لالا
لالا کہاں گم ہو
پریشے گل کی پکار پر امن نے کتاب کو سائٹ ٹیبل پر رکھا اور منتظر نگاہوں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگا بہن کی پکار میں خوشی اور دلار کو وہ محسوس کرچکا تھا یقیناً کوئ خاص وجہ تھی جو اس کی خوشی دیدنی تھی
لالا آپ یہاں بیٹھیں ہیں میں پورے گھر میں ڈھونڈ رہی تھی
پریشے نے چہکتے ہوئے بھائ کو کہا
جبکہ تمھیں پورے گھر میں ڈھونڈے کے بجائے میرے کمرے میں آجانا چاہیے تھا
امن نے پیار سے بہن کے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا اب وہ خاص بات بتائو جس کے لیے بائولی ہوئ تھی
اف میں بھی کتنی بھلکڑ ہوں پہلے نیگ کاوعدہ کرو پھر بتائوں گی
امن اس کی شرارت کو بھانپ گیا تھا وہ جلدی نہیں بتائے گی اس لیے ستانے کے لیے دوبارہ کتاب اٹھالی
افوہ لالا اسے رکھیں نا میں بہت خوش ہوں کتنا مزہ آئے گا آپ بھابھی کے آنے سے کتنی رونق ہو جائے گی
امن نے ایک دم سے پریشے کو دیکھا
دیکھا حیران رہ گئے نا خبر سن کر اماں نے زرنش سے آپ کی شادی تہہ کردی ہے
پریشے جانے کون سے قصے لیے بیٹھی تھی پر امن کو عجیب احساس نے گھیرا تھا کچھ کھوجانے کے وہ کہا تھا جو مسنگ تھا وہ کیا کھونے والا تھا
حیا نے ڈائری اور قلم چھوڑ کر سر رائٹنگ ٹیبل پر رکھ لیا تھا اماں اور پریشے کے ارمان لکھنے کے لیے اسے امن کے دکھ سے خود کو نکالنا تھا
______________
امن شاہ کا تعلق پشاور کے قبائلی علاقے سے تھا 5 بہنوں کا بھائی تھا والد کی وفات کے بعد ساری ذمہ داری امن شاہ کے کاندھے پر تھی غم روزگار کے باعث گھر سے دور ضرور رہتا پر اپنی کسی ذمہ داری سے کبھی غافل نہیں رہا یہی وجہ تھی ماں کو جہاں اپنے لخت جگر پر فخر تھا وہی بہنوں کو بھی اپنے لالا پر بہت مان تھا
______________
آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو
اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
شرم ہے اپنی بار باری کی
بے سبب بار بار تھے ہم تو
کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو
تم نے کیسے بُلا دیا ہم کو
تم سے ہی مستعار تھے ہم تو
خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو
سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو
جانِ من جاں نثار تھے ہم تو
خود کو دورانِ حال میں اپنے
بے طرح ناگوار تھے ہم تو
تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد
نادرِ روزگار تھے ہم تو
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو
نینا پوری طرح جون کی شاعری میں ڈوبی ہوئ تھی جب آپی نے اس کے ہاتھ سے کتاب کھینچ لی
افففف آپی کیا ہے
کب سے آواز دے رہی ہوں تمھیں کہاں کھوئ ہوئ ہو غضب خدا کا کورس کی کتابوں کو بھی ہاتھ میں لے لیا کرو ہر وقت ان فضولیات میں لگی رہتی ہو سچ سچ بتائو نینا یہ شاعری کیوں کرتی ہو کون ہے جس کے لیے لکھتی ہو کوئی نہیں آپی اگر آپ کو اپنی بہن پر اعتبار نہیں ہے
اعتبار ہے میری جان پر فکر بھی تو ہے
آپی مجھے جون کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ میں فارحہ ہوں اور یہ سب جون نے میرے لیے لکھا
وہ آنکھیں بند کیے جون کا شعر پڑھنے لگی
دم بھر تیری ہوس سے نہیں ہے مجھے قرار
ہلکان ہو گیا ہوں تیری دلکشی سے میں
جون ایلیا
اب یہ فضولیات بند کرو اور نیچے آئو خالہ جان آئیں ہیں اور ان کے سپوت کئ بار تمھارا پوچھ چکے ہیں ویسے مجھے گوہر کے ارادے کچھ نیک نہیں لگتے
آپی اپنی کہہ کر جاچکی تھیں اور اسے سوچوں کے بھنور میں دھکیل گئیں تھیں نینا بہت ریزرو نیچر تھی بہت کم ہی کسی سے فری ہوتی خاص کر اس کے کزن اس سے بات کرتے گھبراتے تھے وہ احتیاط پسند تھی مگر گوہر اس کی زندگی کی پرسکون جھیل میں بھنور پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اسے ایسا کچھ نہیں کرنا تھا جس سے اس کے والدین کی عزت پر حرف آتا وہ اپنے بابا کا فخر ہے اور ان کے اعتماد کو وہ کبھی نہیں توڑے گی یہ سب سوچتے وہ کب خالہ جانی کے پاس پہنچ گئ اسے خود پتہ نہیں چلا
_________
آج امن کی شادی تھی اور اکلوتے بھائی کی خوشی پر بہنیں نہال ہورہی تھیں ماں کے چہرے پر اتنی رونق بابا کی وفات کے بعد پہلی بار دیکھی تھی بظاہر سب ٹھیک تھا دوست ڈھولک کی تھاپ پر مخصوص روایتی رقص کررہے تھے زنان خانے میں عورتیں دلہن کو گھیرے رسومات میں مصروف تھیں خوشی سب کے چہروں کو روشن کیے ہوئے تھی مگر امن شاہ کا دل خالی ہورہا تھا کل پریشے گل کی رخصتی تھی دونوں بہن بھائی کی شادی ایک ساتھ ہورہی تھی سب امن کی خاموشی کو عزیز از جان بہن کے رخصت ہونے سے معمور کررہے تھے
امن نے اپنے خوابوں میں ایک پری وش کو تراش رکھا تھا وہ جون ایلیا کا مرید تھا اور اس کی بھی ایک فارحہ تھی جسے دل میں بسایا تھا رشتوں کے ریشم میں الجھے امن کو بہنوں کی ذمہ داریاں پوری کرتے اپنی پری وش کو تلاشنے کا وقت ہی نہیں ملا اور اس سے مہلت چھین لی گئ فارحہ ایک سراب تھا جون نے اس سراب سے دل آباد کرکے خود کو برباد کیا تھا اور امن اب اس سراب کے پیچھے بھاگ رہا تھا
امن نے بہنوں کے چہروں پر نظر ڈالی خوشی سے چمکتے چہرے ماں کا مطمئن اور پرسکون انداز جیسے آج سب سہل ہوگیا ہو سب ذمہ داریاں پوری ہو چلی ہوں اور سب سے آخر میں امن نے اس کا سوچا جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اسے اپنا سب کچھ بنانے آئ ہے اور فیصلہ کیا کہ وہ پوری ایمان داری سے اس رشتے کو نبھائے گا وہ اب اس سراب کے پیچھے نہیں بھاگے گا وہ زرنش کے تمام حقوق پورے کرے گا اگر اللہ نے زرنش کو اس کے نصیب میں لکھا ہے تو محبت بھی وہی پیدا کرے گا اس پختہ ارادے کے بعد امن بہت مطمئن تھا اس نے سب اللہ پر چھوڑ دیا تھا اور جب اللہ کی رضا میں راضی ہوجائیں تو اللہ اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتے مگر یاد رکھیں نیتوں کے بھید صرف اللہ ہی جانتا ہے وہ آپ کے دل میں آنے والے ہر خیال سے واقف ہے
______________
وہ اتنے دنوں سے جس گھڑی کی منتظر تھی وہ آگئی اور پتہ بھی نہیں چلاتھا حیا دلہن بنی بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس کی معصوم موہنی صورت دل میں اتررہی تھی وہیں نینا کمال سفید گھیردار نیٹ کے فراک پہنے کھلے گھنگھریالے بال کمر کی پشت پر ڈالے آسمان سے اتری حور لگ رہی تھی سلور رنگ کی سادہ سی جیولری اور بالوں میں لگا پرنسس ساتاج اسے کسی شہزادی کا روپ سونپ رہے تھے گوہر کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا لیے دیے رہنے والی سادہ سی نینا کمال آج اس کے دل میں اتر گئ تھی آج اس کی چھب ہی نرالی تھی
دودھ پلائی کی رسم پر سب کزنز جمع تھے سلمان بھائ ماموں کے بیٹے تھے جن سے حیا کی شادی ہورہی تھی سب لڑکے سلمان کے ساتھ تھے لڑکیاں نینا اور سب کزن ایک طرف تھیں
دس ہزار سے ایک پیسہ کم نہیں جلدی نکالیں طلال نے جیب سے سکے جمع کرنے شروع کردیے
سلمان بھائ اپنے بھائ کو بتائیں ہم سالیاں ہیں مانگنے والیاں نہیں
سماویہ نے تنک کر کہا
پہلے رسم تو ہوجائے پیسے پھر ہی ملیں گے اور دودھ پہلے ہم چھکیں گے کیا پتہ ان سالیوں نے کچھ ملایا ہو
گوہر نے دودھ کا گلاس پکڑنے کی کوشش کی تو نینا نے ہاتھ پیچھے کرلیا سلمان کی طرف دودھ بڑھا دیا
رسم ہوتے ہی لڑکیوں نے دس ہزار کا شور مچادیا خوب بحث ہورہی تھی گوہر کی نظروں کی تپش نینا کو پریشان کر رہی تھی اور اس قدر کنفیوز تھی کہ کچھ بول نہیں پارہی تھی بظاہر سخت دکھنے والی نینا کمال تھی تو ایک لڑکی ہی جس کے احساسات موم جیسے تھے ذرا سی حرارت سے پگھلنے لگے تھے
ارے سلمان یہ نینا کمال کے صرف نینا ہی بولتے ہیں یا خود بھی بولتی ہیں
تیرے نینا کمال کرتے ہیں
میرا جینا محال کرتے ہیں
گوہر کی بات پر سب ہنسنے لگے تھے
______________
نینا !!
نینا بہن کی رخصتی پر اشکبار تھی جب بالکل قریب سے آنے والی گوہر کی سرگوشی اسے چونکنے پر مجبور کر گئی
جانتی ہو کچھ لوگ آپ کے لیے کب اہم ہوجاتے ہیں یہ آپ خود نہیں جان پاتے اور ایسے لوگوں کو دکھی ہونا بہت تکلیف دیتا ہے مجھے تمھارے آنسو دکھ دے رہے ہیں
آنکھوں میں دیکھ پاؤ تو شاید نظر آیئں
یہ شدّتیں لفظوں سے بیان ہم نہ کریں گے..
گوہر کے ایسے کھلے اظہار سےنینا گھبرا گئی وہ فوراّ اس منظر سے ہٹ جانا چاہتی تھی اس لیئے سامنے سے آتے باباجانی کی طرف قدم بڑھادیے نینا کے لیے اس سے محفوظ پناہ گاہ کوئ نہ تھی