(ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی میں ۲۴مارچ۲۰۱۰ءکو ہونے والی تقریب میںپڑھا گیا خیرمقدمی مضمون)
اس تقریب کے انعقاد کا خیال تب آیا جب مجھے ڈاکٹر ستیہ پال آنند صاحب نے امریکہ سے اطلاع دی کہ وہ انڈیا سے واپسی پر یورپ کا چکر بھی لگائیں گے۔میں نے انہیں کہا کہ جب یورپ آرہے ہیں تو جرمنی سے بھی ہوتے جائیے۔سو انہوں نے میری فرمائش پر جرمنی آنے کی حامی بھر لی۔میں نے کرسٹینا جی سے پروگرام ترتیب دینے کی بات کی انہوں نے ہمیشہ کی طرح تعاون کر دیا۔یوں ستیہ پال آنند صاحب کے اعزاز میں تقریب کا پروگرام طے کیا جانے لگا۔اسی دوران معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن سے صدف مرزا ان کے اس سفرکے انتظامات سنبھالیں گی۔سواس حوالے سے ان کا فون آیا تو انہیں بھی مدعو کرنا واجب ٹھہرا۔یوں ہمارے ایک مہمانِ خصوصی کی جگہ دو مہمانِ خصوصی ہو گئے۔پھر چراغ سے چراغ جلنے کی طرح صدف مرزا کے توسط سے ارم بتول اور شہزاد ارمان سے رابطہ ہوا اور ان کے ذریعے پاکستان سے جرمنی میں آئے ہوئے شاعرباقَر رضا زیدی سے تعارف ہوا۔ اور انہیں بھی بطور مہمان خصوصی مدعو کر لیا گیا۔ایک فلمی گانے میں ایک مصرعہ بار بار آتا ہے۔
”ایک۔۔
ایک سے بھلے دو۔۔۔
دو۔۔
دو سے بھلے تین“
سو یوں ہماری آج کی تقریب میں تین مہمانانِ خصوصی موجود ہیں۔باقر رضا زیدی صاحب الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں اور شعروادب سے اپنی وابستگی کو بھی انہوں نے برقرار رکھا ہے۔”صدائے باقر“ اور” تم نے کہا تھا“ کے نام سے ان کے دو شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔مزید تعارف اب رابطہ کے بعد ہوتا چلا جائے گا۔صدف مرزا سے جب ٹیلی فون پر بات ہوئی تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ادبی موضوعات پر نہ صرف اچھی گفتگو کر سکتی ہیں بلکہ ان باتوں میں اچھی خاصی ادبی سوجھ بوجھ بھی ملتی ہے۔یہ میرے لیے اس واسطے حیران کن بات تھی کہ عام طور پر ادبی شعور تو اچھے اچھے شاعروں اور ادیبوں میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔بہر حال اس خوشگوار تاثر کے بعد جب ان کی شاعری پڑھنے کا موقعہ ملا تو لگا کہ وہ روانی جو ان کی گفتگو میں تھی،وہ اسی طرح اس شاعری میں نہیں مل رہی جبکہ شاعری میں تو فطری روانی زیادہ ہونی چاہیے تھی۔بعد میں راز کھلا کہ مجموعہ کچھ عجلت میں چھپوالیا گیا تھا۔بہر حال اب توقع کی جا سکتی ہے کہ اپنے ادبی مطالعہ کو مزید بڑھانے اور ستیہ پال آنند جیسی علمی و ادبی شخصیت کے مشوروں سے ان کے ہاں شعری بہاؤ بھی جوبن پر آتا جائے گا۔
ستیہ پال آنند جی سے میرا تعلق لاگ اور لگاؤ دونوں طرح کا ہے۔یہاں شروع میں ہی وضاحت کر دوں کہ ایسے تعلق کا ایک اعتراف میں اپنی پرانی دوست فرحت نواز کے حوالے سے کر چکا ہوں اور دوسرا اعتراف صرف ستیہ پال آنند جی کے حوالے سے کر رہا ہوں۔یہ ایسا سادہ اور پر پیچ تعلق ہے جہاں لاگ میں بھی لگاؤ ہوتا ہے اور لگاؤ میںبھی لاگ ہوتا ہے۔علمی طور پر ستیہ پال آنند جی سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔جب وہ غزل میں پیش پا افتادہ مضامین اور تراکیب کی بھرمار سے کلیشے جیسی صورت بن جانے کی خبر دیتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے۔غزل کی روایتی بھرمار کے مقابلہ میں اصلاح احوال کی امید پیدا ہوتی ہے لیکن اس سے آگے معاملہ جاتا ہے تو غزل کی بقا کا مسئلہ در پیش ہو جاتا ہے اور ہم غزل کے چاہنے والے فکر مند ہو جاتے ہیں۔
مغربی دنیا میںمشاعروں کی بھرمار اور اس میں پنپنے والے منفی رویوں کی نشان دہی سب سے پہلے اور سب سے موثر طریقے سے ستیہ پال آنند جی نے کی تھی۔انہوں نے بڑے اعدادوشمار کے ساتھ حقائق کو بیان کیا تھا۔اس معاملہ میں ان کا پرچم میں نے آج تک اُٹھا رکھا ہے۔تاہم مجھے امید ہے کہ اپنے حالیہ دورۂ یورپ کی جملہ تقریبات کو بھگتنے کے بعد وہ اپنے سابقہ موقف کو ایک بار پھر یورپی تناظر میں ضرور تحریر کریں گے۔تب اندازہ ہو گا کہ ان کے نزدیک صورتحال پہلے سے زیادہ تشویشناک ہو گئی ہے یا بہتر ہوئی ہے۔ماہیا کی ثقافتی پہچان کے سلسلہ میں ستیہ پال آنند جی سے ایک بار سہو ہو گیا تھا،ہم نے مناسب طور پر نشان دہی کردی تھی اور بات وہیں ختم ہو گئی۔نثر میں لکھی ہوئی ستیہ پال آنند جی کی مختلف تحریریں اپنی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں،وہ رپورتاژ کی صورت میں ہوں یا یادوں کی صورت میں۔مضامین کی صورت میں ہوں یا تاثرات کی صورت میں۔میری خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے ایک بار میرے اردو افسانوں پر انگریزی میں کچھ لکھا تھالیکن افسوس کہ پھر ان سے اپنی لکھی ہوئی تحریر کہیں کھو گئی جو آج تک انہیں مل نہیں پائی۔آنند جی نے افسانہ نگاری بھی کی ہے،تین چار افسانوی مجموعے چھپ چکے ہیں،پہلا مجموعہ تب چھپا تھا جب میں ایک سال کا تھا۔حال ہی میں” میرے منتخب افسانے“ کے نام سے ان کے منتخب افسانوں کا مجموعہ منظر عام پر آیا ہے جس سے بحیثیت افسانہ نگار ان کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکے گا۔ شروع میں غزل بھی کہی اور ان کی غزل کے چند یادگار نقوش ادبی رسائل میں محفوظ ہیں۔ستیہ پال آنند جی کی نظم کے سلسلہ میں میرا کچھ کہنا چھوٹا منہ بڑی بات ہو جائے گی۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ جدید نظم کی معتبر ترین روایت کے حوالے سے آنند جی کا شمار اہم ترین شعراءمیں کیا جاتا ہے۔ آج کے زندہ شعراءکی آٹھ دس اہم ترین نظم نگاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں ان کا نام لازماََ شامل رہے گا۔ستیہ پال آنند جی ادبی سچائی کو محترم سمجھتے ہیں لیکن اس کے اظہارمیں احتیاط کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔
اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے
روشنی ختم نہ کر ، آگے اندھیرا ہو گا
بے لاگ سچ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن حکمت و فراست والاان کا خاص رویہ بھی بری بات نہیں۔ اگرچہ زیادہ احتیاط میں بے احتیاطی بھی ہو جاتی ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہم سب نہ صرف ڈاکٹر ستیہ پال آنند جی جیسی علمی و ادبی شخصیت سے ملنے کے لیے جمع ہوئے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے ہمیں صدف مرزا اور باقر رضا زیدی جیسے احباب سے بھی ملنے کا موقعہ مل رہا ہے۔اور ہم سب کو مل بیٹھنے کا بہانہ مل گیا ہے۔میں اس تقریب میں آنے پر تمام شرکاءکا خیرمقدم کرتا ہوں۔ہائیڈل برگ سے اقبال چئیر کے پروفیسر ڈاکٹر وقار شاہ صاحب،افغانستان کے شیریں دل گردی وال صاحب،فرید برگ سے راجہ محمد یوسف صاحب، اوفن باخ سے طاہر عدیم صاحب،سجاول صاحب اور محمد افضل صاحب،بون سے امتہ المنان طاہرہ صاحبہ، عاطف توقیر صاحب،بریمن سے علینہ (Alena)صاحبہ، فرینکفرٹ سے عرفان خان صاحب، ہائیڈل برگ سے ڈاکٹر ہنس ہارڈر(Hans Harder) صاحب،ڈاکٹر وسیم احمد طاہر صاحب،شہزاد ارمان صاحب ، ارم بتول صاحبہ اور زیب النساءصاحبہ ،من ہائم سے نوید ظفر صاحب اور قرة العین صاحبہ،پاکستان سے آئے ہوئے دوست جعفر رضا صاحب اور برلن سے ہندی کویتا اور غزل کے ملاپ جیسی انوکھی شاعری کرنے والے دوست جیتندر دت صاحب،ہمبرگ سے طا ہرہ رباب صاحبہ، ان سب کا خیر مقدم کرتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ آپ سب شرکاءمہمانانِ خصوصی بھی ہیں اور میزبان بھی۔یہ ادب کا ذوق رکھنے والوں اور ادبی برادری کے مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہے ۔
اب پہلے مرحلہ میں شعرائے کرام سے کلام سنا جائے گا،دوسرے مرحلہ میں ڈاکٹر وقار شاہ صاحب اظہار خیال فرمائیں گے۔پھر مہمانانِ خصوصی اور خاص طور پر ڈاکٹر ستیہ پال آنند جی کے ساتھ سوال و جواب کی صورت مکالمہ ہو گا،جس کا مقصد مہمانوں کو علمی اور تخلیقی طور پر مزید جاننا ہو گا۔ اور آخر میں صاحبِ صدر کے اختتامی کلمات کے ساتھ محفل اختتام پذیر ہو گی۔تقریب کے بعد کھانے پینے کا انتظام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ ۱۵، جولائی تا دسمبر۲۰۱۰ء)