہوئی تھی۔
’’کونسی کہانی؟‘‘ انہوں نے ناسمجھی کے عالم میں استفسار کیا۔
’’میری جان آنٹی کو لڑکی دکھانے لیکر جانے والی بات۔یہ لڑکی کہاں سے آئی؟‘‘ شرارت سے کہتے ہوئے میجر ارتضی کے رخساروں میں پڑتے بھنور گہرے ہوگئے۔
’’اچھاااااا۔۔۔‘‘ انہوں نے کھینچ کر کہا۔
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں صبح صبح ماما سے مل کر واپس فلیٹ میں آرہا تھا کہ مجھے صبح کے اس پرنور سمے میں وہ خوبصورت سی پری دکھائی دی۔بس پھر کیا تھا اگلے دن ہی میں جاگنگ ٹریک پہنےوہاں پہنچ گیا۔اب یہ میری خوش قسمتی تھی کہ وہ اسی دن بارش سے ہونے والی کیچڑ میں پاؤں پھسلنے سے گرگئی۔اورمیں نیکی کی غرض سے اسے اٹھانے کے لیے وہاں چلا گیا۔یوں پہلی بار میری اس سے ملاقات اس حالت میں ہوئی کہ اس کی ناک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔اور وہ صورت میرے دل و دماغ پر نقش ہوکر رہ گئی۔قدرت بھی یہی چاہتی تھی اس لیے راہیں ہموار ہوگئیں اور بات چل نکلی،اور پھر چلتے چلتے یہاں تک پہنچ گئی۔‘‘ شاعرانہ انداز میں پورا قصہ سناتے ہوئے وہ کسی اور ہی جہان میں پہنچ گئے تھے۔
’’آہم۔آہم۔‘‘ میجر ارتضی کو ہی انہیں واپس حقیقی دنیامیں واپس لانا پڑا۔
حقیقی دنیا میں واپس آتے ہی ان کے لبوں کی مسکان گہری ہوگئی۔
’’اچھا مجھے چھوڑو۔اپنا سوچو۔اب اپنے لیے بھی کوئی ڈھونڈ ہی لو ورنہ شادی کے لیے میں کوئی نہیں انتظار کرنے والا۔‘‘ ساس پین سے چائے کپوں میں انڈیلتے ہوئے انہوں نے ارتضی حدید کو خبردار کیا۔
’’آہ،ہماری اتنی قسمت کہاں۔‘‘ اک حسرت بھری آہ ان کے لبوں سے نکلی تھی۔
’’تمہیں لڑکیوں کی کمی ہے کیا؟‘‘ گہری ہوتی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے ایک کپ میجر ارتضی۔کی جانب بڑھایا۔
’’یار مجھے توکوئی بھی نظر نہیں آتی۔‘‘ کپ پکڑنے کے لیے انہوں نے فرائنگ پین واپس شیلف پررکھ دیا۔فی الحال وہ دونوں اپنی بھوک بھول چکے تھے۔
’’تو پھر کیا نظر آتا ہے تمہیں؟‘‘ چائے کا سپ لیتے ہوئے انہوں نے حیرت سے استفسار کیا۔
’’یار دادی ماں کہتی تھیں کہ ارتضی ہرلڑکی کو بہن کی نظر سے ہی دیکھنا۔یقین جانو تب سے آج تک ہرلڑکی کو دیکھنے کے بعد یہی احساس ہوتا ہے کہ۔میں اس کا بھائی ہوں۔‘‘ نہایت معصومیت سے کہتے ہوئے انہوں نے چائے کا ایک گھونٹ بھرا
’’ہاہاہاہا۔۔۔تو اب کیا ساری عمر بھائی بن کر ہی رہنے کا ارداہ ہے کیا؟‘‘ کپ تھامے وہ کیچن سے باہر چلے آئے۔
’’ تومیں اب کیا کروں؟‘‘ وہ اس صدی کا عظیم مسئلہ لیے ہوئے تھے۔
’’میری شادی کی تیاری۔‘‘ کیا خوب حل بتایا تھا انہوں نے۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔۔وہ تو مجھے پتا ہی ہے کہ تم لوگوں نے۔مجھے اپنی شادیوں میں صرف بھنگڑا ڈالنے کے لیے ہی رکھا ہوا ہے۔‘‘ قہقہہ لگانے سے ننھے بھنور اور گہرے ہوگئے۔
’’بالکل۔‘‘ میجر بلال نے ان کے دائیں جانب والے ڈمپل کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ انہیں بہت پسند تھا۔
’’اچھا چھوڑو۔یہ بتاؤ کہ شادی کی کونسی تاریخ رکھی ہے؟‘‘ سب سے ضروری سوال کرنا تو وہ بھول ہی گئے تھے۔
’’اگلے مہینے کی پندرہ تاریخ۔‘‘ موبائل پر آئے نوٹیفیکیشن کو چیک کرتے ہوئے انہوں نے ایک اور بم میجر ارتضی کی سماعتوں میں پھوڑا تھا۔
’’کیا؟‘‘ وہ شاک لگنے سے صوفے پر اچھل پڑے۔
’’کیا مطلب کہ کیا؟‘‘ نوٹیفیکشن چیک کرتے ہوئے وہ حیرت سے ان کی جانب پلٹے۔
’’یار تمہیں شادی کروانے کی کتنی جلدی ہے۔اب میں اتنے عرصے میں کہاں سے لڑکی ڈھونڈوں گا؟‘‘میجر ارتضی کا مسئلہ ابھی بھی لڑکی کی تلاش پر ہی اٹکا ہوا تھا۔
’’تو تم نے کیا کرنا ہے لڑکی ڈھونڈ کر؟‘‘میجر بلال انجان بن رہے تھے۔
’’مطلب تو شادی بھی میرے بغیر کروائے گا؟‘‘ انہیں میجر بلال سے اس قدر بے وفائی کی امید نہیں تھی۔
’’ہاں تو۔منگنی ہوگئی تیرے بغیر،شادی بھی ہوجائے گی۔‘‘ میجر بلال نے پھرتی سے صوفی چھوڑ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب ارتضی کے ہاتھوں پٹنے کا وقت آگیا ۔
’’دیکھ لوں گا تمہیں۔‘‘ میجر ارتضی صرف دانت پیس کر ہی رہ گئے۔
’’اچھا یہ کپ دو اور کام کرو جاکر اپنا۔‘‘ میجر بلال ان سے کپ لیکر کیچن میں چلے گئے ۔
’’بیٹا اس دفعہ میں اپنا نہیں تمہارا کام کروں گا۔وہ ابھی ایسا کہ ساری زندگی یاد رکھو گے۔‘‘ دل ہی دل میں سوچتے ہوئے وہ مسکرائے تھے۔
(ـــــــــــــــــــــــــــــ)
وقت گھوڑے پر سوار ہوکر بڑی سرعت سے آگے کی جانب رواں دواں تھا۔زماں کے محل میں وہ شام اتری تھی جس میں دو چاہنے والوں کے ہاتھوں پر ایک دوسرے کے نام کی مہندی لگنے جارہی تھی۔
تاروں سے سجی رات مہندی کی سوندھی خوشبو سے مہک رہی تھی۔
میجر بلال اور ابرش کی مہندی کی رسم ابرش کے گھر ہی ہونے جارہی تھی۔ڈیکوریشن اور دیگر انتظامات میجر ارتضی نے ہی کیے تھے۔پورا لان چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔یوں جیسے جگنو اس آنگن میں اتر آئے ہوں یا پھر آسمان سے تارےچھوٹی چھوٹی روشنیوں کا روپ دھار کر وہاں بکھر گئے ہوں۔
آئی مہندی کی یہ رات
لائی سپنوں کی بارات
سجنیا ساجن کے ہے ساتھ
رہے ہاتھوں میں ایسے ہاتھ
لان میں ایک طرف لگے ساؤنڈ سسٹم سے جواد احمد کی آواز نکل کر ماحول کو اور بھی پررونق بنا رہی تھی۔
گوری کرتے سنگھار
گوری کرتے سنگھار
چھوٹی چھوٹی بچیاں لہنگے پہنے ہاتھوں پر مہندی لگائے اٹکھیلیاں بھرتے ہوئے ادھر سے ادھر بھاگ رہی تھیں۔ مہندی کی سوندھی خوشبو آنگن کو مہکا رہی تھی۔
ایسی سہانی البیلی سی
مہندی کی یہ رات ہو گوری
اجلے چہرے،ہنستی آنکھیں
خوشیوں کی برسات ہوگوری
خوشیوں کی برسات گوری کے آنگن میں برس رہی رہی تھی۔جس کے احساس سے ہوکوئی سرشار ہورہا تھا۔
میجر بلال کو ان کے تمام دوست لال رنگ کی چنری کے سائے تلے اسٹیج پرلائے تھے،جوکہ پیلے اور ہرے رنگ کے دوپٹوں سے سجایا گیا تھا۔میجر بلال سفید رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھےاور گلے۔میں پیچھے سے آگے کی جانب لٹکتے پیلے رنگ کی پٹی میں حسن کی دنیا کے بادشاہ نظر آرہے تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں ابرش کی کزنیں اور دوستٰن اسے لال رنگ کے دوپٹے کا سایہ کیے ہوئے اسے اسٹیج پر لائی تھیں۔
جوڑے میں جوہی کی بھیمی
بانہہ میں ہارسنگھار
کانوں میں جگمگ بالی پتا
گلے میں جگنو ہار
وہ پورے روپ میں آسمان سے اتری اپسرا لگ رہی تھی،جس کے ہاتھوں پر ساجن کے نام کی مہندی کارنگ خوب چڑھا تھا۔
صندل ایسی پیشانی پہ
بندیا لائی بہار
گوری کرتے سنگھار
گوری کرتے سنگھار
صندل پیشانی پر گلاب کے پھول کا ٹکا خوشی سے جھوم رہا تھا۔
دھیرے دھیرے چلتے شہزادیوں نے راج کماری کو راج کمار کے پہلو میں بٹھایا اوراس خوبصورت جوڑے کی بلائیں لیتے اسٹیج سے اتر آئیں۔
’’مہندی کی رات مبارک ہومادام۔‘‘ میجر بلال نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
’’آپ کو بھی۔‘‘ شرم و حیا کی قید کی وجہ سے وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔
مہندی کی رسم کا آغاز میجر بلال کی والدہ نے کیا۔اس کے بعدتمام مہمانوں نے اس جوڑے کو مہندی کولگائی۔میجر بلال کے دوستوں نے ابرش کے گھر والوں کی وجہ سے مہندی کی تمام رسوم کو شرافت سے ہی ادا کیا۔
مہندی کی رسم ختم ہونے کے بعد لان میں بچھی پیلی چادروں پر تمام لڑکے اور لڑکیاں دو گروپ بنا کر بیٹھ گئے۔
ڈھولکی میجر ارتضی نے تھام لی۔حالانکہ ابرش کی کزنیں ڈھولکی بجانا چاہتی تھیں۔
’’چلو لڑکیو،ہمت ہے تو آج ہمارے میجر صاحب کا مقابلہ کرکے دکھاؤ۔‘‘ لیفٹیننٹ صائم نے انہیں مقابلے کے لیے للکارا۔
’’آپ کے یہ میجر بہت جلد ہمارے آگے ہارماننےوالے ہیں۔‘‘پہلی قطارمیں بیٹھی لڑکی نے ایک ادا سےکہتے ذومعنی لہجے میں ایک پیغام ارتضی حدید کے گوش گزارا تھا۔
’’مادام،ارتضی حدید اتنی جلدی گھٹنے ٹیکنے والوں میں سے نہیں ہے۔‘‘ گالوں کے بھنور گہری کرتی مسکراہٹ نے اس لڑکی کو چپ کروا دیا۔اور وہ اس عزت افزائی پر برا سامنہ بنا کر رہ گئی۔
ماحول میں یکدم بڑھتی سنجیدگی کو ختم کرنے کے لیے میجر ارتضی نے ڈھولکی بجانا شروع کی۔
کنڈا لگ گیا تھالی نوں
کنڈا لگ گیا تھالی نوں
ہتھاں اتے مہندی لگ گئی
اک قسمت والی نوں
میجر ارتضی نے دلکش مسکراہٹ کے ساتھ ابرش کو دیکھتے ہوئے پہلا ٹپہ گایا۔ابرش نے مسکراتے ہوئے ہاتھ الٹے کرکے اپنی مہندی ان سب کودکھائی۔
چٹا ککڑ بنیرے تے
چٹا ککڑ بنیرے تھے
کاشنی دوپٹے والیے
منڈا عاشق تیرے تے
ابرش کی کزن لائبہ کے ٹپے پر میجر بلال کا قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔کیونکہ لائبہ کا اشارہ میجر بلال کی ہی جانب تھا۔
میجرارتضی جتنا خوبصورت گاتے تھے اتنی ہی خوبصورت ڈھولکی بھی بجاتے تھے۔آج تو ویسے بھی ان کے جگر کی شادی تھی اس لیےسر اور تال مقابلہ جیتنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
دوکاراں بازار آئیاں
دوکاراں بازار آئیاں
جھڑکے نہ دئیں سوہینے
اکھاں کرن دیدار آئیاں
’’واہ،کیا کہنے۔‘‘ لیفٹیننٹ صائم نے چمچ ڈھولکی پر زور سے بجاتے ہوئے داد دی۔
کوئی جوڑا پکھیاں دا
کوئی جوڑا پکھیاں دا
اک ڈھولا آپ سوہنا
دوجا ظالم اکھیاں دا
’’اؤئے ہوئے۔‘‘ میجر بلال لڑکیوں کی طرف سے آتے ہوئے ٹپوں پر ہی داددے رہے تھے۔
’’بس کرو،یہ ٹپے مجھے سمجھ نہیں آتے۔گانے گاؤ ناں آپ۔‘‘ میجر بلال کے ایک کزن کے سر سے یہ ٹپے گزر رہے تھے۔
’’میجر صاحب میرے بھائی کی درخواست پر عمل فرمایا جائے۔‘‘ میجر بلال بھی اٹھ کر ان کے پاس آگئے۔
’’جو حکم آپ کا۔‘‘ میجر ارتضی سینے پر ہاتھ رکھ کر زرا سا جھکے۔
ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو
میرے سنگ سنگ گاؤگوریو
شرماؤ نہ لگا کے مہندی
ذرا تالیاں بجاؤ گوریو
اگر مرمرا کے سمندرمیں سطح آب سے گہرائی کی جانب بنتے بنھور کسی انسانی چہرے پر نظر آتے تو وہ میجر ارتضی حدید کے گالوں کے ننھے ننھے گڑھے ہوتے۔
یہ گھڑی ہے ملن کی
اک سجن سے سجن کی
میجر ارتضی ابرش کو بھی اسٹیج سے لے آئے۔
اگر جزیرہ پرستان کی ملکہ کا حقیقی دنیا میں کوئی وجود ہوتا تو وہ ابرش کے روپ میں نظر آتی۔
یہ گھڑی ہے ملن کی
اک سجن سے سجن کی
میجر بلال مسکراتے ہوئے صرف تالیاں بجانے پر ہی اکتفا کررہے تھے۔
اگر دنیا کی حسین مسکراہٹ کا انتخاب کیا جاتا تو وہ میجر بلال کے لبوں پرسجنے والی دلکش مسکراہٹ ہوتی۔
رات چپکے سے آگے بڑھ رہی تھی۔خوشیوں کی ہوا آنگن میں لگے پودوں کوجھومنے پر مجبور کررہی تھی جوکہ چاہت بھرے سندیسے سننے والوں کی سماعتوں کی نذر کررہے تھے۔
’’یہ کیا؟ ساؤنڈ سسٹم میں بھی پاکستانی گانے لگائے ہوئے تھے اور آپ لوگ بھی پاکستانی فرسودہ گانے گارہے ہیں۔ذرا مزا نہیں آرہا۔لائیبہ وہ والا انڈین سانگ گاؤ ناں جو ابھی ریلیز ہوا تھا۔‘‘ لائبہ کے پیچھے بیٹھی بھاری بھر کم میک اپ میں ایک لڑکی نے ناگواریت سے کہا۔
میجر ارتضی کا ڈھولکی بجاتا ہاتھ رک گیا۔اور کھلکھلاتے چہرے پر غصے کی لہر دوڑ گئی۔فضا۔میں گھمبیر خاموشی چھاگئی۔
’’تو میڈم،آپ بھی پاکستانی ہیں۔پاکستان کی اگر ہرچیز فرسودہ ہے تو یقین جانیے آپ ان تمام چیزوں سے زیادہ فرسودہ ہیں۔کیونکہ آپ کی سوچ بہت فرسودہ ہے۔وہ ملک جسے ہم اپنا دشمن کہتے ہیں،آپ لوگ اسی کے کلچر کو پرموٹ کررہے ہیں۔ان کے گھٹیا گانوں کو اپنے فنکشنز میں چلانے سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کو ان کے غلیظ اورناپاک ارادوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ آپ کے لوگ ان کی وجہ سے مررہے ہیں۔آپ کے شہر ان کی وجہ سے جل رہے ہیں۔دھرتی ماں خون کے آنسو رورہی ہے۔فضائیں ماتم بنی بین کررہی ہیں۔ ہرروز باردڑ پر اتنے بے گناہ مارے جارہے ہیں۔اور آپ لوگوں کو اپنے ملک کی چیزیں فرسودہ لگ رہی ہیں اور انڈین سانگز بھلے؟ واہ،کیا کہنے۔ہم لوگ جاگتے ہیں تو آپ لوگ سوتے ہیں۔کیوں؟‘‘
اس بات کا جواب وہاں موجود کسی کے پاس نہیں تھا۔
’’کیونکہ آپ کے انڈیا کی گولیاں ہم لوگ اپنے سینوں پرکھاتے ہیں۔آپ لوگوں کا خون بہنے سے پہلے ہم اپنا خون بہا دیتے ہیں۔پھر تو یہ زخم دشمن ملک کے دیے ہوئے نہ ہوئے بلکہ اپنی ہی قوم کے دیے ہوئے ہیں جوکہ دن بدن گہرے ہی ہوتے چلے جارہے ہیں۔آپ لوگوں کو دشمن کی چیزوں پر پابندی لگادینی چاہیے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔کشمیر میں ہمارے بہن بھائی مررہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کو شہید کرنے کے لیے دشمنوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ اس پیسے سے آتا ہے جو آپ لوگ انکی غلیظ موویز دیکھنے کے لیے سینیما ہالز کودیتے ہیں۔آہ،افسوس کہ آج میرے قائد کی قوم کو اپنے ہی ملک کی چیزیں فرسودہ لگ رہی ہیں۔‘‘
لان میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔وہاں آواز گونج رہی تھی تو صرف اس محب وطن کی جو اس لڑکی کی بات پرتڑپ گیا تھا۔جس کا کلیجہ ایسے لوگوں کو دیکھ کر پھٹنے لگتا تھا۔وہ اور بھی کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن وقت اور جگہ کا احساس ہونے پر خاموش ہوگئے۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘
''You guys,carry on۔''
ڈھولکی صائم کو پکڑا کر وہ وہاں سے چلے آئے۔
محب وطن لوگ ایسی بات برداشت نہیں کرسکتے۔یہ لوگ موت کی تکلیف تو سہہ لیتے ہیں لیکن اپنے ملک کے خلاف بات برداشت کرنے کی سکت ان میں نہیں ہوتی۔
میجر بلال بھی ان کے پیچھے چلے آئے۔وہ باہر راہ داری میں کھڑے تھے۔میجر بلال نے نرمی سے ان کے کندھے پرہاتھ رکھا تووہ دھیرے سے پلٹے۔ ننھے ننھے آنسو ان کے چہرے پرلڑھ رہے تھے۔
میجر بلال نے آگے بڑھ کر انہیں گلے سے لگایا اور ان کی پیٹھ کو تھپایا۔وہ جانتے تھے کہ ارتضی کو اس مٹی سے کتنا پیار تھا۔
’’آئی ایم سوری۔ مجھے پتا نہیں کیا ہوگیا تھا۔‘‘ان سے الگ ہوکر وہ چہرہ آسمان کی جانب کرکے کھڑے ہوگئے۔
’’تمہیں جو بھی ہوا تھا مجھے اس پرفخر ہے۔‘‘ ان کا کندھا دباتے ہوئے وہ دل سے مسکرائے تھے۔
’’کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘ انہیں آسمان کی جانب متوجہ پاکر میجر بلال نے استفسار کیا۔
’’یہی کہ آج کے دن کون کونسے تارےمیرے جگر کی مہندی پر جھرمٹ کی شکل میں آسمانِ محبت پر چمک رہے ہیں۔‘‘لہجے سے شرارت عیاں تھی۔
’’ہاہاہاہا۔۔۔۔تم نہیں سدھرو گے۔‘‘ ایک دھپ رسید کرتے ہوئے میجر بلال نے انہیں پیار سے گلے لگایا۔
’’یقین جانو،میرے بعد تم لوگوں کو میرے سلجھے ہونے کی گواہی دو گے۔دیکھ لینا۔‘‘ مرمرا کے سمندر میں پڑتے بھنور اور گہرے ہوگئے۔
’’بکواس نہ کرو اور چلو۔‘‘میجر بلال ان کی بات نظر انداز کرگئے تھے وہ جانتے تھے کہ ارتضی کا اشارہ کس طرف تھا۔
’’ہاں چلو۔‘‘انہوں نے لان کی جانب قدم بڑھا دیے۔ان کے کانوں میں ہمیشہ کی طرح مہدی حسن کی آواز گونج رہی تھی۔
اس زمین کی مٹی میں
خون ہے شہیدوں کا
ارض پاک مرکز ہے
قوم کی امیدوں کا
نفرتوں کے دروازے
خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو
سربلند ہی رکھنا
(ـــــــــــــــــــــــــــــــــ)
آخر وہ دن بھی آن پہنچا جس کے لیے دودل بے قرار تھے۔جس دن دوپیار کرنے والے زمانے بھر کے سامنے ہمیشہ کے لیے ایک ہونے والے تھے۔جس دن محبت کا کبوتر وصل کہ چٹھی لیے ان کے عشق کے۔محل کی دیوار پر آن بیٹھا تھا۔
محبت کرنے والے اس دن کو مقدس مانتے ہیں۔
مقدس سنت کی ادائیگی کا مقدس دن۔مقدس فرض کی ادائیگی مقدس جگہ ہونے جارہی تھی۔بادشاہِ کائینات کا گھر خوبصورت پھولوں سے سجایا گیا تھا۔مسجد کے پاکیزہ دردیوار ان پر اپنی رحمتوں کا سایہ کیے ہوئے تھے۔
سبز قالینوں پرگھٹنوں کے بل بیٹھے تمام لوگ عشق کے ادب میں سرجھکائے بیٹھے تھے۔
مولوی صاحب خدا کے حکم سے ایک سنت پوری کرنے جارہے تھے۔اس لیے سب احترام خود پر واجب کیے ہوئے مولوی صاحب کوسننے کے لیے بے تاب تھے۔
مولوی صاحب اقرار نامہ لیکر محبت کی دیوی کے پاس پہنچے اور زیرلب سلطنت عشق سے محبت۔کے دیوتا کا گزارش نامہ سنانے لگے۔جس پر محبت کی دیوی نے اپنا سر تسلیم خم کردیا۔
اور قبول ہے۔
قبول ہے،کہہ کر اقرار نامے پر اپنے دستخط نقش کردیے۔پیامبر اب مقدس فرض کی ادائیگی کے لیے بادشاہ عشق کے پاس پہنچا۔سماعتیں اب بادشاہ کی ہاں سننے کو بے تاب تھیں۔
محبت نامہ پڑھا گیا اور بادشاہ نے اپنے دل کی حکمرانی محبت کی دیوی کو سونپ دی۔
فضامیں مبارک ہو،مبارک ہو کی صدائیں بلند ہوئیں اور بادشاہ کائینات کا گھر سلامتیوں سے بھر گیا۔
محبت نے دلوں پر احترام واجب کردیا اور خود نازاں ہوکر ان کے دلوں میں تخت لگا کر بیٹھ گئی۔
سب میجر بلال سے باری باری بغلگیر ہوئے اور سلامتی کی دعائیں ان کے دامن میں ڈالتے گئے۔
ڈھیروں دعائیں سمیٹنے کے بعد ان دونوں نے اللہ کے حضور شکرانے کا سجدہ ادا کیا۔سرخ محراب نما مسجد کی چھت تلے ابرش میجر بلال کے پیچھے کھڑے شکرانے کے نوافل ادا کررہی تھی۔ آسمان سے دونوں پر اللہ کی نوازشیں برس رہی تھیں۔
(ــــــــــــــــــــــــــــ)
نکاح جیسی سنت کی ادائیگی کے بعد شہزادی کو دلہن کا روپ دیا گیا۔محبت کی دیوی کو بادشاہ کے لیے سجایا گیا۔
سرخ رنگ کے لہنگے میں ابرش سنگ مرمر سے بنی کسی مورتی کی مانند نظر آرہی تھی،جسےمجسمہ ساز نے بنانے سے پہلے پہروں سوچا ہو اور پھر پہروں لگادیے ہوں اسے بنانے میں۔
سرخ رنگ سے سجا اسٹیج کسی سلطنت کے عظیم بادشاہ کا تخت نظر آرہا تھا۔جس کے سامنے لمبی قطارمیں سرخ قالین بچھایا گیا تھا۔سرخ رنگ کے قالین پر بڑی شان سے چلتے ہوئے راج کماری کو اسٹیج پر لایا گیا۔جس پر طلسمی دنیا کا شہزادہ طلسم بکھیرتا موجود تھا۔میجر بلال کالے رنگ کی شیروانی میں ملبوس تھے۔
’’یار ابرش کتنی lucky ہے۔کتنا خوبصورت شوہر ملا ہے اسے۔‘‘ ابرش کی خالہ کی بیٹی لہجے میں رشک سے زیادہ حسد لیے اس کی دوست کے ساتھ اس جوؑے پرتبصرہ کررہی تھی۔
’’ہاں یہ تو ہے۔ہماری ابرش بہت خوش قسمت ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خقش قسمت اس کا شوہر ہے جسے ابرش جیسی بیوی ملی۔‘‘دوست تھی اس کے خلاف بات کیسے برداشت کرسکتی تھی۔
اس بات ابرش کی کزن منہ بسور کررہ گئی۔جسے ابرش کی دوست نے محسوس کرلیا تھا۔
’’تم بھی خوش قسمت ہوسکتی ہو اگر تم بھی اس راج کمار کو اپنے زندان میں قید کرلو تو۔‘‘ دل میں محظوظ ہوتے ہوئے ابرش کی دوست نے اسٹیج پر میجر بلال کی طرف اشارہ کیا۔جو کہ ہمیشہ کی طرح لڑکیوں کا دل چرانے کے لیے اسٹیج پر تشریف لا چکے تھے۔
’’اس میدان کو سر کرنا مشکل ہے۔لیکن تم دیکھ لینا ایک دن یہی مغرور راج کمار میرے آگے گھٹنے ٹیک کر بیٹھا ہوگا۔‘‘وہ میجر ارتضی کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی جو نجانے اسٹیج پر میجر بلال سے کن باتوں میں مصروف تھے۔
’’ہاہاہاہاہاہا۔‘‘یہ بات سن کر ابرش کی دوست اپنی ہنسی روک نہ پائی۔
’’کیا ہوا؟‘‘وہ ناگواریت سے اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
’’کچھ نہیں،بس کچھ یاد آگیا تھا۔‘‘اس نےاپنی ہنسی کو بریک لگانے کی ناکام کوشش کی۔
’’ہنہہ۔۔۔یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘ یہ خیال آتے ہی اسے پھر ہنسی کا دورہ پڑگیا۔جب کہ ابرش کی کزن اس کی اس حرکت پر بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
(ـــــــــــــــــــــــــــــــ)
مختلف رسوم ادا کرنے کے بعد راج کماری کو شہزادے کے سنگ ڈولی میں بٹھا کر دوسرے دیس رخصت کردیا گیا۔اپنوں کی جدائی سے ننھے آنسو سرخ گالوں پر بہہ نکلے تھے۔جیسے گلاب کے پھولوں پر شبنم پھوٹ آئی ہو۔مگر طلسمی شہزادے کے ساتھ نے اس کی ہمت بندھائی اور راج کماری نئی زندگی جینے سلطنت عشق میں آگئی جسے چھوٹئ چھوٹے قمقموں سے روشن کیا گیا تھا۔پورا گھر گلاب کی تازہ خوشبوؤں سے مہک رہا تھا۔میجر بلال کی والدہ اور کزن نے مہارانی کو کمرے میں بٹھایا جبکہ میجر بلال کو ان کزنوں نے پیسے نکلوانے کے لیے روک لیا۔جن میں میجر ارتضی بھی شامل تھے۔
’’یار تم تو مجھے جانے دو۔‘‘طلسمی شہزادے نے رحم طلب کرتی نگاہوں سے میجر ارتضی کو دیکھا۔
’’ہاں تو،پیسے دو اور جاؤ۔‘‘شانِ بے نیازی کیا ہوتی ہے کوئی میجرارتضی سے سیکھے۔
’’اچھا یہ لو۔‘‘میجر بلال نے ہارمانتے ہوئے والٹ نکالا جسے سرعت سے ارتضی حدید نے جھپٹ لیا۔
’’ارتضی کے بچے۔‘‘ میجر بلال نے دانت پیسے۔
’’کدھر ہیں؟‘‘ میجرارتضی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔جس سے سب کے قہقہے چھوٹ گئے۔
’’میرے بچوں کو چھوڑو اور جاؤ تمہاری بیگم صاحبہ تمہارا انتظارکر رہی ہوں گی۔‘‘ وہ جانتے تھے کہ اس وقت ان کا دوست بے بس ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
’’سارے پیسے نکلواؤں گا تم سے۔‘‘انہیں خبردار کرتے ہوئے وہ وہاں سے چلے گئے۔
’’یہ لو۔سب بانٹ لو۔‘‘ بھنور گہری کرتی مسکراہٹ سجائے انہوں نے والٹ لڑکیوں کودے دیا۔
(ــــــــــــــــــــــــــ)
دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے ایک نظر اپنا جائز لیا اور دروازے کی ناب گھماتے ہوئے دھیرے سے دروازہ کھولا۔دروازہ کھلتے ہی تازہ گلابوں کی خوشبو نے ان کا استقبال کیا۔سامنے دل کی ملکہ بیڈ پر گولائی میں لہنگا پھیلائے پھولوں میں پھولوں کا ہی حصہ نظر آرہی تھی۔
’’آہم،آہم‘‘ دروازہ بند کرکے وہ بازو سینے پر باندھ کروہیں کھڑے ہوگئے۔نظریں ابرش پر ہی تھیں۔ابرش نے پل بھر کے لیے پلکوں کواٹھا کردیکھا اور پھر شرماتے ہوئے سرجھکا لیا۔
’’شادی مبارک۔‘‘وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے بیڈ کے قریب آگئے۔
’’آپ کو بھی۔‘‘ تیز ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ وہ سرجھکائے بیٹھی تھی۔
میجر بلال نئ سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ایک سرخ رنگ کی مخملی ڈبیا نکالی اور اسے کھولتے ہوئے اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ڈبیا میں ایک خوبصورت بریسلٹ تھا جسے انہوں نے منہ دکھائی کے طور پر ابرش کی نازک کلائی سے باندھ دیا۔
’’کیسا ہے؟‘‘ اس کے ہاتھ پکڑتے ہوئے انہوں نے محبت سے اس بریسلٹ کو دیکھا جو اس کی کلائی کا حصہ بن کر اور بھی خوبصورت نظر آنے لگا تھا۔
’’بہت پیارا۔‘‘اس نے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں سے اسے چھوا۔
’’لیکن میری ابرش سے زیادہ پیارا نہیں۔‘‘اس کے ہاتھ کو نرمی سے دباتے ہوئے انہوں نے اسے اپنی نظروں کے سمندرمیں اتارا۔
وہ سرجھکائے بیٹھے شاید لفظوں کوترتیب دینے لگی۔لیکن لفظوں کے بادشاہ کے سامنے شکریہ کہنے کے لیے اسے مناسب لفظ نہیں مل رہے تھے۔
’’ابرش۔‘‘انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے پکارا۔
’’جی۔‘‘ شور مچاتی دھڑکن کے ساتھ وہ ان کی جانب متوجہ ہوئی۔
’’تم واقعی بہت خوش قمست ہو۔‘‘ انہوں نے اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ اس پری کا چہرہ دیکھا۔اس نے ناسمجھی کی عالم میں پلکوں کی جھالر اٹھاکرمیجر بلال کی جانب دیکھا لیکن نگاہیں چار ہونے پر اس نے فوری نظریں جھکا لیں۔
’’اتنا خوبصورت شوہر کہاں کسی کوملتا ہے۔‘‘شرارت سے کہتے وہ ذرا پیچھے ہٹے۔
’’جناب اپنی اس خوش فہمی سے نکل آئیں۔‘‘ وہ چوڑیوں کی کھنک فضا میں بکھیرنے لگی۔
’’ہاہاہاہا۔خیرچھوڑو۔میں آج تمہیں جلانا نہیں چاہتا۔‘‘احسان کرتے ہوئے انہوں نے اس کے جھمکے کی لڑی سیدھی کی جوکہ دوسری لڑی سے الجھ گئی تھے۔شرم و حیا سے ابرش کے رخسار دہکنے لگے۔
’’ویسے شرماتے ہوئے اور بھی اچھی لگتی ہو۔‘‘نظروں کے حصارمیں لیتے ہوئے وہ اور بھی شوخ ہوئے۔
’’شکریہ۔‘‘پہلی بار وہ شکریہ کہہ سکی۔
’’تمہاری طرف دیکھ کر مجھے ایک طویل غزل یاد آرہی ہے۔‘‘اس کے قریب ہی پڑے تکیے پر وہ کہنی کے سہارے نیم دراز ہوگئے۔
ادائیں حشر جگائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
خیال حرف نہ پائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
مدھر آواز کمرے میں جادو جگانے لگی۔
بہشتی غنچوں میں
گوندھا گیا صراحی بدن
گلاب خوشبو چرائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
بیڈ پرپڑی پتیوں کو وہ ایک ساتھ جوڑنے لگے۔
دہکتا جسم ہے
آتش پرستی کی دعوت
بدن سے شمع جلائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
نگاہیں اسی پرمرکوز تھیں۔وہ گلاب کی پنکھڑیوں کوترتیب دینے لگے۔
وہ پنکھڑی پہ اگر
چلتے چلتے تھک جائیں
تو پریاں پیر دبائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
شوخ مسکراہٹ لمحوں کو یادگار بنارہی تھی۔
وہ آبشارمیں
بند قبا کوکھولے اگر
توجھرنے پیاس بجھائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
مدھر لہجہ ابرش کوایک دلکش احساس سے سرشارکررہا تھا۔
چرا کے عکس
حنا رنگ،ہاتھ کاقارون
خزانے ڈھونڈنے جائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
ابرش کا ہاتھ پکڑتے ہوئے انہوں نے اس کے ہاتھوں پرلگی مہندی کے ہرنقش کو دیکھا۔
عقیق،لولوومرجان
ہیرے،لعل یمن
اسی میں سب نظر آئیں
وہ اتنے دلکش ہیں
خوبصورتی کو خوبصورت لفظوں میں سراہا جارہا تھا۔
شراب اور ایسی کہ
جودیکھے حشر تک مدہوش
نگاہ رند جھکائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
ہاتھ سے اس کی ٹھوڑی کو نرمی سے تھامتے ہوئے انہوں نے اس کا رخ اپنی جانب کیا۔
ہمیں تو اس کی جھلک
مست مور کرتی ہے
شراب اسی کو پلائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
ابرش کی پلکیں خوشی کے احساس سے لرز رہی تھیں۔
غزال نقش قدم
چوم چوم کرپوچھیں
کہاں سے سیکھی ادائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
رات سرک رہی تھی لیکن اپنے دامن میں حسین لمحوں کوسمیٹتے ہوئے وہ بھی خوشی سے سرشار ہورہی تھی۔
حسین پریاں چلیں
ساتھ کرکے سترہ سنگھار
اسے نظر سے بچائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
خوبصورت الفاظ کمرے کی فضامیں نقش ہورہے تھے۔
بہانے جھاڑو کے
پلکوں سے چارسو پریاں
قدم کی خاک چرائیں
وہ اتنے دلکش ہیں
میجر بلال کے خاموش ہونے پر کمرے میں گہری خاموشی چھاگئی۔صرف ابرش کی بڑھتی دھڑکنوں کا شور ہی وہاں زندگی ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔
’’تھینک یوبلال۔‘‘ آنکھوں کے نم گوشے صاف کرتے ہوئے اس نے اپنا سر میجر بلال کے کندھے پررکھ دیا۔
’’شکرہے کہ اس غزل کا کچھ تو تم پر اثر ہوا۔‘‘ شرارت سے کہتے انہوں نے اس اپنے بانہوں میں لے لیے۔
ابرش نے سرعت سے پیچھے ہٹتے ہوئے ایک مکا ان کے کندھے پررسید کیا۔
’’یار آج تو مجھے ان مکوں سے محروم رہنے دو۔‘‘کندھا سہلاتے ہوئے وہ بہت بےچارگی سے بولے۔
’’آپ اسی کے قابل ہیں۔‘‘ایک اور مکا اس نے ان کے دوسرے کندھے پر رسید کیا۔
’’بہت ظالم ہوتم۔‘‘مگر ابرش نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ چینج کرنے کے لیے بیڈ سے اتری ہی تھی کہ۔میجربلال نے اسے کلائی سے پکڑکرروک لیا۔
اس نے ابرو اچکائے۔
’’تھینک یو ابرش۔‘‘ کلائی کوذراسا دباتے ہوئے وہ جذباتی ہوئے تھے۔
’’کس لیے۔‘‘وہ شکریہ کی وجہ سمجھ نہ پائی۔
’’میری زندگی میں آنے کے لیے۔‘‘ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ وہ بہت خوبصورت اقرار کرگئے تھے۔
(ــــــــــــــــــــــــــــ)
نئی زندگی کی نئی صبح طلسمی شہزادے کے آنگن میں اتری تھی۔سورج کی کرنیں نئے رشتے میں بندھنے والے اس جوڑے کو جگانے آسمانِ عشق سے آئی تھیں۔تازہ ہواسلامتی بن کر آنگن میں کھلے پھولوں کوجھومنے پر مجبور کررہی تھی۔
میجر بلال اور ابرش ابھی سو رہے تھے۔نیچے ہال سے آتی شور کی آواز نے میجر بلال کو نیند کی دیوی کے حصار سے آزاد کردیا۔
’’اف۔یہ ارتضی آیا ہوگا۔‘‘ نیند میں بڑبڑاتے ہوئے انہوں نے پہلو بدلا۔نیم واآنکھیں جب پہلو میں سوئی ہوئی ابرش کے معصوم چہرے پرپڑیں توساری زندگی نیند اڑن چھو ہوگئی۔
میجر بلال نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پر آئی لٹوں کوپیچھے ہٹایا۔لمس محسوس ہوتے ہوئے وہ کسمسائی اور پھر کسی خیال کے تحت آنکھیں کھول دیں۔
’’گڈ مارننگ۔‘‘ مسکراتے ہوئے انہوں نے ایک نئی صبح کی نوید دی۔
’’گڈ مارننگ۔‘‘ایک خوبصورت مسکراہٹ میجر بلال کی طرف اچھالتے ہوئے وہ بیڈ کی ٹیک کے سہارے بیٹھ گئی۔
’’طوفان سے لگتا ہے کہ نیچے ارتضی صاحب آگئے ہیں۔اگر میں ایک منٹ بھی لیٹ ہوگیا تو جناب نے میرا حشر نشر کردینا ہے۔‘‘ سرعت سے کمبل پرے دھکیلتے ہوئے وہ فریش ہونے کے لیے واش روم چلے گئے۔
’’اف یہ میجر صاحب کے میجر صاحب۔‘‘ مسکراتے ہوئے اس نے جھرجھری لی۔
بالوں کو کیچر میں مقید کرتے ہوئے وہ کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہوگئی جو کہ باہر کی جانب کھلتی تھی۔کھڑکی کا پٹ وا ہوتے ہی تازہ ہوا کے جھونکے نے اس کے چہرے کا طواف کیا۔سورج کی کرنوں کےگدگدانے سے وہ پورے دل سے مسکرائی تھی۔ابھی پوری زندگی پڑی تھی جو اس صبح کی طرح روشن تھی۔
(ــــــــــــــــــــــــــ)
ولیمے کی رسم کے بعد میجر بلال ابرش کے ساتھ اس کی چچی کے گھر آئے تھے۔شام میں انہیں اور میجر ارتضی کو ڈیوٹی کے لیے نکلنا تھا۔بڑی مشکل سے دونوں کو دودن کی چھٹی ملی تھی۔وہ ابرش کو اس کی چچی کے گھر ہی چھوڑ آئے تھے تاکہ وہ کچھ دن ان کے ساتھ ہی رہ لے۔
ابرش ان کے جانےسے اداس ہوئی تھی۔لیکن اب وہ ایک فوجی کی بیوی تھی جس پر اس وطن کازیادہ حق تھا۔یہ ایک عام دلہن کے لیے قابل قبول بات نہ ہو لیکن یہی حوصلے ہوتے ہیں جن سے اس وطن کے بیٹوں کی بیویاں اپنے سہاگ کو وطن کی خاطر رخصت کرتی ہیں۔
’’ابرش یہ تمہارے لیے بڑی بات نہیں ہونی چاہیے کہ میں گھر کتنی دیر کے لیے آتا ہوں اور کب آتا ہوں۔بلکہ تمہارے لیے اس بات کی زیادہ اہمیت ہونی چاہیے کہ تمہارا شوہر اس وطن کی خاطر اپنا فرض ادا کررہا ہے یا نہیں۔تم ایک فوجی کی بیوی ہو کسی عام انسان کی نہیں۔تمہارا شوہر پہلے اس دھرتی کا بیٹا ہے۔اور یہ دھرتی تم سے زیادہ مجھ پر حق رکھتی ہے۔اس لیے کبھی بھی اس چیز کو لیکر شکوہ نہ کرنا۔بلکہ فخر کرنا کہ تم اس دھرتی کے بیٹے کی بیوی ہو۔‘‘جانے سے پہلے وہ یہ ضروری باتیں اسے ذہن نشین کرواگئے تھے جنہیں ابرش نے نہایت خوش دلی سے قبول کرکے میجربلال کے دل میں اپنے مقام کو اور بلند کردیا تھا۔
(ـــــــــــــــــــــــــ)