شمعِ تنہا کی طرح، صبح کے تارے جیسے
شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے
نینا کا گڈ مارننگ کا میسج تھا
ساتھ میں پراٹھہ اور آملیٹ
یقیناً ناشتہ کرنے بیٹھی ہوگی
امن سوچ کر مسکرانے لگا پر
.. امن کی طبیعت مضمحل سی تھی ساری
رات متغیر سوچوں نے ذہن کا احاطہ کیے
رکھا تھا اب سر میں شدید درد تھا امن نے
میسج کا رپلائی نہیں دیا
بہت درد دیتا ہے اس کا آنلائن ہونا اور رپلائی نہ دینا
دوسرا میسج غصے بھرا تھا
امن کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ ابھر
آئی نینا کے میسج نے ساری تھکان دور کردی تھی
امن نے نینا کو کال ملا دی
اسلام علیکم
وعلیکم السلام
جی تو کیا حال ہے
امن نے نین سے پوچھا
میں بالکل ٹھیک ہوں نینا نے ترنت جواب دیا
آج کوئی شعر نہیں کہا آپ نے
امن کی بات پر نینا مسکرانے لگی اچھا سنیں
آج میرا رزلٹ آیا ہے
واہ تو کیا کررہی تھیں آپ
میں بی اے اونرز
ہممم بہت بہت مبارک ہو
آپ کی آواز ٹھیک نہیں لگ رہی صحت تو ٹھیک ہے
نینا نے امن سے پوچھا تو وہ ایک لمحے کے لیے حیران رہ گیا
جی کچھ طبیعت ٹھیک نہیں سر میں درد ہے
تو آپ آرام کریں پھر بات کریں گے
نینا نے امن کی صحت کے پیش نظر اسے آرام کی تاکید کرکے کال بند کرنا چاہی
نہیں آپ بات کریں میں سن رہا ہوں
نہیں آپ آرم کریں
بائے
نینا بائے مت کہا کریں میں آپ جیسی پیاری دوست کو کبھی کھونا نہیں چاہتا
تو پھر کیا کہاکروں
ہمممم امن نے پر سوچ انداز میں کہا
ہم ہیں راہی پیار کے
نینا نے ترنت جواب دیا:
پھر ملیں گے چلتے چلتے
اور کال ڈسکنٹ کرتے ہی امن کو میسج کیا
چاند ستاروں کو چاہنے والے
میری آنکھوں میں روشنی بھرنے والے
جلدی سے اچھے ہو جائو
نینا تیرا رستہ دیکھ رہی ہے
See u Soon
اور ایک ریکوسٹ ہے
Don't miss me
امن کے لبوں پر ایک مسرور سی مسکراہٹ
تھی وہ بہت خوش تھا نینا کے یہ چاہت بھرے
الفاظ امن شاہ کو سر شار کیے ہوئے تھے
توامن شاہ تم جس کے منتظر تھے جس کی
کھوج میں تھے کہیں وہ نینا کمال ہی تو نہیں
اگر ایسا تھا تو بہت تکلیف دے بات تھی وہ
نینا کے لیے گوہر کے جذبوں سے واقف تھا
جانتا تھا ایسا ممکن نہیں
نینا امن شاہ"
امن نے زیر لب دہرایا
اور سختی سے ہونٹ بھینج لیے
دوسرا پہلو تو وہ فراموش ہی کیے ہوئے تھے …
"زرنش امن شاہ
ایک کڑوا سچ تلخ حقیقت
حقیقت سے بہت دور تھیں خواہش میری۔
پھر بھی خواہش تھی کہ اک خواب حقیقت ہوتا
_________
تم بہت خود غرض ہو نینا
حیا باآواز بلند بولتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی
نینا بے خبر سوئی ہوئی تھی
سیاہ گھنگریالے بالوں نے چہرے کو ایسے اپنی اوڑھ میں لیا تھا جیسے چاند پر بدلی چھائی ہو گہری نیند میں سوئی معصوم پری پر بڑی بہن کو بے ساختہ پیار آیا اور وہ سارا غصہ بھول گئی حیا نے جھک کر بہن کے ماتھے پر بوسہ لیا
نینا نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں
حیا آپی
نینا خوشی سے تقریباً چلاتی ہوئی حیا کے گلے لگ گئی
آپ کب آئیں
نینا نے محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے حیا سے پوچھا
رہنے دو یہ دکھاوے کی محبت اتنے دن سے تو بہن یاد نہیں آئی
حیا نے مصنوعی خفگی سے دکھائی
بس آپی یہ سب آپ کی وجہ سے ہےخود تو شادی کرکے پیا دیس سدھار گئی ہیں اور سارے گھر کے کام مجھے کرنے پڑتے ہیں اور ستم یہ کہ امی بھی اچانک سوتیلی ماں بن گئی ہیں
نینا نے مظلوم بننے کی کوشش کی
ہاں ہاں وہ تو میں دیکھ رہی ہوں کتنے کام کر رہی ہو کب سے آئی بیٹھی ہوں اور تم سر شام سو رہی ہو
حیا نے اسے اچھی خاصی ڈانٹ پلا دی جبکہ وہ جانتی تھی نینا کے لیے یہ ذمہ داری نئی تھی پھر بھی وہ اچھے سے نبھارہی تھی
نینا منہ بسورتی اٹھ کر واش روم فریش ہونے چلی گئی
حیا بیڈ پر بیٹھی اس کی منتظر تھی کہ نینا کے موبائل پر میسج رنگ ہوئی حیا نے موبائل اٹھا لیا
حیا اور نینا بہنیں ہی نہیں دوست بھی تھیں اور دونوں میں بہت بے تکلفی تھی
مہ کدے سارے بند ہو جائیں
چائے کا ایک کپ غنیمت ہے
چائے پیتے ہُوئے مریں گے قیس
چائے سے اِس قَدَر عقیدت ہے !!
ساتھ ہی چائے کے کپ کے ساتھ سیلفی تھی
شام بخیر نینا جی
حیا کے لیے میسج بھیجنے والا شخص اجنبی تھا
اس نے جواب نہیں دیا
تو دوسرے میسج میں غصہ تھا
جواب کیوں نہیں دے رہیں کہاں غائب ہی نینا کب سے انتظار کر رہا ہوں
کسی نے کہا تھا کہ میں جلدی ٹھیک ہوجائوں کوئی منتظر ہے مگر یہاں تو لگتا ہے میری دوست مجھے بھول گئی
مجھے محسوس ہوتا ہے
کبھی یہ احساس بہت زیادہ ہوتا ہے
کوئی کتنا بھی اپنا ہو جائے
فقط ایک لمحہ بھی میسر نا ہو پائے
ہر کوئی یاد نہیں رکھ سکتا
ہر کوئی اپنا نہیں بن سکتا
لوگ بھول ہی جاتے ہیں
ہاں جو اپنے ہوتے ہیں
وہ یاد رکھتے ہیں
بہت احساس رکھتے ہیں
حیا سوچنے لگی کہ کیا کرے
"سوری "
حیا نے میسج ٹائپ کیا آگے وہ بتانا چاہتی تھی کہ وہ نینا نہیں ہے
پر وہ جو بھی تھا بہت بے صبرا تھا حیا الفاظ تلاش کررہی تھی کہ اگلا میسج موصول ہوا
کچھ خطائیں بخشی نہیں جاتیں
دل ذرا سوچ کے دکھایا کیجیئے
امن کے میسجز بتا رہے تھے کہ نینا اور امن میں خاصی بے تکلفی ہے
حیا کا چہرہ تن گیا اس نے نینا سے بات کرنے کا سوچتے ہوئے موبائل رکھ دیا اور خود امی کے پاس چلی گئی
______________
امن نینا کے رویے سے پریشان ہوگیا نینا نے اس سے بات کیوں نہیں کی وہ خود سے الجھتا ہوا کچن میں آگیا گھر سے دور رہنے والوں کو گھر کا سکھ کہاں نصیب ہوتا ہے جیسے سرائے میں رہتے ہوں چاہے جتنا بھی خوبصورت ہو پر گھر نہیں ہوتا
امن کو کمپنی کی طرف سے جو اپارٹمنٹ ملا تھا
وہاں دوست مل کر رہتے تھے اپارنمنٹ بہت خوبصورت تھا پر گھر نہیں تھا
اگر وہ اس وقت گھر ہوتا تو امی اور بہنیں اس کے بن مانگے ہی سب ضروریات پوری کردیتی تھیں پھر بھی وہ پریشے کو کتنا ستاتا تھا
بہن کا سوچتے ہی لب خود بہ خود مسکرانے لگے
اور اس نے گھر کال ملا دی پریشے رکنے کے لیے آئی تھی وہ جانتا تھا سوچا امی اور بہن سے بات کرلے ایک دم اپنوں کی یاد نے آن گھیرا تھا
اسلام وعلیکم امی جان
کیسی ہیں
اللہ کا کرم ہے بیٹا تم سنائو کیسے ہو،، ماں کی نگاہیں تو بیٹے کی منتظر ہیں
میں بالکل ٹھیک ہوں امی جان اور ابھی چھٹی نہیں ملے گی جلد ہی آؤنگا
ماموں سے بات ہوئی ہے وہ حج کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں میں چاہتا ہوں آپ کی خواہش بھی پوری کردوں آپ پریشے کی شادی کے بعد جانا چاہتی تھی ناں اب تیار رہیں
اللہ تمہیں خوشیاں دے بیٹا تم میرے بہت ہی سعادت مند بیٹے ہو
تم جیسی فرمانبردار اولاد خدا سب کو دے
ماں نے اپنے فرمانبردار بیٹے کو بہت سی دعائیں دینی شروع کردیں
پریشے بھی آئی ہے اس سے بھی بات کرلینا پہلے زرنش سے بات کرلو شادی کے بعد تم دوبارہ آئے ہی نہیں نئی دلہن ہے سارے گھر میں بولائی پھرتی ہے خود خیال رکھا کرو فون پر بات ہی کرلیا کرو
امی جو بیٹے کے صدقے جارہی تھیں زرنش کا خیال آتے ہی ڈانٹ پلا دی
امن جو زرنش کو فراموش کیے بیٹھا تھا اور خوابوں کے محل بنانے میں مصروف تھا امی نے اسے حقیقت کی دنیا میں لاکر پٹخ دیا تھا
زرنش اور پریشے سے انتہائی بے دلی سے سرسری سی بات کی اور مصروفیت کا بہانہ بنا کر فون بند کردیا وہ جو کچن میں کھانا بنانے آیا تھا ایک دم بھوک ختم ہوگئی تھی سب ویسا ہی چھوڑ کر کھڑکی میں آن کھڑا ہوا
مغرب کے بعد کا مخصوص اداس کردینے والا وقت تھا آج موسم بھی ابر آلود تھا بادل کسی وقت بھی برسنے کو تیار تھے اور امن کے من میں بھی برسات ہورہی تھی وہ کیوں اداس تھا وہ جان کر بھی انجان بنا تھا آج کی رات پھر آنکھوں میں کٹنے والی تھی
آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی!
آج کے بعد مگر رنگ وفا کیا ہوگا
عشق حیراں ہے سر شہر صبا کیا ہوگا
میرے قاتل ترا انداز جفا کیا ہوگا!
آج کی شب تو بہت کچھ ہے مگر کل کے لیے
ایک اندیشۂ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد
رنگ امید کھلے گا کہ بکھر جائے گا
وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا
جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا
خواب کا شہر رہے گا کہ اجڑ جائے گا