ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے شعبہ جنوبی ایشیائی انسٹی ٹیوٹ میں
ڈاکٹر ستیہ پال آنند،صدف مرزا اور باقر رضا زیدی کے اعزاز میں تقریب
ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ کی زیر صدارت ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائی انسٹی ٹیوٹ میں ایک پُر وقار ادبی تقریب ہوئی۔اس تقریب میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند(امریکہ)،صدف مرزا(ڈنمارک) اور باقر رضا زیدی(پاکستان) مہمانانِ خصوصی تھے۔حیدر قریشی نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دئیے۔آغاز میں حیدر قریشی نے ایک مضمون کی صورت میں مہمانانِ خصوصی اور جملہ شرکاءکا خیر مقدم کیا۔اس کے بعد مشاعرے کا دور ہوا جس میں جیتندر دت(برلن)،ارم بتول(ہائیڈل برگ)،عاطف توقیر (بون)،شہزاد ارمان(ہائیڈل برگ)،طاہرہ رباب(ہمبرگ)،راجہ محمد یوسف(فرید برگ)،طاہر عدیم (اوفن باخ) اور مہمانانِ خصوصی باقررضا زیدی،صدف مرزا اور ڈاکٹر ستیہ پال آنند سے ان کا کلام سنا گیا۔شعرائے کرام نے عمدگی سے اپنا کلام پیش کیا اور حاضرین نے مناسب طور پر داددی۔مشاعرے کے دور کے بعد یونیورسٹی میں اقبال چئیر کے پروفیسر ڈاکٹر وقار علی شاہ نے اظہار خیال کیا۔انہوں نے اقبال کی شاعری میں اُس زمانے کے افغانستان کا ذکر کیا اور پھر آج کے افغانستان اور پاکستان کے پختون علاقوں تک کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اقبال کے زمانے سے بھی زیادہ تشویشناک ہو چکی ہے۔اس تقریر کے بعد کھانے اورچائے کا وقفہ دیا گیا۔
وقفہ کے بعد مہمانانِ خصوصی کے ساتھ اور خاص طور پر ڈاکٹر ستیہ پال آنند صاحب کے ساتھ ادبی مکالمہ کا موقعہ فراہم کیا گیا۔تاہم اپنی عمراور،مسلسل سفر کی تکان کے باعث وہ یکسو نہیں رہ پائے تھے۔حاضرین کی طرف سے میڈیا کی اثر آفرینی اور ادب کے معاملہ میں لا تعلقی کے حوالے سے سوال کیا گیا لیکن ڈاکٹر ستیہ پال آننداردو کی ابتدا کیسے ہوئی کے موضوع کی طرف نکل گئے۔صدف مرزا نے اس موقعہ پر اصل موضوع پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس کا مناسب جواب دیا اور ڈاکٹر کرسٹینا نے مغرب میں بھی ادب اور میڈیا کے رشتے میں لگ بھگ ایک جیسی صورتحال کی نشان دہی کی۔راجہ محمد یوسف کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں عروض کی بحث چھڑنے لگی۔راجہ یوسف نے”تسکین اوسَط“ کہا تو ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کہا کہ س پر زبر نہیں ہے،جزم ہے۔راجہ یوسف نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند مسلسل سفر کی تکان کے باعث غلط تلفظ بتا رہے ہیں،بحث پر اصرار کرنے کی بجائے مہمانِ خصوصی کے احترام میں خاموشی اختیار کر لی۔اس مکالماتی حصہ کوصدف مرزا کی دانشمندانہ گفتگو اور باقر رضا زیدی کی شرکت نے زیادہ بامعنی بنایا۔دیگر شرکائے گفتگو میںارم بتول،راجہ یوسف،توقیر عاطف،شہزاد ارمان،ڈاکٹر وسیم احمد طاہر اور طاہر عدیم سرگرم رہے۔
حیدر قریشی نے ڈاکٹر کرسٹینا کے تعاون کا خصوصی شکریہ ادا کیا،راجہ محمد یوسف،طاہر عدیم،اور بطور خاص ”اہل قلم“ کے شہزاد ارمان اور ارم بتول کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون کے باعث یہ تقریب نہایت پر وقار اور کامیاب رہی۔آخر میں تقریب کی صدر ڈاکٹر کرسٹینااوسٹر ہیلڈ نے اس تقریب کی کامیابی کا تمام تر کریڈٹ حیدر قریشی کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہایت کامیاب تقریب ہمارے لیے بہت خوشی کا باعث ہے۔آئندہ بھی جب حیدر قریشی اس انداز کی تقریب کرنا چاہیں ہماری طرف سے بھر پور تعان شامل رہے گا اور ہمارے اردو کے جرمن نژاد طلبہ اس میں بھرپور شرکت کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ ۱۵، جولائی تا دسمبر۲۰۱۰ء)