کیپٹن احمر کی منگیتر کے والد صاحب کی طبیعت بہت بگڑ چکی تھی۔اس لیے ان کی شادی جو کہ دوماہ بعد طے پائی تھی ،اسے وقت سے پہلے ہی مقرر کردیا گیا۔اسی لیے وہ ایک اہم آپریشن ضربِ عضب کیلئے بھی نہ جا سکے۔
شادی کی تیاریاں عروج پر جاری تھیں۔کیپٹن احمر اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔پورے گاؤں میں چراغاں کیا جارہا تھا۔آخر کو گاؤں کے چوہدری صاحب کے بیٹے کی شادی تھی۔اور کیپٹن احمر تھے ہی اتنے اچھے کہ پورے گاؤں کی آنکھ کا تارا تھے۔ہر کسی کی خوشی میں خوش اور غم میں غم زدہ ہونے والے۔تو پھر گاؤں کے سادہ دل اور اپنائیت سے بھرے لوگ کیسے ان کی اپنی خوشی میں اکیلا چھوڑ دیتے۔رات ڈھلتے ہی چوہدری حیات عالم کی حویلی رنگ بھرنگی روشنیوں میں نہا گئی۔دور دور تک صرف جلتی بجھتی روشنیاں ہی نظر آ رہی تھیں۔
دور دراز سے چوہدری حیات کے ملنے ملانے والے مٹھائی کی ٹوکریاں لیکر تشریف لارہے تھے۔حویلی کے قریب ہی ایک بہت بڑی پنڈال سجائی گئی۔جس میں قطار در قطار سرخ و سفید کرسیاں لگائی گئی تھیں۔اور ایک خوبصورت اسٹیج دلہا صاحب کے لیے سجایا گیا تھا۔تازہ مہلکتے گلاب اس سجاوٹ کا حصہ بن کر خود پر نازاں نظر آرہے تھے۔
گاؤں کی شوخ و چنچل سی لڑکیوں نے ڈھولکی کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا۔جس کی تھاپ پر وہ اپنی مادری زبان میں نہایت خوبصورت ٹپے اور بولیاں پیش کر رہی تھیں۔
پنڈال میں چارپائیاں بھی رکھی گئی تھیں۔کیونکہ تصنع سے پاک گاؤں کے معصوم لوگ کرسیوں سے زیادہ چارپائیوں کو ترجیح دے رہے تھے۔وہ اس طرح ایک دوسرے سے گھل مل جانا چاہتے تھے۔یہ لوگ تھے ہی ایسے ۔
متحد۔۔۔
ایک بند مٹھی کی طرح۔۔۔
سب کے لیے حقے کا انتظام بھی کیا گیا تھاجو کہ ان لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
کیپٹن احمر کی کزنیں ڈھولکی کسی کو تھمانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں
بیڑی لگی اے کنارے تے
بیڑی لگی اے کنارے تے
تینوں کی خبر چنا،جینا تیرے سہارے تے
وہ سب اس کام میں ماہر تھیں۔
گاؤں کی بزرگ خواتین گھونگھٹ نکالے شرم و حیا کا پیکر نظر آرہی تھیں۔وہ سب چٹائی پر ایک طرف بیٹھی ہوئی تھیں اور آپس میں ہنسی مزاح کر رہی تھیں۔
گھوبھی دا پھل ہیریے
گھوبھی دا پھل ہیریے
نی اسی پردیسی آں ،ساڈے مگر نہ رُل ہیریے
پنڈال کے باہر رات کی چاندنی بھی اسی دلکش منظر کا حصہ لگ رہی تھی۔
دلہا صاحب کو مایوں کی رسم کیلئے تیار ہونے کے لیے بھیج دیا گیا۔کپٹن احمر کے کئی دوست ان کی شادی میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔لیکن ان کے ایک دوست میجر ارتضی حدید اس وقت گاؤں کی ہر لڑکی کی نظروں کے حصار میں تھے۔بہت سی لڑکیوں کو اپنا دل ان کے رخساروں کے بیچ پڑتے ننھے گڑھوں میں دھنستا محسوس ہورہا تھا۔میجر ارتضی حدید یہ بات محسوس کر چکے تھے اس لیے وہ بھی کیپٹن احمر کے ساتھ ہی چلے گئے۔
پنڈال کے باہر ڈھول والے ڈھول بجاتے ہوئے دائروں میں گھوم رہے تھے۔ڈھول کی تھاپ پر گاؤں کا ہر انسان محو رقصاں تھا۔چاندنی بھی خود کو اس ماحول کا حصہ بنانے کے لیے زمین پر تشریف لا چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرے پر مسکراہٹ سجائے، سفید رنگ کے کاٹن والے شلوار قمیض میں ملبوس دلہا صاحب کو لال رنگ کی چنری کے سائے تلے اسٹیج کی طرف لے جایا گیا۔اس چنری کو ان کے دوستوں نے چاروں کونوں سے پکڑ رکھا تھا۔
اسٹیج پر لے جا کر چنری کو ہٹا لیا گیااور کیپٹن احمر کو کرسی پر بٹھا دیا گیا۔گاؤں کی خوبصورت لڑکیاں جو کہ رنگ برنگ لہنگوں میں ملبوس تھیں،ہاتھ میں تھالیاں تھامے جن پر مہندی کے درمیان موم بتیاں جلا کر کھڑی کی گئی تھیں ،ترتیب سے قطاروں میں چلی آرہی تھیں۔بوڑھی عورتیں شگن کے گیت گا رہی تھیں۔اسٹیج پر آکر انہوں نے تھالیاں اسٹیج کے قریب ایک میز پر رکھ دیں اور گیت گاتے ہوئے واپس چلی گئیں۔
چوہدری حیات عالم بڑی شان سے سر پر سفید پگڑی پہنے کیپٹن احمر کے بائیں پہلو میں براجمان تھے۔چہرے سے خوشی کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر اس پروقار تقریب کا حصہ بن رہی تھیں۔
مہندی کی رسم کو چوہدری حیات عالم اور انکی بیگم صاحبہ نے اللہ کے بابرکت نام سے شروع کیا۔
کیپٹن احمر کی والدہ صاحبہ نے رسم کا آغاز اپنے لاج دلارے بیٹے کے ہاتھ پر رکھے ہوئے چوڑے پتے پر مہندی رکھتے ہوئے کیا۔
پھر خوشی کی رسم کی پیامبر مٹھائی کو اپنے بیٹے کے منہ میں ڈالا۔سر پر تیل لگانے کے بعد انہوں نے ان گنت پیسے اپنے بیٹے کے سر سے وار دیے۔محبت کا بوسہ دیتے ہوئے وہ اس جہان کی باقی ماؤں جیسی ہی نظر آرہی تھیں جو کہ بڑے مان سے اپنے بیٹوں کو دلہا بناتی ہیں۔بے شمار دعائیں دیتے ہوئے وہ اسٹیج سے تشریف لے آئیں۔آنکھوں میں خوشی کے موتی چمکتے نظر آرہے تھے۔اس کے بعد چوہدری صاحب نے بھی انہیں سلسلوں کو دہرایااور پھر یکےبعد دیگرے گاؤں کے ہر فرد نے اپنی محبت کیپٹن احمر پر نچھاوڑ کی۔
اب باری تھی کیپٹن احمر کے دوستوں کی۔جن کے لیے وہ دعا کر رہے تھے کہ وہ اسٹیج پر تشریف نہ لائیں۔کیونکہ وہ اپنے سب شادی شدہ دوستوں کے ساتھ وہ سب کر چکے تھے جو اب انہیں اپنے ساتھ ہونے سے ڈر لگ رہا تھا۔
سب سے پہلے لیفٹیننٹ داؤد تشریف لائے ۔انہوں سب رسموں کو نہایت شرافت سے ادا کیا لیکن مٹھائی کھلانے کی رسم پر ان کی دوست اللہ حافظ بول کر جا چکی تھی۔انہوں نے دو بڑے گلاب جامن ایک ساتھ ہی دلہا صاحب کے منہ میں ٹھونس دیے۔جنہیں ایک ساتھ ہی نگلنا تھا۔ورنہ پھر ایسا ٹاسک دیا جاتا جس بہتر یہی تھا کہ شرافت سے گلاب جامنوں کو ہی حلق سے نیچے اتار لیا جائے۔کیپٹن احمر کی حالت ایسی تھی کہ آنکھیں پھٹ کر باہر نکلنے کوبے تاب تھیں لیکن اب اس زہر کو نگلناہی تھا کیونکہ اسے کیپٹن احمر لیفٹیننٹ داؤد کو بہت پہلے کھلا چکے تھے۔آج تو بدلہ لینے کا وقت تھا۔سب اس کے لیے تیار ہو کر آئے تھے۔
اللہ اللہ کر کے مصیبت حلق سے نیچے ہوئی۔میجر ذیشان اور کیپٹن دانیال نے آتے ہی تیل کی پیالی کو کیپٹن احمر کے سر پر انڈیل دیا۔جو دو منٹ کے لیے ساکت ہی ہوگئے۔اب اتنی بدتمیزی تو انہوں نے کسی کے ساتھ بھی نہیں کی تھی۔میجر ارتضی حدید اور حوالدار عزیز علی کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔انہوں نے مہندی اور ابٹن میں پانی ملا کر کیپٹن احمر کے چہرے پر پھینک دیا۔پورا گاؤں ان کے دوستوں کے اس مذاق پر کھلکھلا اٹھا۔جبکہ کیپٹن احمر کا تو بس ہی نہیں چل رہا تھاکہ ان کا قتل ہی کردیں۔صبح دلہن کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا کمینوں نے۔
اس کے بعد ان سب نے مل کر خوب دھمال اور بھنگڑا ڈالا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن کے سورج نے سب کو لاڈ سے جگایا۔گاؤں میں تو ابھرتے سورج کی کیا ہی بات ہے۔
رواج کے مطابق پورے گاؤں والوں کو چوہدری حیات عالم کی حویلی میں ناشتے پر مدعو کیا گیا تھا۔جسے گاؤں کے ہر فرد نے دل کی گہرائیوں سے قبول کیا تھا۔ناشتے کے بعد دلہا صاحب کو ایک بار پھر تیاری کے لیے بھیجا گیا۔بارات کو قریب ہی کے گاؤں جانا تھا۔
تیاری کا شوق پورا کرکے میجر ارتضی حدید بھی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے ہال میں تشریف لے جارہے تھے کہ اچانک کسی سے ٹکر لگی اور نسوانی چیخ فضا میں سنائی دی۔
اگر میجر ارتضی اسے بروقت نہ پکڑتے تووہ تو کام سے چلی جاتی۔
بلاشبہ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی جو کہ نہایت شوخ سے کپڑے دیدہ زیب کیے ہوئے تھی۔دوسری طرف کاتو عالم ہی کچھ اور تھا۔وہ لڑکی تو میجر صاحب کو اپنے سامنے یوں دیکھ کر پاگل ہونے والی ہوگئی تھی۔یہ وہی لڑکی تھی جس نے پچھلی رات ارتضی صاحب کا خوب مشاہدہ کیا تھا۔
اف پاگل لگتی ہے"اس خیال سے جھرجھری آتے ہی وہ ہال کی طرف آگئےـ"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلہا صاحب کے آتے ہی بارات لے جانے کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں ،کالے رنگ کی شیروانی میں تو دلہا صاحب قیامت ڈھا رہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں بارات خدا کی رحمت کے سائے میں منزل کی جانب روانہ ہوگئی۔اور پھر فضلِ الٰہی سے پندرہ منٹس کی مسافت طے کر کے منزل پر جا کھڑی ہوئی۔لڑکی والوں کی حویلی بھی کم نہیں سجائی گئی تھی۔
بارات کا استقبال نہایت پروقار تقیریب سے کیا گیا۔دلہن کی بہنوں اور کزنوں نے باراتیوں پر پھول نچھاوڑ کیے اور چوہدری صداقت علی اور ان کے رشتے داروں نے مرد حضرات کے گلوں میں پھولوں کے ہار ڈال کر استقبال کیا۔
میجر ارتضی حدید کے لیے ادھر بھی وہی صورتحال تھی۔جسے وہ پیچھے چھوڑ کر آئے تھے۔خیر اس کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ وہ سب کو نظر انداز کردیں۔ورنہ گاؤں والوں سے ان کی چھترول ہوجاتی ۔اب بھئی اس میں معصوم سے میجر کا کیا قصور تھا۔
اسٹیج پر ارتضی حدید کے بیٹھتے ہی کیپٹن احمر نے اپنے دل کی بات کہہ دی۔
"یار ارتضی !مجھے تو اب تجھ سے جیلسی ہورہی ہے۔"
کیوں جناب؟" ارتضی نے نہایت معصومیت سے پوچھا۔"
"دلہا میں ہوں اور لڑکیا ں خدمت تمہاری کر رہی ہیں۔اور بعض تو تمہاری بلائیں لے رہی ہیں۔"
احمر صاحب بے چارگی سے بولے۔اور واقعی صورتحال ایسی ہی تھی۔
اچھا۔مگر مجھے تو ایسا نہیں لگا۔"بننا تو ارتضی صاحب کو بھی خوب آتا تھا۔"
اچھا جی۔آپ کو کچھ نہیں پتا۔مجھے تو اب یہ فکر ہورہی ہے"
کہ کہیں ہماری دلہن صاحبہ بھی یہ نہ فرما دیں کہ نہیں نہیں مجھے شادی کرنی ہے تو صرف و صرف کیپٹن احمر کے دوست کے ساتھ ہی۔"کیپٹن احمر کے چہرے پر مصنوعی پریشانی کے تاثرات تھے۔
ہاہاہاہاہاہا۔"کیپٹن احمر کی بات سن کر ارتضی حدید کے رخساروں کے گڑھے اور نمایاں ہوگئے۔"
یار!مگر مجھے تو اس بات کی پریشانی ہے کہ ان میں سےکوئی پاگل لڑکی کچھ"
اول فول ہی نہ کردے اور گاؤں والے مجھے جوتے مار مار کر عبرت کا نشان بنا دیں۔" میجر صاحب کو ابھی تک اسی بات کا ہی خدشہ لاحق تھا۔
ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔دیکھ لینا ۔کہیں میری عزت پر دھبہ ہی نہ لگا کر چلے جانا۔"
اور سب یہی کہتے پھریں کہ کیپٹن احمر کا وہ لفنگا سا دوست ہماری معصوم سی بچیوں کو پھنسا رہا تھا۔"کیپٹن احمر کے یوں لفنگا کہنے پر میجر ارتضی انہیں وارن کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنت رسولؐ کی ادائیگی کا وقت آن پہنچا تھا۔
دل کی دھڑکنیں اوپر نیچے ہورہی تھیں۔ایک خواب کی تعبیر ممکن ہونے جارہی تھی۔
ساعتوں پر احترام واجب کردیا گیا۔
سماعتوں کو منتظر کر دیا گیا۔
قطار در قطار سلامتی دینے والے کھڑے تھے۔
مولوی صاحب نے نکاح پڑھنا شروع کیا۔
قبول ہے۔
زیرِلب اقرار کیا گیا تھا۔
قبول ہے۔
محبت کے ترانے گائے جانے لگے۔
قبول ہے۔
آسمان سے سلامتی بھیجی گئی اور پھر مبار ک ہو مبارک ہو کی صدائیں فضا میں بلند ہوئیں۔
سب دلہا صاحب سے بغلگیر ہوئے۔
خوشی کا سماں تھا۔
دو دل ایک دوسرے کو فتح کر چکے تھے۔
دو سلطنتیں ایک ہو چکی تھیں۔
ایک ملکہ اور دوسرا بادشاہ کا رتبہ پاچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات بھر ہونے والی بارش کو انجوائے کرتے رہنے کی وجہ سے صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی۔دائیں جانب دیوار پر ٹک ٹک کرتی گھڑی ساڑھے آٹھ ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔یہ اعلان سنتے ہی وہ کمبل سے تیزی سے اٹھی۔آج اس کا ٹیسٹ بھی تھا جو اسے لازمی دینا تھا۔وہ جلدی سے واش روم گئی اور یونیفارم پہن کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ہمیشہ کی طرح اس نے اونچی پونی کی اور اپنی خوبصورت سی آنکھوں کے کٹورے کاجل سے بھرے۔
پاؤں میں نازک سی سینڈل پہنی جو کہ سیلپری بھی تھی۔اسے یہ پہنتے ہوئے یہ خیال نہیں آیا کہ رات ہونے والی بارش کی وجہ سے سڑک پر پھسلن ہوگی۔اس نے جو بھی بکس ہاتھ میں آئیں ،اٹھائیں اور بیگ لیکر سیڑھییاں پھلانگتے ہوئے کالج جانے کے لیے گھر سے باہر نکل آئی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی تا کہ کالج جلدی پہنچ سکے۔کاش وہ رات کو جلدی سو جاتی۔ابھی وہ اسی خیال میں گم تھی کہ پاؤں پھسلنے پر دھڑام زمین پر جا گری۔سڑک کے کنارے پر کیچڑ بہت تھی۔کچھ لمحے تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔جب سمجھ میں آیا تو نظریں کیچڑ میں کھلی کتابوں پر پڑی۔وہ ابھی بھی گھٹنوں کے بل کیچڑ میں بیٹھی ہوئی تھی۔
اتنی ہی دیر میں اسے ایک اجنبی کا بلند قہقہہ سنائی دیا۔اس نے آواز کی سمت میں نظریں گھمائیں تو سڑک کے بائیں جانبسنگی بنچ پر ایک اجنبی ،جسے دیکھتے ہی اس کے ذہن میں پہلا خیال طلسمی شہزادے کا آیاتھا،جاگنگ ٹریک پہنے،کانوں میں ہینڈز فری لگائے بڑے مزے کے ساتھ اس کے گرنے کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔لیکن اس کے یوں دیکھنے پر وہ سنجیدہ ہوگیا۔اور پھر کچھ سوچ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اس کی جانب آگیا۔وپ ابھی بھی اسی حالت میں بیٹھی ہوئی تھی۔
اس نے اس کی کتابیں اور بیگ اٹھایا اور پھر اس کی جانب ہاتھ بڑھایا۔جیسے وہ اسے صدیوں سے جانتی ہو اور ابھی اس کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہوجائے گی۔
طلسمی شہزادہ ابھی بھی اپنی ہنسی کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر کھڑی ہوگئی ۔اس کے یونیفارم کا رنگ پہچاننا مشکل ہو گیا تھا ۔وہ سارا کیچڑ آلود ہوچکا تھا۔اس نے غصیلے انداز میں اس سے اپنی بکس اور بیگ کو چھینا اور واپسی کے لیے قدم بڑھا دیے۔
وہ اس حالت میں کالج جانے سے تو رہی۔طلسمی شہزادے کے کانوں مین رس گھولتے قہقہے نے اس کا دور تک پیچھا کیا۔
گھر کے دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی سینڈل اتار کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لی۔اپنے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ رکی۔
اس نے قریب پڑے ٹشو باکس سے ٹشو نکالے اور اپنی ناک سے کیچڑ صاف کرتے ہوئے وہ بھی اپنی ہنسی کو کنٹرول نہیں کر پائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎یہ حسین موسم۔۔۔۔یہ بارش۔۔۔۔۔۔یہ ہوائیں
لگتا ہے محبت نے آج کسی کا ساتھ دیا ہے
آج بھی باہر بارش برس رہی تھی لیکن وہ اسے متاثر کرنے میں ناکام رہی تھی۔
اف ۔اس طلسمی شہزادے کی مسکراہٹ۔
وہ بار بار اسے ہی سوچ کر مسکرائے جارہی تھی۔
کیا تھا اس شخص میں جس نے پہلی ہی نظر میں اسے اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔وہ واقعی کسی طلسم سے بنا تھا جس کے سحر سے وہ ابھی تک نہیں نکل پارہی تھی۔
وہ کون تھا؟ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوکر یہ سوال اس نے اپنے ہی عکس سے کیا تھا۔
پہلے تو کبھی بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔بے چینی ہی بے چینی تھی۔
میں کیوں پاگل ہورہی ہوں؟ پتا نہیں کون تھا ؟کدھر سے آیا تھا اور کدھر چلا گیا؟وہ اپنی ہی سوچوں کی نفی کرتے ہوئے وہ دوبارہ اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔
لیکن نیند تو کوئی چرا کر لے گیا تھا۔
اپنے ساتھ۔
ناجانے کہاں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح وہ جلدی ہی اٹھی گئی تھی۔اس لیے وہ تسلی کے ساتھ کالج جانے کے لیے تیار ہوئی۔آج اسے سڑک کی پھسلن کا بھی خیال تھا اور اس اجنبی کا بھی۔
وہ اسے" دوبارہ" کبھی بھی ہنسنے کا موقع نہیں دے گی۔ "دوبارہ "لفظ پر وہ چونک گئی۔
کیا اسے اس کے دوبارہ ملنے کی امید تھی؟
انہیں سوچوں میں غرق وہ کیچن میں آگئی۔اس نے اپنے لیے ناشتہ بنایا۔اس کی چچی ابھی سو رہی تھیں ان کی طبیعت خراب تھی اور ملازمہ بھی اس وقت نہیں آتی تھی اس وجہ سے اسے اپنے لیے خود ہی ناشتہ بنانا پڑا۔
ٹوسٹ کو بے دردی سے کھانے کے بعد اس نے چائے کے دو گھونٹ بھرے اور گیٹ بند کر کالج کی جانب چل دی۔
وہ دھیرے دھیرے چل رہی تھی۔
نگاہیں کسی کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔ان نظروں کا ثبات تب حاصل ہوا جب قدم مخصوص سنگی بنچ کے سامنے رک گئے۔
وہ آج بھی وہیں بیٹھا تھا۔کانوں میں ہینڈز فری لگائے وہ اپنے سانس کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ شاید وہاں جاگنگ کے لیے آتا تھا۔لیکن پہلے تو کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔شاید وہ اس جگہ نیا آیا ہوگا۔
وہ اسے یونہی ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہی تھی۔
اس کے یوں دیکھنے پر طلسمی شہزادہ حیران ہوا۔اور کانوں سے ہینڈز فری نکالتے ہوئے وہ اس کے قریب آگیا۔وہ ابھی بھی اسی جگہ کو دیکھے جارہی تھی جہاں وہ کچھ دیر پہلے بیٹھا تھا۔
ہیلو میم! اینی پرابلم؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔"
لیکن اسے وہاں سن کون رہا تھا۔
طلسمی شہزادہ اس کے سامنے آیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے دائیں ہاتھ کو اوپر نیچے ہلایا۔
وہ تو اپنے راج کمار کے ساتھ ناجانے کن جزیروں کی سیر کو پہنچ چکی تھی۔لیکن طلسمی شہزادے کے یوں یاتھ ہلانے پر طلسمی دنیا کا سحر ٹوٹااور اس نے خود کو سڑک پر کھڑے پایا اور سامنے وہی راج کمار کھڑا تھا۔
میم !خیریت؟"اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔"
نہیں۔۔۔۔۔ہاں۔"اس نے پہلے نفی میں سر ہلایا اور "
اپنی بے وقوفی کا احساس ہونے پر ہاں میں سر ہلا دیا۔
طلسمی شہزادے نے مسحور کردینے والی مسکراہٹ کے ساتھ اسے جانے کے لیے راستہ دیا۔اور خود بھی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔غلطی بھی تو میڈم ہی کی تھی۔
کیا نام ہے تمہارا؟"اس کے یوں پوچھنے پر وہ رکی اور حیرت سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔"
بھئی ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟ نام ہی پوچھا ہے۔"وہ دو قدم پیچھے ہٹا۔"
ایک تو اس کی سب سے فرینک ہونے کی عادت بھی اتنی اچھی نہیں تھی۔
آپ کو اس سے مطلب؟ "لہجے میں غصے کے عناصر نمایاں شامل تھے۔"
وہ اب مزید بے وقوفی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"اچھا۔تو آپ کو غصہ بھی کرنا آتا ہے۔اچھی بات ہے ۔کبھی کبھی غصہ کر لینا چاہیے۔"
نہایت ڈھیٹ انسان لگ رہا تھا اس لیے وہ کوئی بھی جواب دیے بنا آگے بڑھ گئی۔
سوری ۔میرا خیال ہے کہ آپ مائنڈ کر گئی ہیں؟"وہ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔"
دیکھیے مسٹر۔۔۔" اس نے دائیں ہاتھ کی انگلی اٹھا کر اسے تنبہیہ کرنے کی کوشش کی۔"
دیکھ ہی تو رہا ہوں۔"چہرے پر قاتلانہ مسکراہٹ سجائے ،سینے پر "
بازو باندھے وہ اس کی جھیل سی آنکھوں میں غوطہ زن ہو رہا تھا۔
اور اس کا دل چاہا تھا کہ وہ اپنا سر پیٹ لے۔جس کی وجہ سے وہ رات بھر سو نہ سکی وہ اتنا فضول قسم کا انسان ہوگا اس کے وہم و گمان میں نہ تھا۔
"مجھے کالج سے دیر ہورہی ہے۔اور آپ ہیں کہ بدتمیزی پہ بد تمیزی کیے جا رہے ہیں۔"
اس نے اپنے لہجے کو ترش کرتے ہوئے کہا تاکہ مقابل پر اس کی کمزوری نہ ثابت ہوجائے۔
اچھا۔تو جو آپ پچھے پندرہ منٹس سے مجھے گھور رہی تھیں تب آپ کو کالج "
جانے کا خیال نہیں آیا تھا؟"تو ہین کا احساس ہوا تھا۔مقابل بھی غصہ کرنا جانتا تھا۔اس کے چہرے پر سجی مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوچکی تھی۔
میں کب آپ کو گھور رہی تھی؟" زندگی میں پہلی دفعہ اس سے اتنی بڑی غلطی ہوئی تھی۔"
"اگر مجھے پتا ہوتا کہ آپ یوں مکر جائیں گی تو میں اپنے آئی فون سے آپ کی وڈیو بنا لیتا۔"
اس نے اسے اپنا آئی فون دکھاتے ہوئے کہا جیسے وہ اس کے آئی فون سے مرعوب ہوجائے گی۔
ہنہہ ۔"وہ اس کے آئی فون کو ریجیکٹ کر کے جاچکی تھی۔اور وہ برا سا منہ بنا کر ہی رہ گیا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالج میں بھی اس کا موڈ آف رہا اور گھر آکر بھی۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنا سر کھول دے۔آخر کیا ضرورت تھی اسے یوں گھورنے کی۔جانے وہ کیا سوچ رہا ہوگا اس کے بارے میں۔
تم اتنی بڑی بے وقوفی کیسے کرسکتی ہو؟وہ اپنے بال نوچ رہی تھی۔یہ اس کی عادت تھی جب بھی غصہ آتا تو وہ اسے اپنے بالوں پر ہی نکالتی تھی۔
اگر کل اس نے مجھے یوں تنگ کیا تو اس کا وہ حال کروں گی کہ ساری زندگی یاد رکھے گا۔اس کا آخری فیصلہ ایسا ہی ہوتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اگلے دن وہ اسے پھر اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دینے کے لیے چلی گئی۔
وہ جب اس سنگی بنچ کے قریب سے گزری تو اسے پھر وہی قہقہہ سنائی دیا جو اسے پہلے دن بہت بھلا لگا تھا اور آج زہر۔
دل میں اس کا قتل کرنے کی ٹھان کر وہ اس کی جانب چلی گئی۔
آخر آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟نہایت لوفر قسم کے انسان ہیں آپ۔"
میں آپ کو اگر کچھ کہہ نہیں رہی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سرِ راہ یونہی بدتمیزی پر اتر آئیں۔" اس کے قریب پہنچ کر اس نے بنا سوچے سمجھے بولنا شروع کردیا۔
جی۔کیا کہہ رہی ہیں آپ؟"اس نے کانوں سے ہینڈز فری نکالتے ہوئے کہا۔"
میں جانتی ہوں کہ آپ سن چکے ہیں۔اگر آپ نے دوبارہ ایسی کوئی بدتمیزی کی "
تو انجام کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔"وہ اسے دھمکی دیتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
دیکھیے میم ہنسنے کا موقع تو آپ خود دیتی ہیں۔"وہ نہایت معصومیت سے بولا۔"
یہ بات سنتے ہی اس کے تن میں آگ لگ گئی ۔وہ غصے سے پلٹی اور ہاتھ میں پکڑی بک پوری قوت کے ساتھ اسے دے ماری۔وہ اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا۔کتاب اس کی ناک پر زور سے لگی اور ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا۔اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور خون کو صاف کیا۔
اس نے یہ کیا کر دیا۔اب اس کا جوانجام ہوگا اس کا ذمہ دار کون تھا۔وہ پریشانی کے عالم میں بت بنے اسے دیکھ رہی تھی لیکن کچھ بھی تو نہیں ہواتھا۔
اس راج کمار نے زمین سے بک اٹھا کر اسے تھمائی اور ناک سے دوبارہ خون کو صاف کیا۔
میں اپنے دوست کی بات پر ہنس رہا تھا۔ یہ کہہ کر اس نے فون کے اسپیکر کو آن کیا۔
"اوکے اشعر میں گھر جا کر تم سے بات کرتا ہوں ۔"
اوکے لوفر انسان۔" فون سے اشعر کی آواز نے اسے طلسمی شہزادے کے سامنے شرمندہ کردیا۔"
اس نے سنگی بنچ سے پانی کی بوتل اٹھائی اور وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے اب اپنے کیے پر بہت شرمندگی ہو رہی تھی۔
میرا خیال ہے کہ مجھے معافی مانگ لینی چاہیے۔آخر میری غلطی تھی۔مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔اگر اس کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو تو۔
یہ خیالات اسے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اگلے کئی دن تک وہ وہاں نہیں آیا تھا۔اس کے نہ آنے پر اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔
وہ گھر سے دس پندرہ منٹ پہلے نکل جاتی اور اسی سنگی بنچ پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرتی۔آج بھی وہ وہاں بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی۔اور اوپر والے نے اس کی سن لی تھی۔وہ اپنے مخصوص انداز میں بھاگتا ہوا آرہا تھا۔اسے دیکھ کر وہ بنچ سے اٹھی اور اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگی۔وہ اسے نظر انداز کرتا ہوا اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا۔کانوں میں ہینڈز فری لگائے ہوئے۔وہ اپنا سانس بحال کرنے لگا۔
اس کی ناک پر چوٹ کا نشان نمایاں نظر آرہا تھا۔وہ اس کے قریب یونہی کھڑی رہی جیسے بادشاہ کے سامنے کوئی باندی ہاتھ باندھے کھڑی ہو۔وہ اس کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ نہیں بولا۔انا کی بستی کا وہ بھی بادشاہ تھا۔
پھر اسے خود ہی آغاز کرنا پڑا۔
وہ میں آپ سے سوری کرنا چاہتی ہوں۔ "اس نے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے کہا۔"
آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟ "یہ سچ تھا کہ اس نے اسے دور سے دیکھتے ہی میوزک آف کر دیا تھا"
اور صرف بننے کے لیے ہینڈز فری لگائے ہوئے تھے۔
میں آپ سے سوری کرنا چاہتی ہوں۔" آج اسے اپنی بات دہراتے ہوئے غصہ نہیں آیا تھا۔"
کس بات کے لیے؟" وہ اس بات کو بھول چکا تھا۔"
وہ۔۔۔اس دن۔۔۔۔"اس نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔"
بیٹھ جاؤ۔" مگر اس نے بات درمیان سے کاٹ دی ۔"
راج کمار نے راج کماری کو اپنے بائیں پہلو میں بیٹھنے کی جگہ دی۔
وہ جھجکتے ہوئے بیٹھ گئی۔
"اس دن جو میں نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اس کے لیے۔"
وہ اپنی گود میں رکھی کتابوں کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
مگر وہ اس کی بات نظرانداز کر گیا۔اس نے اس کے ہاتھ میں پکڑی ایک کتاب کو اٹھایا اور اسے کھول کر اس کا پہلا صفحہ دیکھا۔پھر بند کر کے واپس اسے تھما دی۔
ہممم تو ابرش نام ہے تمہارا۔ "اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔"
جی۔" ابرش کو بہت حیرت ہوئی۔وہ کیا سوچ رہی تھی اور ہو کیا رہا تھا۔"
"نائس نیم۔۔"
نام کو سراہا گیا تھا۔
کیا مطلب ہے اس نام کا؟" وہ موضوع کو جان بوجھ کر بدل رہا تھا۔"
اللہ کی رحمت۔" وہ یونہی سرجھکائے بیٹھی تھی۔"
لیکن مجھے تو اللہ کی نعمت لگتی ہو۔ "اس نے شوخ سے انداز میں کہا۔آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔"
جی؟؟" وہ ناسمجھی کے عالم میں اسے تکنے لگی۔"
میں یہ کہہ رہا تھا کہ سوری کی کوئی ضرورت نہیں۔اگر میں تمہاری جگہ ہوتا"
تو اگلے انسان کا حشر نشر کردیتا۔" وہ ٹیک چھوڑ کر سیدھا ہوا۔
"لیکن کسی کی ناک کی ہڈی توڑ دینا کہاں کی شرافت ہے بھلا؟"
اس نے اپنی ناک کو سہلاتے ہوئے کہا۔
اس کے یوں کہنے پر ابرش کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
میرے ساتھ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔میں ہوں ہی اتنا خوبصورت کہ ہر لڑکی کی حالت ایسی ہوجاتی ہے۔"
وہ بلاوجہ بات کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ "اس نے شیخی بگاڑتے ہوئے کہا۔
"جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے ۔آپ کی طرف دیکھ کر ہر لڑکی کو غصہ آنا بنتا ہے ۔"
اففف کن الفاظ میں تائید کی گئی تھی۔یہ بات سن کر طلسمی شہزادے کا قہقہہ فضا میں بلند ہوا جسے سننے کے لیے ابرش اتنے دنون سے بے تاب تھی۔بلا شبہ وہ ایک خوبصورت شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت مسکراہٹ کا بھی مالک تھا۔
زندگی میں کبھی بھی کسی انسان کو اپنی ذات پر ہنسنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔"
اگر کوئی ایسا کرے تو اس کے ناک ہڈی کیا پورا چہرا توڑ دیناچاہیے۔" وہ اسے شرمندگی کے بھنور سے نکال رہا تھا۔
ہاہاہاہاہاہا۔جی بہتر آج کے بعدآپ کے ساتھ ایسا ہی کیا کروں گی۔" اس نے فرمانبرداری دکھائی۔"
مادام اب ہم آپ کے ہر وار کے لیے ہوشیار رہا کریں گے۔"اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔"
میرا خیال ہے کہ اب تمہیں کالج جانا چاہیے ۔"اس نے گھڑی کو سیکھتے ہوئے کہا۔"
وہ جانے کے لیے کھڑی ہوگئی۔
آپ نے اپنا نام تو بتایا نہیں۔ "جانے سے پہلے وہ یہ سوال کرنا نہیں بھولی تھی۔"
تو تم نے کونسا بتا یا تھا۔" شرارت سے کہتا وہ وہاں سے چلا گیا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔