وھاج سارہ کے ساتھ لاونج میں داخل ہوا تو سب گھر والے بھی وہاں موجود تھے سوائے ذیان اور وجیہا کے۔ سارہ سب گھر والوں سے ملی۔
"سفر کیسا رہا۔" وریشا نے پوچھا تو سارہ نے اچھا کہ کر وھاج کی طرف دیکھا۔
"جاؤ تم دونوں فریش ہو جاؤ جاکر۔" حسنہ نے کہا تو سارہ تو کھڑی ہو گئی پر وھاج چائے منگواکر وہیں بیٹھ گیا۔
"میرا روم تیار ہے ناں چچی۔" سارہ نے گیسٹ روم کے متعلق سوال کیا تو حسنہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ سارہ اپنا بیگ لے کر اوپر جانے لگی۔
"بیگ چھوڑ دو بھاری ہوگا وھاج لے آئے گا۔" وھاج کی دادی نے کہا تو وہ مسکرا کر اگے بڑھ گئ۔
"وھاج جاؤ سارہ کو بیگ دواسے سامان چاہیے۔" وریشا نیچے آئی اور وھاج کو اوپر بھیج کر دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئ۔ وھاج سارہ کو بیگ دے کر اپنے کمرے میں چلا آیا کمرے کی لائٹ جلائ تو ذیان اور وجیہا ویسے ہی سورہے تھے۔
"کتنے سوتو ہیں دونوں جب میں گیا تھا تب بھی سورہے تھے آیا ہوں تب بھی سو رہے ہیں بڑے مزے آرہے ہیں بھئ ان کو۔" وہ بڑبڑاتا ہوا واش روم میں گھس گیا۔
فریش ہو کر نکلا تو وجیہا کمرے میں نہیں تھی۔ شر ٹ پہن کر بال سیٹ کیے اور پرفیوم لگا کر کمرے سے نکلنے لگا تو کھانسی کی آواز پر اسکے قدم جمے۔ وہ گیلری میں کھڑی تھی۔
"السلام علیکم" وھاج کی بھاری آواز وجیہا کی سماعت سے ٹکرائی تو اس نے جلدی جلدی آنسو صاف کیے وھاج خلاء کو گھور رہا تھا اس لیےروتے ہوئے اسے دیکھ نہ سکا۔
"وعلیکم السلام کیسے ہیں؟" وجیہا کی آواز کھانسی کی وجہ سے کافی خراب ہورہی تھی۔
"ٹھیک ہوں تم کیسی ہو" وھاج نے اسکی طرف چہرہ موڑا تو سفید لباس میں وہ روئے روئے سے چہرے کے ساتھ سرخ ناک لیے اسے ہی دیکھ رہی ھی۔ وھاج نے اسکی طرف چہرہ موڑا تو وہ سامنے دیکھنے لگی۔
"میں بھی ٹھیک ہوں۔"وجیہا طبعیت کافی بہتر محسوس کر رہی تھی ورنہ پچھلے سارے ہفتے وہ شدید بیمار رہی تھی۔
"ویسے ٹھیک لگ تو نہیں رہی" وہ اسکی زرد رنگت دیکھ کر بولاتھا۔"بس کچھ دن طبعیت ٹھیک نہیں رہی۔" وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
"اب کون سی ٹھیک ہے؟" وھاج نے خفگی سے بولا۔ وجیہا خاموش رہی۔
"چلو آؤ تمہیں اپنی کزن سے ملواتا ہوں سارہ آئی ہے" وھاج نے کہا تو وجیہا نے چہرہ موڑ کر اسکی طرف دیکھا۔
"صرف کزن؟" اس نے بڑے عجیب انداز میں سوال کیا۔"جب سب جانتی ہو تو مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو۔" وہ ناراض ہوا۔
"اچھا سوری، کزن تو نہ بولیں ناں آپ سیدھا سیدھا فیانسی بول دیں ٹیکس تھوڑی ناں لگتا ہے۔" وہ فورانارمل ہوچکی تھی۔ جلدی سے واش روم کی طرف بڑھ گئ۔ منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی تو وھاج ذیان پر جھکا ہوا تھا۔
"ارے اٹھ جائے گاناں۔" وہ اسے گھورنے لگی۔ وھاج مسکراکر کھڑا ہوگیا۔ دونوں ساتھ ساتھ نیچے کی طرف بڑھ گئے۔
"ویسے محترمہ آپ میرے کمرے میں کیا کررہی تھیں؟" وھاجن نے سیڑھیاں اترتے ہوئے اسے چھیڑا ۔ وہ اس سے آگے تھی۔
"اپنی مرضی سے تو نہیں سوئی تھی صبح فجر کے بعد آپی لے گئیں تھیں کہ گیسٹ روم سارہ کے لیے صاف ہوگا اور اوپر والے گیسٹ روم بند ہوئے ہیں۔" وہ وضاحت دینے لگی۔
"آپ فکر نہ کریں آج آپی کے کمرے میں سوؤنگی " وہ سنجیدگی سے بولی وھاج ہنس دیا۔
"مذاق کر رہا ہوں تم چاہو تو میرے کمرے میں سوجانا میں کہیں اور سو جاؤنگا۔" وجیہا بغیر جواب دیئے لاونج میں داخل ہوگئ سب کو سلام کرکے خالی صوفے پر جابیٹھی۔
سارہ تو اسےدیکھتی ہی چلی گئی تھی۔ وھاج بھی وجیہا کے برابر صوفے پر آبیٹھا تھا۔
وریشا نے سارہ اور وجیہا کا تعارف کروایا۔
"کتنی پیاری ہیں ناں یہ۔" سارہ نے وریشا کے کان میں سرگوشی کی۔
"بہت ہی پیاری بچی ہے بہت ہی سگھڑ اور سلیقہ مند۔" دادی ماں تو اسکی فین ہوگئیں تھیں۔ "ہاں بھئی کھانا تو بہت اچھا بناتی ہو بیٹا۔" یوسف صاحب نے بھی تعریف کی۔وھاج اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔ وجیہا کی نظریں اس سے ملیں تو وہ نظریں جھکا کر گئی۔
"بس بھئ بہن کس کی ہے" وریشا نے کریڈٹ لینا چاہا۔
"آف کورس میری۔" وھاج فورا بول پڑا۔
"جی نہیں میری بہن ہے" وریشا باقاعدہ لڑنے لگی۔ "میری" وھاج نے ڈھٹائ کا مظاہرہ کیا۔
"بھئ تم خود ہی بتا دو کس کی بہن ہو؟" سارہ تنگ آکر بولی تھی۔
"وریشا آپی کی۔" وجیہا نے کہا تو وھاج نے خفگی سے اسے دیکھا پھر کچھ سوچ کر مسکرادیا۔ "پارٹی بدل لی ناں تم نے" وھاج نے کہا تو وجیہا نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا جس سے سب ہنس دئیے۔
"صبر کروتمہیں تو میں بتاتا ہوں۔" وھاج نے دل میں سوچا، کھانا کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ وجیہا نے دادی ماں کے کمرے میں قہوہ بھجوادیا تھا۔ اور اپنی اور وریشا کی چائے بنائ۔ سارہ نہ چائے پیتی تھی نہ کافی، سارہ اپنے کمرے میں جارہی تھی جب وجیہا نے اسے کافی کا کپ تھمایا اور وھاج کے کمرے میں پہنچانے کا کہا۔ وھاج جو وجیہا کو ڈھونڈتا کچن میں آرہا تھا ان کی باتیں سن کر دروازے کے باہر ہی رک گیا۔
"تم وھاج کو وھاج بھائ کیوں نہیں کہتی۔" سارہ نے وجیہا سے کہا۔
"کبھی کہا ہی نہیں تو زبان پر بھی نہیں چڑھا۔" وجیہا سارہ کی ساری باتیں سمجھ چکی تھی اس لیے وضاحت دی ورنہ وضاحت دینے کی اسے عادت نہ تھی۔
"اور تم کہاں جا رہی ہو؟" سارہ نے کہا تو وجیہا نے ٹیرس کہہ کر آگے قدم بڑھادئیے۔
"اس وقت اور وہ بھی اتنی سردی میں۔" سارہ دوبارہ بول اٹھی۔ "مجھے سردیاں پسند ہیں تم میری فکر نہ کرو میں ٹھیک ہوں۔" وجیہا مسکرا کر کہتی آگی بڑھ گئ۔ وھاج دیوار کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔
وہ چھت پر آئ تو سردی محسوس ہوئ۔ اسے نہ جانے کیوں سارہ سے کی ہوئ باتیں یاد آنے لگیں۔
"وجی مجھے لگتا ہے وھاج تم سے محبت کرتا ہے اور پتہ ہے احد کو بھی یہی لگتا ہے۔" ساریہ نے کہا تو وہ بے بسی سے مسکرائی تھی۔
"ساریہ اس کی زندگی میں پہلے سے کوئی ہے اور میں کس طرح اس معصوم لڑکی کا حق مار دو وہ بچپن سے اس کے ساتھ منسوب ہے اور جانتی ہو میرا یہاں پر دل نہیں لگتا۔ کبھی کبھی گھٹن سی محسوس ہوتی ہے دل کرتا ہے بھاگ کر کراچی آ جاؤں اگر عباس والا مسئلہ حل ہوجائے تو میں یہاں ایک دن رہنا پسند نہ کرو۔" ساریہ کو اس کی بات پر غصہ آیا تھا اور ہمیشہ کی طرح اس نے کال کاٹ دی تھی۔
" ایک تو اس لڑکی کی پرانی عادت ہے کال کاٹنا غصہ میں۔" ساریہ کی باتوں پر وجیہہ افسردہ ہو گئی تھی مگر اس کی حرکتیں یاد آئیں تو مسکرا دی۔
"اتنا مسکرایا کس خوشی میں جارہا ہے؟" وھاج اس کے برابر آ کھڑا ہوا اور رخ موڑے اسے دیکھنے لگا۔
"ساریہ یاد آ رہی تھی۔ وجیہہ جلدی سے بولی اور چائے کا کپ لبوں سے لگا لیا۔
"اچھا ایک بات بتاؤ میں تمہارا بھائی نہیں ہو تو کیا ہوں؟" وھاج کو شرارت سوجھی۔
"ہزبینڈ" وجیہہ نے اچانک سے کہا اور پھر جلدی سے پچھتاوا ہوا فورا سر جھکا گی۔
کیا بتا دیں سب کو؟" وہ سنجیدہ ہوا۔
"مجھے گھر سے نکلوانا ہے تو بتا دیں میں ہو جاتی ہوں۔" وجیہہ نے اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"اگر میں کہوں کہ مجھے تو گھر میں رکھنا ہے۔ پھر؟" وہ اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔ وجیہہ نے نظریں جھکا لیں۔
"تو جیسے گھر میں رکھنا ہے وہ نیچے ہی ہے کہیں تو بھیجوں؟" وجیہہ کی بات پر وہ سخت بد مزہ ہوا تھا۔
"معاف ہی کردو۔" اس نے منہ بنایا۔
"کوئی بات نہیں کچھ دنوں کی بات ہے۔ تاریخ سال کے آخر کی طے ہو گئی ہے کچھ ماہ صبر کرلیں۔" وھاج نے حیرت سے اسے دیکھا۔ جب کہ وہ نیچے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ سیدھی لان میں آئی تھی وہ کمرے میں نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ موبائل میں مصروف ہونے کی ناکام کوشش کرنے لگی پر وہ بالکل بھی اس کے ذہن سے محو نہیں ہو رہا تھا۔
وھاج غصے میں سیدھا وریشہ کی کمرے میں گیا تھا۔ اس نے جلدی سے فون کاٹا اور حیرت سے وھاج کی طرف دیکھا۔
"ایسے کیا گھور رہے ہو بھائی۔" وہ خفگی سے خولی۔
" میری شادی کی تاریخ طے ہوگئی اور کسی نے مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔" وہ سخت غصہ تھا۔
" ہاں کل ہی ہوئی تھی میں تمہیں بتانا ہی بھول گئی۔" وہ عام سے انداز میں بولی۔
" مجھے سے پوچھے بغیر کیوں کی؟" وہ گرجا۔
"کیونکہ تم سے پہلے بات ہو چکی تھی جو جس طرح طے ہوا تھا اسی طرح ہوا ہے۔" وہ سنجیدہ ہوئی۔
" میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا وھاج نے کمزور سا احتجاج کیا۔
"پر کیوں یہ سب تو پہلے ہی طے ہو گیا تھا۔" وریشہ کا شک یقین میں بدل رہا تھا۔
"میں تھک گیا ہوں۔ ہاؤس جاب کے بعد کچھ دن تو آرام کروں گا ناں۔" اس نے بہانہ بنایا۔
"ہاں جیسے شادی کے بعد ہم تمہیں کچن سے سنبھالنے بھیج دینگے۔ کرتے رہنا آرام ۔" وریشہ جان بوجھ کر اس کے بہانے ریجیکٹ کرتی رہی۔
"یار۔۔۔۔۔" اس نے بے بسی سے دیوار پر مکا مارا۔ وہ چلا گیا تھا۔ وجیہہ کچن میں کپ رکھ کر کمرے میں چلی آئی۔ زیان رو رہا تھا اور وریشہ نہ جانے کن خیالات میں تھی۔ وجیہہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر زیان کو گود میں لیا۔
"آپی کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ناں؟" وریشہ نے ناسمجھی سے وجیہہ کو دیکھا۔
" ہاں سب ٹھیک ہے۔ بہت رات ہو چکی ہے اسے بھوک لگ رہی ہوگی۔" اس نے زیان کو گود میں لیا اور لائٹس آف کروا دی۔ وجیہہ بیڈ کے دوسری سائیڈ پر آ کر لیٹ گئی پر اس کی نیند نہ جانے کہاں کھو گئی تھی پر وہ ڈھیٹوں کی طرح لیٹی رہی۔
" السلام علیکم!" ڈائننگ ٹیبل پر وھاج کے علاوہ سب ھی موجود تھے۔ ابراہیم صاحب کی بھاری آواز پر سب نے سلام کا جواب دیا۔ "وریشہ بیٹا وھاج اب تک کیوں نہیں اٹھا؟" ابراہیم صاحب نے سوال کیا تو وریشہ نے لاعلمی ظاہر کی۔ جبکہ سارہ اسے بلانے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
" ان کے کمرے میں تو کوئی بھی نہیں ہے۔" سارہ کرسی کھینچ کر دوبارہ بیٹھ گئی۔
" کسی کو بھی بتائے بغیر یہ کراچی چلا جاتا ہے پتہ نہیں اتنا لاپرواہ کب سے ہوگیا یہ۔" حسنہ کو غصہ آیا تھا۔ سب خاموشی سے ناشتہ کرنے لگے۔
ناشتہ کر کے ساری خواتین باہر لان میں جا بیٹھی تھیں۔ سردیوں میں گرم دھوپ سکون دے رہی تھی۔ سارہ بور ہونے لگی تو واپس کمرے میں چلی گئی۔ ظہر کی اذان ہوئی تو ماں اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ وجیہہ کتابیں لے کر اسٹڈی کی طرف بڑھ گئی۔ لان میں صرف وریشہ اور اس کی والدہ حسنہ بچیں تھی۔
" ماما مجھے تو لگتا ہے کہ وھاج وجیہہ سے محبت کرتا ہے۔" وریشہ نے ساری بات انہیں بتائی جو اس کے اور وھاج کے درمیان ہوئی تھی۔ حسنہ پریشان ہو گئی وجیہہ انہیں بھی بہت پسند تھی مگر وہ اپنی خواہش زبان پر نہیں لاسکتی تھی۔
"میری تو خود خواہش یہی ہے کہ میری بہو ہر فن مولا ہو۔ سارہ اچھی ہے مگر وجیہہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔"حسنہ نے کہنا شروع کیا۔
"سگھڑ ہونا یا گھر اچھی حکمت عملی ہے مینٹین کرنا اتنا معنی بھی نہیں رکھتا۔ ہمیں تو بس اپنے اکلوتے بھائی کی خوشی دیکھنی چاہیے۔ زبردستی کے رشتے تو ویسے بھی پائیدار نہیں ہوتے۔" وریشہ افسردگی سے بولی۔
" لیکن بیٹا یہ بھی تو ناممکن ہے کہ سارہ کے بجائے وجیہہ کو اس گھر کی بہو کے طور پر متعارف کروایا جائے۔ سارہ سے وھاج کی نسبت بچپن سے طے ہے۔" حسنہ بھی افسردہ نظر آنے لگیں تھیں۔
"کاش کہ یہ ممکن ہو جائے کہ سارہ کے بجائے وجیہہ میری بھابھی ہو۔" وریشہ نے دعا کی تو حسنہ نفی میں سر ہلاتیں بمشکل مسکرائیں تھیں۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆
عباس رضوی فزکس ڈپارٹمنٹ سے نکل رہا تھا جب اسے ساریہ نظر آئی۔ کتنے عرصے سے وہ اس لڑکی کو ڈھونڈ رہا تھا۔
"آگئی اسلام آباد سے۔" اس نے ساریہ کا راستہ روکا۔
"جی" وہ بمشکل مسکرائی۔
"میں نے سنا ہے وجیہہ کی ڈیتھ ہو گئی ہے، بہت افسوس ہوا مجھے کسی نے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔" اس نے شکایتی لہجے میں کہا تو ساریہ کا دل چاہا کہ اس کا منہ نوچ لے۔
"دراصل مجھے بھی بہت لیٹ پتہ چلا کیونکہ میں کراچی میں نہیں تھی۔ آپ غمگین نہ ہو جو اللہ کو منظور۔" وہ افسردگی سے بولی۔ "اپنا خیال رکھیے گا اور وجیہہ کے لیے دعا کیجیئے گا۔ مجھے گھر جانا ہے میں چلتی ہوں۔" ساریہ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔ عباس اس کی پشت دیکھتا رہا جب وہ غائب ہوگئی تو عباس جلدی سے اپنی کار کی طرف بڑھا۔
ساریہ گھر میں داخل ہوئی تو بظاہر گھر میں کوئی بھی نہ تھا فلیٹ کا دروازہ لاک کرنا وہ جان بوجھ کر بھول گئی تھی۔ کچن میں کھڑی پانی پی رہی تھی جب وہ وہاں آیا۔
"تم یہاں کیسے آئے؟" وہ پانی پی کر پلٹی تو عباس رضوی سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ڈرامہ شروع کیا۔
"جی سالی صاحبہ جب ایک بار آ سکتا ہوں تو کیا دوبارہ نہیں آسکتا۔ کیوں تمہیں میرا آنا برا لگا کیا؟" وہ اس کے قریب بڑھ رہا تھا۔
"قریب مت آنا میرے ۔" وہ چلائی تھی۔
"ایسے ہی چلا رہی تھی تیری دوست بھی۔ اب شرافت سے لیپ ٹاپ کھول اور سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر۔" وہ بھی دھاڑا۔ ساریہ کسی مشین کی طرح اس کی ہدایت پر عمل کرنے لگی۔
" ویسے تیری دوست بھی بڑی ضدی تھی مار کھا کھا کر ڈیٹا ڈیلیٹ کیا تھا اور ایک تم ہو۔" اس کی بات سن کر وھاج کا خون کھولنے لگا تھا۔ اس سے برداشت نہ ہو رہا تھا اور وہ جذبات میں آ کر غلطی کر بیٹھا۔
"میری بیوی کے بارے میں کوئی بکواس تو نے اپنی گندی زبان سے کی تو وہ تیرا آخری دن ہوگا۔"اس نے اس کے گال پر مکہ جڑا تھا۔
"اوہ میری جان نے شادی بھی کر لی تھی مجھے بلایا بھی نہیں۔ اور تم کہاں چھپے ہوں بزدل" عباس ابھی بھی سکون محسوس کررہا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے گندے کارنامے کے سارے ثبوت ختم ہوگئے ہیں۔
" تیرا کام ختم عباس رضوی یہ ساری ویڈیو ریکارڈ ہوگئیں ہیں۔ اور حساس ادارے اس کو لائیو دیکھ رہے ہیں۔" وھاج نے اسے دھکیلا تو وہ الٹا گرا۔ ساریہ کو اس کی پچھلی پاکٹ میں گن نظر آئی تو اس نے جلدی سے نکال کر عباس پر تان لی۔
"واہ لڑکی تم نے کیا تربیت حاصل کی ہے شوٹ کرنے کی جو دو لڑکوں کے ہوتے ہوئے بھی تم گن پکڑ کر کھڑی ہو۔"عباس رضوی استہزائیہ ہنسا۔
" نہیں عباس رضوی بات کچھ یوں ہے کہ میں خود تمہیں اپنے ہاتھوں سے مارنا چاہتی ہوں تاکہ تمہیں احساس ہوجائے کہ لڑکیاں اتنی کمزور نہیں جتنا تم انہیں سمجھتے ہو۔" وہ غصے میں بولی۔
"اوہ آئی سی" وہ حیرانگی سے بولا۔ "تو پھر کہاں ہے تیری بیوی؟" وھا ج غصے سے لال ہو رہا تھا اور عباس اسے مزید غصہ دلانے آگیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ایک اور مکہ عباس کو پڑتا ایک گولی چلی تھی اور اسی لمحے عباس سائیڈ پر ہوا تھا دراصل عباس وھاج کے مکے سے بچنے کے لیے سائیڈ پر ہوا تھا اس وجہ سے عباس کو لگنے والی گولی وھاج کے دائیں بازو سے ہوتی ہوئی گزری تھی۔ گولی کی آواز سنتے ہی پولیس کے کچھ لوگ جو انہوں نے پہلے ہی بلا لیے تھے، سامنے آگئے تھے۔ ساریہ شاکڈ تھی اس کے ہاتھوں سے گن نیچے گری۔ احد نے حیرت سے وھاج کی طرف دیکھا جو زمین پر بیٹھ کر کراہ رہا تھا خون بہت تیزی سے بہہ رہا تھا۔
"وھاج ہمت سے کام لو ہمیں جلد ہسپتال پہنچنا ہے۔" احد نے اسے سہارا دے کر کھڑا کیا۔ پولیس عباس رضوی کو ہتھکڑیاں لگا چکی تھی۔ وہ پرسکون تھا کیونکہ اسے خوش فہمی تھی کہ اسکا باپ اسے چھڑوالے گا۔ ساریہ بھاگ کر وجیہہ کا دوپٹہ لے آئی اور وھاج کے ہاتھ پر باندھ دیا تاکہ خون رک جائے۔ احد بہت تیز گاڑی چلا رہا تھا۔ وھاج نے آنکھیں موند لیں۔ وہ محبت کا حق ادا کر چکا تھا۔ وہ لوگ ہاسپٹل پہنچے تو کچھ دیر میں رضوی صاحب بھی آ گئے۔ ساریہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔
" بس کرجاؤ ساریہ تمہاری غلطی نہیں ہے اس میں۔" احد کو تکلیف ہو رہی تھی۔
" جی بیٹا آپ نے تو بہت بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔" عباس کے والد نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
دو گھنٹے ان سب نے سولی پر گزارے تھے اور پھر ڈاکٹر نے آکر اس کے خطرے سے باہر ہونے کی اطلاع دی تھی۔ ان سب نے سکون کا سانس لیا۔ ساریہ کے آنسو تھم گئے تھے ان سب نے شکر ادا کیا اور احد وریشہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆
"بس کر جاؤ وجیہہ اب تو وھاج بالکل ٹھیک ہے تمہارے سامنے ہی احد کی کال آئی ہے اور تم روئے جارہی ہو روئے جا رہی ہو۔ دیکھو تمہاری وجہ سے میرا شہزادہ بھی رونے لگا ہے۔" وریشہ نے احد سے بات کرکے وجیہہ کو اس کے خطرے سے باہر ہونے کی خوشخبری دی تو وہ چپ ہونے کے بجائے روتی گئی۔
ان دونوں نے ساتھ ہی ساری ریکارڈنگ دیکھی تھی۔ جب سے وھاج کو گولی لگی تھی وجیہہ روئے جارہی تھی۔ وجیہہ شکرانے کے نفل نفل پڑھنے گئی تو وریشہ بیگ پیک کرنے چل دی۔
وھاج کے والدین سارہ کو چھوڑنے لاہور گئے ہوئے تھے اور دو دن رہ کر اگلے دن واپس آنا تھا اور ان کے آنے سے ایک دن پہلے کی کراچی کے فلائٹ وجییہ اور وریشہ کے لیے ابراہیم کنفرم کروا چکا تھا۔
"چلو وجیہہ تیار ہو جاؤ آدھے گھنٹے میں ہم کراچی کے لیے نکل رہے ہیں۔"وجیہہ دعا مانگ رہی تھی جب وریشہ نے زیان کو تیار کرکے لے آئی تھی۔
" نہیں آپی آپ چائیں کراچی میں ماں کے پاس ہوں۔ میں کل یا پرسوں انکل کے ساتھ آ جاؤں گی۔" وجیہہ نے صاف انکار کردیا تھا۔
"تم دونوں نے تیار نہیں ہونا؟" ابراہیم نے دونوں کو بغور دیکھا۔
"وجیہہ کہہ رہی ہے ماں کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی۔ پاپا کے ساتھ آ جائے گی۔ وریشہ کو اچھا لگا تھا وجیہہ کا اس کی فیملی کی فکر کرنا۔
وہ ان کو الوداع کرکے ٹیرس پر آگئی اس نے کراچی نہ جانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ وہ ابھی وھاج کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی اور اسی گھر میں وہ اپنے راستے وھاج سے الگ کرنا چاہتی تھی۔ عباس کیفرکردار تک پہنچ چکا تھا اور اب وجیہہ کو کسی کا خوف نہیں تھا۔ اس نے بیگ پیک کیا مگر وھاج کے والدین کے لوٹنے تک کے لئے وہیں رک گئی۔ رات کو وھاج کی دادی کے ساتھ کھانا کھایا اور بہت ساری باتیں کیں اسے یہ بزرگ خاتون بہت پسند تھیں۔ بارہ بجے کے بعد وہ واپس کمرے میں آگئی۔ نماز پڑھ کر وھاج کے کمرے میں آئی اور وہاں بیٹھ کر گزرے دنوں کے بارے میں سوچنے لگی۔ سوچتے سوچتے جانے کب نیند آئی اور وہی سو گئی فجر کے لیے اٹھی تو واپس نیند نہ آئی۔ نماز قرآن پڑھ کر گیلری میں آگئی۔ حسنہ اور ابراہیم واپس آ چکے تھے۔
" اب مجھے چلنا چاہیے۔" اس نے جلدی سے سامان سمیٹا اور تیار ہو کر باہر آ گئی۔ چوکیدار کو کراچی جانے کا انفارم کر کے وہ گھر سے نکلی۔ وھاج کے گھر پر ایک نظر ڈالی تو ایک آنسو اسکے گال پر پھسل گیا۔ کراچی آ کر وہ سیدھی اپنے گھر آئی تھی۔ اس نے ساریہ کو کال نہیں کی۔ ساریہ آج کل ھاسپٹل میں رہ رہی تھی وہ اگلے کئی دن ساریہ یا کسی کو بھی اپنے کراچی آنے کا بتانا نہیں چاہتی تھی۔
وھاج کے بارے میں سوچتی تو افسردہ ہوجاتی۔ ایک بہت بڑا احسان وھاج نے اس پر کر دیا تھا۔ وہ اس کے بہت سے احسانوں کے نیچے دبی ہوئی تھی۔
"سارہ تم بہت خوش قسمت ہو کہ تمھیں وھاج جیسے انسان کا ساتھ ملے گا۔" اس نے سوچا اور نماز کے لئے چلی گئی۔ اسے اپنے محسن کے لئے دعا بھی تو کرنی تھی۔ لمبی عمر کی، اچھی زندگی کی،خواہشوں کی تکمیل کی اور ہمیشہ خوش رہنے کی۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆