اچھا جی بتاؤ کیسی شرط ہے شفا نے بے پرواہ انداز سے کہا
آپ کنوینس کرنا آتا ہے میرا ایک کام ہے جو لڑکیاں رشتے وغیرہ کرواتیں ہیں میرے کزن کا رشتہ کروانا ہے مجھے یہ سب نہیں آتا اس لیۓ اگر آپ ..... تفصیلات سے جواب دیتے ہوئے آخری جملا ادھورا چھوڑ دیا
ہممم اچھا یہ تو بہت آسان کام ہے بات کرتے ہوئے دونوں پھر سے چلنے لگے
چلو پھر اندھیرا ہوجاۓ گا میں آپ کو گھر چھوڑ دوں میراج نے آسمان کی طرف دکھتے ہوۓ کہا
اچھا تو پھر پیسے آج رات تک لے آنا پھر صبح میں تمہارا کام کر لوں گی اوکے میراج کی بات سن کر جلدی سے بولی کہیں بھاگ ہی نا جاۓ
اتنی جلدی کیوں جانا چاہتی ہو ویسے بھی ویزا بننے میں ٹائم لگے گا شفا کا یوں جلد بازی کرنا میراج کو پسند نا آیا
میرا ویزا بنا ہوا ہے مجھے ضرورت ہے وقت برباد کرنے کی شفا نے لاپرواہی سے کندھے اچکاۓ
چلو پھر جیسی آپ کی مرضی میراج نے بھی تنگ نا کرتے ہوئے جواب دیا
اوکے باۓ چلتے چلتے گھر آگیا تھا اس نے میراج کے کندھے کو ٹچ کر کے کہا اور چلی گئی اس کے جانے کے بعد میراج کو اپنا آپ تنہا ہوتا محسوس ہوا
.............
.............😍
کہاں تھی تو میرے بیٹے کو قبضے میں کرلیا آپ اور کتنوں کو کرے گی حرام ذادی خالدہ نے شفا کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر شدید غصے میں کہا
نکل ادھر سے اٹھا اپنا سامان صبح تک اس گاؤں میں نا دیکھوں تجھے گھر میں کوئ نہیں تھا جو خالدہ کو چپ کرواتا زارا بکریوں کو واپس بند کرنے گھر کی پچھلی طرف بنے کمرے میں تھی ناصر غصے میں گھر سے چلا گیا تھا جبکہ بچے میدان میں کھیلنے گئے تھے خالدہ اپنی جگہ سے اٹھ چکی تھی
نکل ایک ہی ہاتھ تھا وہ بھی خلدہ نے پکڑ لیا تھا مزاحمت کیسے کرتی خالدہ غصے سے اس کے نازک ہاتھ کو مروڑ رہی تھی
درد کی وجہ سے شفا کی آنکھیں دھندلا گئیں چھو...چھوڑو آنٹی مجھے مم.. میم واپس نہیں آؤں گی اللہ کا واسطہ میرا ہاتھ نا توڑیں شفا نے گڑگڑاتے ہوۓ کہا
چٹاخ.... خالدہ نے غصے سے شفا کے پھول سے گال پر انگلیاں چھاپ دیں
نکل اور آئندہ تجھے نا دیکھوں یہاں سمجھی تو گھر سے باہر دکھا دیتے ہوئے کھٹاک کی آواز سے دروازہ بند کر دیا
................😍
قاسم یار میں جا رہا ہوں صبح نماز کے بعد وڈے سائیں کی
کی مزاج پرسی کے لئے جائیں گے. علی نے جاتے ہوئے کہا
تو بھی جا گھر یوں اکیلا نا بیٹھا کر تیری جان کو کچھ نہ ہو جاۓ اسے ڈراتا ہوا چلا گیا
اندھیرا چھا چکا تھا قاسم خالی نظروں سے آسمان کو دیکھ رہا تھا جب دور سے کسی کے رونے کی آواز آئ قاسم کو آواز نے ڈسٹرب کردیا تو آواز کے تعقب میں چلنے لگا جتنا چل رہا آواز اتنی دور جا رہی قاسم نے واسکٹ کی جیب سے ریوالور نکالا اگر کوئ چال ہوئ اسے مارنے کی
آواز رک گئی مگر قاسم بدستور چلتا رہا قاسم کا پاؤں اچانک کسی چیز پر آیا قاسم منہ کے بل گرا
آہ میرا پاؤں شفا نے تکلیف سے بلبلا کر اپنا پاؤں پکڑتے ہوئے کہا
سوری قاسم اٹھتے ہوئے بولا اندھیرا ہے نظر نہیں آیا قاسم شرمندہ ہوا
شفا کا پاؤں بھاری مردانا چپل کے رگڑے جانے سے چھل گیا اب چلنے سے بھی قاصر ہو گئی
اندھے کہیں کے اللہ غرق کرے ہاۓ میرا پاؤں شفا پاؤں پکڑے زور زور سے رونے لگی قاسم نے موبائل کی لائیٹ آن کی اور شفا کا پاؤں دیکھا واقعی بہت دکھ گیا تھا چلنے والا نہیں تھا
بغیر سوچے سمجھے قاسم نے شفا کو اپنی مضبوط بانہوں میں اٹھا لیا ابھی شفا سنبھلی بھی نہیں قاسم لمبے لمبے ڈاگ بھرتا اپنے چوبارے کی طرف لے گیا
شفا تو بس حیرت سے انکھیں پھاڑے قاسم کے چہرے کو دیکھ رہی تھی
.........
...............😍
اماں شفا ابھی تک گھر نہیں آئ زارا کب سے پریشانی میں ٹھل رہی تھی مگر بول نہیں رہی تھی اب اس کی برداشت سے باہر ہوگیا تھا
ہاں نہیں آئ مل گیا ہوگا کوئ یار نکل گئی ہوگی وہ کون سی ہماری سگی ہے جو عزت کا خیال رکھے خالدہ کے چبتے ہوۓ جواب پھر زارا پہلو بدل کہ رہ گئی
میں اسے ڈھونڈنے جا رہی ہوں بہت اچھے سے جانتی ہوں وہ اس طرح کبھی نہیں جاۓ گی یقینن کسی مصیبت میں مبتلا ہوگی
زارا نے سر پر چادر لیتے ہوئے کہا وہ کون سی ہماری سگی ہے زارا تو اتنی رات کو جاۓ گی بھائ پریشان ہوجاۓ گا زارا کو سمجھاتےہوۓ کہا
اماں میں جب تک شفا کو نا ڈھونڈ لوں واپس نہیں آؤں گی
زارا غصے سے کہیتی نکل گئ
بڑی آئ شفا کی چمچی ابھی ناصر آۓ سیدھا نا کروایا تو دیکھ لینا پیچھے سے اونچی آواز میں کہتے ہوئے خالدہ گھر میں چلی گئ
.......................
.................😍
قاسم چوبارے پر لاتے ہی شفا کو نرمی سے چرپائ پر بیٹھایا ماسی او ماسی چوبارے کی صفائی کے لیئے رکھی ملازم کو آواز دیتے ہوئے خود بھی بیٹھ گیا شفا کا پاؤں پکڑ کر چوٹ کا جائزہ لینے لگا
جی مالک ہاتھ جوڑے ایک بوڑھی سی عورت آئی قاسم کو شفا کا پاؤں پکڑے دیکھ کر کچھ حیران ہوئ مگر ظاہر نا کیا
ڈاکٹر کو بلا جا کے رعب سے کہتا عورت کو ہدایت دینے لگا
عورت جلدی سے چلی گئی
آپ فکر نا کریں ٹھیک ہوجاۓ گا آپ کا زخم
قاسم کی بات سن کر شفا نے بھیگی آنکھیں اوپر اٹھائیں
........