’’ماں میں کچھ دنوں کے لیے پاکستان جارہی ہوں۔‘‘
ریسٹورنٹ سے واپسی پر صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوئے اس نے کہا۔
اس کی ماں آتش دان میں جلتے آگ کے آلاؤ کے سامنے ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھے اون کا سویٹر بن رہی تھی۔
ماریہ کی بات سن کر اس کے تیزی سے سویٹر بنتے ہاتھ رک گئے۔اور وہ بیٹی کو حیرت سے تکنے لگی۔اپنی بیٹی کے ذہنی توازن سے وہ بخوبی واقف تھی لیکن اس کے دماغ میں یہ خیال آنا ان کی توقع کے خلاف تھا۔
’’کیاہوا؟‘‘
اپنی ماں کے یوں دیکھنے پر اس نے استفسار کیا۔
’’یہ تمہیں بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی ہے؟‘‘
وہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئیں۔
’’نہیں۔بیٹھے بیٹھے نہیں سوجھی تھی ،میں تب کھڑی تھی جب مجھے یہ خیال آیا تھا۔‘‘
وہ اپنے سفر کی تھکن کو چٹکلوں میں ضم کرنا چاہتی تھی۔
’’مجھے پتا ہے تمہارےبدماغ میں ایسی فضول باتیں تبھی آتی ہیں جب تم بے کار بیٹھی ہوتی ہو۔‘‘
ماں سے زیادہ کون جانتا تھا اسے۔
’’ہاہاہاہا۔۔۔۔۔اب ایسی بھی بات نہیں۔‘‘ اس قدر عزت افزائی پر وہ صوفے پر چوکڑی مار کر بیٹھ گئی۔
’’کیوں جا رہی ہو پاکستان؟‘‘
انہوں نےاون کے گولے کو زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’وہ آپ کو بتایا تھا ناں کہ مجھے ایک پراجیکٹ ملا ہے۔بس اسی کے سلسلے میں پاکستان جارہی ہوں۔‘‘
وہ اب اپنی ماں کے قدموں کے پاس آکر ایک گدی پر بیٹھ گئی۔
’’مگر کیوں؟‘‘
گولے میں گرہ پڑ گئی تھی۔
’’میں نیٹ سے سرچ کرکے اتنا اچھا تھیسس نہیں بنا سکتی جتنا میں ان جگہوں کو براہ راست دیکھ کر بنا سکتی ہوں۔‘‘
وہ گولے کو زمین پر گھومتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
’’اور یہ مشورہ کس نے دیا تمہیں؟‘‘
گرہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
’’اتنا اچھا مشورہ کون دے سکتا ہے بھلا؟‘‘
اس نے ہاتھ سے گولا روک کر ڈوری کے نچلے جانب والی گرہ کو کھولنے کی کوشش کی۔
’’ایسے مشورہ تو صرف تمہارا دماغ ہی دے سکتا ہے۔‘‘
اس کی ماں اون کے گولے کو کھول کر سلائی پر بیضوی شکل دے رہی تھی۔مگر گرہ آڑے آگئی تھی۔
’’ظاہری بات ہے میرے جیسا عقلمند اور کون ہے پورے لندن میں ـ‘‘
گرہ بہت باریکی سے آئی تھی۔وہ اسے ناخنوں سے کھولنےکی کوشش کرنے لگی۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ گرہ کھل گئی تھی۔
’’مگر کتنے دنوں کے لیے جارہی ہو؟ کس کے ساتھ جارہی ہو؟اکیلے میں تمہیں جانے نہیں دوں گی۔‘‘
اس کی ماں نے ڈوری ایک سرے سے پکڑ کر اوپر کو اٹھائی اور گولا زمیں پر تڑپنے لگا۔
’’میں اکیلے کب جارہی ہوں۔آپ کو تو پتا ہے کہ میں کبھی اکیلے لندن سے باہر نہیں گئی اور یہ تو پھر بھی ملک سے باہر جانے کی بات ہے۔‘‘
بڑا گولا سلائی پر چھوٹے گولے۔میں تبدیل ہورہا تھا۔اس کی ماں ایسا آسانی کے لیے کر رہی تھی تاکہ سویٹر بننے کے دوران دوبارہ کوئی گرہ آڑے نہ آئے۔
’’ تو پھر تم یقیناً اپنے ان شیطان دوستوں کے ساتھ جارہی ہوگی۔‘‘
بڑا گولا چھوٹے میں اور چھوٹا گولا بڑے میں تبدیل ہورہا تھا۔
’’شیطان تو نہ کہیں ان کو۔‘‘
وہ گولے کی حرکات کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔
’’پورے لندن کا جینا حرام کیا ہے انہوں نے۔تو پھر شیطان نہ کہوں تو اور کیا کہوں۔‘‘
بڑا گولا ختم ہونے کے قریب تھا۔
’’بس کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے۔‘‘
بڑا گولا بے بس نظر آرہا تھا۔
’’ اچھا سوچنا پڑے گا اس بارے میں۔‘‘
قریب ہی تھا کہ بڑا گولا اپنا وجود کھو بیٹھے۔
’’ابھی بتائیں۔مجھے پھر آسٹن لوگوں کو بھی بتانا ہے۔‘‘
اس کی ماں سوچ میں ڈوب گئی اور بڑا گولا جو کہ اب بہت چھوٹا ہوگیا تھا کچھ پل کے لیے تھم گیا۔
’’ہممم۔۔۔۔ٹھیک ہے،چلی جانا۔‘‘
گولا تیزی سے گھوما اور اپنی شناخت کھو بیٹھا۔
’’تھینک یو سووووو مچ مائے ڈئیر مام۔‘‘ اس نے خوشی سے اچھلتے ہوئے اپنی بانہیں ماں کی گردن میں ڈال دیں۔
’’کوشش کرنا کہ تم وہاں کم سے کم دن رہو۔‘‘ گولے کو اب انہوں نے سلائی کی قید سے آزاد کردیا تھا۔
’’امید ہے کہ ہم دو ہفتوں کے اندر اندر آجائیں گے۔‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے دوبارہ صوفے پر نیم دراز ہوگئی۔
’’اچھی بات ہے۔‘‘ اس کی ماں دوبارہ سویٹر بننے میں مشغول ہوگئی۔
جبکہ وہ خود کو خوابوں کی دنیا میں گھمانے چلی گئی۔
(ــــــــــــــــــــــــ)
وہ سب شام کو لندن برج پر ملنے والے تھے۔ اس لیے سب نے اپنے کام ایک دن پہلے کسی حد تک مکمل کرلیے تھے۔وہ سب ایک دوسرے سے کسی بھی قسم کی مصروفیت کی قید سے آزاد ملنا چاہتے تھے۔
شام کو وہ مقررہ وقت پر لندن برج کے سامنے کھڑے تھے۔اور ماریہ کا انتظار کررہے تھے جس کی ہمیشہ لیٹ پہنچنے کی عادت تھی۔
لندن برج۔۔۔۔۔
عظیم دریا،دریائے ٹیمز کے اوپر بنا یہ عظیم پل،کسی عظیم دور کی چغلی کھاتا دکھائی دیتا تھا۔
یہ عظیم دریا جہاں لندن جیسے خوبصورت شہر کو دولخت کرتا تھا وہیں یہ عظیم برج ان دوحصوں کو ملانے کا کام آتا تھا۔
ٹریفک کے اعتبار سے اس برج کا کوئی ثانی نہیں۔ ہرروز چالیس ہزار کے قریب لوگ اس عظیم الشان برج پرسے گزرتے ہیں۔ زیرِبرج بہنے والے دریا میں اگرچہ آمدورفت کم ہے لیکن اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ہرروز کئی چھوٹے بڑے جہاز وہاں سے گزرتے ہیں۔جن کی وجہ سے برج کو کچھ مقررہ اوقات میں بند اور کھولنا پڑتا ہے۔
’’ہیلوفرینڈز‘‘
لوگوں کی بھیڑ میں انہیں ماریہ کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’سوری،میں لیٹ ہوگئی ۔‘‘ اس نے اپنا پرانا فقرہ دہرایا جسے وہ ایسے مواقع پر بولتی تھی۔
’’کوئی بات نہیں،ہم بھی ابھی ہی آئے ہیں۔‘‘
آسٹن نے اپنی پی کیپ کوٹھیک کرتے ہوئے کہا۔نیلی آنکھوں میں وہی چمک تھی جو ماریہ کی طرف دیکھ کر اس کی آنکھوں کا حصہ بن جاتی تھی۔
’’میں نے تم لوگوں کو ایک اچھی خبر سنانا تھی۔‘‘
لوہے کے جنگلے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’کیسی خبر؟‘‘
بے صبر ٹالی بولی۔
’’ماما مان گئی ہیں۔‘‘ اس نے پرجوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’کس لیے؟‘‘
آرنلڈ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’پاکستان جانے کے لیے۔‘‘
وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اتنا خوش کیوں ہورہی تھی،لیکن اس کی یہ بات سن کر آسٹن کے چہرے پرسایہ سا ضرور لہرایا تھا۔
’’ارے واہ،یہ تو کمال ہوگیا۔‘‘
چارلس نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ ہم بہت جلد پاکستان پہنچنے والے ہیں۔‘‘
ٹالی مارے خوشی کے اچھلی تھی۔ان سب کی خوشی دیدنی تھی لیکن آسٹن اس خوشی سے لاتعلق نظر آرہا تھا۔
لندن برج شام کے گہری ہوتے ہی رنگا رنگ روشنیوں میں نہا گیا تھا۔وہ بھی جگمگ جگمگ کرتا ان کی اس خوشی میں شامل ہورہا تھا۔
’’تمہیں کیا ہوا ہے آسٹن؟‘‘
ماریہ یہ بات محسوس کرچکی تھی کہ آسٹن کو اس کے پاکستان جانے کی خوشی نہیں ہوئی تھی۔
’’کچھ نہیں۔‘‘
وہ رخ پھیر کر دریا کو سکون سے بہتا دیکھنے لگا۔
’’کچھ تو ہوا ہے یار۔‘‘
چارلس اس کا سب سے قریبی دوست تھا اور اس سے کچھ بھی چھپانا آسٹن کے لیے مشکل تھا۔
’’او،کم آن۔ کچھ نہیں ہوا مجھے۔‘‘
چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے وہ ان کی طرف گھوما۔
’’ہمیں لگتا ہے کہ تم پاکستان جانے پر خوش نہیں ہو۔‘‘
آرنلڈ نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کچھ کھوجنے کی کوشش کی۔
’’ارے بھئی، میں کیوں خوش نہیں ہوں گا؟ آخر اپنے جگری دوستوں کے ساتھ جارہا ہوں،ایک یادگار سفر پر۔‘‘
آسٹن نے ہاتھ کا مکا بناتے ہوئے آرنلڈ کے کندھے پر رسید کیا۔
’’یہ تو اب تم ہمارا دل رکھنے کے لیے کہہ رہے ہو۔اگر تم جانانہیں چاہتے تو ہم بھی نہیں جائیں گے۔ڈاکومینٹری ہی بنانی ہے ناں تو وہ پھر کبھی بنا لیں گے۔‘‘
چارلس کو کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے، بس دل پاکستان کا نام سن کر ہی بے چین ہوجاتا ہے۔‘‘
اس نے ماریہ کی جانب دیکھ کر کہا۔چارلس،آسٹن کو ہی اپنی نظروں کے حصارمیں لیے ہوا تھا اور کچھ حد تک جان چکا تھا مگر اصل وجہ سے ابھی بھی بے خبر تھا۔
’’وہ جگہ ہی ایسی ہوگی کہ نام سنتے ہی دل وہاں جانے کے لیے بے چین ہوجاتا ہے۔‘‘
ماریہ بہت خوش تھی اور اسی خوشی میں وہ آسٹن کی پریشانی کو نظر انداز کرگئی۔
’’ہاں،۔۔۔۔۔۔شاید‘‘
وہ دوبارہ دریا کی جانب متوجہ ہوگیا جو کہ اسی روش سے بہہ رہا تھا۔
’’اچھا ، چھوڑو ۔۔۔۔وہ دیکھو۔‘‘
آرنلڈ نے سب کا دھیان بٹانے کے لیے لندن برج کے دوسرے کنارے کی طرف اشارہ کیا۔
کچھ ہی لمحوں میں سینکڑوں چھرلیاں برج کے عین اوپر پھٹی تھیں۔جن سے رنگ برنگی روشنیاں پھوٹیں اور منظر کچھ لمحوں کے لیے رنگین ہوگیا۔
ٹالی،آرنلڈ اور ماریی نے اس منظر کو نہایت دلچسپی سے دیکھا تھا۔جبکہ چارلس ابھی بھی آسٹن کے بارے میں سوچ رہا تھا جو نجانے دریا کی گہرائی سے کیا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ ہم شمع یقین کے پروانے شعلوں سے محبت کرتے ہیں
اے زیست ہماری راہ سے ہٹ، ہم موت کی عزت کرتے ہیں
صورتحال مزید نازک ہوتی جارہی تھی۔ عطاءاللہ کے چھوڑ جانے کا غم دل کو بوجھل کررہا تھا۔لیکن یہ وقت دل کے غم کو ہلکا کرنے کا نہیں تھا۔بلکہ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا تھا۔
میجر بلال کی آنکھوں سے آنسو ابھی بھی بہہ رہے تھے لیکن عطاءاللہ کی شہادت ان کو نیا ولولہ عطا کرگئی تھی۔عطاءاللہ سے کیا وعدہ بھی تو نبھانا تھا۔
سنسنی خیز گولیاں۔۔۔۔۔۔
یکے بعد دیگرے گرتے دستی بم۔۔۔۔۔
مشین گنوں کے چلنے کی آوازیں۔۔۔۔
ہرطرف سے اٹھتے شعلے اور دھوئیں کے بگولے۔۔۔۔۔۔۔
وہاں قیامت نہیں برپا تھی تو اورکیا تھا؟؟؟
اس پہاڑی کو جلداز جلد دشمن سے پاک کرنا تھا کیونکہ اس پہاڑی کے اس پار دشمنوں کا ایک جہان آباد تھا۔
یہ آگ کا دریا پار کرنے سے پہلے کا لیول تھا۔اس لیول کے بعد ابھی اور خطرناک اسٹیجز آنے تھے جنہیں کلیر کرنا ہی ان کا اصل ٹارگٹ تھا۔
پیش رفت میں تھوڑی سی کمی ضرور ہوئی تھی کیونکہ دشمن کے مزید مسلح ساتھی جہنم واصل ہونے کے لیے آچکے تھے۔
میجر بلال ،کیپٹن عابد اور ہیڈ آفس میں بریگیڈیر ضیاء کے ساتھ وائرلیس سیٹ کے ذریعے رابطے میں تھے۔
پاکستان آرمی کے بہادر جوانوں نے پتوں اور مٹی سے خود کو کیموفلاج کیا ہوا تھا۔لیکن کیموفلاج تو چھپنے کے لیے ہوتا ہے۔اور وہاں چھپ کر لڑنا کون چاہتا تھا۔
یہ جوان اپنے لیے دو ہی آپشن رکھتے تھے۔
دشمن کا صفایا
یاپھر
جام شہادت
درختوں کی آڑ لیتے ہوئے بھی لڑنے میں دقت پیش آرہی تھی۔لیکن بہت جلد ہی یہ دقت ان کے سامنے شکست ماننے والی تھی۔
میرے وطن کے ان بیٹوں کے آگے ہرچیز کو اپنا سرخم کرنا ہی پڑتا ہے۔
میجر بلال اور کیپٹن عابد کے درمیان کوڈ ورڈز میں رابطہ ہورہا تھا۔
''Hello, C for M Message Over۔''
کیپٹن عابد کی طرف سے رابطہ قائم کیا گیا۔
"Hello, M for C۔۔۔ Send your message over۔"
میجر بلال نے کال لیتے ہوئے کہا۔
’’سر ہم کچھ بلندی تک پہنچ چکے ہیں۔اوور۔‘‘
کیپٹن عابد نے وائر لیس کو منہ کے قریب لاکر چلاتے ہوئے کہا۔
’’اوکے۔پوزیشنز کو جلد از جلد۔کلئیر کرنے کی کوشش کریں۔اوور۔‘‘
بلال پیٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے۔
’’یس سر۔‘‘
"Ok۔۔۔Bravo, go ahead۔۔۔Over۔"
اس کے ساتھ ہی میجر بلال اپنی اصل پوزیشن پر آگئے۔
"Ok۔۔۔۔۔Roger out۔"
کیپٹن عابد نے رابطہ منقطع کردیا۔
ہرکوئی وطن سے عشق کے جذبے سے معمور تھا۔اور اسی جذبے میں ڈوبا آگے بڑھ رہا تھا۔
یہ جذبہ بھی خالقِ دوجہان کی دین ہے۔یہ تو اس کا فضل ہے جو وہ اپنے مخصوص بندوں پر نازل فرماتا ہے۔انعام و اکرام تو قسمت والوں کا مقدر ہوتے ہیں اور ان بیٹوں سے بڑھ کر اور کون ہے مقدر والا اس دنیا میں ،جنہیں دھرتی ماں نے اپنی حفاظت کے لیے چن لیا۔جن کا نام شہدا کی فہرست میں شامل ہے۔
جو زندہ گئے تو غازی
اور اگر سانسوں نے ساتھ چھوڑا تو شہید
جن کا جینا بھی عبادت
جن کا مرنا بھی عبادت
اور سلام ہے ایسے جینے والوں پر
اور سلام ہے ایسے مرنے والوں پر
(ــــــــــــــــــــــــــ)
اب تو یہ ان کا معمول بن چکا تھا۔وہ روز صبح کے وقت ملتے۔
سڑک کے کنارے سنگی بنچ ان کی کئی ملاقاتوں کا گواہ بن چکا تھا۔
محبت کی کونپل سر اٹھا چکی تھی۔
اور کھلنے کے لیے بے تاب تھی۔لیکن کھلنے کے لیےبہار کا موسم درکار تھا۔
حسب معمول وہ آج بھی پندرہ منٹ پہلے آئی تھی۔طلسمی شہزادہ ہمیشہ کی طرح اس کے آنے کا انتظار کررہا تھا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ اس کو آتے دیکھ کر ہی وہ کھڑا ہوگیا۔
’’وعلیکم السلام‘‘ سرخ ہوتے گالوں سے اا نے جواب دیا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی ایسی حالت کیوں ہوجاتی تھی۔ وہ جب بھی طلسمی شہزادے کو دیکھتی، اس کا دل زور سے دھڑکنے لگتا۔شاید اس کا دل بھی یہی چاہتا تھا کہ سامنے والا اس کی دھڑکنوں کا محبت بھرا نغمہ سن لے۔
’’کیسی ہیں آپ مادام؟‘‘
چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی جو مقابل کو زیر کردیتی تھی۔
’’الحمداللہ۔آپ۔کیسے ہیں؟‘‘
دوپٹہ سر پر ٹھیک کرتے ہوئے اس نے کہا۔
’’بہت ہی پیارا۔‘‘ لہجہ وہی شوخ سا
جواب میں ابرش نے بس مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔اب سامنے والے کی خوش فہمی کا وہ کیا جواب سے سکتی تھی۔
’’اچھا۔آپ نے اپنا نام نہیں بتایا ابھی تک؟‘‘
اتنے دن ہوگئے تھے ان کو ملتے ہوئے لیکن طلسمی شہزادے نے ابھی تک اسے اپنے نام کی خبر نہیں ہونے دی تھی۔
’’تم نے بتایا تھا؟‘‘
وہ بازو سینے پر باندھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’تو آپ نے میری نقل کرنی ہے؟؟‘‘
مصنوعی خفگی سے اس نے کہا۔
’’تمہیں میں بندر نظر آتا ہوں؟‘‘
وہ بھی ناراض ہوا تھا۔
’’تو پھر آپ بتا دیں۔‘‘
وہ بار بار اپنا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی کیونکہ ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔
’’ناں۔۔۔کسی بھی صورت میں نہیں۔‘‘
وہ ضد پر اڑ گیا۔
’’ٹھیک ہے پھر۔۔۔۔دوبارہ مجھ سے بات نہ کیجیے گا۔‘‘
غصے سے کہتی وہ کالج جانے کے لیے پلٹی۔
’’ارے۔ارے۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ یکدم اس کے سامنے آیا۔
’’ٹھیک ہے بتاتا ہوں۔‘‘
مگر وہ رکی نہیں۔
’’اوکے۔۔۔پہلے اپنا بیگ اور کتابیں دو۔‘‘
وہ پلٹ کر اسے گھورنے لگی۔
’’دوناں۔۔۔۔۔بعد میں ایسے گھور لینا۔‘‘
اس نے ابرش سے اس کا بیگ اور کتابیں لیں۔لیکن ابرش کو اس کی اس حرکت کی سمجھ نہیں آئی۔
’’چلو آج میں تمہیں کالج چھوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
وہ اس کی ناراضگی ختم کرنا چاہتا تھا۔
’’کوئی ضرورت نہیں۔میں خود ہی چلی جاؤں گی۔‘‘
اس نے بکس چھیننے کی ناکام کوشش کی۔
’’ہاں تو تم خود ہی جاؤ گی،میں تو بس تمہارے ساتھ ساتھ چلوں گا۔‘‘
ذومعنی لہجے میں کہتے وہ اس کی آنکھوں میں اترا تھا۔
’’مجھے نہیں چلنا آپ کے ساتھ۔‘‘
وہ اس کی بات نظر انداز کرگئی تھی۔
’’سوچ لو۔ میں اگر یہاں سے پلٹ گیا تو دوبارہ لوٹ کر نہیں آؤں گا۔‘‘
لہجے میں کچھ تو تھا جس نے ابرش کو لاجواب کردیا تھا اور وہ خاموشی سے چلنے لگی۔
’’یہ ہوئی ناں اچھے بچوں والی بات۔۔۔گڈ گرل۔‘‘
وہ اب بھی نہیں بولی تھی۔
’’اچھا سوری ناں۔‘‘وہ اس کے سامنے سڑک پر گھٹنے ٹکا کر بیٹھ گیا۔اس نے کتابیں اور بیگ ایک ہاتھ میں پکڑ کر دوسرا ہاتھ کان کو لگایا۔
’’دیکھو۔کان پکڑ رہا ہوں،اب تو معاف کردو۔‘‘
چہرے پر جہان بھر کی مسکینیت چھائی ہوئی تھی۔
’’تب تک نہیں جب تک آپ اپنا نام نہیں بتائیں گے۔‘‘
وہ بھی بہت ضدی تھی۔وہ بات کرنے کے لیے رکی نہیں تھی۔
’’بلال احمد۔‘‘ وہ چلاتے ہوئے بھاگتے ہوئے اس کے قریب آیا۔
’’ہممم۔۔۔۔۔نائس نیم۔‘‘
اس نے میجر بلال کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔
’’بہت ضدی ہوتم۔‘‘
میجر بلال نے کانوں کی لو کو چھو کر توبہ کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے ویسے کونسا بتانا تھا۔‘‘
مصنوعی خفگی دور ہوچکی تھی۔
’’ہاہاہاہا۔۔۔۔بات اگلوانے کا فن جانتی ہو۔‘‘
وہ متاثر ہوا تھا۔
’’کیا کریں جی۔گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی کو ٹیڑھا کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
اس نے ہاتھ جاڑتے ہوئے کہا۔
جواب میں میجر بلال کا قہقہہ بلند ہوا۔
’’بہت خوب۔‘‘
وہ دونوں چل رہے تھے۔۔۔۔
ایک ساتھ۔۔۔۔
قدم سے قدم ملاتے۔۔۔۔۔
بڑے اعتماد کے ساتھ۔۔۔۔۔
ان کا یہ سفر خاموشی سے کٹنے لگا۔
محبت کا ابتدائی سفر ہوتا ہی ایسا ہے ۔
خاموش سا۔۔۔۔
مگر اعتماد سے بھر پور۔۔۔۔
اس خاموشی کو میجر بلال کی دھیمی مگر شوخ آواز نے شکست سے ہمکنار کیا۔
خاموش لب ہیں،جھکی ہیں پلکیں،دلوں میں الفت نئی نئی ہے
ابھی تکلف ہے گفتگو میں،ابھی محبت نئی نئی ہے
ابھی نہ آئے گی نیند تم کو،ابھی نہ ہم کو سکون ملے گا
ابھی تو دھڑکے گا یہ دل زیادہ،ابھی یہ چاہت نئی نئی ہے
بہار کا آج پہلا دن ہے،چلو چمن میں ٹہل کے آئیں
فضاؤں میں خوشبو نئی نئی ہے،گلوں میں رنگت نئی نئی ہے
محبت کے پہلے مرحلے کو کیا خوب انداز میں بیاں کیا گیا تھا۔
’’واہ،واہ۔۔۔۔۔آپ تو کمال کے ۶شاعرنکلے۔‘‘
میجر بلال کے خاموش ہونے پر ابرش نے انہیں داد دی۔
’’بس کبھی کبھی احساسات لفظوں کی صورت بہہ نکلتے ہیں۔‘‘
وہ اس کے بیگ اور کتابوں کو بانہوں میں لیے کسی قیمتی متاع کی طرح سینے سے لگائے چل رہے تھے۔
’’شاعری تو نام ہی احساسات کا ہے،جذبات کا ہے۔ وہ بات جو زبان سے عام جملے کی صورت میں نکلنے میں خوف محسوس کرتی ہے،وہی بات شاعری کا۔پیرہن زیب تن کرکے بڑے مان کے ساتھ سننے والے کی سماعتوں سے ہوتے ہوئے دل کے بالاخانوں میں تخت لگا کر بیٹھ جاتی ہے۔‘‘
وہ اپنی رو میں چلتے جارہے تھے۔
’’آہم،آہم۔‘‘
ابرش کو ہی انہیں واپس لانا پڑا۔
میجر بلال جھنپتے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگے۔
’’بڑی گہری باتیں کرتے ہیں آپ؟‘‘
وہ دل سے قائل ہوئی تھی۔
’’درد گہرا ہوتو باتیں بھی گہری ہوجاتی ہیں۔‘‘
قدموں میں سست روی آگئی تھی۔
درد کا بوجھ قدموں کو بھاری کرہی دیتا ہے۔
’’کیسا درد؟‘‘
وہ رکی تھی۔
شاید کچھ جاننے کے لیے۔
’’رہنے دو، تمہیں یہ درد کہاں نظر آئے گا۔‘‘
میجر بلال نے ہاتھ سے چھوٹتی کتاب کو تیزی سے تھامتے ہوئے کہا۔
’’آپ دکھائیں گے تو نظر آہی جائے گا۔‘‘
اب کی بار ابرش کا لہجہ ذومعنی ہوا تھا۔
’’اچھا۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ اس کو دیکھتے ہوئے رکے تھے۔
’’مگر کیا؟‘‘
وہ ان کی آنکھوں میں جھانکی تھی سرغ لگانے کے لیے۔
’’مگر اس کے لیے مجھے اپنے شوز اور ساکس اتارنا پڑیں گی۔‘‘
وہ کچھ جھجکتے ہوئے بولے۔
’’کیا مطلب؟‘‘
وہ سمجھی نہیں تھی۔
’’ارے بھئی چوٹ پاؤں پہ لگی ہے۔اور درد بھی وہیں ہے،تو تمہیں دکھانے کے لیے شوز اور ساکس ہی اتارنا پڑیں گی ناں۔‘‘
کتنے معصوم تھے میجر صاحب۔اور ابرش کا دل چاہا تھا کہ وہ ان کی اس معصومیت پر کوئی چیز اٹھا کر دے مارے۔
’’کیا ہوا؟‘‘
وہی معصومیت۔
وہی بھولپن۔۔۔
’’چھوڑوں گی نہیں اب آپ کو۔‘‘
وہ اردگرد کچھ ڈھونڈنے لگی۔تاکہ میجر صاحب کے ’’درد‘‘ کو ’’درد‘‘ سے کم کرسکے۔میجر بلال بھاگتے ہوئے اس سے کچھ دور ہوئے وہ جان چکے تھے کہ وہ اب کیا کرنے والی ہے۔
’’صد شکر کہ تمہاری کتابیں میرے پاس ہیں۔‘‘ وہ ہوا میں کتابیں لہرا کر بولے۔
’’کوئی بات نہیں،یہ آئی فون کیسا رہےگا؟‘‘
وہ ایک ہاتھ کمر پر رکھ کر دوسرے ہاتھ سے آئی فون میجر صاحب کو دکھاتے ہوئے بولی جو اسے میجر صاحب نے کتابیں پکڑتے ہوئے تھمایا تھا۔
اور میجر صاحب کو تو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔وہ تو صدمے میں پہنچ چکے تھے۔
’’اس سے درد ہوگا یا نہیں؟‘‘
بدلا لینے کا اچھا موقع تھا۔
’’میں تو مذاق کررہا تھا۔‘‘
بلال احمد نے تھوک بمشکل نگلتے ہوئے کہا۔
’’مگر میں مذاق نہیں کر رہی۔‘‘
وہ چیزیں اٹھا کر مار دینے میں چیزوں کی پرواہ نہیں کرتی تھی۔
’’دیکھو، مجھے جو کچھ بھی مارنا چاہو ماردو۔مگر پلیز میرے آئی فون کو چوٹ نہیں لگنی چاہیے۔‘‘
مگر وہ ان کی بات نظر انداز کر کے نشانہ لینے لگی۔
’’اوکے۔تم یہ بکس لے لو اور بے شک پوری قوت سے مار دو۔چاہو تو ناک کی ہڈی توڑ دینا مگر پلیز آئی فون سے اپنی آگ نہ بجھانا۔‘‘
کتنا پیار کرتے تھے وہ اپنے آئی فون سے یہ بات آج ابرش پر عیاں ہوئی تھی۔
’’ٹھیک ہے،دیں بکس۔‘‘
اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
’’نہیں پہلے ڈیل کرو،تمہارا کیا پتا مکر جاؤ۔‘‘
فوجی تھے۔اتنے تو معصوم ہوں گے ہی ناں۔
’’کیسی ڈیل؟‘‘
وہ ٹھٹکی تھی۔
’’ایک ہاتھ سے بکس لو اور ایک ہاتھ سے آئی فون دو۔‘‘
میجر صاحب کی ڈیلز بھی ایسی ہی ہوا کرتی تھیں۔
’’آہاں۔۔۔۔ڈن۔۔۔‘‘
اس نے کچھ سوچتے ہوئے ہامی بھری۔
میجر بلال ابرش کی جانب بڑھے۔اور سب سے پہلے اسے اس کا بیگ تھمایا اور پھر بکس کو آگے بڑھایا ابرش نے بھی ایسا ہی کیا۔
جیسے ہی آئی فون میجر بلال احمد کے ہاتھ میں آیا وہ برق سی تیزی سے لے اڑے۔
’’ہمارے درمیان ڈیل ہوئی تھی۔‘‘
وہ پوری قوت سے چلائی تھی۔
’’مگر مجھے تو یاد نہیں۔‘‘
وہ منہ چڑاتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئے۔
ابرش نے غصے سے اپنا دایاں پاؤں زمین پر پٹخا تھا۔کتنی آسانی سے وہ ان کے ہاتھوں بے وقوف بن گئی تھی۔
’’اگر میں نے بھی آپ سے بدلا نہ لیا تو میرا نام بھی ابرش نہیں۔‘‘ وہ سڑک کے درمیان کھڑی خود سے ہمکلام ہوئی تھی۔
راستے سے گزرتے ہوئے ایک آدمی نے اس کی دماغی حالت پر شک کیا مگر اسے اس بات کی پرواہ نہیں تھی۔غصے میں وہ جگہ اور وقت کا خیال نہیں رکھتی تھی۔
(ــــــــــــــــــــــــــــــــ)
اے خدا! ان کی حفاظت کرنا
جو محافظ ہیں میری دھرتی کے
جن کی للکار جان لیوا ہے
جن کی ہیبت سے دم نکلتے ہیں
جن کی پوشاک ہے یہ وطن
جن کا ہے کفن میرا یہ وطن
جن سے آزاد یہ فضائیں ہیں
جن کی خاطر سبھی دعائیں ہیں
ان پہ اب خاص کرم ہوتیرا
جن کا ہونا یقین ہے میرا
جن کا ہرسانس اک عبادت ہے
جن کا ہرخواب بس شہادت ہے
اے خدا! ان کی حفاظت کرنا
جو محافظ ہیں میری دھرتی کے
قوم کے ہرفرد کے دل سے بس یہی دعا نکل رہی تھی۔بچہ بچہ ان جوانوں کی سلامتی کے لیے دعا کررہا تھا۔یہ وہی نوجوان ہیں جو پچھلے کئی گھنٹوں سے بھوک اور پیاس کی حالت میں دشمنوں سے جنگ کررہے تھے۔
یہ وہی نوجوان ہیں جو سر پر کفن باندھے شجاعت کی بے مثال تاریخ رقم کرنے نکلے تھے۔
اپنے پیاروں سے دور وہ آئے تھے اس مقتل گاہ میں۔
اور اس محاز پر آنے سے پہلے یقیناً انہوں نے بھی کیپٹن جنید (شہید) کی طرح اپنے پیاروں کو آخری خط ان الفاظ میں لکھے ہوں گے۔
السلام علیکم!
امی اور ابو
مجھے لگتا ہے کہ جب آپ میرا یہ پیغام پڑھ رہے ہوں گے تب میں اس دنیا میں نہیں ہوں گا۔جو بھی ہوجائے آپ آنسو بہانا مت،جو ہونا ہوتا ہے ہوکر رہتا ہے۔بس یہی سمجھ لیں کہ میرے مقدر میں یہی لکھا تھا۔ایسا ہرگز نہیں کہ فوج میں ہونا میری موت کا سبب بن رہا ہے بلکہ فوج نے تو مجھے حیات جاوید عطا کی ہے۔مجھے شہادت نصیب ہورہی ہے۔شہادت جو ہر سپاہی کا خواب ہے۔
میرے آخری الفاظ سب کو بتایئے گا کہ ’’اس دنیا میں ایسے والدین کی تعداد بہت ہی کم ہوگی جنہوں نے اپنا اکلوتا بیٹا اللہ تعالی کی راہ میں اور اس قوم کے تحفظ کے لیے قربان کیا ہو اور آپ ان چند والدین میں سے ایک ہیں۔‘‘
میں آپ کو یہ تو نہیں کہوں گا کہ’’فکر کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس میں شک نہیں کہ یہ آپ کی زندگی میں آنے والی سب سے بڑی آزمائش ہے۔لیکن اس آزمائش کا سامنا صبر کے ساتھ کیجیے۔آپ کی زندگی کا یہ امتیاز کافی ہے کہ آپ ایک بہادر اور جرأت مند بیٹے کے ماں باپ ہیں۔ایک ایسا بیٹا جو باقی دنیا کے لیے تو شاید ایک مردہ شخص ہو لیکن جس نے اپنے شعبے میں اچھی شہرت حاصل کی اور اسے ایک بہادر اور مثالی سپاہی کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔
میں نے آپ کے ساتھ وقت کم گزارا ہے۔میں گزشتہ سات برس سے آپ سے دور ہوں۔مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ یہ طویل دوری مجھے بھلانے میں مددگا ثابت ہوگی۔لیکن اگر ایسا نہ ہوتو سمجھ لیں کہ میں اپنے کام پر ہوں۔آپ لوگوں کو تسلی دینے کے لیے میرے پاس مزید الفاظ نہیں ہیں۔
امی! مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے لیے ایک لڑکی کا بندوبست نہیں کرسکا (میری بیوی) تاکہ آپ ساس بن کر اس لڑ جھگڑ سکتیں۔۔۔۔مذاق کررہا ہوں۔۔ مجھے اس بات کا واقعی رنج ہے کہ ان دنوں آپ میرے لیےخوبصورت سی دلہن تلاش کرنے میں مصروف تھیں۔مجھے لگتا ہے کہ تمام لڑکیاں خوش قسمت ہیں۔یقیناً آپ کو بہت اچھا بیٹا ملا تھا جس نے اپنی ساری زندگی کوئی برا کام نہیں کیا تھا۔
جنید
اور یہ خط لکھتے ہوئے ان کی آنکھیں ڈبڈبائی تو ہوں گی۔ان آنکھوں میں اپنے پیاروں کا نقش تو ضرور ابھرا ہوگا۔لیکن ایسے الفاظ ایسی ہمت کے ساتھ صرف کیپٹن جنید جیسے نوجوان ہی لکھ سکتے ہیں۔
اور سلام ہے ان نوجوانوں پر جنہوں نے اپنی زندگی کی صرف بیس بائیس بہاریں دیکھی ہوں گی اور مقتل گاہ پہنچ گئے۔
اورسلام ہے ان ماؤں پر جنہوں نے حوصلے اور فخر کے ساتھ تابوت میں بند ان لاڈلوں کو دیکھا ہوگا اور پھر ان کے مسکراتے چہرے دیکھ کر ان ماؤں کو اپنے لخت جگر کے آخری الفاظ بھی یاد آئے ہوں گے۔
دھن بھاگ نیں اوناں ماواں دے
جنہاں ماواں دے ایہہ جائے نیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ