سامعہ اسکی شادی تو ہو گئی ہے۔۔۔لیکن مجھے سکون نہیں مل رہا۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔بلاک کر کے بھی میں اسے ان بلاک کر کے اسکا online۔۔۔لاسٹ سین دیکھتی رہتیonlineدیکھ کے بھی مجھے ہوتا ہے کہ کیا پتہ وہ مجھے آنلائن دیکھ لے اور میسج کرے مجھے۔۔۔
تمہیں پتہ ہے جب میں کہیں لکھا دیکھتی ہوں نا محبوب آپکے قدموں میں ۔۔۔ایسے اشتہار یا پوسٹس میرا بھی اب دل کرنے لگا ہے میں کہیں جاوں اور اسکو اپنے نام لکھوا لوں ۔۔۔۔
اسے میرے سوا کوئی نا دکھے۔۔۔لیکن پھر سوچتی ہوں۔۔کیا فائدہ پھر مجھے یہی بے سکونی رہے گی کہ اس نے خود محبت نہیں کی میں نے زبردستی کروائی ہے۔۔۔۔
کبھی بد دعا دینے کو دل کرتا ہے وہ کبھی خوش نا رہے۔۔۔کبھی دل کرتا ہے وہ بھی ایسے ہی روئے ایسے ہی تڑپے وہ بھی میرے لیے اور میں اسے اسکی طرح بے رخی دکھاوں اسے میرے درد کا احساس ہو جائے اور پھر وہ مجھ سے معافی مانگے۔۔۔اور میں معاف بھی کر دوں۔۔۔
کیا کروں یہ سب ہے تو اک خیال ہی۔۔۔میں جانتی ہوں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔
لیکن دل کی ضد ہے ایسا ہی ہو ۔۔وہ گڑگڑائے وہ مجھے مانگے میری محبت مانگے جیسے میں تڑپی ہوں وہ تڑپے۔۔۔آیت کی پین آج بھی ویسی ہی تھی۔۔۔
عماد کی شادی کو دو مہینے ہو گئے تھے۔۔۔۔لیکن آیت خود کو نہیں سنبھال سکی تھی۔۔۔۔
سامعہ کیا سچ میں اس نے مجھ سے محبت نہیں کی تھی۔۔۔کیا اس نے جو الفاظ مجھ سے کہے تھے وہ سب جھوٹ تھا۔۔
کوئی ایک بات تو سچ ہوگی۔۔۔وہ خود آ کہ کیوں نہیں کہ دیتا ۔۔کہ میں اسے بھول جاوں۔۔۔آیت ایک بار بس ایک بار تو وہ مجھ سے کہے کہ وہ کچھ پل کے لیے میرا تھا۔۔۔
جو وقت میں نے اسکی محبت میں گزارا ہے کم سے کم وہ یہ کہ دے وہ جھوٹا نہیں تھا۔۔۔
وہ کہ دے کہ اب وہ بدل گیا ہے لیکن تب وہ میرا ہی تھا۔۔۔
میری محبت پے داغ تو نا لگائے۔۔۔ایسی محبت تو نا کرے کہ لوگ مجھے ہی غلط سمجھیں سامعہ میرا کیا قصور ہے اگر وہ بدل گیا ہے۔۔۔
میرا دل تو کہتے ہوئے سب دیکھتے ہوئے بھی نہیں بدل رہا۔۔۔اسکی کیسی محبت تھی جسے اک لمحہ بھی نہیں لگا۔۔۔کیا اسکا ساتھ ادھورا ہی رہا میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی۔۔۔۔آیت کی آنکھیں آج بھیگی نہیں تھی۔۔۔ایک درد تھا جو اسکے لہجے میں تھا۔۔۔
آیت بس کرو پلیز۔۔۔مجھ سے تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔۔۔سامعہ روہانسی ہوئی تھی۔۔۔
آیت نے آفس جانا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔سامعہ کبھی کبھار گھر ملنے آ جاتی تھی ۔۔کال میسجز پے بھی اسے سمجھاتی رہتی تھی۔۔۔
لیکن آیت کے لیے عماد کو بھلانا بہت مشکل ہو گیا تھا۔۔۔وہ ہر وقت یہ سوچتی رہتی تھی ۔۔۔کبھی تو عماد کو بھولے سے اسکی یاد آتی ہوگی۔۔۔
کبھی تو وہ اسکی کوئی بات سوچتا ہوگا۔۔۔لیکن آیت کو تسلّی نہیں ہوتی تھی۔۔۔
___________________________
ماما پتہ نہیں میں یہ رشتہ نبھا سکوں گی یا نہیں۔۔۔میں اپنے حصے کی محبت کر چکی ہوں ۔۔۔اسکی آنکھوں سے آنسوں ٹپکے تھے۔۔۔۔
تم اپنے حصے کی محبت نہیں۔۔۔اپنے حصے کی بیوقوفی کر چکی ہو۔۔اور مزید بیوقوفی کی گنجائش نہیں ہے آیت۔۔۔
محبت ایسی نہیں ہوتی۔۔۔محبت کو عزت چاہیے ہوتی ہے۔۔اعتماد چاہیے ہوتا ہے ۔۔پھر محبت پوری ہوتی ہے۔۔۔
محبت عزت مانگتی ہے ذلّت نہیں۔۔۔۔
مجھے یقین ہے ابراہیم تمہیں محبت سے پہلے عزت دے گا۔۔۔جسکی تم حقدار ہو۔۔۔
عماد تمہارے قابل نہیں تھا اس لیے اللّہ پاک نے اسے تم سے دور کر دیا۔۔۔اگر وہ قابل ہوتا تو دور نا ہوتا ۔۔۔اللّہ کا فیصلہ ہی ہمارے لیے بہترین ہوتا ہے۔۔۔
خود کو دوراہے پے کھڑی مت کرو آیت۔۔۔بہت اذیت میں رہو گی اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اذیت میں ڈالو گی۔۔۔
بیوقوفی اگر خود تک محدود رہے تو اسکی معافی ہوتی ہے۔۔
لیکن اگر وہی بیوقوفی دوسروں پے اپنا اثر چھوڑنے لگے تو اسکو گناہ یا غلطی کا لقب دیا جاتا ہے۔۔۔اور پھر معافی کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔۔۔۔فاطمہ نے سرخ جوڑے میں بیٹھی اپنی پیاری سی بیٹی کو بہت اچھے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔
آیت کی شادی تھی آج ابراہیم کے ساتھ۔۔۔فاطمہ نہیں چاہتی تھی اسکی تلخ یادیں اسکی آنے والی زندگی پے اثر انداز ہوں۔۔۔اس لیے وہ آیت کو سمجھا رہی تھی۔۔۔
کیونکہ اب تک وہ خود ہی جھیل رہی تھی سب کچھ ۔۔اور اب اسکا نام کسی کے ساتھ جڑ رہا تھا۔۔۔
غلطیاں ہو جاتی ہیں۔۔۔تم سے بھی ہوئی ہے آیت ۔۔۔لیکن مجھے فخر ہے میری بیٹی نے کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا۔۔۔اور مجھے یقین ہے آئندہ بھی تم میرا فخر قائم رکھو گی۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی۔۔اس دنیا کی سب سے حسین دلہن فاطمہ نے اسکے ماتھے پے بوسہ دیا تھا۔۔۔
آیت کو فاطمہ کی باتیں بہت اچھے سے سمجھ آگئی تھیں۔۔۔
لیکن کیا میں بھول سکتی ہوں ۔۔۔آیت نے خود سے سوال کیا تھا۔۔۔اور اسے خاموشی ملی تھی۔۔۔اسکے اندر اس اذیت نے اپنا عکس چھوڑ دیا تھا۔۔۔اور نا جانے وہ عکس آیت کبھی مٹا بھی پائے گی یا نہیں وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔
________________________
اسلام علیکم۔۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔۔آئیے۔۔۔فاطمہ نے ایک عورت اور لڑکی کو ٹی وی لاونج میں بٹھایا تھا۔۔
فاطمہ نے انکو نہیں پہچانا تھا۔۔۔اور نا فاطمہ انکو جانتی تھی۔۔۔
جی مجھے پتہ ہے آپ مجھے نہیں جانتی کیونکہ ہماری پہلی ملاقات ہے یہ۔۔۔اس عورت نے بولنا شروع کیا تھا۔۔۔
ایکچلی آپکی بیٹی جس آفس میں جاب کرتی تھی۔۔
وہاں میرا بیٹا عماد بھی جاب کرتا تھا۔۔۔
عماد کے نام پے فاطمہ کو انتہائی حیرت ہوئی تھی۔۔۔
جی تو میں کیا مدد کر سکتی ہوں آپکی۔۔۔فاطمہ کا لہجہ خود بہ خود خشک ہو گیا تھا۔۔۔
جی میں اپنے بیٹے کے لیے آپکی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں یہ میری بیٹی ہے زویا۔۔۔اس عورت نے ساتھ بیٹھی لڑکی کی طرف دیکھ کے کہا۔۔۔۔
لیکن آپکے بیٹے کی تو شادی ہو گئی تھی۔۔۔آیت گئی بھی تھی ولیمے پے۔۔۔فاطمہ نے اس عورت سے کہا تھا۔۔۔جو عمر میں پچاس کے لگ بھگ لگ رہی تھی۔۔۔۔انگوری شلوار قمیض پہنے نفیس سی خاتون لگ رہی تھی۔۔۔اور ساتھ بیٹھی لڑکی شوکنگ کلر کی اوپن فراک پہنے ٹانگ پے ٹانگ رکھے بیٹھی تھی۔۔۔
جی جی وہ ماشاءاللّہ شادی شدہ ہے ۔۔۔اسکی طرف تو گڈ نیوز بھی ہے۔۔۔میں اپنے چھوٹے بیٹے حارث کی بات کرنے آئی ہوں۔۔۔میرا نام اُم ہانی ہے۔۔۔
آپکی بیٹی کو میں نے عماد کے ولیمے پے ہی دیکھا تھا مجھے بہت پیاری لگی تھی۔۔۔
جی شکریہ آپکا ۔۔اور آپ دادی بننے والی ہیں وہ بھی بہت مبارک ہو آپکو۔۔۔لیکن شاید آپکو علم نہیں میری بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔ماشاءاللّہ بہت خوش ہے اپنے گھر میں۔۔۔فاطمہ نے انکو بتایا تو دونوں ماں بیٹی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔۔
سوری ہمیں واقعی آیت کی شادی کا نہیں پتہ تھا۔ب ہوئی شادی۔۔۔اُم ہانی نے کہا۔۔۔
تین مہینے ہو گئے ہیں۔۔۔فاطمہ نے سیریس ہو کے بات کی تھی۔۔۔
اوہ اچھا۔۔۔ماشاءاللّہ ۔۔۔اللّہ خوش رکھے اسکو آمین۔۔۔
میں تو عماد سے کہ رہی تھی تمہارے آفس میں اتنی پیاری لڑکی ہے تم نے تو کبھی بتایا ہی نہیں۔۔۔قسمت میں نہیں تھا ورنہ پہلے ہی آجاتی۔۔۔ام ہانی کو افسوس ہوا تھا۔۔۔
جی بس قسمت کی بات ہے۔۔۔آپ بیٹھیں میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں۔۔۔پی کے جائیے گا۔۔۔فاطمہ انکو بٹھا کہ کچن میں چلی گئی تھی۔۔۔
تب ہی آیت اور ابراہیم آئے تھے ۔۔۔آیت عماد کی ماں کو گھر دیکھ کے ٹھٹکی تھی۔۔۔۔فاطمہ نے بھی آیت کی سوالیہ نظروں کو دیکھ لیا تھا۔۔۔
ماشاءاللّہ بہت پیاری جوڑی ہے۔۔اُم ہانی کہے بنا نا رہ سکی۔۔۔
چلو آیت میں چلتا ہوں تم آنٹی سے ڈیزائن کروا کے مجھے سینڈ کر دینا فری ہو کے۔۔۔ابراہیم نے بس چائے پی تھی۔۔۔آیت ابراہیم کو دروازے تک چھوڑنے آئی تھی۔۔۔
اپنا خیال رکھنا۔۔۔میری کیوٹی گرل ابراہیم نے جاتے جاتے اسکے ناک کو ہلکا سا ٹچ کر کے کہا تھا۔۔۔
جی ضرور آیت نے مسکرا کے جواب دیا تھا۔۔۔وہ واقعی بہت اچھا شوہر ثابت ہوا تھا۔۔۔آیت کو ابراہیم کی محبت نے سب کچھ بھلا دیا تھا۔۔۔
آو آیت بیٹھو۔۔۔اُم ہانی نے اسے اپنے پاس صوفحے پے بٹھایا تھا۔۔۔
تم تو آئی نہیں بیٹا ولیمے کے بعد میں نے کہا میں ہی ملنے چلی جاوں۔۔۔تمہاری ماما نے بتایا تمہاری شادی ہو گئی مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔۔۔نا ہی عماد نے بتایا۔۔۔
آیت کو کچھ ہوا تھا اتنے وقت بعد اسکا نام سنا تھا اس نے۔۔۔
جی آنٹی میں نے آفس پہلے ہی چھوڑ دیا تھا۔۔۔
آیت نے مختصر جواب دیا تھا۔۔۔۔وہ تھوڑی دیر بیٹھی باتیں کرتی رہی اور پھر جانے کو اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
آپ آیئے گا کسی دن ہماری طرف۔۔۔بہو تو آیت نہیں بن سکی لیکن ہم دوستیں تو بن سکتی ہیں۔۔۔اُم ہانی نے جاتے جاتے کہا تھا۔۔۔
جی کوشش کروں گی وعدہ نہیں کرتی۔۔۔فاطمہ نے جواب دیا تھا۔۔۔
_________________________
ماما کیا کہ رہی تھی آنٹی۔۔۔آیت نے انکے جانے کے بعد پوچھا تھا۔۔۔۔
اپنے بیٹے کا رشتہ لے کے آئی تھی تمہارے لیے۔۔۔آیت کو دھچکا لگا تھا ۔۔۔کیا مطلب۔۔۔
چھوٹے بیٹے حارث کے لیے۔۔۔فاطمہ نے تصدیق کی تھی۔۔۔
بڑے بیٹے کی طرف تو گڈ نیوز ہے کہتی۔۔۔چھوٹے بیٹے حارث کے لی تمہارا ہاتھ مانگ رہی تھی۔۔۔
فاطمہ نے ڈیزائنگ والی بک دیکھ رہی تھی اور نارملی بات کر رہی تھی۔۔۔
جبکہ آیت کی حیرت سے آنکھیں پھیلی تھی۔۔۔
تمہیں کیا ہوا ۔۔۔فاطمہ نے کوئی جواب نا پا کر آیت کو دیکھا۔۔۔
کچ۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔آیت بھی بک کی طرف دیکھنے لگی تھی۔۔۔
ہنمم اچھی بات ہے کچھ ہونا بھی نہیں چاہیے۔۔۔فاطمہ نے اسے غور سے دیکھا ۔۔۔
ماما یہ دیکھیں میں کہ رہی تھی یہ ڈیزائن آپکو دکھا نگی مجھے تو بہت اچھا لگا یہ میں نے اور ابراہیم نے بنایا ہے۔۔۔آیت نے بات بدل دی تھی۔۔۔
وہ بوتیک بنا رہی تھی۔۔۔اور اسی کے لیے وہ فاطمہ کی ہیلپ لیتی تھی۔۔۔
_____________________
آیت کی شادی کو دو سال گزر چکےتھے۔۔اور اس نے بہت اچھی بوتیک سیٹ کی تھی۔۔۔
ارے بیٹا یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔ایک چھوٹی سی بچی ٹیبل پے پڑا آیت کا ہینڈ بیگ بازو میں ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔جب آیت نے اسے دیکھا ۔۔۔بہت کیوٹ ہے نا ۔۔۔آیت نے ساتھ کھڑی گرل کو کہا۔۔۔۔
کس کی بچی ہے یہ۔۔۔آپکی ماما کہاں ہے بیٹا۔۔۔آیت نے بہت پیار سے پوچھا تھا۔۔۔جو تین چار سال کی لگ رہی تھی۔۔۔
لیکن بوتیک میں جتنے افراد تھے ان میں سے کسی کی بھی بچی نہیں تھی وہ۔۔۔۔
آیت کو لگا شاید کسی کی بچی ہے جو گم ہو گئی ہے۔۔۔۔
آیت نے اسے چیئر پے بٹھایا اور اسے چیز منگوا کے دی۔۔۔۔
جاو ۔۔۔۔حنا باہر دیکھو تو کوئی ڈھونڈ رہا ہوگا اپنی بیٹی کو۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ہی حنا آ گئی تھی۔۔۔جی میم مل گئے اسکے بابا ادھر ساتھ تیسری شاپ پے تھے اسکو ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔
آیت نے اس بچی کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔۔۔جب وہ سامنے دیکھ کے سکتے میں آئی تھی۔۔۔۔
انکی بچی ہے یہ میم۔۔۔حنا کی آواز آیت کے کانوں میں پڑی تھی لیکن وہ ہل نہیں سکی تھی۔۔۔۔
عما۔۔۔۔۔د۔۔۔۔عماد آیت کے منہ سے سامنے کھڑے شخص کا نام نکلا تھا۔۔۔
عماد بھی سکتے میں آیت کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
آ آیت۔۔۔۔۔۔۔
آیت نے بچی کو گود سے اتار دیا تھا۔۔۔
کیا حال ہے آیت۔۔۔عماد نے ہمت کر کے بولنے میں پہل کی تھی۔۔۔۔
ہنمم ۔۔۔می۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔آیت نے نظریں چرائی تھی۔۔۔۔
یہ آپکی بیٹی۔۔۔عماد نے جلدی سے اپنی بیٹی کو اٹھایا تھا۔۔۔۔
بیٹا کیوں بھاگتی ہو ادھر ادھر ۔۔۔ایک۔تم۔ہی تو ہو میرے پاس ۔۔۔میری جان۔۔۔عماد نے دیوانوں کی طرح اپنی بچی کو چوما تھا۔۔۔۔
آیت وہاں سے جانے کو مڑی تھی۔۔۔جب عماد کی آواز نے اسے روکا تھا۔۔۔
ب۔۔۔ہت۔۔۔۔بہت شکریہ۔۔۔۔میری بیٹی کا خیال رکھنے کے لیے۔۔۔۔
آپکی بیٹی کا خیال نہیں رکھا میں نے ۔۔۔صرف انسانیت کے لیے رکھا۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا یہ آپکی بیٹی ہے۔۔۔آیت نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے جواب دیا تھا۔۔۔۔
ایم سوری آیت۔۔۔عماد نے اس سے سوری کہا تھا۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔آیت سمجھی نہیں تھی۔۔۔
تمہارے ساتھ جو بھی کیا میں نے اسکی سزا مل گئی مجھے۔۔۔میری بیٹی کے اس دنیا میں آتے ہی کنزہ اس دنا سے چلی گئی۔۔۔
اوہ ۔۔بہت افسوس ہوا۔۔۔آیت کو بھی یقین نہیں۔آیا تھا۔۔۔
مجھے معاف کر دو آیت۔۔۔مجھے ایک بیٹی کا باپ بن کے سمجھ آئی ہے۔۔۔۔اور میں تم سے مل۔کے معافی مانگنا چاہتا تھا۔۔۔تاکہ میری کی ہوئی غلطیاں میرا دیا ہوا دھوکہ میری بیٹی کے آگے نا آئے جو سزا ملنی مجھے مل جائے لیکن پلیز میری بیٹی کو تمہاری بددعا نا لگے۔۔۔۔
عماد کی آنکھیں پہلی بار بھیگی دیکھی تھیں آیت نے۔۔۔
آیت کو واقعی اس پے ترس آیا تھا۔۔۔لیکن اس سے ہمدردی نہیں ہوئی تھی وہ آج بھی صرف اپنے لیے اپنی بیٹی کی قسمت کے لیے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔۔
شاید اسے آج بھی آیت کے دکھ کا احساس نہیں ہوا تھا۔۔۔
ہنممم۔آیت پلٹی تھی۔۔۔
پلیز آیت کہ دو کہ تم مے مجھے معاف کر دیا۔۔۔عماد کی آواز ایک بار پھر آیت کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔
ہنممم کر دیا معاف۔۔۔وہ سب کچھ جو میں نے برداشت کیا ۔۔۔وہ۔ایک ایک آنسو جو میرا تمہاری وجہ سے گرا۔۔۔وہ ایک ایک۔لمحہ جو تمہاری بے رخی سے مجھ پے اذیت بن کے گزرا۔۔۔سب کچھ معاف کر دیا۔۔۔۔آیت کے لہجے میں آج کچھ نہیں تھا۔۔۔
اور اسکی آنکھوں سے بھی ایک آنسو نہیں گرا تھا۔۔۔
اسے یہ ہمت یہ حوصلہ ابراہیم کی محبت نے دیا تھا۔۔۔۔
اور اسے یہ بات سمجھ آگئی تھی۔۔۔محبت وہی ہوتی ہے جو عزت دے ۔۔۔محبت وہ ہوتی ہے جسے آپکو تلاش نا کرنا پڑے۔۔۔جس کے لیے آپکو در در بھٹکنانا پڑے۔۔۔
محبت خود آپ کے پاس آتی ہے ۔۔۔اور جسکو آپ سے محبت ہو وہ خود آتا ہے۔۔۔اسکے لیے آپکو اسکی منتیں نہیں کرنی پڑتی۔۔۔اسکے لیے آپکو اپنی عزت داو پے نہیں لگانی پڑتی۔۔۔
محبت کے لیے آپکو غلط راستہ نہیں چننا پڑتا۔۔۔۔
اور یہ سب اسے ابراہیم سے شادی کے بعد ابراہیم کی محبت نے اسے محبت کا مطلب سمجھایا تھا۔۔۔
آج عماد کا اسکے سامنے ہونا نا ہونا ایک برابر تھا۔۔۔۔اس نے جتنی تکلیف برداشت کی تھی ۔۔۔۔وہ عماد کے رویے کی وجہ سے کی تھی۔۔۔
_____________________________
ایک دن وہ بوتیک سے گھر پہنچی توسامعہ کی کال آئی تھی۔۔۔۔
کیسی ہو میڈم تم تو بھول ہی گئی ہو شادی کے بعد ۔۔۔سامعہ نے گلہ کیا تھا۔۔۔
نہیں سامعہ تمہیں کیسے بھول سکتی بس بزی تھی اس لیے ٹائم نہیں ملا۔۔۔آیت نے اسے کہا تھا۔۔۔
اچھا تو میری شادی کے لیے کیسا ڈریس بنا کے دو گی۔۔۔سا معہ نے اسے کہا۔۔۔۔
کیا سچ مان گئے سب۔۔۔آیت چہکی تھی۔۔۔
تو اور کیا ماننا ہی تھا۔۔۔عمر نے منا لیا سبکو ۔۔۔اور تمہیں آنا بھی ہے شادی پے اور زبردست سے ڈریس بنوانے ہیں تم سے میں نے۔۔۔سامعہ نے خوش ہوتے کہا تھا۔۔۔
کیوں نہیں یار ۔۔۔تمہارے لیے جان بھی حاضر ہے۔۔۔آیت نے دل پے ہاتھ رکھتے جواب دیا۔۔۔
ارے کس کو جان دی جا رہی ہے ۔۔۔اپنے مزاجی خدا کو بھی پانی پلا دو۔۔۔
آیت کی بات ابراہیم نے سن لی تھی جو ابھی آفس سے آیا تھا۔۔۔
چلو سامعہ میں پھر تفصیل سے بات کرتی ہو ں تم سے ابراہیم آئے ہیں۔۔۔آیت نے سامعہ کی کال بند کر دی تھی۔۔۔۔
آیت اٹھ کے جانے لگی تھی جب ابراہیم نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔
بیٹھو ابراہیم نے اسے اپنے پاس بٹھایا تھا۔۔۔
پانی تو لے آوں ۔۔۔آیت نے کہا۔۔۔
تمہیں دیکھ کے ہی میری بھوک پیاس مٹ جاتی ہے۔۔۔
اوہ ہو۔۔۔۔۔اچھا جی اسکا مطلب اب میں کچھ بنایا نا کروں ۔۔۔کیونکہ آپ کو تو مجھے دیکھ کے ہی بھوک مٹ جاتی ہے۔۔۔
آیت نے بھی ابراہیم۔کو چھیڑا تھا۔۔۔
بنانا تو پڑے گا پھر بھی دو لوگوں کے لیے ابراہیم نے سسپنس کے طور پے بات کی تھی۔۔۔۔
کیا مطلب ۔۔۔آیت سمجھی نہیں تھی۔۔۔۔
یہ لو اپنی رپورٹس اور دیکھ لو تمہیں دو لوگوں کا کھانا پڑے گا یا نہیں۔۔۔۔ابراہیم کہ کے باہر چلا گیا تھا۔۔۔
آیت جو دو دن پہلے ہی ہوسپٹل سے چیک اپ کروا کے آئی تھی ۔۔۔۔اسکی رپورٹس ابراہیم آج لے کے آیا تھا۔۔۔
آیت نے جیسے ہی رپورٹس دیکھی اسکی خوشی کی کو انتہا نہیں۔تھی۔۔۔۔
وہ باہر آئی تو سب گھر والوں نے اسے مبارکباد دی تھی۔۔۔اور آیت کی آنکھیں کی بھیگ گئی تھیں۔۔۔ابراہیم کے چہرے پے بھی سکون تھا۔۔۔ابراہیم۔کو سکون میں دیکھ کے آیت کے دل کو راحت پہنچی تھی۔۔۔۔
سامعہ کی شادی پے آیت اور ابراہیم دونوں ہی گئے تھے۔۔۔۔سامعہ کو جب پتہ چلا وہ خالہ بننے والی ہے ۔۔۔سامعہ بہت خوش ہوئی تھی۔۔۔اس نے آیت کو گلے لگا کے مبارکباد تھی۔۔۔
اور آیت نے آنکھیں بند کر کے اپنے ماضی پے ایک نظر ڈالی تھی ۔۔۔اسکی آنکھ سے ایک آنسو نکلا تھا۔۔۔اور اس نے اس ایک آنسو میں اپناماضی بہا دیا تھا۔۔۔۔
کبھی کبھی ہم اپنی بہتری کو دیکھ نہیں پاتے اور غلط انتخاب ہمیں سہی لگتا رہتا ہے ۔۔۔اور وقت ثابت کر دیتا ہے۔۔۔کہ ہمارا انتخاب ہمارے لیے سہی نہیں تھا۔۔۔
لیکن ہمیں اپنا وقار اپنی سیلف ریسپیکٹ خود قائم رکھنی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
تیری وفا بھی رسوا کر گئی مجھے۔۔۔
تو جو بے وفائی عام کرتا تھا ۔۔۔
کبھی جو ترسو گے تم بھی۔۔۔
ہم نہیں ہونگے پاس تیرے۔۔۔
تجھے جو گھمنڈ تھامجبت کا۔۔۔
کبھی بکھرے تو سمیٹ نا سکو گے۔۔۔
وہ جو وقت تھا تیرا راج تھا۔۔۔
آئے گا وقت بدل کے جب۔۔۔
تجھے بھی فقیر بنا دے گا۔۔۔
ختم شد۔۔۔۔۔