ستیہ پال آنند کا جرمنی آنا،اپنے اعزاز میں تقریب کرانا اور پھر میزبان کا رسمی شکریہ تک ادا کیے بغیر چلے جانا۔ایک نئی ادبی تہذیب کا آغاز ہے۔اسے جو بھی نام دیا جائے اس کے ساتھ” ستیا “کا لفظ ضرور آنا چاہیے۔اس افسوس ناک میزبانی کے بعد میں نے اس تقریب کی روداد بھی لکھی اور ان کے ساتھ اپنے لاگ اور لگاؤ کی تفصیل پورے حوالہ جات کے ساتھ پیش کر دی۔یہ مارچ ۲۰۱۰ءاور ستمبر ۲۰۱۰ء تک کی باتیں ہیں۔چونکہ ستیہ پال آنند کے پاس میرے پیش کردہ حقائق کے جواب میں کہنے کے لیے کوئی مدلل بات نہ تھی،اس لیے انہوں نے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کر لی۔میرا مقصد بھی اتنا ہی تھا کہ جو کچھ ہوا ہے اور جو کچھ ہو چکا ہے،اچھے پیرائے میں ریکارڈ پر آجائے۔اس کے پورے نو مہینے کے بعدستیہ پال آنند نے ایک نظم تخلیق کی۔ اس نظم کا معاملہ اب ذرا بعد میں۔یہاں میں ان کے مزاج کے بارے میں ایک دو باتیں صاف گوئی کے ساتھ کر دینا چاہتا ہوں۔
بیشتر بڑے اور اہم ادیبوں کی وفات پرانہوں نے رپورتاژ ٹائپ کے مضامین لکھے ہیں۔انہیں میں کہیں پورے اور کہیں آدھے ادھورے حوالہ جات بھی ملتے ہیں لیکن ساتھ ہی بہت ساری ایسی باتیں بھی ملتی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔خصوصاََ جب وہ بغیر واضح حوالہ دئیے بعض بڑے اور اہم ادیبوں کے ساتھ اپنی بے تکلفی ظاہر کرتے ہیں۔یہ سارا سلسلہ صرف اپنی (غلط) اہمیت ظاہر کرکے خود کو بھی اہم ثابت کرنے کے لیے ہوتا ہے۔وہ چاہیں تو میں ان کے تین چار ایسے مضامین میں سے ایسی روشن مثالیں نکال کر ایک الگ مضمون میں پیش کر سکتا ہوں۔یہ سب کچھ ان کے مزاج کی شہرت طلبی کا حصہ ہے۔باوقار طریقے سے اور سلیقے کے ساتھ کام کرتے ہوئے شہرت کی خواہش رکھنا کوئی بری بات نہیں۔
شہرت کے دوتین رُخ میرے نزدیک عام ہیں۔ایک باوقار طریقے سے اپنے ادبی کام کے ذریعے شہرت ملنا۔دوسرے اختلاف رائے رکھنے والے ادیبوں کے ساتھ علمی و ادبی مکالمہ کرکے اپنے موقف کی سچائی کو ظاہر کرنااور اس حوالے سے پہچانے جانا،تیسرے اپنے حاسدین اور مخالفین کی بے جا مخالفت کا سامنا کرنا اور ا س سے مناسب حکمت عملی کے ساتھ نمٹنا اور اس حوالے سے کامیابی حاصل کرنا۔
ستیہ پال آنند کے ہاں شہرت کے حصول کے لیے مثبت سے زیادہ منفی انداز نمایاں ہے۔مثلاََ ان کا بنیادی حوالہ (چاہے وہ کیسے معیار کا ہی ہو)نظم نگار کا بنتا ہے لیکن ان کی شہرت اچھے نظم نگار کی نہیں بلکہ غزل کی مخالفت کرنے والے ادیب کی ہے۔اسی طرح ان کے رپورتاژ نما مضامین میں جو خامی ہے اس کا ہلکا سا اشارا کر چکا ہوں۔ان کی شہرت طلبی کی کئی اور مثالیں بھی ہیں ۔ مثلاََکسی رنگ کی شہرت ملنے کا امکان دکھائی دیا توپشاور کے احباب سے تعلق جتانے کے لیے اس حد تک چلے جائیں گے کہ یہ بات کسی طور ریکارڈ پر لائیں گے کہ ستیہ پال آنند پشاور کی مٹی کو خاکِ شفا سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر نذرخلیق نے اس خاکِ شفا کی وضاحت کرتے ہوئے خوب بتایاتھا کہ پشاور اور اس کے آس پاس کے علاقہ میں ڈھیلے سے استنجا کرنے کا بہت زیادہ رواج ہے ،ستیہ پال آنند کے لیے یہ خاکِ شفا ہے تو خدا انہیں مزید شفا عطا کرے۔
انہوں نے انگریزی میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بارے میں ایک مضمون لکھا۔اس میں ان کی تعریف میں اس حد تک مبالغہ آرائی بلکہ خوشامد سے کام لیا کہ ہر ادبی بندہ اس مضمون کو پڑھ کر حیران رہ گیا اور بیشتر لوگوں کی رائے یہی تھی کہ ستیہ پال آنند نے کوئی بڑا انعام پانے کے لیے یہ مضمون لکھا ہے۔بعض ادیبوں نے اسی روز فون کرکے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو اپنے خیالات سے آگاہ بھی کر دیا۔ایک طرف یہ سلسلہ چلایا جا رہا تھا،دوسری طرف اسی دوران فیس بک کے ایک گروپ پر ستیہ پال آنند اس نام نہاد فلسفی اور ادبی درانداز کی تعریف لکھ رہے تھے،جس کی واحد شناخت اچھی بات کو بھی بد تہذیبی کے ساتھ بیان کرنے کی ہے۔
کسی نے فیس بک پر درج ہونے والے یہ تاثرات ڈاکٹر گوپی چند نارنگ تک بھی پہنچا دئیے۔اس کے بعد ظاہر ہے کہ اگر واقعی انعام کے حصول کی کوئی کاوش تھی تو وہ خطرے میں پڑ گئی۔ستیہ پال آنند نے سراسیمگی کے عالم میں ایک دو دوستوں سے پوچھا کہ فیس بک کی باتیں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ تک کون پہنچا سکتا ہے؟ان کا تو فیس بک کے معاملات سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔
پھر کیا ہوا؟یہ ستیہ پال آنند خود لکھیں تو زیادہ اچھا ہوگا۔ہاں میں اتنا ضرور بتانا چاہوں گاکہ انہوں نے فیس بک کے ماڈریٹر کو خاصے سخت الفاظ میں پیغام بھیجا کہ جہاں مذکورہ ادبی درانداز جیسا زبان دراز ہوگا میں اس فورم میں شرکت نہیں کر سکتا۔میرے الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مفہوم مکمل طور پر یہی تھا۔اس پیغام کو پھر ایک دو دوستوں کو بھی ای میل سے بھیج دیا تاکہ ان کی صفائی کی سند رہے۔کہاں ایک شخص کی تعریف کی جا رہی ہے اور کہاں معاملات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے اسی کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کی جا رہی ہے۔
یہ سارا سلسلہ کسی علمی و ادبی مکالمہ کے طور پر ہوا ہوتا تو ان کا ادبی حق بنتا تھا،لیکن معاملہ صرف ایک بڑے انعام کے حصول کے لیے لابنگ کا تھا،اور اس انعام کے لیبل کو اپنی شہرت میں اضافہ کا موجب بنانا تھا۔کچھ اسی خواہش کے پیش نظرڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو خوش کرنے کے خیال سے اور کچھ میرے سابقہ مضامین کاکوئی جواب نہ دے پانے کے احساس کے ساتھ انہوں نے ایک نظم لکھی۔انہوں نے یہ نظم اپنے بعض احباب کو بھیجنے کے ساتھ ارشد خالد مدیر عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کو بھی بھیجی۔بعد میں معتبر ذرائع سے تصدیق ہوئی کہ یہ نظم ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو بھی بھیجی گئی۔(جب مجھے یہ معلوم ہوا، میں نے اپنی جوابِ آں نظم بھی ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو بھیج دی تھی۔لیکن جوابِ آں نظم کا ذکر ذرا بعد میں) ۔
جب ستیہ پال آنند نے اپنی نظم ارشد خالد کو بھیجی تو انہوں نے فوری طور مجھے وہ میل فارورڈ کر دی،ساتھ ہی اپنی رائے لکھی کہ یہ نظم آپ کے خلاف لکھی گئی ہے۔میں نے اسی روز اس نظم کا جواب لکھا اور اپنی نظم ارشد خالد کو بھیج دی۔ارشد خالد نے جیسے ستیہ پال آنند کی نظم اور میل مجھے فارورڈ کر دی تھی ویسے ہی میری نظم اورای میل ستیہ پال آنند کو فارورڈ کر دی۔اس کے بعد ستیہ پال آنند اور ارشد خالد کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی،ارشد خالد نے مجھے فراہم کر دی اور اب ارشد خالد کی اجازت سے وہ من و عن یہاں درج کر رہا ہوں۔
ستیہ پال آنند بنام ارشد خالد
جناب ارشد خالد صاحب ،آداب
میں نے آج صبح ہی ہفتے کے آخر کی تعطیل کے بعد واپس گھر آنے پرحیدر قریشی صاحب کی تحریر کردہ ”جوابِ آں نظم“اپنی ای میل میں دیکھی۔میں نے اپنی نظم اشاعت کی غرض سے آپ کی ای میل ملنے کے بعد آپ کو بھیجی تھی۔آپ نے ہی شاید اسے ان کو فارورڈ کر دیا تھا۔کیوں؟ اس بات کا پتہ مجھے نہیں ہے۔آپ نے ایسا کیوں کیا؟
میں یہ لکھنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ نظم ان کی شخصیت یا کردار کو سامنے رکھ کر نہیںلکھی تھی۔میرے سامنے تو ایک”سٹیریو ٹائپ“کردار تھا۔جسے میں نے فکشنلائز کیا۔خدا جانے ان کو یا آپ کو یہ خیال کیسے آگیا کہ یہ نظم ان کے بارے میں ہے۔میں گزشتہ ایک برس سے فارسی کے مقولوں اور عربی میں قرآن مجید کے ارشادات کو موضوع اور عنوان بنا کر نظمیں لکھ رہا ہوں۔میری دو درجن کے لگ بھگ ایسی نظمیں رسالوں میں چھپ چکی ہیں۔کچھ شاید آپ نے دیکھی بھی ہوں۔یہ نظم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔میرے ذہن میں خدا گواہ ہے ،اس بات کا کوئی خیال تو کیا شائبہ تک نہیں تھا کہ میں ان کی کردار کشی کروں۔نہ ہی یہ خیال پہلے تھا،نہ اب ہے ،اور نہ مستقبل میں کبھی ہوگا۔
وہ میرے بارے میں جو لکھتے رہیں سر ماتھے پر!
آپ کا
ستیہ پال آنند ۱۳جون ۲۰۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد خالد بنام ستیہ پال آنند
آنند جی! آداب
چونکہ معاملہ سنجیدگی اختیار کر گیا ہے اس لیے مجھے بھی اردو فونٹ میں جواب لکھنا ضروری ہو گیا ہے۔آپ کی نظم میں اتنے واضح اشارے موجود ہیں کہ یہ کہنا ممکن ہی نہیں کہ یہ کسی اسٹیریو ٹائپ کردار کے بارے میں نظم تھی اور حیدر قریشی آپ کے سامنے نہیں تھے۔آپ اردو کے کسی سنجیدہ لکھنے والے کے سامنے یہ نظم رکھ دیں اور ساتھ ہی حیدر قریشی کا لاگ اور لگاؤ والا مضمون رکھ دیں۔کوئی بھی آپ کے اس بیان سے اتفاق نہیں کرے گا کہ آپ نے حیدر قریشی کے بارے میں یہ نہیں لکھی۔سو آپ کو اس سلسلہ میں اپنے سچ کا سامنا کرنا چاہیے۔
حیدر قریشی سے میرا تعلق کوئی آج کی بات نہیں ہے۔جب وہ خانپور میں ہوائی چپل پہن کر سڑکوں پر گھوما کرتے تھے اور میں موٹر سائیکل پر ہوتا تھا،تب سے ہماری دوستی ہے۔عکاس کا پہلا شمارہ بھی اسی زمانے میں نکلا تھا۔اس لیے بے شک میں نے آپ کی نظم پڑھ کر انہیں بھیجی تھی،کیونکہ نظم ان کے خلاف لکھی گئی تھی۔تاہم جب انہوں نے جوابِ آں نظم لکھ کر بھیجی تو میں نے ان کی نظم بھی آپ کو بھیج دی۔حیدر قریشی کا خط بھی ساتھ ہی تھا۔اس خط سے ہی ظاہر تھا کہ وہ آپ کے ساتھ کسی لڑائی کے لیے ہر گز خوش نہیں ہیں لیکن آپ کی نظم نے یقیناََ ایسی فضا پیدا کر دی۔
بات اتنی نہیں ہے کہ حیدرقریشی آپ کے بارے میں کچھ لکھ چکے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پورے شواہد کے ساتھ حقائق بیان کیے ہیں۔ان حقائق سے آپ کی اخلاقی حیثیت پر بہر حال ایک سوال اٹھتا ہے۔انگریزی کا ایک لفظ سوری ایسے معاملات میں بہت کام آتا ہے لیکن آپ جن احباب کے گھیرے میں ہیں شاید ان کی وجہ سے آپ کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔تو ٹھیک ہے آپ کا کیا ہوا آپ کے سامنے ہے اور حیدر قریشی کا کیا ہوا اُن کے سامنے ہے۔
نظم کے معاملہ میں پہلا سچ یہی ہے کہ یہ صاف صاف حیدر قریشی کے خلاف لکھی گئی ہے ۔آپ اسے ہمیشہ کے لیے ضائع کرتے ہیں تو حیدر قریشی اپنی جوابی نظم کو ہمیشہ کے لیے ضائع کر دیں گے۔آپ وقتی طور پر ضائع کرتے ہیں اور بعد میں یہ نظم سامنے آجاتی ہے تو حیدر قریشی کی نظم بھی اُسی وقت سامنے آجائے گی۔سو پہل بھی آپ کی طرف سے ہوئی اور اس معاملہ کا اختتام بھی آپ ہی کی مرضی کے مطابق ہو گا۔آپ جو حکم فرمائیں۔
نیازمند
ارشد خالد ۱۴جون ۲۰۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند بنام ارشد خالد
2011/6/14 Satyapal Anand <[email protected]>
Arshad Khalid Sahib....Please do not include my poem in your magazine. This email correspondence stops here. There should be no further communication.
Satyapal Anand
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد خالد بنام ستیہ پال آنند
آنند جی!
حیدر قریشی کے خلاف آپ کی نظم کو روک کر باقی نظمیں عکاس میں شامل رکھوں گا۔
قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے۔۔وغیرہ وغیرہ۔
متنازعہ نظم کہیں نہیں چھپے گی تو جوابِ آں نظم بھی کہیں نہیں چھپے گی۔میری طرف سے یا قریشی صاحب کی طرف سے اس معاملہ میں پہل نہیں ہو گی لیکن آپ کی متنازعہ نظم کہیں چھپ گئی تو پھر صرف دونوں نظمیں ہی نہیں اس پورے قضیہ کو اردو دنیا کے سامنے لانا پڑے گا۔
آپ کی پچھلی میل سے ایک کنفیوژن ہو رہا ہے،صرف وضاحت کے طور پر لکھ رہا ہوں کہ میں نے آپ سے نظمیں بھیجنے کو بالکل نہیں کہا تھا۔میری کسی میل میں آپ ایسا نہیں دکھا سکیں گے۔نظمیں آپ نے از خود محبت سے بھیجی تھیں۔ویسے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے یہ سب کچھ بھیجا اور مجھے صورت حال کو ایک بڑی خرابی سے بچانے کا موقعہ مل گیا۔
آپ کانیازمند
ارشد خالد ۱۴جون ۲۰۱۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی انگریزی ای میل میں ستیہ پال آنند نے ارشد خالد کے جواب میں جو برہمی ظاہر کی ہے،بہت ہی بے معنی ہے۔کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے ایسے ہی ایک اور قضیہ میں خود ارشد خالد سے سوری کہہ کرنہیں بلکہforgiveلکھ کر معذرت کی تھی۔ان کی ۳جولائی ۹۰۰۲ءکی وہ ای میل آن ریکارڈ موجود ہے۔سو اب ابھی اپنی ہجویہ نظم پر سوری کہہ لینا اور اسے ڈراپ کردینا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔لیکن انہیں یہ گمان تھا کہ حیدر قریشی کے خلاف لکھی ہوئی نظم دیکھ کر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ خوش ہو جائیں گے۔اسی دوران ایک اور اہم دوست درمیان میں آئے۔انہوں نے ستیہ پال آنند کو اپنے طور پر اور اپنے انداز میں سمجھایا کہ آپ اپنی نظم کہیں شائع نہیں کریں تو حیدر قریشی بھی اپنی جوابی نظم کہیں نہیں بھیجیں گے۔وقتی طور پر انہوں نے یہ بات مان لی۔چنانچہ میں نے اپنی نظم صرف ان احباب کو بھیجی جنہیں ستیہ پال آنند اپنی نظم بھیج چکے تھے۔تاکہ ان احباب کے سامنے دونوں نظمیں موجود رہیں۔
اب مجھے کچھ دنوں سے ادھر اُدھر سے خبریں مل رہی تھیں کہ ستیہ پال آنند نے وہ نظم کہیں چھپنے کو بھیجی ہے یا چھپوا لی ہے۔اس پر پہلے تو میں نے اس دوست سے رابطہ کیا جس نے درمیان میں آکر تھوڑا سا طے کرایا تھا کہ دونوں طرف سے ہجویہ اور جوابی نظمیں ڈراپ کر دی جائیں۔میرے استفسار پر اس دوست نے کسی حد تک تذبذب کا اظہار کیا۔تب میں نے براہ راست ستیہ پال آنند کو یہ ای میل بھیجی۔
حیدر قریشی بنام ستیہ پال آنند
۲۹مئی ۲۰۱۲ءکو بھیجی گئی ای میل:
آپ کی نظم اور میری جواب آں نظم
مجھے ناصر عباس نیر صاحب نے کہا تھا کہ آپ اپنی نظم نہیں چھاپیں گے اور جواباََ میں بھی اپنی نظم نہیں چھاپوں گا۔جب مجھے معلوم ہوا تھاکہ آپ نے یہ نظم نارنگ صاحب کو بھی بھیجی ہے تو میں نے بھی انہیں بھیج دی تھی۔میں اس مبہم سی یقین دہانی پر قائم ہوں کہ آپ اپنی نظم کہیں نہیں چھپوا رہے۔
لیکن ساتھ ہی مجھے ادھر اُدھر سے اس حوالے سے کچھ خبریں مل رہی ہیں۔سو کسی افواہ پر یقین کرنے کی بجائے براہ راست آپ کو ای میل بھیج رہا ہوں۔اگر آپ کی مذکورہ نظم کہیں چھپ گئی ہے یا چھپ رہی ہے تو کسی لڑائی جھگڑے میں پڑے بغیر ہلکی سی وضاحت کے ساتھ مجھے بھی اپنی نظم سمیت دونوں نظمیں چھپوانا پڑیں گی۔اس کی تصدیق یا تردیدآپ ہی کر سکتے ہیں۔سو ہر طرح کی غلط فہمی سے بچنے کے لیے براہ راست آپ کو ای میل بھیج رہا ہوں۔
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ای میل کا ستیہ پال آنند نے کوئی جواب نہیں دیاتو اب میرے لیے ضروری ہو گیا کہ دونوں نظمیں ایک ساتھ شائع کر دوں۔سو دونوں نظمیں ایک ساتھ پیش ہیں۔
ستیہ پال آنند
کون و فساد و بودنی نابودنی
۰مبر گمان تو ا ورد یقیں شناس کہ دزد
متاع من ز نہاں خانہ ازل بر دست
(غالب)
ہے تو وہ شاعر یقینا !
ساری اصنافِ سخن املاک میں شامل ہیں اس کی
نظم ، دوہے، ماہیے ، ہائیکو،غزلاللہ جانے اور کیا کیا!
مختصر مضمون بھی لکھتا ہے اکثر
ایک خوبی اوربھی ہے
اپنے ہمعصروں کی تخلیقات میں، اور
سابقین و مقتدا شعراءکے مضمون و متن میںکچھ
مماثل دیکھ لیتا ہے اگر تو
ماورائے غور، فکر و خوض سے بیگانہ ، فوراً بیٹھ جاتا ہے
(سمجھتا ہے) کہ یہ ’تحقیق‘ ہے ’ ریسرچ‘ اصلی!
’نقل‘ ’ چربہ‘ ’ کاربن کاپی‘
’بعینہ‘ ’ ہو بہو‘ ’سرقہ‘ وغیرہ لفظ تو موجود ہی ہیں
ان کے استعمال سے بس آدھ گھنٹے میں ہی
اپنا نا مشخّص’تجزیاتی تبصرہ‘ لکھ کر سمجھتا ہے کہ جیسے
معرکہ سر کر لیا ہو!
نا سپاس و ناستودہ یہ ’مدّبر‘
ایسے دستور العمل کوکب بھلا پہچانتا ہے
جس میں کہ بین المتونیت کی رو سے
سب مضامین و متون و ماحصل ہم زائیدہ ہیں
حاشیہ آرائی یا تفسیریا توجیہہ ۔ سب ہم نسل ہیں
تلمیح، تلطیف عبارت، تبصرہ، تاویل و استنباط سب ہم زوج ہیں
ذہن انسانی کے تہہ در تہہ خزانے میں نہ جانے کب سے ایسے
سینکڑوں مکنون و مخفی زاویے موجود ہیں جو
ہر نئے دن گفتگو میں، شاعری میں، نثر میں ڈھلتے ہیں
روشن اور بیّن!
بودنی نا بودنی یہ’شخص‘ کب سمجھا ہے پہلے یہ حقیقت
جو سمجھ جائے گا میری نظم سے اب؟جانتا ہوں!
(غالب کو بھی جب سرقہ کے الزامات کا جواب دینا پڑا تو اس بندۂ خدا نے یہ شعر لکھ کر
گلو خلاصی حاصل کی)
۰۰اس نظم کا اشارہ کسی فردِ واحد کی طرف نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی
جوابِ آں نظم
(یہ نظم اسی کے بارے میں ہے جس کی نظم کے جواب میں لکھی گئی ہے)
میاں آزاد ہے وہ
ذات میں جس کی
میاں خوجی بھی بستا ہے
کہانی کار تھا وہ اور کہانی خوب لکھتا تھا
مگر آزاد نظموں کی لگن نے خوامخواہ
اس کے کہانی کار کو شاعر بنا ڈالا
الوہی شاعری کو بھی تماشا سا بنا ڈالا
میاں آزاد کے اندر میاں خوجی بسا ڈالا
اُسے یہ زعم تھا آزاد نظموں میں بھی
وہ قصے ہی لکھتا ہے
یہ زعم اب اتنا پختہ ہو گیا ہے کہ وہ اب
تحقیق کے مضمون بھی آزاد نظموں ہی میں لکھتا ہے
وہ شاعر ہے مگر غزلیں نہیں کہتا
غزل کی صنف سے ناراض ہے خاصا
غزل کے شعر اس کو زہر لگتے ہیں
اسے احمد فراز اس واسطے اچھا نہیں لگتا
کہ اس کے گرد ہر دَم خوبصورت عورتوں
کا جمگھٹا کیوں تھا
وہ اپنی شاعری کا آپ دیو آنند بنتا ہے
مگر آنند جس کا جا چکااور اب فقط اک دیو ہے
میرا جی و راشد سی شہرت کی تمنا کا
مگر اس کی حقیقت بھی
میاں آزاد کے اندر کے میاں خوجی جیسی ہے
میاں خوجی کہ جس نے اپنی نظموں کو
قرولی سا بنا ڈالا
سو اب جس سے بھڑکتا ہے
وہ اپنی فارسی زدگی پہ اتراتے ہوئے
نفرت میں اپنی ایسے اُس کو جھونک دیتاہے
فقط دھمکی نہیں دیتا
قرولی نظم کی
سچ مچ اُسے وہ بھونک دیتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند کے ساتھ میرے معاملات کی ساری روداد میرے ان سارے مضامین میں آ گئی ہے جو اس کتاب میں الگ سیکشن کے طور پر یک جا کر دئیے گئے ہیں۔دو نظموں کا قضیہ بھی ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔میں اس پر کوئی فیصلہ نہیں دے رہا۔بس یہ سب کچھ ریکارڈ پر لا رہا ہوں۔
قارئینِ ادب اپنے طور پر جو نتیجہ اخذکرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر کردہ:یکم جون ۲۰۱۲ئ
( کتاب”تاثرات“ میں شامل کیا گیا ہے)