"اٹھ گئیں" وجیہا کی آنکھ کھلی تو وریشاسامنے صوفے پر بیٹھی کال پر بات کر رہی تھی، وہ اٹھ کر بیٹھی تو آنکھیں رگڑ کر جوڑا بنایا اتنے میں وریشا کال اینڈ کر چکی تھی۔
"جی اٹھ گئ آپ کے ماما پاپا آگئے؟" وجیہا کو سب سے پہلے جس کا خیال آیا اسے چھوڑ کر اسکے گھر والوں کا پوچھنے لگی۔
"جو اپنا ہے اسکا مت پوچھنا اس کے گھر والوں کا ہی پوچھنا۔" وریشا نےخفگی سے کیا۔
"وہ بظاہر تو میرا ہے پر درحقیقت میرا نہیں ہے۔ بلکل سفر کے ساتھی کی طرح، وہ ہمسفر تو ہوتے ہیں مگر کچھ لمحات کے لیے کسی نہ کسی موڑ پر جدا ہونا ضروری ہوتا ہے۔" وریشا نے اسکے لہجے میں افسردگی محسوس کی تھی۔
"یہ تو ہے مگر تمہارا اور میرا ساتھ تو ہمیشہ کا ہے۔" وریشا نے کہا تو وجیہا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"میرا مطلب اب تو ہم دوست ہیں ناں ہم کراچی میں ملتے رہینگے اورتم اب میری چھوٹی بہن ہو ہمیشہ کی لیے۔" وریشا نے محبت سے کہا تو وجیہا بھی مسکرادی۔
وجیہا فریش ہو کر آئ تو وریشا تیار کھڑی تھی۔ "کہاں کی تیاریاں ہیں آپی؟" اس نے وریشا کو عبائے میں دیکھا تو بولی۔
"تم بھی جلدی سے تیار ہو جاؤ ہم شاپنگ کرنے جارہے ہیں ماما کے پاس ذیان کو چھوڑ دونگی۔" وہ اسے جلدی سے تیار ہونے کا کہہ کر نیچے چلی گئی۔ وجیہا عبایا پہن کر نیچے آئی تو لاؤنج میں ایک باوقار سے شخص اور خوبصورت سی خاتون بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ وجیہانے مسکراتے ہوئے سلام کیا۔
"کیسی ہیں بیٹا آپ۔" سلام کا جواب دے کر وھاج کے والد نے اپنائیت سے سوال کیا اس نے الحمد للہ کہہ کر ان کا حال احوال پوچھا۔ وھاج کی والدہ حسنہ تو اسکی خوبصورتی میں جیسے کھوہی گئیں تھیں۔
"کہاں جارہی ہو بیٹاتم دونوں" انہوں نے نرمی سے سوال کیا وریشا نے انھیں اپنا سارا پلان بتایا اور ذیان کو انھیں تھما کر پورج کر طرف بڑھ گئ۔
"ڈرائیو آپ کرینگی؟" وجیہا نے سوال کیا تو ہو مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگی۔" میں نے وھاج سے سیکھی ہے تم بھی سیکھ لینا۔ اس نے مشورہ دیا تو وجیہا کو محسوس ہوا کے جیسے مذاق اڑایا گیا ہو اسکی بے بسی کا۔
ڈھیر ساری شاپنگ کرکے وہ دونوں ریسٹورینٹ کی طرف بڑھ گئیں۔ اتنے میں گھر سے کال آنے لگی۔ وہ دونوں بغیر کھائے واپس آگئیں۔
"فالتو میں اتنی ساری شاپنگ کروادی آپی آپ نے۔" اس نے ناراضگی سے کہا۔
"کل میری کزن آرہی ہے اور میں چاہتی ہوں میری بہن اسکے سامنے بہت اچھی لگے۔" اسکی اپنائیت پر وجیہا کی آنکھیں بھر آئیں۔
"اگر وھاج نے اپنے گھر والوں سے جھوٹ نہ بولا ہوتا تو کیا میں یہاں اتنی عزت سے رہ رہی ہوتی؟ نہیں بلکہ میں یہاں ہوتی ہی نہیں" وجیہا نے افسردگی سے سوچا۔
رات سے نیند نہیں آرہی تھی وھاج کے بارے میں سوچتی تو غصہ آتا کہ بتائے بغیر چلا گیا۔ وہ ٹیرس پر آگئ اور جلد از جلد ان کی زندگیوں سے بہت دور جانے کی دعا کرنے لگی۔ اسے کسی پر بوجھ نہیں بننا تھا۔ وہ کسی کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭
"السلام علیکم کیسے ہو تم دونوں" دروازہ پر بیل ہوئی تو وہ سگریٹ کا ایک لمبا کش لے کر سگریٹ ایش لڑے میں پھینک کر واش روم کی طرف بڑھا، منہ پر پانی ڈال کر مین ڈور کھولنے چل دیا۔ دروازہ کھولا تو سارہ اور احد سامنے کھڑے تھے۔
"وعلیکم السلام ہم تو ٹھیک ہیں پر آپ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔" سارہ کو اسکی شکل پر بارہ بجے لگ رہے تھے۔
"میں ٹھیک ہوں بس سر میں تھوڑا درد تھا صبح سے ، آؤ اندر آجاؤ۔" وہ انھیں لے کر ڈرائنگ روم میں آیا۔ احد نے ایش ٹرے میں لاتعداد سگریٹ کے ٹکٹرے دیکھے تو حیرت سے وھاج کو دیکھا وہ سگریٹ بہت کم پیتا تھا۔
آج کی پوری رات انھوں نے عباس رضوی کے خلاف حکمت عملیاں طے کرنے میں گزارنی تھی۔ اگلی صبح وہ تینوں عباس رضوی کے والد کے آفس سارے ثبوت لے کر پہنچ گئے تھے۔
بہت مشکل سے آفس اندر جانے کی اجازت ملی۔
"السلام علیکم انکل ہم عباس کے یونیورسٹی فیلو ہیں آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے ہم یہ ساری معلومات پولیس یا کسی قانونی ادارے کو بھی دے سکتے تھے مگر ہمیں یقین تھا کہ آپ ایک اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مسلمان بھی ہیں اس لیے آپ کے پاس چلے آئے۔" وھاج نے تمہید باندھی۔
"ہاں بیٹا بولو کیا بات ہے۔" انہیں پریشانی ہوئ تھی۔ ہلکی داڑھی پر شفیق سی مسکان چہرہ پر سجائے وہ باوقارشخص کہیں سے بھی عباس رضوی جیسے شخص کا باپ نہیں لگ رہا تھا۔ احد نے آگے بڑھ کر لیپ ٹاپ کھولا اور ساری ویڈیوز ان کے سامنے کھول دیں وہ اپنے بیٹے کی شرمناک حرکات دیکھ کر پانی پانی ہوچکے تھے۔ آنسو ان سے رخساروں پر پھسل رہے تھے۔
"میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرا بیٹا اتنی گری ہوئ حرکتیں بھی کر سکتا ہے مجھے معاف کردو بچوں۔ میں تم سب کی مدد کرونگا، میں عباس جیسے بیٹے کو پالنے سے بہتر ہے جانور پال لوں۔" ہو نہایت شرمندہ اور غمگین تھے۔ وہ اللہ کے قہر سے بچنے کے لیے اپنا بیٹا قربان کرسکتے تھے، انھیں حق کا ساتھ دینا تھا۔ اپنا بیٹا قربان کرنا تھااور اللہ کا خوف رکھنے والے اللہ کے حکم کے آگے سسب قربان کر دیتے ہیں۔
“Thank You Uncle”
وھاج ان کے گلے لگا اور کافی دیر تک وہ تینوں انھیں دلاسا دیتے رہے اور واپس آئے تو انھیں محسوس ہوا کے گویا ایک معرکہ سرکرلیا ہو۔
"سارہ جمعہ کو تم یونیورسٹی جاؤگی اور وہ بھی اکیلی اور کوشش کرنا عباس سے سامنا ضرور ہو۔" وھاج نے سارہ کو مخاطب کیا اور اگلا لائحہ عمل بتانے لگا۔
"نہ جانے کیوں میرا دل نہیں مان رہا وھاج" احد کو پریشانی ہوئ۔
"اللہ تعالیٰ ہمیشہ سچ کا ساتھ دیتے ہیں مجھے تو اللہ پر کامل یقین ہے کے جو ہوگا اچھا ہی ہوگا تم کیوں فکر کرتے ہو احد" وھاج سے پہلے سارہ بول اٹھی وھاج اور احد بے اختیار مسکردئیے۔ جب عورتیں ڈرنے کو بجائے مردوں کے سامنے کھڑے ہوکر آنکھوں میں آنکھ ڈال کر ظلم کے خلاف بولنا شروع کردے تو بہت جلد ہی معاشرے سے بھیڑیوں کا خاتمہ ہوجائے۔
"چلو اب تم لوگ گھر جاؤ میں نے کل یہاں سے لاہور جانا ہے"،
اور سارہ کو لے کر کر پشاور جانا ہے وہاں سے پھر دو دن تک رک کر آؤنگا ایک ہفتہ لگ ہی جائے گا ان سب میں۔ "وھاج نے پلان بتایا تو احد نے مسکرا کر معنی خیز انداز میں اسے دیکھا۔"
"ہاں ہاں ضرور میرے بھائ، بھابھی کے بغیر تیرا دل کہاں لگتا ہوگا۔" وھاج نے اسکی بات سن کر اسے گھوری سے نوازا پر احد کو کہاں فرق پڑنے والا تھا۔
"اوکے اللہ حافظ سوجا تو میرے یار" احد اس سے مل کر سارہ کو لے کر باہر نکل گیا۔
وھاج بیڈ پر لیٹ گیا بہت تھکن محسوس ہورہی تھی۔ وہ وجیہا کو یاد نہیں کرنا چاہتا تھا مگر جب بھی تنہا ہوتا وہ ضرور یاد آتی۔
"آدھا سفر گزرگیا ہے شاید ہمارا ساتھ اب بہت کم وقت ساتھ رہ گیا ہے پھر وہ کہاں اور ہم کہاں۔" وھاج زیرِلب بڑبڑایا۔
پر کون جانے کے باقی مادندہ سفر کچھ وقتوں کا ہے یا ساری زندگی کا۔۔۔۔۔۔