آخرکار رحم دل وزیر ایک منصوبہ سوچ کر حضور میں حاضر ہوا اور دست بستہ عرض کی “جہاں پناہ! قیدی سے حسب دستور پوچھا گیا کہ اگر کوئی ارمان یا حسرت تیرے دل میں ہو تو بیان کر۔ قیدی نے کہا کہ میری آخری آرزو یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ایک بار بادشاہ ظل اللہ کا دیدار دیکھ لوں۔ چونکہ حجت شرعی تھی اس لیے اس کے قتل میں درنگ کی گئی۔ اب جو حکم سلطانی ہو بجا لائیں۔”
عالمگیر (ناک بھوں چڑھا کر): خیر اب تو مغرب کا وقت قریب ہے۔ اس وقت ہم اُس ناشدنی کو اپنے سامنے نہیں بلا سکتے ہیں۔ کل دس بجے دن کے اس کو اور جلاد دونوں کو دربار میں حاضر کرو۔ سعد اللہ خاں سلام کر کے دل میں خوش ہوتا ہوا پیچھے ہٹا اور رات کی رات سلیماں شکوہ کی جان بچ گئی۔ سعد اللہ خاں نے یہ تدبیر محض اس مصلحت سے کی تھی کہ شاید عالمگیر اپنے بھتیجے کے حسن و جمال کو دیکھ کر پسیج جائے اور اس بے خطا کی خطا معاف ہو جائے۔
بات کی بات میں صبح ہو گئی اور گل نے کسی مقتولِ جفا کے ماتم میں اپنا نازک پیرہن چاک کر ڈالا اور باغ کا پتہ پتہ اُس کے آنسوؤں سے رونے میں مشغول ہوا۔ آفتاب نکل آیا اور اس کی لمبی کرنیں جو شفق کی سرخی طے کر کے زمیں پر پہنچیں تو یہ معلوم ہوا کہ کسی نوجوان خورشید رخسار کا سر نیزہ پر چڑھایا گیا ہے، جس کی شہ رگوں سے خوں ٹپک رہا ہے۔
دیوان عام میں اورنگ زیب عالمگیر نے تخت جواہر نگار پر جلوس فرمایا۔ وزیر، امیر، منصب دار، ہفت ہزاری، پنج ہزاری، خاص و عام اپنے اپنے رتبہ اور عہدہ کےمقاموں پر دست بستہ کھڑے ہوئے۔ جس وقت سلیماں شکوہ دس سپاہیوں کی حراست میں تلواروں کے سایہ تلے دیوان عام کی تیسری سیڑھی پر پہنچا تو اتفاقاً اُس کی آہنی بیڑی پتھر سے جا لگی اور اُس کی جھنکار سے سارا ایوان گونج اُٹھا۔ بیڑی زبان حال سے ظفرؔ کا یہ شعر پڑھ کر عالمگیر کو سُناتی تھی:
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
حکم ہوا کہ بیڑی کاٹ دی جائے، صرف ہاتھوں میں سونے کی زنجیر پڑی رہے۔ سلیماں شکوہ نے جب اپنے تئیں عالمگیر کے آگے اور جلاو کو ننگی تلوار لیے پیچھے دیکھا تو تھرتھر کانپنے لگا، چاند سے چہرے کو گہن لگ گیا، منہ کے اندر زبان خشک ہو گئی، ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئیں، دل دھڑکنے لگا، سر پھرنے لگا۔ سارا دربار پیکر تصویر بن گیا تھا اور اُس مظلوم کا منہ تک رہا تھا۔ عالمگیر نے جھلا کر سلیماں شکوہ سے کہا “کہو برخوردار کیا حال ہے؟”
سلیماں شکوہ (شعر):
حالِ من از ہجر دارا کمتر از یعقوب نیست
او پسر گم کردہ بود و من پدر گم کردہ ام
عالمگیر: سعد اللہ خاں! تم نے دیکھا، موت سر پر کھیل رہی ہے اور حواس وہ درست ہیں کہ شعر تصنیف ہو رہے ہیں۔ اور جو زندگی کی کچھ دنوں آس ہو تو شاید آسمان کے تارے توڑ لائے۔ یہ زندہ رکھنے کے قابل ہے؟ توبہ توبہ! افعی کشتن و بچہ اش رانگاہ داشتن کار خرد منداں نیست۔ بہت اچھا، اگر آپ اپنے ابا جان کے فراق میں بے چین ہیں تو ہم آپ کو ابھی اُن کے پاس ہمایوں کے مقبرہ میں دست بدست پہنچوائے دیتے ہیں۔
سلیماں شکوہ (عالمگیر سے مخاطب ہو کر، شعر):
پس از مردن گر آئی بے مروت بر مزارِ من
بہ تعظیم تو خوش مستانہ برخیزد غبارِ من
عالمگیر (جلاد سے مخاطب ہو کر): ہُوں!
ہُوں کے ساتھ پیچھے سے جلاد کی تلوار سلیماں شکوہ کی گردن پر پڑی اور اُس بے کس کا سر تن سے جدا ہو کر چار قدم دور جا پڑا۔ اِنا لِلہِ و اِنا اِلیهِ راجِعون۔
میری جان! یہ جھوٹی کہانیاں نہیں ہیں، سچے قصے ہیں۔ا گر آپ کو یقین نہ ہو تو میرے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں تشریف لے چلیے۔ مقبرے کے صحن میں سنگ مرمر کی مزار کے پاس جو دراصل دارا شکوہ کا مرقد ہے، میں آپ کو اس نامراد کی قبر دکھا سکتا ہوں۔ جس پر حسرت کا شامیانہ کھنچا ہوا ہے اور یاس و الم کی جھالر لٹک رہی ہے۔ داغ:
حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
تمام شد