ایک تو نعت لکھنا بقول عَرفی تلوار کی دھار پر چلنے کا کام ہے ۔ (ہشدار کہ رہ بردمِ تیغ است قدم را) جس میں مسلسل آداب اور احترام دَر پیش رہتے ہیں ہمارے منظر پھلوری صاحب نے اپنے اس عمل کو از خود یوں دشوار بنا لیا کہ انہوں نے نعت کے بیان کے لئے وہ حروف چنے جو غیر منقوط ہیں انہوں نے اپنے حروف تہجی کو محدود کیا یوں اُن سے بننے والے لاکھوں الفاظ بھی ان کے دائرہ اظہار سے نکل گئے اس اسلوب (غیر منقوط) میں انہوں نے کئی مجموعے لکھے بہت داد سمیٹی اور انعام حاصل کئے ۔زیرِ نظر مجموعہ نعت میں انہوں نے ایک اور آزمائش سے گزرنے کا یوںا رادہ کیا کہ یہ سارا مجموعہ مستزاد میں لکھا جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں مستزاد اصنافِ سخن میں ایک جداگانہ صنف ہے مگر یہ بہت کم استعمال ہوتی ہے۔ آج کے معاصر نعتیہ منظر نامے میں اس کی مثالیں کم کم ملتی ہیں ۔ پورے مجموعے کے طور پر منظر کی یہ کتاب میرے محدود علم کے مطابق شاہد پہلی ہمہ مستزاد کتابِ نعت ہے۔
ہرصنفِ سخن کو مشرف بہ نعت کرنا یقیناً خوش آئند ہے منظر پھلوری کو مبارک کہ انہوں نے غیر منقوط کلام کہنے کی روایت میں مستزاد کی صنف میں بھی نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب ترتیب دی۔
نعت کی بنیاد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اظہار ہے یہ محبت آپؐ کی سیرت طیبہ، اسوۂ حسنہ، فرمودات و فیضان کے بیان میں ظاہر ہوتی ہے تو تسبیح و اوراد سے شعری جمالیات کی مختلف صورتوں میں سامنے آتی ہے ۔ تسبیح واوراد سے مراد نعتیہ مضامین کی تکرار ہے ۔ تکرار کا اپنا منصب اوراپنی برکت ہوتی ہے عام نعت نگاروں سے نعت کا ذوق رکھنے والے قاریوں کے لئے اس کی بڑی اہمیت ہے۔
شعری جمالیات کے لحاظ کو بروئے کار رکھ کر ذات رسالت مآب سے اپنی محبت کے اظہار کے تقاضے کچھ مختلف ہوتے ہیں اس میں شعری محاسن اور دوسرے فنی خصائص نعت نگار سے اِس بات کے متقاضی رہتے ہیں کہ وہ نعتیہ مضامین و موضوعات کے اظہار میں شعری جمالیات اور اظہار کی تازگی کا خیال بھی کرے منظر کے ہاں نعتیہ خیالات و مضامین کے بیان میں اپنے آ پ کو مستزاد کی صنف کا پابند رکھنا معاصر نعتیہ منظر نامے میں تازہ کاری کا عکاس ہے بلاشبہ نعتیہ جمالیات میں پہلا قدم مستزاد کی صنف کا انتخاب ہے۔’ اشرف اللغات‘ مطبوعہ 2018ء میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے۔
’’مستزاد(مُس تَ زاد) (ع ،ا، مذ)
لغوی معنی بڑھایا گیا ، زیادہ کیا گیا
اصطلاحی معنی علمِ عروض میں نظم کی ہیئت کی ایک قسم، جس میں نظم کے ہر مصرع/
شعر کے بعد ٹکڑا بڑھایا گیا ہو جو اسی نظم کے ایک رُکن کے برابر ہو۔
تشریح: مستزاد کے لفظی معنی ہیں بڑھایا گیا، یا بڑھایا ہوا۔ علم ِ عروض کی اصطلاح میں یہ نظم کی ہیئت کی ایک قسم ہے جس کے ہر مصرع یا شعر کے آخر میں مصرعہ مکمل ہونے کے بعد ایک ٹکڑا بڑھادیا جایا ہے جو اسی نظم کے ایک رُکن، رکنِ آخر یا نصف مصرعہ کے برابر ہوتا ہے۔ اس میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ جس مصرعے کے آگے جو ٹکڑا بڑھایا جائے وہ اس سے معنی میں مربوط بھی ہو لیکن اس طرح کہ اس کے بغیر بھی مصرعہ اور شعر اپنا مفہوم ادا کر سکیں۔ غزل، مسمط، رباعی ہر ہیئت کے ساتھ مصرعہ یا ٹکڑا بڑھایا جا سکتا ہے۔ بڑھایا ہوا مصرعہ عموماً اصل مصرعہ کاقافیہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی بڑھائے گئے مصرعے آپس میں ہم قافیہ بھی ہوتے ہیں، ایسی نظمیں عموماً شاعر کی قادرالکلامی اور زبان و بیان پر قدرت کے اظہار کے لئے استعمال ہوتی ہیں‘‘۔
واژہ نامہ ہنر شاعری (A Dictionary of Poetry and Poetics) مطبوعہ تہران ۱۹۹۴ء میں میمت میر صادقی، ذوالقدر نے مستزاد کے ذیل میں جو ایک دو مفید مطلب باتیں مزید کہی ہیں وہ یہ ہیں:
’’ شعری است کہ در و نبالۂ ہر مصرع ’’آں یک پارۂ اضافی آوردہ می شود ایں پارۂ اضافی با مصراع اصلی ہم وزن است یعنی وزن آں از افاعیل مصراع اصلی گرفتہ شدہ و اغلب معادل پار ہ اوّل یا آخر مصراع اصلی است پارہ اضافی گاہ قافیہ ای جدا از قافیہ مصراع اصلی دارد و گاہ با آں ہم قافیہ است کہ در ایں صورت تکرار قافیہ پر زیبائی آن می افزاید از نظر معنی و مضمون نیز گاہ پارہ اضافی کامل کنندہ مصروع اصلی نیز ہست کہ در ایں صورت آں دا مستزادِ موقوف می نا مند امّا ہمہ مستزاد ہا چنیں خصوصیتی ندارند و در بسیاری از آں ہا معنی شعر بدون وجود پارہ ہائی اضافی کامل است؟___اس اقتباس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ یہ شعر کی ایک قسم ہے جس کے آخر میں ایک زائد شعر پارہ ہوتا ہے یہ اصل مصرع کے ہم وزن ہوتا ہے کبھی اس کا قافیہ جدا ہوتا ہے کبھی یہ ہم قافیہ ہوتا ہے یہ تکرار قافیہ شعر کی خوبصورتی کے لئے ہوتی ہے__اس زائد پارہ یا حصہ کے سبب اس کو مستزاد کہتے ہیں۔
فارسی میں مستزاد کے اولین نمونے دیوان مسعود سعد سلمان (۴۳۸۔۵۱۵ن) میں ملتے ہیں ابو سعید ابوالخیر(۳۵۲۔۴۴۸ق)کے ہاں رباعیات کی صورت میں بھی مستزاد ملتے ہیں اس کی کئی شکلیں ہیں مثلاً ہر مصراع کے آخر میں ایک اضافی ٹکڑا جیسے:
؎ آں کیست کہ تقدیر کند حال گدارا
در خدمت شاہی
وز غلغل بلبل چہ خبرباد صبا را
جز نالہ وآہی
بعض اوقات ہر شعر کے آخر میں پارہ اضافہ آتا ہے جیسے
صد حلقۂ عنبرین بند اندر بند
دلداز نہ بیر فتنہ، بردوش افگند
مانندِ کمند
بدیع الافکار فی صنالع الاشعارکمال الدین حسین واعظ کاشفی(م ۹۰۶ یا ۹۱۰ ق) نے مستزاد کی بحث میں اس کی کئی قسموں کی مثالیں دی ہیں ۔ قطعہ، رباعی، غزل، مسمط وغیرہ میں اس کی کئی صورتیں ملتی ہیں اس کی زیادہ متداول اور مستعمل صورت رباعی کی ہے۔
یہ صنف دوسرے اصناف کی نسبت صوتی خوش آہنگی کا لازمہ رکھتی ہے ہر مصرعے کو معنوی طور پر ذہن میں رکھتے ہوئے الفاظ کی صورت دیتے ہوئے اس میں داخلی خوش آہنگی ملحوظ رکھی جاتی ہے جیسا کہ آپ آگے آنے والی مثالوں میں دیکھیں گے مصرع بہ مصرع اور شعر بہ شعر اس کی صوتی شکل یوں بنتی ہے:
مرکز مری نعتوں کا ہے مکی مدنی وہ
اللہ غنی وہ
منعم ہے توانگر ہے وہ دارا ہے غنی وہ
ہے مستغنی وہ
خط کشیدہ جگہوں پر اندرونی ،قوافی کا التزام مستزاد کو اور خوبصورت بنا دیتا ہے اگرچہ مستزاد میں قوافی دہرانا ضروری نہیں اور تمام مستزادنگاروں نے مستزادوں کے مصرع ہائے اولیٰ کے پہلے حصے اور دوسرے حصے میں قافیہ وردیف کے دہرانے کا التزام نہیں کیا لیکن اکثر شاعروں نے پہلے مصرع کے حصہ اول اور حصہ دوم میں اس التزام کی پیروی کی ہے۔ مستزاد کی خوش آہنگی اسی تکرار صورت کا ثمر ہے۔
دونوں مثالیں دیکھئے:
وہ مرکز ہستی ہیں مرا سن سے ہے جینا
سرکارِ مدینہ
رُو میں ہے الہٰی سے مرے سانسوں کا سفینہ
سرکارِ مدینہ
دائم کروں سردار رسولاں کی گدائی
اعلیٰ ہے کمائی
حامل ہُوا اکرام کا‘ اسی در کا ہوا ہوں
اور مدح سراہوں
یہ مثال ہم قافیہ ہے ۔
دوسری مثال دیکھئے جو ہم قافیہ پر مشتمل ہیں۔
جس دن سے مدینے کا میں مہمان ہوا ہوں
ہوں بخت سے راضی
مجھ ایسا نہیں فرد کوئی اور جہاں میں
ہوں اعلیٰ مقدّر
یہ میں نے چلتے چلتے یونہی الفاظ کی جمع آوری کی ہے یہاں پہلے اور دسرے دونوں مصرعوں میں اندرونی قوافی کا التزام ادا نہیں رکھا گیا چلیں چلتے چلتے اس کا مطلع بھی بنا لیتے ہیں۔
ہے نعت نبیؐ مقصد و مرکز مرے فن کا
ہے یہ مرا محور
اس فن سے مرے دل کو ہے حد درجہ عقیدت
میں ان کا ثنا گر
قارئین سے اپنی غیر ضروری اور عاجلانہ مثال آفرینی کے لئے معذرت خواہ ہوں لیکن ان کی توجہ اس طرف دلانا مقصود تھی کہ اس مثال میں محور اور ثنا گر کے قوافی ہیں پہلے اور دوسرے مصرعوں میں اندرونی قوافی کا التزام ردا نہیں رکھا گیا تو کیا مطلع اور دوسرا شعر مستزاد نہیں کہلائیں گے؟
مَیں اس رعائت، تصرف اور اجتہادی تحریف کے حق میں ہوں اگرچہ مستزاد کا سارا حسن ہم قوافی ٹکڑوں میں ہے اندرونی قوافی سے نہ صرف بیان (اظہار در پیش) کی شدّت سے وضاحت ہو جاتی ہے بلکہ تکرار قوافی سے مستزاد کی شعری جمالیات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے تاثر آفرینی میں اندرونی قوافی کا یہ التزام بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے اس کے بغیر مستزاد صرف مصرعوں کو دو حصوں میں بانٹنے کا سبب تو بن جائے گا لیکن اس سے مستزاد کا مطلوب و مقصود تاثر بالکل ختم ہو جائے گا___میں اس غیر ضروری بحث کو سمیٹتے پوئے صرف یہ عرض کروں گا کہ اگرچہ دُور دُور فارسی اور اردو مستزاد نگاروں میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن نثری نظم کے اس دو میں مستزاد کو تکرار قافیہ کی جکڑ بندی سے بچانے کے لئے اور بالکل نئے مستزاد نگاروں کے لئے _ ان کی حوصلہ افزائی کے لئے اس مثال سے ایک مختلف رستے کی نشان دہی کی گئی ہے کہ مستزاد تکرار قوافی کے بغیر بھی لکھا جا سکتا ہے۔
منظر پھلوری کے تمام مستزاد بحمدللہ مستزاد کی پہلی مثال اور مستزاد کی روائت کے مطابق ہیں۔ انہوں نے ہر مستزاد کے پہلے شعر سے آخری شعر تک اس التزام کو پابندی اور خوبصورتی سے نبھایا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے مستزادوں میں تحت نغمہ کی کیفیت برقرار ہے۔
منظر کے دوسرے محاسن درج ذیل ہیں:
۱۔ ان کے تمام مستزاد ایک بحر میں نہیں ان میں بحور کی رنگا رنگی اور عروضی تنوع موجود ہے
۲۔ ان کی کوشش ہے کہ مستزاد کے مطلع کے علاوہ باقی شعروں کے مصروع ہا کے اولیٰ میں اندرونی تکرار زیادہ لمبی نہ ہو بعض جگہ انہوں نے ایک ایک لفظ کو قافیہ / ردیف کے طور پر برتا ہے ۔
مثلاً یہ دو شعر دیکھئے:
ہر گھڑی ہے والیِ کُل کا کرم
ہر سے اہم
دُور سائل کا ہوا اک اک الم
ہر سے اہم
وہ مرا مولا مرا سردار ہے
دلدار ہے
وہ کرے سارے معاصی کالعدم
ہر سے اہم
اک وہی ہے وانیِ آوردگاں
دلدارگاں
سہل وہ کر دے مرے کار عدم
ہر سے اہم
یہاں دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں سردارہے اور دلدار ہے دودو لفظ ہیں جب کہ تیسرے شعر کے پہلے مصرع میں آوردگاں اور دلدارگاں ایک ایک لفظ (بطور قافیہ ردیف) ہے منظر کے تمام مصرع ہائے اولیٰ میں یک لفظی دو لفظی اور بعض جگہ سہ لفظی آہنگ کا تنوع بھی موجود ہے۔
۳۔ منظر نے اپنے ہر مستزاد کی جداگانہ شناخت کے لئے اس کے ردیف و قافیہ ہی سے اس کا عنوان بھی تلاش کیا ہے اگرچہ غزل کے اشعار کی طرح مستزاد میں ’عنوان دہی‘ کی روایت موجود نہیں لیکن منظر نے ہر مستزاد کی علاحدہ شناخت کے لئے اس پر عنوان دیا ہے۔
مثلاً__ مدح سرا ہوں__ہر دہر کا والی__ وہ ہے میر کلاں۔ امر لکھ رہا ہوں میرے خیال میں عنوان کی جدّت آفرینی بہتر ہے اس سے مستزاد کی شناخت کے ساتھ اس مستزاد کا مرکزی خیال بھی سامنے آ جاتا ہے۔
۴۔ منظر کے مستزادوں میں تراکیب نمایاں ہیں۔ تراکیب دو مختلف لفظوں کو ملا کر ایک نیا جہانِ معنی پیدا کرتی ہے منظر نے اسمائے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تراکیب کے کئی خوشنمازوج بنائے ہیں۔ اس میں غیر منقوط الفاظ کا التزام بھی شاید ایک سبب ہو مثلاً سرور، سردار وغیرہ کے الفاظ جن سے منظر کے اس مجموعہ نعت میں بیسوں تراکیب وضع کی ہیں کچھ مستعمل اور معروف اور کچھ طبع زاد (میں منظر کی تراکیب پر اس مضمون میں الگ بھی کچھ لکھ رہا ہوں)
۵۔ منظر نے بعض دوسرے شاعروں کی طرح اپنی غیر منقوط نگارشات کے لئے ’سائل‘ کاتخلص رکھا ہے۔ ان مستزادوں میں منظر نے ’سائل‘ کا تخلص ہر مستزاد میں نہیں __کہیں کہیں استعمال کیا ہے۔
۶۔ منظر کے مستزاد میں بعض الفا ظ وضاحت طلب ہیں اگر حاشیے میں ان کے مفاہیم کی نشاندہی کر دی جائے تو عام اردوخواں طبقے کو ان کا کلام سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
اپنی خود عائد کردہ پابندیو ں (غیر منقوط) کے با وصف منظر پھلوری نے اپنے مستزادوں کے موضوعات و مضامین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت و اردات مندی کا بھرپور اظہار کیا ہے اگر ان مستزادوں کو مصرع بہ مصرع اپنے معنوی سیاق و سباق میں ڈوب کر بڑھا جانے تو مفہوم اور بخت کی ایک اور سطح برآمد ہوتی ہے یگانہ کی غزل کا شعر ہے:
بات ادھوری مگر اثر روتا
کیسی لکنت زباں میں آئی!
(دوسرے مصرع میں کیسی کی جگہ شاید ’اچھی‘ ہے)
مستزاد کی اپنی پابندی اور غیر منقوط کی پابندی نے مصرعوں میں ایک دلاویز شعری خلد (Poetic Gap)پیدا کر دیا ہے جسے قاری اپنے طور پر کرتے ہوئے جس سعی تخلیق فکرر(Re creation effert)سے گزرتے ہوئے جس انبساط سے گزرتا ہے اس سے ہر مستزاد کے مفہوم کا ایک اور دریچہ کھل جاتا ہے یوں سلسلہ سلسلہ مفہوم کا دائرہ اور پھیل جاتا ہے۔
منظر کی نعت کے مضامین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، شہر مدینہ کی یاد، آپؐ کی المکیت کا بیان، آپ کے اسمائے مبارکہ، آپؐ کی ذات سے شاعر کی ارادت مندی، آپؐ یہ درود و سلام اور آپؐ کی مدحت و ثنا سے وابستگی، آپؐ کی بخشش و عطا، آپؐ کی فیوض و برکات کے مضامین عام ہیں کچھ مستزادوں کی مثالیں دیکھئے:
مالک وہی مولا وہی، مہدی وہی ہادی
اور رحم کا عادی
اِس واسطے مملوکِ درِ اہلِ کساہوں
اور مدح سراہوں
مولاؤں کا مولا ہے مِرا احمدِ مرسل
وہ کامل اکمل
سردار رسولوں کا ہے وہ مصلحِ اکمل
وہ کامل اکمل
وہ آسرا دے ساکھ رکھے ہر کی ہی سائل
وہ رحم کو مائل
اکرام کا سہرا اسی مطعام کے سر ہے
وہ آس کا در ہے
وہ مردِ صالح ہے ہر سے اکمل
وہ ہر سے اوّل
کہا اُسی کا ہوا معوّل
وہ ہر سے اوّل
وہ رحمِ الٰہی کا مسلسل ہے کرم کار
عالم کا مددگار
اس واسطے الحاد سے ہر طور مٹا ہوں
الحمد گدا ہوں
اُسی کا سکہ رواں دواں ہے
وہ حکمراں ہے
دِلوں کا ہر ڈر ہَوا ہُوا ہے
وہی عطا ہے
بحیثیت مجموعی منظر پھلوری کی ’نعت مستزاد‘ ان کے اپنے نعتیہ اثاثے میں تو ایک منفرد اضافہ ہے یہی اس کتاب کے اردو نعت کے معاصر منظر نامے کو بھی ثروت مند کیا ہے ۔ نعت کے مرکزی فنّی بیانیے سے ہٹ کر نعت کی پیشکش میں تازہ کاری کی جو مثال بھی پیش کی جائے خوش آئند ہے۔ منظر پھلوری اس کتاب پر بلاشبہ ہم سب نعت دوستوں کے شکریئے کے مستحق ہیں۔
کیا طرز اجتہاد میں لکھی ہے
یہ نعت جو مستزاد میں لکھی ہے
کس شوق سے منظر پھلوری جی نے
ممدوحؐ ربِ کی یاد میں لکھی ہے
ریاض مجید
ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس، فیصل آباد
۲۰۲۲۔۰۶۔۰۶