پاکستان آنے سے پہلے ماریہ اور آسٹن کو ایک دفعہ پھر ٹریفلگر اسکوائر آنے کا موقع ملا تھا۔لیکن اس دفعہ وہ میوزیم میں نہیں آئے تھےاور نہ ہی ان اسٹریٹس میں بنے تھیٹرز اور سینیما ہالز میں آئے تھے۔بلکہ اس دفعہ ان کی یونی ورسٹی کے تمام اسٹوڈنٹس اپنے آئرش فیلوزکے کہنے پر ان کی تقریب دیکھنے آئے تھے۔جو کہ ہرسال لندن میں ہوتی تھی۔
نیلسن کے عظیم الشان مجسمے کے نیچے ایس۔ٹی۔پیٹرک ڈے منایا جارہا تھا۔ماریہ پہلی دفعہ کسی ایسی تقریب میں شرکت کرنے آئی تھی۔اور وجہ اس کا نیا بننے والا دوست تھا جو اسے دنیا گھمانے کی ٹھان چکا تھا۔
لندن کی چند گلیوں تک محدود رہنے والی وہ لڑکی دنیا کی تمام گزرگاہوں پرسفر کررہی تھی۔کائنات کے حسین رنگ وہ پہلی دفعہ اپنی زندگی کے پھیکے کینوس پربکھرے دیکھ رہی تھی۔بلاشبہ وہ بہت خوش دکھائی دے رہی تھی۔
چند لمحوں کے بعد پریڈ شروع ہونے والی تھی۔جسے دیکھنے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔
’’ماریہ دیکھنا بہت مزا آنے والا ہے۔‘‘شور کی وجہ سے آسٹن چیخ کرکہہ رہا تھا۔ماریہ اس کی بات پر مزید پرجوش ہوگئی۔
ٹریفلگر اسکوائر ہرے،نارنجی اور سفید رنگ میں ڈوبا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔یہ رنگ آئرلینڈ کے جھنڈے کی نمائندگی کررہے تھے۔
اتنی ہی دیر میں تین لڑکیاں جنہوں نے نارنجی رنگ کے لباس زیب تن کیے تھے،پریڈ کے روٹ پر نمودار ہوئیں۔انہوں نے یک زبان ہوکر وہاں پرموجود تمام لوگوں کا استقبال کیا اور پریڈ کے باقاعدہ آغاز کا اشارہ کرتے ہوئے جس جذبے سے آئی تھیں اسی جذبے کے ساتھ لوٹ گئیں۔
ان کے پیچھے ہی میوزک چلنے کی آواز آئی،جسے ایک دستہ سننے والوں کی نذر کررہا تھا۔ایک آدمی سینٹ پیٹرک کا پورٹریٹ لیے اس پریڈ کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لیے سب سے آگے تھا۔
ماریہ جنگلے سے لگے وہ سب منظر بڑی گرم جوشی سے دیکھ رہی تھی۔
آئرلینڈکے جھنڈے کی نمائندگی کرتے ہوئے آدمی کے پیچھے تین لمبی قطاریں موجود تھیں جن میں مرد اور عورتیں شامل تھیں۔ان سب نے ایک جیسے لباس پہن رکھے تھے۔موسیقی کی لے پر وہ پریڈ کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔وہ کبھی ایک پاؤں زمین پر مارتے تو کبھی دوسرا۔کبھی بانہوں کا گھیرا تنگ کرتے تو کبھی بازو آکاش کی وسعت کے لیے کھول دیتے۔کبھی ہاتھ میں پکڑی چھڑیوں کوگھماتے تو کبھی بغل میں دبا کر سر پر اوڑھی ٹوپیوں کو عزت سے درست کرتے۔
میوزک بدلا اور وہ پاؤں زمین پر مارتے،بازؤں کو مخصوص انداز میں ہلاتے چلے گئے۔اس کے پیچھے ایک بڑا سا جھنڈا تھامے ایک گروہ نمودار ہوا۔جھنڈے پر سینٹ پیٹرک کے لیے عقیدانہ جملے لکھے گئے تھے۔
ہلکی ہلکی بارش برس رہی تھی جس سے سامنے کا منظر اور بھی دلکش ہورہا تھا۔
ماریہ۔۔۔۔
لندن کی شاطر گلیوں سے نکلی۔۔
ایک معصوم سی لڑکی۔۔۔
ہرمنظر کو یادوں کے قید خانوں میں مقید کررہی تھی۔
وہ ہر بدلتے منظر کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔کچھ ہی لمحوں میں منظر بدلا اور سامنے ہری ٹوپیاں اوڑھے،گردنوں میں چھوٹے ڈرم لٹکائے مرد اور عورتوں کا ایک گروپ نمودار ہوا۔
وہ دوتین دفعہ ہاتھ میں پکڑی چھڑی ڈرم پر مارتے اور پھر ہاتھ فضامیں بلند کرکے مخصوص آوازیں نکالتے۔وہ آوازیں ماریہ لندن میں رہتے ہوئے بھی پہلی دفعہ سن رہی تھی۔
نیلسن ان چیزوں کا عادی ہوچکا تھا۔اسی لیے وہ ٹریفلگراسکوائر کے ٹاور پر ایک شان سے کھڑا بے نیاز نظر آرہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد تین خوبصورت لڑکیاں منظر پرآئیں اور آئرش ڈانس پیش کرنے کے بعد منظر سے ہٹ گئیں۔
آسٹن کی نیلی آنکھیں بھوری آنکھوں والی لڑکی کو دیکھنے میں محو تھیں۔اس کے لیے لندن کے تمام حسین رنگ ان بھوری آنکھوں میں نہاں تھے۔
وہاں آئرلینڈ کی ہر ایسوسی ایشن کی نمائندگی ایک مخصوص گروہ کررہا تھا۔ہرگروہ کا اپنا انداز تھا اور ہرانداز دلکش تھا۔ہرگروہ کے ساتھ ایک دستہ تھا اور ہردستہ ایک الگ دھن کامالک تھا۔
نیلسن کے مجسمے تلے ہزاروں لوگ جمع تھے
ٹاور کے نیچے چاروں کونوں میں بنے شیروں کے مجسمے آج بھی اتنے ہی ہیبت ناک تھے۔لیکن آج ماریہ ان کی جانب متوجہ نہیں تھی۔اس کا توجہ کا مرکز تصویر میں ابھرنے والا ایک بہت بڑا انسانی مجسمہ بن چکا تھا،جس کے نمودار ہوتے ہی موسیقی کی دھنیں دہشت پھیلانے لگیں۔وہ ایک بہت ہی خوفناک شکل کا مالک تھا۔جسے ایک انجن کی مدد سے چلایا جارہا تھا۔اس کا چہرہ جھری دار تھا جس پر لمبے لمبے بال لٹک رہے تھے اور آنکھیں کسی دہکتے سرخ انگارے کی طرح تھیں ۔وہ گردن ہلاتا کبھی دائیں جانب دیکھتا تو کبھی بائیں جانب۔
جنگلے کےساتھ لگی وہ لندن کی ڈرپوک لڑکی آسٹن کے قریب ہوگئی۔دونوں کے کندھے ایک دوسرے کے ساتھ مس کرنے لگے۔اس پل آسٹن کو لگا تھا اس کی ساری دنیا اس لمحے میں اس کے قریب ہوگئی تھی۔وہ دہشت ناک چہرے والا مجسمہ آسٹن کو کتنا اچھا لگا تھا یہ بات ماریہ نہیں جانتی تھی۔
آسٹن دل میں چھوٹی چھوٹی دعائیں کرنے لگا کہ کاش وہ لمحہ ہمیشہ کے لیے ٹھہر جائے اور وہ اس کے قریب یونہی رہے ہمیشہ،آخری سانس کے آنے تک۔لیکن قدرت شاید یہ نہیں چاہتی تھی۔اس لیے وہ لمحہ گزر گیا اور جدائی ان کے درمیان آگئی۔
آسٹن نے لاشعوری طور پر مڑکے نیلسن کے مجسمے کی جانب دیکھا جس کے چہرے پربکھری تفخرانہ مسکراہٹ آسٹن کو لب بھینچنے پر مجبور کرگئی تھی۔نیلسن سے پھسلتی نگاہیں ماریہ کے چہرے سے ٹکرائی تھیں جو کہ ان رنگوں میں کہیں گھم ہوتی جارہی تھی۔شام کے سایے اس کی خوشیوں پرپھیلتے جارہے تھے۔
پریڈ اپنے اختتام کی جانب تھی۔اس لیے لوگ اپنے گھروں کی جانب لوٹ جانے کے لیے بے تاب ہورہے تھے۔
آئرش جھنڈے کو جسم پرلپیٹے ایک خوبصورت لڑکی نے تمام لوگوں کا تقریب میں آنے کے لیے شکریہ ادا کیا اور ایک خوبصورت مسکراہٹ لندن کے باسیوں کی نذر کرتی ایک ادا سے چلتے ہوئے چلی گئی۔
آسٹن ماریہ کی جانب پلٹا لیکن ایک دھکا لگا تھا اور ماریہ لوگوں کے سیلاب میں بہہ گئی۔وہ لوگوں کو دھکیلتے ماریہ کی جانب بڑھنے لگا۔
’’ماریہ‘‘
’’ماریہ‘‘
اس نے خود کو چیختے ہوئے پایا تھا مگر لندن کے باسیوں کا سیلاب اس کی ماریہ کو اپنے ساتھ بہانے لگا۔ماریہ بھی اسے پکار رہی تھی لیکن آواز لوگوں کے ہجوم میں ہی کہیں کھوئے جارہی تھی۔
آسٹن کو اپنی سانس رکتی ہوئی نظر آئی جب ایک ذور کا دھکا ماریہ کو لگا اور وہ لندن کے باسیوں کے پیروں کے رحم و کرم پر آگئی۔وہ نیچے گری تھی۔
نیلسن کے مجسمے کے سامنے سے بے رحم لوگ گزر رہے تھے۔
گروہ در گروہ۔
ماریہ کو روندتے ہوئے۔
آسٹن کی ماریہ کو روندتے ہوئے۔
آسٹن آگے بڑھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن لوگوں کا سیل اس کی مخالف جانب بہہ رہا تھا۔وہ لوگوں کے ساتھ پیچھے کی جانب دھکیلابجا رہا تھا۔
اس کی نظریں ابھی بھی اسی جگہ پرتھیں جہاں وہ جان سے پیاری لندن کی بے رحمدلی کا شکار ہوئی تھی۔وہ ساری قوت جمع کرتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ کرچیڑ کربمشکل آگے بڑھا۔
اس جگہ کے قریب پہنچ کر اس نے ماریہ کو آواز دی۔جواب میں اسے کسی نے بے بسی سے پکارا تھا۔لیکن پھر منظر ٹھہر گیا۔ٹریفلگر اسکوائر پر خاموشی کی چادر چھاگئی۔لوگ دائرہ بنا کر کھڑے ہوگئے۔اور زمین پر پڑے اس بے جان وجود کو دیکھنے لگے جوکہ خون آلود ہوچکا تھا۔آسٹن ایک آئرش لڑکے کو دھکیلتے ہوئے دائرے میں داخل ہوگیا۔
موت کی تکلیف کسے کہتے ہیں، یہ کوئی نیلسن کے بے رحم مجسمے کے سامنے کھڑے آسٹن کی آنکھوں سے واضح چھلک رہا تھا۔
لندن کا عظیم ٹاور ایک جانب لڑھکا اور نیلسن کا مغرور مجسمہ ٹوٹ کو زمین بوس ہوگیا۔اور اس کا سارا ملبہ آسٹن پرگر گیا۔
اس کے قدم رک چکے تھے۔ماریہ کے وجود کے پاس۔جس سے زندگی کی رمق ختم ہوتی محسوس ہورہی تھی۔
اس نے آگے بڑھ کر دیوانہ وار اس کے وجود کو گلے سے لگایا۔نیلی آنکھوں سے غم کے چشمے پھوٹ رہے تھے جن کا پانی آسٹن کے گالوں سے ہوتا ہوا ماریہ کے بالوں میں جذب ہورہا تھا۔
اردگرد پھیلی خاموشی چہ مگوئیوں سے شکست کھانے لگی۔ٹریفلگر اسکوائر کے کبوتر پھڑپھڑانے لگے۔دور کہیں گاڑیوں کا شور کانوں کے پردے پھاڑ دینے کے قریب تھا۔آسٹن ان آوازوں کو سن پارہا تھا۔وہ پولیس کی گاڑیاں تھیں اور ان میں ایمبولینس کا آلارم واضح سنائی دے رہا تھا۔
ایمبولینس کے قریب آنے سے لوگ پیچھے ہٹنے لگے اور جگہ بنانے لگے۔کاش وہ یہ جگہ پہلے بنادیتے۔
ایمبولینس سے دو آدمی نکلے اور اس کی ماریہ کو اس سے چھینتے ہوئے دور لے گئے۔وہ ایمبولینس کو جاتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔
’’اگر ماریہ کو کچھ ہواتو میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔‘‘اس نے غصے سے ایک خالی کین نیلسن کی جانب پھینکا۔اور پھر ایک ٹیکسی کی جانب لپکا۔اسے ہاسپٹل جانا تھا اپنی زندگی کے پیچھے۔
(ــــــــــــــــــــــــــ)
میجر بلال کی شادی کی خوشی میں ان کی یونٹ کے جوانوں نے بون فائر کیا ہوا تھا۔ٹھٹھرتی راتوں میں گرما دینے والے لمحے کتنی خوشی دیتے ہیں اس بات کا اندازہ صرف پاک فوج کے جذبے سے لگایا جاسکتا ہے۔
کھلے آسمان تلے آگ کا آلاؤ روشن کیے وہ سب میجر بلال کو شوخ سوالوں سے زچ کررہے تھے۔مگر میجر صاحب بھی ان کے میجر تھے،آسانی سے ان کی باتوں کے جواب نہیں دے رہے تھے۔
ایک طرف باربی کیو تیار کیے جارہے تھے جبکہ دوسری طرف سیکنڈ لیفٹیننٹ دانیال ساقی ایک خالی کین کو بجاتے ہوئے خوبصورت آواز میں مختلف علاقائی گیت پیش کررہے تھے۔جبکہ باقی جوان تالیاں بجا کر ایک نئی دھن تشکیل دے رہے تھے۔میجر ارتضی حدید بھی چائے کا بھاپ اڑاتا کپ لیے وہیں آگئے۔
’’سر سنا ہے کہ شادی کے بعد کی زندگی بہت عبرت ناک ہوتی ہے؟‘‘ دانیال کو ناجانے کیا سوجھا تھا جو میجر صاحب کو یہ سوال داغ دیا۔
’’ہاہاہاہا۔‘‘ میجر بلال کا ایک خوبصورت قہقہہ اس سرد رات کی نذر ہوا تھا۔
’’شادی کے بعد کا پتا نہیں لیکن میں تو شادی سے پہلے بھی عبرت ناک زندگی گزار چکا ہوں۔‘‘ناک پر لگی چوٹ کا نشان سہلاتے ہوئے انہوں نے میجر ارتضی سے چائے کا کپ چھین لیا۔میجر ارتضی کو ان سے ایسی ہی امید تھی اسی لیے انہوں نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
’’یار آج تو بتا ہی دو کہ اس چوٹ کے پیچھے کیا راز ہے؟‘‘ میجر ارتضی نے راز داری دکھائی۔
’’راز کی باتیں ہیں،راز ہی رہنے دو۔‘‘ اب وہ اتنے بھی پاگل نہیں تھے کہ ابرش سے پٹنے کا راز میجر ارتضی کے سامنے کھول دیتے اور وہ بی بی سی کی نیوز کی طرح دنیا بھر میں ان کی تشہیر کرتے پھرتے۔
’’کوئی بات نہیں،وہ تو میں پتا لگوا ہی لوں گا۔‘‘انہوں نے میجر بلال سے کپ واپس لے لیا۔
’’کیا ہے یار تھوڑی اور پینے دو۔‘‘لہجہ منت سماجت سے بھرپور تھا۔
’’تو جاؤ،اپنی لے آؤ۔‘‘مزے سے سپ لیتے ہوئے انہوں نے میجر بلال کا دل جلایا تھا۔
ویسے یار میری زندگی کا بھی ایک دور عبرت ناک گزرا ہے۔‘‘چائے کا کپ خالی کرتے ہوئے انہوں کرسی کی ٹیک چھوڑ دی۔
’’اچھا،مگر کب؟‘‘میجر بلال کو میجر ارتضی کے راز جاننے کا بہت شوق تھا۔
’’تم یہ سوال کرتے اچھے نہیں لگتے۔‘‘ انہوں نے میجر بلال کو کچھ جتایا۔
’’میں ہر سوال کرتا اچھا لگتا ہوں۔‘‘دلکش چہرے پر دلکش مسکراہٹ سجی تھی۔
جس کی چمک بہت شوخ تھی۔
جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔
’’یار پی۔ایم۔اے کے ابتدائی دن،کیا کسی قیامت سے کم تھے؟‘‘ مٹھی کے اوپر ٹھوڑی رکھتے ہوئے انہوں نے ایک سرد’’آہ‘‘ بھری۔
’’ہاہاہاہا۔‘‘ آگ کے آلاؤ کے قریب سے قہقہے ابھرے تھے۔
’’ہاہاہاہا۔۔۔وہ بھی کیا دن تھے۔‘‘ میجر بلال نے ماضی کو یاد کرنے کی کوشش کی۔
’’سر ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کو سوارڈ آف آنر ملی تھی۔پھر بھی آپ کو اپنے وہ دن عبرت ناک لگتے ہیں؟‘‘دانیال ایک دہکتی سیخ اٹھاکر لائے جس پر چند بوٹیاں لگی ہوئی تھیں،جوکہ آگ کی بے رحمی کا شکار ہوکر بھن چکی تھیں۔
’’کچھ نہ پوچھو کہ یہ اعزازی شمشیر کیسے ملی تھی؟‘‘ میجرارتضی نے کانوں کی لو کو ہاتھ لگایا۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔۔‘‘ میجر بلال گردن پیچھے گرا کر ہنسنے لگے۔ہنستے ہنستے ان کی آنکھوں کےگوشے نم ہوگئے۔
’’اف۔۔۔ارتضی کی تمنا۔‘‘ آنکھوں کے گوشے صاف کرتے ہوئے وہ پھر ہنس دیے۔
’’میجرصاحب کی تمنا؟‘‘ دانیال ساقی باربی کیو کھاتے ہوئے متوجہ ہوئے۔
’’تمنا ڈپ کی بات کررہے ہیں آپ کے میجر صاحب۔‘‘میجر بلال کو ہنسی کے دورے پڑ رہے تھے۔ماضی ان کی یادوں کی سکرین پر باکل شفاف نظر آرہا تھا۔
’’سر ہمیں بھی بتائیں ناں۔‘‘ کیپٹن خاور تجسس لیے ان کے پاس آکر بیٹھ گئے۔
’’یہ کیا بتائے گا۔سوارڈ آف آنر ملی ہے۔کہاں تمنا جی کی باتیں بتائے گا۔‘‘میجر بلال بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کو قابو کررہے تھے۔
’’نہیں،بتائیے ناں سر۔‘‘ کیپٹن خاور میجر ارتضی سے مخاطب تھے، جو ہتھیلی پر گال رکھے میجر بلال کو گھور رہے تھے۔
’’اسے تمنا ڈپ میں کوئی ہزار دفعہ سزا ملی ہے۔‘‘میجر بلال کہاں باز رہنے والے تھے۔
’’سچ؟‘‘ یونٹ کے باقی جوانوں کی طرح کیپٹن خاور کے لیے بھی یہ بات ناقابل یقین تھی کیونکہ وہ اس فیلڈ میں میجر ارتضی کو پرفیکٹ سمجھتے تھے۔
’’ہاں یار۔اور اتنی دفعہ ملی ہے کہ تمنا ڈپ میں ڈپ ہو کر تیری تمنا،میری تمنا،ہائے تمنا ہائے تمنا کہہ کہہ کر میری زبان پر ہروقت تمنا تمنا رہتا تھا۔ گھر جاکر جب میں دادی ماں کو سلام کرتا تھا تو السلام علیکم دادی ماں کی جگہ السلام علیکم تمنا نکلتا تھا اور بس پھر کیا دادی ماں کی چپل ہوتی تھی اور آپ کے میجر صاحب۔‘‘کانوں کی لو کو چھوتے ہوئے مرمرا کے سمندر کے بھنور گہرے ہوئے تھے۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔‘‘ میجر بلال پیٹ پکڑ کرکھڑے ہوگئے۔جبکہ باقی نوجوان بھی بے یقینی سے ہنسنے لگے۔
’’ایک دفعہ ارتضی کو تمنا ڈپ میں سزا ملی۔اس نے کئی دفعہ تمنا ڈپ کا نعرہ لگایا اسی گدلے پانی میں۔سزا بھگت کر جب باہر نکلا تو سر نے پوچھا ہاں بھئی جواں! مزا آیا؟ تو اس نے یس سر کی جگہ یس تمنا کہہ دیا۔ سر نے اسے پھر تمنا ڈپ میں ڈال دیا کہ لو اب اچھی طرح سے تمنا جی کے مزے۔‘‘پیٹ پکڑ کر میجر بلال نیچے زمین پر بیٹھ گئے۔ہنس ہنس کر گالوں میں درد ہونے لگا تھا۔میجر بلال کی بات پر سب نے خوب قہقہے لگائے جبکہ ڈمپلز والا وہ اسٹرانگ مین سب کو خفگی سے دیکھتا رہا۔
’’خود کو تو بیلٹ تک نہیں لگانی آتی تھی۔‘‘میجرارتضی نے بھی ان کے پول کھولنے کی ٹھان لی تھی۔
’’ابے یار۔ہاتھ جوڑتا ہوں تیرے آگے۔غلطی ہوگئی معاف کردے۔‘‘ میجر بلال جانتے تھے کہ میجر ارتضی سب کچھ کھول کر سامنے رکھ دیں گے۔
’’واہ،واہ۔کیا کہنے آپ کے۔‘‘میجر ارتضی کرسی چھوڑ کر میجربلال کے پاس ہی نیچے آکر بیٹھ گئے۔
’’خود پر بات آئی تو جناب ہاتھ جوڑنے پر آگئے۔ہاں۔‘‘میجر ارتضی نے ان کی گردن دبوچ کر زور سے دبائی۔
’’اچھے بھائی نہیں ہومیرے۔‘‘ میجر بلال نے گردن چھڑانے کی ناکام کوشش کی۔
’’ناں۔میں اچھا نہیں ہوں،اچھے تو صرف میرے بڑے بھائی میجر بلال احمد صاحب ہیں۔‘‘میجر ارتضی نے مزید زور ڈالا،جس سے میجر بلال کراہ کررہ گئے۔
’’چلیں سر،چھوڑیں،ادھر آئیں۔کوئی گانا ہی سنادیں۔‘‘کیپٹن عمار کین اٹھا لائے تھے بجانے کے لیے جسے پہلے سیکنڈ لیفٹیننٹ دانیال بجا رہے تھے۔
’’چلو چھوڑ دیا۔کیا یاد کرو گے۔‘‘میجر ارتضی نےان کو چھوڑتے ہوئےشاہانہ انداز اپنایا۔کھڑے ہوکر انہوں نے میجر بلال کی جانب ہاتھ بڑھایاجسے تھام کروہ کھڑے ہوگئے۔
’’چلو،جواد احمد کا ایک گانا سناتاہوں۔اور یہ گانا میری یونٹ کے تمام جوانوں کی دوستی کے نام۔‘‘
میجر ارتضی نے گلہ صاف کیا۔
رہےناں رہے
یہ جیون کبھی
بنی رہے یہ دوستی
سب تالیاں بجانے لگے۔
ہے تیری قسم
او یارا میرے
جدا ہم نہ
ہوں گے کبھی
میجر بلال نے میجر ارتضی کے کندھے دایاں بازو رکھ دیا اور دوسرے ہاتھ سے چٹکی بجانے لگے۔
ہمیشہ رہے تو ساتھی میرا
یہ بندھن رہے یوں سدا
یہ طاقت تیری
یہ قوت تیری
بڑھے یہ میری ہے دعا
کیپٹن عمار نہایت عمدگی سے کین بجا رہے تھے۔کچھ جوان آگ کے آلاؤ کے گرد خٹک ڈانس کرنے لگے۔اردو گیت پر خٹک ڈانس کا حسین امتزاج۔
او میرے یار
تو میرا پیار
صدا رہے تو سلامت
تیری میری یہ دوستی
یونہی رہے تاقیامت
سب یک زبان ہوکر میجر ارتضی کے ساتھ گانے لگے۔
دوستی کا جذبہ ان بیابانوں میں پروان چڑھنے لگا۔دوست یار جینے مرنے کی قمسیں کھانے لگے۔رات کی چاندنی دوستی کے جاوداں ہونے کی دعا کرنے لگی۔
مل کے بتائیں جو پل ہم کبھی
فضائیں یہ کھل سی اٹھیں
جواں مردی،ہمت سے ہے زندگی
ہوائیں یہ کہنے لگیں
میجر بلال،میجر ارتضی کو لیکر دائرے میں شامل ہوگئے۔
حسیں یہ سماں
جھومے جہاں
گائیں زمیں آسماں
کیپٹن خاور نے ان سب پر ہاتھ سے خیالی پیسے نچھاوڑ کیے۔
او میرے یار
تو میرا پیار
سدا رہے تو سلامت
تیری میری یہ دوستی
یونہی رہے تاقیامت
وہ کبھی ہاتھ آگے لے جاکر تالی بجاتے تو کبھی کمر کے پیچھے لے جاکر چٹکی بجاتے۔
آسمان نہ رہے
یہ زمین نہ رہے
چاہے مرضی خدا کی ہو
کچھ نہ رہے
پر رہے دوستی اور محبت سدا
دنیا میں صرف پیار زندہ رہے
میجر ارتضی کی آواز مدھم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی۔رقص کرتا دائرہ تھم گیا ۔سب نے تالیاں بجا کر میجر ارتضی کو داد دی۔میجر بلال نے ہمیشہ کی طرح فرط جذبات میں آکر میجر ارتضی کو گلے لگایا۔ایک انجانے احساس کے تحت دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔سب نےہاتھ اٹھا کر ان کی دوستی کی سلامتی کے دعائیں کیں۔
’’آہم،آہم۔مجنوں جی لیلی کو چھوڑ دیں۔‘‘ کیپٹن خاور نے شرارت سے کہتے ہوئے میجر بلال کو میجر ارتضی سے الگ کیا۔ وہ دونوں آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا دیے۔
’’اف،اتنا جذباتی منظر۔یقین جانیے سر میں نے کبھی ایسے کسی گرل فرینڈ کو اپنے بوائے فرینڈ کے گلے لگتے نہیں دیکھا۔‘‘کیپٹن عمار کین ایک طرف رکھتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔
’’اچھا تو کیا تم لوگوں کی گرل فرینڈز پر نظر رکھے ہوئے ہو۔‘‘میجر بلال نے آستین اوپر چڑھانے کے انداز میں بازوؤں پرہاتھ میرے۔
’’نہیں،میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ چوری پکڑی گئی تھی۔
’’تو پھر کیا مطلب تھا؟‘‘ میجر ارتضی کلاس لینے کے موڈ میں آگئے۔
’’سر میرا مطلب یہ تھا کہ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔‘‘چوری پکڑی جانے پر فوری بہانہ کیوں نہیں سوجھتا۔
’’اٹس لاسٹ وارننگ فاریوکیپٹن عمار۔‘‘ میجر ارتضی نے شہادت کی انگلی دکھاتے ہوئے کیپٹن عمار کو وارن کیا۔
’’سوری سر۔‘‘ کیپٹن عمار سر جھکا کر کھڑے ہوگئے۔
میجر ارتضی کو غصے میں دیکھ کر سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔میجر بلال بھی سانس روک کر کھڑے ہوگئے۔
’’ڈیشنگ بوائے،میں نے لاسٹ وارننگ اس لیے دی ہے کہ آئندہ کین اچھے سے بجانا ورنہ میں تمہیں بجا دوں گا۔‘‘ شرارت بھنوروں سے واضح چھلک رہی تھی۔یہ سن کر سب نے اپنا سانس بحال کیا۔
’’یس سر۔‘‘ کیپٹن عمار نے خوش ہوتے ہوئے میجر ارضی کو سلوٹ کیا۔
’’تجھے کیا ہوگیا ہے؟‘‘ میجر بلال کو سانس روکے کھڑے دیکھ کر وہ حیران ہوئے۔
’’آں۔۔۔کچھ نہیں۔‘‘ ہنسی کو چھپاتے ہوئے وہ باربی کیو کی جانب آگئے۔میجر ارتضی بھی ان کی جانب لپکے۔جبکہ کیپٹن عمار لوگ آپس میں خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے اور باربی کیو کے بننے کا انتظار کرنے لگے۔
(ــــــــــــــــــــــــ)
ٹریفلگر اسکوائر سے لیکر ہسپتال تک کا وہ سفر کسی بھی بڑی تکلیف سے کم نہ تھا۔
کرچیوں پہ ننگے پاؤں چلنے کا احساس کیا ہوتا ہے وہ آسٹن سے بڑھ کر کوئی محسوس نہیں کرسکتا تھا۔
وہ جب تک ہسپتال پہنچاتب تک ماریہ کو ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا جاچکا تھا۔ریسیپشنسٹ سےپوچھ کر وہ دیوانہ وار ایمر جنسی وارڈ کی جانب بھاگا تھا۔وہ بہت سے لوگوں کو دھکے دے کر گزررہا تھا۔ہاں اسے یہی لگ رہا تھا۔
آسٹن،لندن کا بہادر انسان۔
آسٹن جو نیلسن کے مجسمے سے بھی زیادہ مضبوط تھا،لمحہ ہی تو لگا تھا اسے ریت کی دیوار کی طرح بیٹھنے میں۔
وہ بھاگتے ہوئے لندن کے اصولوں کی خلاف ورزی کررہا تھا۔لندن نے اس کے وجود کو توڑا تھا اور وہ اب لندن کے ان اصولوں کو توڑرہا تھا،جنہوں نے اس سے اس کی ماریہ چھیننے کی کوشش کی تھی۔
وہ ایمرجنسی وارڈ کے قریب پہنچا مگر دروازہ بند ہوچکا تھا۔
تو کیا قدرت اس طرح جسم اور روح کے درمیان آتی ہے؟
تو کیا اس طرح روح اور جسم کا ساتھ چھوٹتا ہے؟
کیا لندن اتنا بے رحم ہوسکتا تھا؟
وہ سکتے کی حالت میں کھڑا تھا۔بے رحم لندن کی سرزمین پر بنے ہسپتال کے فرش پر۔جو شاید ٹھنڈا پڑرہا تھا۔
اسے اپنے گالوں پر پانی کے پھسلنے کا احساس ہورہا تھا۔تو کیا وہ رورہا تھا؟ ہاں،وہ رورہا تھا۔لندن کا آسٹن رو رہا تھا۔وہ جوکبھی اپنے لیے نہیں رویا تھا،آج ماریہ کے لیے رو رہا تھا۔نہیں، وہ اپنے لیے ہی رورہا تھا۔ہاں،وہ اپنے لیے ہی رو رہا تھا۔
لندن نے اسے رلا دیا تھا۔
اس مضبوط اعصاب کے مالک کو لندن کی بے رحمی نے رلا ڈالا تھا۔
اس نے روتے ہوئے خود کو دعا کرتے ہوئے پایا تھا۔ماریہ کی زندگی کے لیے یا شایداپنی زندگی کے لیے۔
اس کا ماریہ کے ساتھ روح اور جسم کا رشتہ تھا۔روح اور جسم ایک دوسرے کے بغیر مردہ ہی تصور کیے جاتے ہیں۔تو کیا وہ بھی اپنی روح کے بغیر مردہ تصور کیا جائے گا؟
نہیں،قدرت اتنی بے رحم نہیں ہوسکتی۔
قدرت واقعی اتنی بے رحم نہیں ہوسکتی۔
ہسپتال کی سفیدی میں ڈوبی دیواریں،سفید پتھر کا فرش،سفید کپڑوں میں ملبوس ڈاکٹرز اور نرسیں۔سفیدرنگ اتنا دہشت ناک تو اسے کبھی بھی نہیں لگا تھا۔
وہ ہسپتال کے سفید فرش پرڈھے گیاتھا۔قیمتی متاع لٹ جائے تو بادشاہ وقت بھی ڈھے جاتے ہیں۔یہی وقت کی ستم ظریفی ہوتی ہے۔
اس کی نیلی آنکھیں ابھی بھی ایمرجنسی وارڈ کے دروازے پرجمی ہوئی تھیں جہاں امید کی مدھم کرن ابھی بھی باقی تھی شاید۔
وہ گڑگڑانے لگاتھا۔ہسپتال کےسفید فرش پر گرا وہ گڑگڑا رہا تھا۔وہ خدا سے زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔اسے نہیں یاد پڑتا تھا کہ اس نے کبھی یوں گڑگڑا کر دعا مانگی ہو۔
مگر زندگی میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ ہمیں گڑگڑانا ہی پڑتا ہے۔ہمیں رو کردعا مانگنی ہی پڑتی ہے۔چاروناچار سہی۔لیکن یہی زندگی کا اصول ہے۔زندگی اسی طرح آزماتی ہے۔کچھ تو اس آزمائش میں پرنم ہوجاتے ہیں اور کچھ شیشہ دل لوگ پتھرا جاتے ہیں۔آسٹن بھی پتھرا گیاتھا۔لیکن وہ بہادر تھا اس لیے ٹوٹنے سے پہلے رو دیا تھا۔اگر وہ نہ روتا تو پتھر کا مجسمہ ڈھے جاتا۔
وقت سیکنڈوں میں،پھر منٹوں میں گزرنے لگا۔اس نے وقت کو گھنٹوں میں گزرتے بھی دیکھا تھا۔
کاش اس وقت کوئی آسٹن سے پوچھتا کہ تکلیف کی انتہا کیا ہوتی ہے؟تووہ بتاتا کہ اسٹریچر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں لیٹے ہوئے کسی اپنے بہت ہی پیارے کودیکھنا ہی تکلیف کی انتہا ہے۔
(ـــــــــــــــــــــ)
ماریہ کو ہوش نہیں آرہا تھا لیکن اس نے دعا مانگنا نہیں چھوڑی تھی۔ ایک جان لیوا انتظار کے بعد ایمرجنسی وارڈ کا دروازہ کھلا اور ایک ڈاکٹر چہرے سے ماسک ہٹاتے اس کے قریب آیا۔وہ ابھی سر جھکائے،ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں بھینچے سسک سسک کر دعا مانگ رہا تھا۔
اپنے کندھے پرمہربان ہاتھ کا وزن محسوس ہونے سے اس نے سر دھیرے سے اوپر اٹھایا۔ڈاکٹر پر نظر پڑتے ہی وہ سرعت سے کھڑا ہوا۔
وہ ڈاکٹر کے چہرے کو کھوجنے لگا جہاں پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ڈاکٹر نے اس کے کندھے کو تھپتپھایا اور ایک جاندار مسکراہٹ سے زندگی کی نوید سنائی۔اس نے جھک کرڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا۔کیونکہ اسے اس وقت یہی طریقہ سوجھا تھا۔
دعائیں تڑپ سے مانگی جائیں تو قبول ہوہی جاتی ہیں۔
غم کے آنسوؤں کو خوشی کے آنسوؤں نے مات دے دی تھی۔ڈاکٹر رابرٹ نے اسے کچھ ہدایات دینے کے لیے اپنے ساتھ لے لیا۔
(ــــــــــــــــــــــ)
ڈاکٹر سے ملاقات کے دوران ماریہ کو کمرے میں شفٹ کردیا گیا تھا۔آسٹن ڈاکٹر سے ملنے کے بعد برق سی تیزی کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے کمرے تک پہنچا۔دروازہ کھولنے سے پہلے وہ کچھ لمحوں کے لیے رکا تھا۔پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے ہینڈل کو گھمایا اور کلک کی آواز سے لاک کھل گیا۔
سامنے بیڈ پر لندن کی معصوم پری بےسدھ سی لیٹی تھی۔جگہ جگہ پر بینڈیج کی گئی تھی۔جسم کا زیادہ حصہ پٹیوں میں لپٹا ہواتھا۔آسٹن کو وہ ایسے پڑی بالکل اچھی نہیں لگی تھی۔اسےتو ماریہ ٹریفلگر اسکوائر کے کبوتروں کو پاپ کارن ڈالتے اچھی لگتی تھی۔لندن برج پر خوشی سے اچھلتی اچھی لگتی تھی۔میوزیم میں کی گئی پینٹنگز کی نمائش کو بغور دیکھتے ہوئے اچھی لگتی تھی۔مگر اس حالت میں تو بالکل اچھی نہیں لگی تھی۔
وہ بیڈ کے قریب آگیا۔دوستی کا شفقت بھرا ہاتھ اس نے ماریہ کی پیشانی پر رکھا جس کے دائیں جانب کونے میں بینڈیج لگی ہوئی تھی۔
اک شناسا لمس محسوس ہونے پر ماریہ نے اپنی آنکھیں دھیرے سے وا کردیں۔
سامنے محبت کا مجسمہ چہرے پر پریشانی کے تاثرات لیے بیٹھا تھا۔آسٹن پرنظر پڑتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’ارے،پاگل روتے نہیں۔‘‘ کتنا تڑپا تھا وہ اسے یوں روتے ہوئے دیکھ کر۔
’’اور ایسے تو بالکل بھی نہیں روتے۔‘‘اس نے آگے بڑھ کر ماریہ کے آنسو صاف کیے جو اسے بالکل پسند نہیں تھے۔
اس کے رونے میں کمی نہیں آئی تھی۔
’’اگر میں مرجاتی تو؟‘‘ لندن کی وہ بزدل لڑکی شدت سے رونے لگی۔
’’ماریہ مرہی نہیں سکتی۔‘‘ کتنا یقین تھا لہجے میں۔
’’کیوں؟‘‘ رونا بھول کر وہ اس کے یقین پر حیران ہوئی تھی۔
’’کیونکہ آسٹن کی دعائیں ماریہ کو مرنے نہیں دے سکتیں۔‘‘ وہ ماریہ کو نہیں بچا سکتا تھا لیکن اس کی دعائیں ماریہ کو کبھی نہیں مرنے نہیں دے سکتی تھیں۔یہ ہی سنا تھا ماریہ نے اس کے لبوں سے۔
’’آسٹن تم بہت اچھے ہو۔‘‘ چہرے پرمشکور مسکراہٹ لیے اس نے آسٹن کو دیکھا تھا۔
’’ہمم۔یہ تو ہے۔‘‘ ماریہ کہ چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر اسے تسلی ہوئی تھی۔
’’مجھے تمہارا ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔‘‘ تو کیا اسے احساس ہوا تھا۔وہ چونک گیا۔
’’آئندہ کبھی نہ چھوڑنا۔‘‘وہ کتنی ذومعنی باتیں کرنے لگا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘آنکھیں موندتے ہوئے اس نے حامی بھری تھی کبھی نہ ہاتھ چھوڑنے کی۔وہ نیند کی آغوش میں جارہی تھی۔ڈاکٹر نے اسے پرسکون نیند کیلیے دوائی دی تھی۔جوشاید اثر کرچکی تھی۔
وہ اس کے سرہانے بیٹھا تھا اور اس کے سر میں ہاتھوں کی انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا۔
’’کاش ماریہ تم کبھی بھی میرا ہاتھ نہ چھوڑو۔‘‘ اس کے پرسکون چہرے کو دیکھتے ہوئے آسٹن کے دل سے دعا نکلی تھی۔
لیکن ساری دعائیں کہاں قبول ہوتی ہیں بھلا۔
(ـــــــــــــــــــــــ)
ماریہ کے زخمی ہونے کی وجہ سے انہوں نے پاکستان جانے کے لیے سیٹس لیٹ کروالی تھیں۔ماریہ اپنے اچھے دوستوں کہ وجہ سے بہت جلدی ری کور کررہی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم بھرہی جاتے ہیں۔
ماریہ کی پیکنگ ٹالی نے کی تھی۔اور اس کے شاپنگ بھی ان سب نے مل کر کی تھی۔پاکستان جانے کا جو اسے جوش چڑھاتھا وہ ماند پڑگیا تھا۔اس کی دلچسپی اس حادثے کے بعد ختم ہوچکی تھی۔خاموش ماریہ اور خاموش ہوچکی تھی۔
(ـــــــــــــــــــــــ)
روانگی کا دن آن پہنچا تھا۔وہ سب بہت خوش تھے۔لیکن لندن سے جدائی کا غم ان سب کو افسردہ بھی کررہا تھا۔جیسے جیسے پرواز کاوقت قریب آرہا تھا،ماریہ کے دل کی بے چینی بڑھتی ہی جارہی تھی۔دل کا یوں دھڑکنا کس لیے تھا وہ نہیں جانتی تھی۔وہ ایک گھنٹہ پہلے ائیرپورٹ پر پہنچ چکے تھے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد اسپیکرز سے ایک شائستہ لہجے میں اعلان گونجا۔جس کے سنتے ہی تمام مسافروں نے جہاز میں جانے کے لیے قدم بڑھا دیے۔لگیج کو دھکیلتے ہوئے وہ سب نئی امنگیں لیے آگے بڑھ رہے تھے۔کوئی لندن سے ہمیشہ کے لیے جارہا تھا تو کوئی صرف وقتی قیام کے لیے۔
جہاز نے اڑان بھری اور ماریہ کا لندن اس کے قدموں تلے آگیا جیسے وہ آئی تھی کچھ دن پہلے لندن کے قدموں تلے۔لیکن وہ روندنے والوں میں سے نہیں تھی۔وہ تواڑنے والوں میں سے تھی۔لندن کی فضاؤں کے سنگ اڑنے والوں میں سے۔
(ــــــــــــــــــــــــ)
فضاؤں کوچیڑتے ہوئے جہاز نیواسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کرچکا تھا۔
یہاں انہیں دودن کا قیام کرنا تھا۔ائیرپورٹ سے باہر قدم رکھتے ہوئے سب کے دل کی حالت بدلی تھی۔ماریہ کا تیزی سے دھڑکتا دل یکدم پرسکون ہوچکا تھا۔اس زمین سے اس کا جیسے برسوں سے رشتہ ہو۔جیسے اس کا خمیر اسی مٹی سے اٹھا ہو۔اور برسوں بعد وہ لوٹ آئی ہو اور دل کو قرار آگیا ہو۔
کچھ ایسی ہی حالت آسٹن کی بھی تھی لیکن اس کی بے چینی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی تھی۔
جبکہ ان کے برعکس ٹالی،آرنلڈ اور چارلس بہت خوش تھے۔انہوں نے جاگتی آنکھوں سے جو خواب دیکھےتھے ان کی تعبیر کا وقت بہت قریب تھا۔
انہوں نے قریبی ہوٹل جانے کے لیے دو ٹیکسیاں کرایے پرلیں۔ایک ٹیکسی میں فرنٹ سیٹ پر آسٹن براجمان تھا جبکہ پچھلی سیٹ پر ٹالی اور ماریہ تھیں۔دوسری ٹیکسی میں چارلس اور آرنلڈ تھے۔
آسٹن لوگوں کی ٹیکسی آگے تھی۔ٹیکسی کے سڑک پربھاگنے سے منظر تیزی سے بدل رہے تھے۔ماریہ اسلام آباد کی صاف ہوا کو اپنے نتھنوں کے ذریعے اپنی روح کے اندر تک اتارنے لگی۔وہ ان ہواؤں کو پہلے بھی کہیں محسوس کرچکی تھی لیکن کہاں؟ یہ ماریہ بھی نہیں جانتی تھی۔
بلاشبہ وہ لندن سے بھی زیادہ خوبصورت شہر تھا۔
قدرت ہرمنظر پربراجمان نظر آرہی تھی۔اونچے اونچے پہاڑوں کی اوٹ سے کالے بادل بلند ہورہے تھے۔روئی کے گالوں کی طرح ہلکے پھلکے ایک سمت سے دوسری سمت جارہے تھے۔گیلی گیلی سڑکیں بارش ہونے کا پیغام دے رہی تھیں۔
قدرت کا ایک مکمل شاہکار۔
اسلام آباد۔
دنیا کے خوبصورت شہروں میں سے ایک شہر۔
ٹیکسی فراٹے بھرتے آگے بڑھ رہی تھی۔بہت سے منظر پیچھے رہ چکے تھے۔اب نئے منظر ان کے منتظر تھے۔
(ــــــــــــــــــــــــ)
محرم ِ زیست ! کوئی بات ہے یہ
دور ہوتے نہیں خیالوں سے
ہر گھڑی آس پاس رہتے ہو
آنکھ لگتی ہے سوچتے تم کو
آنکھ کُھلتے ہی یاد آتے ہو
خواب بھی تم سجائے رکھتے ہو
ساری دنیا بُھلائے رکھتے ہو
یاد کر کے تمہاری باتوں کو
بات بے بات مسکراتا ہوں
خود سے لگتے نہیں جُدا مجھ کو
اپنے اندر ہی تم کو پاتا ہوں
تم مری سوچ میں خیالوں میں
میرے جینے کے سب حوالوں میں
میری تاریکیوں، اُجالوں میں
میری مستی بھری دھمالوں میں
میری ہر اک دُعا میں رہتے ہو
ابتدا انتہا میں رہتے ہو
خامشی مین صدا میں رہتے ہو
تم مری ہر ادا مین رہتے ہو
محرم ِ زیست کوئی بات ہے یہ
جانے کیسے ہے یہ کیا تم نے
مجھ کو میرا پتا دیا تم نے
تھک گیا تھا تلاش میں اپنی
مجھ سے مجھ کو ملا دیا تم نے
کچھ بھی اپنا نہیں رہا باقی
تم ہی تم بھر گئے ہو اب مجھ میں
محرم ِ زیست کوئی بات ہے یہ
سورج مغرب کی جانب بڑھ رہا تھا۔دور نیلا آسمان سرخی مائل ہورہا تھا۔وہ بالکونی میں کھڑی پرندوں کو اپنے گھروں کی جانب لوٹتا دیکھ رہی تھی۔لیکن حقیقت میں وہ کسی اور کے آنے کی منتظر تھی۔وہ جو فرض کی پکار پرچلا گیا تھا۔جس کی طرف سے دل ہروقت انجانے خوف سے دھڑکتا رہتا تھا۔جسے گئے ہوئے کئی دن ہوچکے تھے۔شاید ایک ماہ سے اوپر کا عرصہ ہوچکا تھا اور یہ عرصہ وقت کی لمبی مسافت پرپھیل چکا تھا۔
انتظار کی گھڑیاں تو ویسے بھی صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔لیکن اگر یہی انتظار محرم کے لوٹ کر آنے کا ہوتو یہ صدیاں کئی ہندسوں سے ضرب کھا کر گنتی کے دائرے سے نکل جاتی ہیں۔
طویل ہوتی جاتی ہیں۔
طویل سے طویل تر۔
کبھی نہ ختم ہونےوالے انتظار کے کٹھن سفر پر چلنے والوں کو چلنا ہی پڑتا ہے۔
ہجر کی آگ میں جلنے والوں کو جلنا ہی پڑتا ہے۔
شام کی اداسی اس کی روح میں اترنے لگی تھی۔
ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے وہ بالکونی سے کیچن میں آگئی جہاں اسے رات کے لیے کھانا تیار کرنا تھا۔
(ــــــــــــــــــــــــــــ)
ڈور بیل مسلسل بج رہی تھی۔وہ کیچن میں رات کے لیے کھانا تیار کررہی تھی۔آنچ دھیمی کرکے وہ دروازہ کھولنے آگئی۔
لیکن کوئی گھنٹی پر ہاتھ رکھ کر بھول گیا تھا شاید۔اس لیے اسے ابرش کی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔
’’آگئی ہوں بابا۔کیا ہوگیا ہے؟‘‘تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہ بھاگنے کے انداز میں چل رہی تھی۔
’’کون ہے بھئی؟‘‘ مگر جواب میں صرف گھنٹی بجتی ہی سنائی دے رہی تھی۔غصے سے اس کے عارض سرخ ہونے لگے۔
اس نے جھنجلاتے ہوئے دروازہ کھولا لیکن دروازہ کھلتے ہی سارا غصہ کہیں غائب ہوگیا تھا۔آنکھیں یقین کرنے سے انکاری ہوچکی تھیں۔سامنے وہ کھڑا تھا جس کے ملن کی اس نے صبح دعا مانگی تھی۔
کیا دعائیں اتنی جلدی بھی قبول ہوجاتی ہیں۔
’’السلام علیکم۔‘‘ لیکن ابرش کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔
’’کب سے بیل بجا رہا ہوں۔کہاں تھی؟‘‘ وہ ہنوز اسی حالت میں کھڑی تھی۔
’’ابرش۔‘‘ اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجا کرانہوں نے اسے واپس ہوش کی دنیا میں کھینچا۔
’’جی۔‘‘ سکتہ ٹوٹا تھا۔
’’کدھر پہنچ گئی ہو؟‘‘ شوخ سی مسکراہٹ لبوں پر پھیلی تھی۔
کتنے دن ہوچکے تھے آنکھوں کو وہ مسکراہٹ دیکھے ہوئے ۔کانوں کو وہ آواز سنے ہوئے۔
’’آپ۔۔۔؟‘‘ وہ ابھی بھی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔
’’جی میں۔‘‘ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے ہال میں لے آئے۔کیونکہ ابرش تو وہاں مجسمہ بنے ساری رات کھڑی رہ سکتی تھی اور یہ کام میجر بلال کے بس سے فی الحال باہر تھا۔
’’کہاں تھے اتنے دن؟‘‘ چاہنے والوں کی زبان پر شکوے آہی جاتے ہیں۔
’’اپنی دوسری بیوی کے پاس۔‘‘ فین آن کرتے ہوئے انہوں نے اس کے تپتے ہوئے چہرے پرنظر ڈالی۔۔جواب میں انہیں ابرش کی جانب سے کشن ملا تھا جو اس نے قریبی صوفے سے اٹھا کر میجر بلال کو زور سے دے مارا تھا۔
’’بھئی کیسی بیوی ہو؟ پانی تک نہیں پوچھا۔‘‘ ٹائی کی ناٹ ٹھیک کرتے ہوئے انہوں نے خشک گلے سے تھوک نگلا تھا۔
’’کیوں آپ کی دوسری بیوی نے آپ کو پانی پلا کرنہیں بھیجا تھا؟‘‘ وہ سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی لینے کیلئے پلٹی۔جس میں برف کے ٹکڑے ابھی بھی تیر رہے تھے۔
’’نہیں۔اس نے کہا تھا کہ اپنی پہلی بیوی کے گھر سے پی لینا۔‘‘ گھڑی کلائی سے اتار کر انہوں نے آستین کہنیوں تک موڑے۔
’’یہ لیں پانی۔‘‘ گلاس انہیں تھما کر وہ ان کے بوٹوں کے تسمے کھولنے لگی۔
’’ارے،کیا کررہی ہو؟‘‘ گلاس لبوں سے ہٹاتے ہوئے انہوں نے اسے منع کیا تھا۔
’’شوز اتار رہی ہوں۔‘‘ ان کا ہاتھ پیچھے ہٹا کر اس نے اپنا کام جاری رکھا۔
’’چھوڑو ،میں خود اتار لوں گا۔‘‘انہیں ابرش اپنے قدموں کے قریب بیٹھی بالکل اچھی نہیں لگی تھی۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘شوز اتار کر وہ ان کی چپل لینے چلی گئی۔چپل لا کر اسے نے ان کے پیروں کے قریب رکھ دی۔ساکس اتارتے ہوئے وہ کچھ پریشان ہوئی تھی۔کیونکہ بائیں پاؤں کے انگوٹھے پر ناخن کے قریب زخم بگڑی حالت میں نظر آرہا تھا۔
’’اف۔اتنا سا بھی خیال نہیں رکھ سکتے آپ اپنا۔‘‘وہ زخم کو ٹٹولنے لگی۔
’’آپ ہیں ناں ہمارا خیال رکھنے کے لیے۔‘‘ وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے جبکہ نگاہیں ابرش کے فکر مند ہوتے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔
’’ٹھہریں۔میں بینڈیج لگا دیتی ہوں۔‘‘شوز اور ساکس لیکر وہ چلی گئی۔
’’پاگل ہے بس۔اتنے سے زخم کے لیے اتنا پریشان ہورہی ہے۔‘‘ مسکراہٹ اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے پھر لبوں پر آکر براجمان ہوگئی۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ واپس آگئی تھی۔اس کے ہاتھ میں ایک پانی کابڑا سا برتن تھا۔پانی کے برتن کو زمین پر رکھ کر اس نے بینڈیج،اسپرٹ اور ٹاول کو میجر بلال کے قریب ہی صوفے پر رکھ دیا۔
’’پاؤں ڈالیں اس میں۔‘‘ کسی بریگیڈئیر کی طرح اس نے حکم چلایا تھا۔
’’اوکے سر۔‘‘ میجر بلال تھوڑا سا آگے کی جانب ہوئے اور پاؤں برتن میں ڈال دیے۔ابرش مساج کرنے کے سے انداز میں ان کے پاؤں دھونے لگی۔
’’کیا یہ میری عبادتوں اور ریاضتوں کا صلہ ہے۔‘‘ اس کے شفاف چہرے پرنظریں جمائے انہوں نے دل میں سوچا تھا۔
’’اب نکالیں۔‘‘ ان کے پاؤں نکلانے کے بعد اس نے پانی کا برتن ایک طرف کیا۔صوفے سے ٹاول اٹھا کر ان کا دایاں پاؤں اچھی طرح سے صاف کیا۔اس کے بعد اس نے ان کا بایاں پاؤں اٹھا کر احتیاط سے اپنی گود میں رکھا۔زخم والی جگہ کو احتیاط سے صاف کیا۔کاٹن کے ٹکڑے پر اسپرٹ لگا کر اس نے زخم پر لگایا۔
اچھی طرح اسپرٹ لگانے کے بعد اس نے نرمی سے انگوٹھے کے گرد بینڈیج لپیٹ دیا۔اور پھر سب چیزوں کو احتیاط سے اٹھاتے ہوئے واپس اپنی جگہ پررکھنے کے لیے چلی گئی۔
’’میں ماما کو آپ کے آنے کی اطلاع دے آئی ہوں۔‘‘ واپسی پر وہ ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔
’’شکریہ۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے گردن اس کی جانب گھمائی۔
’’لیکن میں آپ سے ابھی بھی ناراض ہوں۔‘‘ نروٹھے پن سے کہتے ہوئے وہ میجر بلال کی آنکھوں کے راستے سے دل میں اتری تھی۔
’’ابرش۔‘‘ انہوں نے اسے ہولے سے پکارا۔
وہ جب بھی اسے اس طرح پکارتے تھے اس کے دل کی زمین زیروزبر ہونے لگتی۔
’’تمہیں کچھ محسوس ہورہا ہے؟‘‘ چہرہ اس کے قریب لاتے ہوئے انہوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔
’’کیا؟‘‘ تیز ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ اس نے بھی میجر بلال کی آنکھوں میں غوطہ زنی کی تھی۔
’’ہنڈیا جلنے کی بو۔‘‘ سنجیدگی چہرے پر سجائے انہوں نے اس سے تائید چاہی تھی۔
آنکھوں کا سحرٹوٹا۔
’’او میرے خدایا۔‘‘ وہ تیزی سے کیچن کی جانب لپکی،جہاں وہ ہنڈیا آگ پر رکھ کر بھول آئی تھی۔
’’ہاہاہاہاہاہا۔۔۔‘‘ ایک شرارت سے بھر پور قہقہے نے اس کا پیچھا کیا۔
کاش یہ قہقہے ساری عمر اس کا پیچھا کرتے رہیں۔
(ــــــــــــــــــــــــــ)
رات کوکھانا کھانے کے بعد میجر بلال قریبی مسجد میں عشاء کی نماز ادا کرنے چلے گئے۔واپسی پر وہ کمرے میں آئے لیکن ابرش کمرے میں موجود نہیں تھی۔انہوں نے واش روم کے دروزازے کی ناب کو گھمایا۔دروازہ کھلا ہواتھا۔ابرش واش روم میں بھی نہیں تھی۔انہوں نے ٹیرس پر جھانکا لیکن اسے وہاں بھی نہ پاکر وہ اپنی ماما کے کمرے میں آگئے۔ان کے کمرے کی لائٹ بند تھی۔جسکا صاف مطلب تھا کہ وہ سو چکی تھیں۔
’’کہاں چلی گئی؟‘‘ وہ کیچن کی جانب آئے مگر کیچن کا دروازہ بھی بند تھا۔ہال میں سرسری نظر دوڑا کر وہ اوپر چھت پر آگئے۔سامنے وہ کھلے آسمان تلے رکھے جھولے پر براجمان تاروں بھرے آسمان میں مگن تھی۔اسے دیکھ کر میجر بلال نے سکون کا سانس لیا۔
’’آہم،آہم۔‘‘انہوں نے اسے اپنے مخصوص انداز میں متوجہ کیا۔وہ شانوں پر دوپٹہ درست کرتے ہوئے سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔
’’کیا دیکھا جارہا ہے بھئی؟‘‘ اس کے قریب ہی جھولے پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے پاؤں کی مدد سے جھولے کو حرکت دی۔
’’شائننگ اسٹارز۔‘‘بالوں کی لٹ کو کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے وہ مسکرائی۔
’’برائٹ مون کے ہوتے ہوئے بھی۔‘‘ دنیا کی خوبصورت مسکراہٹ میجر بلال کے لبوں پر رینگی تھی۔
مسکراتے ہوئے وہ دوبارہ تاروں کی جانب متوجہ ہوگئی۔
’’ان شائننگ اسٹارز کو یوں اتنا محو ہوکر دیکھنے کی وجہ؟‘‘برائٹ مون کو اپنی موجودگی کا نظر انداز کیا جانا تھوڑا سا ناگوار گزرا تھا۔
’’میں جب بہت چھوٹی ہوتی تھی تب میں نانو سے اکثر ایک سوال کیا کرتی تھی۔‘‘ وہ لمحہ بھر کو رکی۔
’’کہ مرنے کے بعد لوگ کہاں چلے جاتے ہیں؟‘‘ؓوہ اپنے معصوم سے سوال پر مسکرائی تھی۔
’’تو نانو ہمیشہ یہی کہتی تھیں کہ مرنے کے بعد لوگ اوپر آسمان پر تارا بن کر چمکنے لگتے ہیں۔‘‘ وہ محو سی بول رہی تھی۔
’’تب میرا بہت دل کرتا تھا کہ میں بھی تارا بن کر چمکوں۔‘‘ اس کی نظریں ابھی بھی تاروں پر تھیں جو تعداد میں اتنے تھے کہ اس کہ ایک نظر میں نہیں سما رہے تھے۔ جانے کتنے پیارے لوگ تارا بن گئے تھے۔میجر بلال اسے بولنےدے رہے تھے۔
’’میں یہ دیکھ رہی تھی کہ اس چھت سے کونسا تارا واضح نظر آتا ہے۔جب میں بھی تارا بن جاؤں گی تو آپ بھی یہاں بیٹھ کر دیکھیے گا۔سب سے واضح نظر آنے والا تارا آپ کی ابرش ہوگی۔‘‘ وہ اپنی رو میں کہے جارہی تھی۔
’’ابرش۔‘‘انہوں نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔وہ ان کے چہرے پر غصے اور رنج کے ملے جلے تاثرات دیکھ سکتی تھی۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔مذاق کررہی ہوں۔‘‘ اس نے اپنا سر میجر بلال کے کندھے سے ٹکا دیا۔
’’آئندہ ایسا مذاق نہ کرنا۔‘‘ خفگی سے کہتے ہوئے انہوں نے اس کی کلائی تھامی تھی جس میں اس نے سرخ رنگ کی چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں۔
’’بلال احمد دنیا کا ہر مذاق برداشت کرسکتا ہے۔مگر یہ والا تو ہرگز نہیں۔‘‘ وہ چوڑیوں کو ایک ایک کرکے جدا کرنےلگے۔
’’اچھا بابا۔۔۔ نہیں کروں گی آئندہ ایسا مذاق۔‘‘ہوا چل رہی تھی۔ابرش کے گھنے بال اڑ کر میجر بلال کے چہرے سے ٹکرا رہے تھے۔
’’گڈ گرل۔‘‘ چوڑیاں جدا کرتے ہاتھ نے اس کے ناک کو چٹکی میں لیتے ہوئے نرمی سے کھینچا تھا۔
’’آپ کے پاؤں کا زخم ٹھیک ہوگیا؟‘‘ اس نے چہرے پر آئے بال ہٹائے۔
’’میری پہلی بیوی نے اتنی محبت سے مرہم لگایا تھا،ٹھیک تو ہونا ہی تھا۔‘‘ الٹا جواب دینے پر ابرش کی طرف سے انہیں کندھے پر مکا ملا تھا۔
’’اوئی۔‘‘مکا بہت زور سے لگا تھا۔
’’اتنا ظلم توہم پر بریگیڈئر صاحب نہیں کرتے جتنا تم کرتی ہو۔‘‘ وہ ابھی بھی کندھا سہلا رہے تھے۔
’’تو آپ ان کے سامنے اوٹ پٹانگ باتیں بھی نہیں کرتے ہوں گے۔‘‘ وہ بالوں کو گول گول گھماتے ہوئے جوڑے کی شکل دینے لگی۔چوڑیوں کی کھنک فضا میں ابھر کر منظر کو سحرذدہ کررہی تھی۔
’’ہاااااااا۔۔۔تو میں کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہوں؟‘‘ ٹھوڑی پر شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے وہ بےیقین نظر آئے تھے۔
’’نہیں جناب۔بالکل بھی نہیں۔‘‘ اس نے سر دائیں بائیں ہلایا۔
’’تو یہ مرہم میری پہلی بیوی نہیں ہی لگایا ہے۔اس میں اوٹ پٹانگ والی کیا بات ہوگئی؟‘‘انہوں نے شرارت سے اس کے جوڑے کو دوبارہ کھول دیا۔
’’ایسی باتیں صرف اپنی دوسری بیوی کے ساتھ ہی کیا کریں۔‘‘ وہ خفا سی اٹھنے لگی لیکن میجر بلال نے زمین پر پاؤں ٹکا جھولے کو تیز کردیا۔
’’کیوں، پہلی کے ساتھ نہیں کرسکتا؟‘‘لہجہ شرارت سے بھرپور تھا۔
’’ابرش دنیا کا ہر مذاق برداشت کرسکتی ہے لیکن یہ پہلی دوسری بیوی والا تو ہرگز نہیں۔‘‘ اس نے ان کے انداز میں ہی کہا۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ٹھیک ہے۔‘‘ انہوں نے جھولے کی رفتار بڑھا دی۔جھولا لرزنے لگا۔
’’روکیں اسے۔‘‘ اس نے جھولے کے بازو کو مضبوطی سے تھام لیا۔
’’پہلے اپنا بیان واپس لو۔‘‘ وہ ہنوز اسی طرح سے بیٹھے تھے۔
’’نہیں لوں گی۔‘‘ حتمی فیصلہ سنایاگیا تھا۔
’’تو ٹھیک ہے۔ساری رات جھولتی رہو میرے ساتھ۔‘‘ شانِ بے نیازی سے کہتے وہ شرارت سے مسکرا دیے۔
وہ مسکراہٹ چھپائے،اس سے بے نیاز بیٹھے رہے۔جھولے کی رفتار میں ذرا کمی نہیں آئی تھی۔
آخر ابرش کو ہی ہار ماننا پڑی۔
’’اوکے۔۔۔کرلیا کریں ایسی اوٹ پٹانگ باتیں۔‘‘وہ میجر بلال کی ضد سے اچھی طرح واقف تھی۔
میجر بلال نے دونوں پاؤں زمین پرجماتے ہوئے جھولے کو روک دیا۔
’’تو پہلے ہی پیار سے مان جایا کرو۔‘‘ شائننگ اسٹارز میں برائٹ مون کی مسکراہٹ چمکی تھی۔جس نے تاروں کی آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا۔
’’آپ کی صحبت کا اثر ہے بس۔‘‘اب کی بار وہ بھی مسکرائی تھی۔
’’ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔‘‘وہ گردن پیچھے گرا کر ہنس دیے۔
’’چلو۔۔رات بہت ہوگئی ہے۔صبح مجھے جلدی جانا بھی ہے۔‘‘کھڑے ہوتے ہوئے انہوں نے اپنا ہاتھ ابرش کی جانب بڑھایا جسے تھام کر وہ کھڑی ہوگئی۔
دو پیار کرنے والے ہاتھ تھام کرچل دیے تھے۔دور آکاش پر چمکتے تارے اس جوڑے کی خوشیوں کے لیے دعا مانگنے لگے تھے۔لیکن تاروں کی بھی ساری دعائیں کہاں قبول ہوتی ہیں بھلا۔
(ـــــــــــــــــــــــ)
رات بھر پرسکون نیند لینے کے بعد وہ دس بجے کے قریب اٹھ گئی تھی۔لمبے بالوں کو کیچر میں مقید کرتے ہوئے وہ کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہوگئی جو کہ ہمیشہ سے اس کی عادت تھی۔کھڑکی کا پٹ وا ہوتے ہی اسلام آباد کی خنکی میں ڈوبی ہوائیں اسے صبح بخیر کہنے آئی تھیں۔ لمبا سانس لیتے ہوئے اس نے اس خوبصورت شہر کی صحت افزا ہوا کو اپنے اندر اتارا تھا۔
اس نے ایک نظر ٹالی پر ڈالی جو کہ ابھی بھی سو رہی تھی۔ ٹالی سے پھسلتی ہوئی نگاہ سامنے منظر سے ٹکرائی۔ سامنے سبز قطعوں میں گھری ہوئی سفیدی میں ڈوبی ہوئی فیصل مسجد نظر آرہی تھی۔
اور اس کے پیچھے اطراف میں بلند سبز پہاڑ ایک دلکش سماں پیش کررہے تھے۔بادل ابھی بھی آسمان پرتیر رہے تھے۔خوبصورتی کے اس عظیم شاہکار کودیکھتے ہوئے وہ لندن کو لمحہ بھر بھولی تھی۔
کچھ دیر باہر کا نظارہ کرنے کے بعد وہ کھڑکی بند کرکے واش روم میں چلی گئی۔آسٹن،آرنلڈ اور چارلس دوسرے کمرے میں سو رہے تھے۔
نئے ملک کی نئی صبح ان کی منتظر تھی مگر وہ اس بات سے بے خبر ابھی بھی نیند کی بانہوں کے حصار میں تھے۔
ماریہ جینز کے اوپر گھٹنوں تک آتے کوٹ کو پہن کر نیچے ہوٹل کے ہال میں چائے پینے کی غرض سے آگئی۔
ہال ہیٹرز کی وجہ سے گرم تھا لیکن سانسوں کو خنکی کا احساس ہورہا تھا۔وہ ہال میں لگے ٹیبلز میں سےایک پر جاکر بیٹھ گئی جو کہ گلاس وال کےساتھ تھا۔باہرکا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔
اسے ہارڈ راک کیفے یاد آیا۔جس کی گلاس وال کے ساتھ وہ اکثر بیٹھا کرتی تھی۔وہ وہاں پر گلاس وال کے قریب باہر کی جانب رکھے پھولوں کے گملے دیکھا کرتی تھی مگریہاں ایک لامحدود منظر گلاس وال سے باہر دیکھا جاسکتا تھا۔
بلاشبہ وہ ایک خوبصورت شہر تھا۔
’’گڈ مارننگ میم۔‘‘ ویٹر کی آواز نے اسے چونکایا۔
گڈمارننگ۔‘‘ ایک پیاری سی اسمائل کے ساتھ اس نے چائے کا آرڈر کیا۔ ویٹر آرڈر لیکر چلا گیا جبکہ وہ دوبارہ اس منظر میں کھو گئی۔
(ــــــــــــــــــــــــ)
چائے پینے کے بعد وہ دوبارہ اپنے کمرے میں آگئی۔ٹالی تب تک اٹھ چکی تھی۔
’’کہاں گئی تھی مادام؟‘‘ کمبل پرے پھینکتے ہوئے وہ بیڈ سے اتر آئی۔
’’میں نیچے چائے پینے گئی تھی۔‘‘ گرم کوٹ اتار کر اس نے دیوار پرایک طرف لگی کھونٹی سے لٹکا دیا۔
’’آہاں۔۔۔۔‘‘آنکھیں ملتے ہوئے وہ مسکرائی تھی۔
’’تم سو رہی تھی تو میں نے اٹھانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔‘‘ اس نے شکوے سے پہلے صفائی دی تھی۔
’’ہممم۔۔۔‘‘ چپل پہنتے ہوئے اس نے وال کلاک کو دیکھا جس پر ساڑھے گیارہ ہورہے تھے۔
’’جوکرز اٹھ گئے؟‘‘ اس نے آسٹن لوگوں کا پوچھا۔
’’پتا نہیں۔شاید ابھی نہیں اٹھے۔ان کا کمرہ لاکڈ تھا۔‘‘ اس نے اپنا موبائل آن کیا جو کل سے بند تھا۔
’’میں اٹھاتی ہوں ان کو۔‘‘ ٹالی کمر پر ہاتھ رکھ کر باہر چلی گئی۔
’’شامت آگئی ان کی۔‘‘ موبائل چارجنگ پرلگاتے ہوئے وہ مسکرائی تھی۔
(ـــــــــــــــــــــــــ)
یہ گولیاں کیوں چلائی جاتی ہیں
یہ کتنا شور مچاتی ہیں
صفِ ماتم بچھاتی ہیں
ہنستے ہنستے آنگن اجاڑ دیتی ہیں
کوئی دشمن نہیں ان کا
نہ کوئی دوست ہوتا ہے
کوئی بتائے ان آگ اگلتی مشینوں کو
تم میں سے جو عجب آگ نکلتی ہے
یہ چراغِ زندگی کو گل کرتی ہے
یہ آگ احساس سے عاری ہوتی ہے
جو نہ تیری ہوتی ہے
نہ میری ہوتی ہے
اور جب بچھڑ جاتا ہے
کوئی بہت پیارا اپنا
کتنا کہرام مچتا ہے
کوئی زاراقطار روتا ہے
معصوم بچوں کے سر سے
سایہ چھین لیتی ہیں
دنیا جنہیں یتیم کہتی ہے
ماں کا لختِ جگر دفن ہوجاتا ہے
ایک عورت پاگل سی دکھتی ہے
سفید لبادے میں ملبوس ہوتی ہے
وہ بیوہ کہلاتی ہے
ساتھ جینے مرنے کے وعدے
جب اس بیوہ کو یاد آتے ہیں
کسی کو کیا معلوم کہ دل پر
کتنے نشتر چل جاتے ہیں
سب ٹوٹ جاتا ہے
زمانہ جیسے روٹھ جاتا ہے
سب قصے پرانے ہوجاتے ہیں
مگر ایک سوال ہے
جو سب اٹھاتے ہیں
یہ گولیاں کیوں چلائی جاتی ہیں
یہ کتنا شور مچاتی ہیں
صفِ ماتم بچھاتی ہیں
کاش کہ گولیاں چلانے والے یہ بات سمجھ جائیں کہ جب یہ سینے کے آرپارگزرتی ہیں تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔جب یہ بے گناہ معصوموں کا نشانہ لیتی ہیں تو انسانیت کتنا تڑپتی ہے۔جب کسی باپ کو مٹی کے حوالے کرتی ہیں تو بچے کتنا بلکتے ہیں۔جب یہ سہاگ اجاڑتی ہیں تو نئی نویلی دلہن اپنی قسمت کو کس طرح نوچتی ہے۔
جب ماں اپنے لختِ جگر کو خون میں لت پت دیکھتی ہے تو اس کا کلیجہ کیسے پھٹتا ہے۔جب بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کے جنازے کو ناتواں کندھوں پر اٹھاتا ہے تو قدم کتنے بھاری ہوجاتے ہیں۔
جب بہنوں کے بھائی تابوتوں میں لپٹے آتے ہیں تو بہنیں کس طرح صبر کرتی ہیں۔
لیکن گولیاں چلانے والے یہ بات کہاں سمجھتے ہیں۔یہ درندہ صفت لوگ کہاں اس درد کو محسوس کرسکتے ہیں کہ جب کوئی گھر سے بن سنور کرجائے اور واپس کفن میں لپٹا آئے تو دل کیسے پھٹتا ہے۔
جب اپنے جان سے عزیز تر کا سینہ چھلنی دیکھا جائے تو آنکھیں کیسے خون بہاتی ہیں۔
مگر یہ نہیں جانتے۔یہ صرف دہشت پھیلانا جانتے ہیں۔گلی ہویا بازار ہوں۔دفتر ہوں یا اسٹیڈیمز ہوں۔غریب کی جگی ہو یا امیر کے محل۔ ان کا کام بس زندگی کو ختم کرنا ہوتا ہے۔یہ کہاں سمجھ سکتے ہیں کہ جب کسی پیارے کی آنکھوں کے سامنے تڑپتے ہوئے جان نکلتی ہے تو بے بسی کیسے دم توڑتی ہے۔
یہ گولیاں چلانے والے کہاں سمجھ سکتے ہیں۔لیکن اب ان کو ہی سمجھانے مادرِوطن کے بیٹے گھروں سے نکلے تھے۔انہیں یہ سمجھانے کہ گولی جب سینے پر لگتی ہے تو روح کیسے کانپتی ہے۔گھر میں جب بے جان لاش جاتی ہے تو زندگیوں میں صفِ ماتم کیسے بچھتا ہے۔مشین گن جب چلتی ہے تو دہشت کیسے پھیلتی ہے۔ خون کی بوندیں جب زمین پرگرتی ہیں تو موت کیسے لینے آتی ہے۔ ہاں اب ان کو یہ سب سمجھانے کا وقت آگیا تھا۔ملک بھر میں آپریشن راہِ نجات شروع کردیا گیا تھا۔گولیاں چلانے والوں کا گولیوں سے تڑپ تڑپ کر مرنے کا وقت آگیاتھا۔
(ـــــــــــــــــــــــــــــ)