میراج تو کب آیا سنا ہے ایک بندہ بھی ٹپکا دیا قاسم میراج کو جھیل پر دیکھ کر اس کے قریب آگیا
ہاں یار بس کل ہی آیا ہوں شام میں نصرت چاچا آۓ تھے گل سے زبردستی کی تھی بس پھر پتہ لگوا کر ٹپکا دیا سگریٹ سلگاتے ہوۓ اطمینان سے کہا
اچھا زارا بھی آگئ ہے تجھے فون پر بتایا تو تھا تجھے بھی دکھاؤ گا میری بات کر دادی کو منا قاسم نے بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے کہا
اچھا دیکھتے ہیں میراج نے سرسری سا جواب دیا
چل پھر میں چلتا ہوں قاسم اٹھتے ہوئے بولا اسے پتہ تھا میراج کے غصے بارے میں تبھی ذیادہ تنگ نہ کیا
..............😍
یار تجھے بکریاں چرانی بھی آتیں ہیں
شفا نے ستائشی نظروں سے زارا کو کام. میں مشغول دیکھا
ہاں یہ تو کچھ نہیں مجھے تو اس سے بھی ذیادہ کچھ آتا ہے زارا فخر سے چہک کر بولی
ہمشہ کی طرح سلیو لیس پہنے بالوں کو آذاد کرتی بڑی بڑی آنکھوں میں خوشی لیۓ بہت پیاری لگ رہی تھی
تم یہاں کیوں بیٹھی ہو گھر چلو ناصر کو شفا کا اس طرح بال کھولنا پسند نا آیا سو اسے گھر لے جانے لگا
کیوں ناصر بھائ شفا نے سوالیہ انداز میں پوچھا
بس ایسے ہی ناصر نے تیز لہجے میں کہا
سنو اوۓ
لڑکے ادھر شفا نے میراج کو بارودی اہل سمیت دیکھا تو اسے بلانے لگی ناصر نے غصے سے شفا کو دیکھا
میراج شفا کی آواز پہچان چکا تھا تبھی سرعت سے پیچھے مڑا
لمبے لمبے ڈاگ بھرتا شفا تک آیا
جی فرمائیں میراج نے ٹھنڈے لہجے میں کہا
زارا تو اسے یہاں دیکھ کر باغ باغ ہو گئی
ڈارک بلیو شلوار سوٹ کے اوپر گرے واسکٹ میں ریل والے میراج سے قدرے مختلف لگ رہا تھا
تم سے بات کرنی تھی اگر فری ہو شفا نے سوال کیا
چلیں پھر اس کی بات کا مفہوم سمجھتے ہوئے جواب دیا
اب دونوں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ساتھ چل رہے تھے
مجھے انگلینڈ جانا ہے میرے پاس پیسے کم ہیں مجھے لون چاہئے
شفا نے بغیر لگی لپٹی کے مدعا بیان کیا
اچھا ویسے حق تو نہیں مگر پوچھ سکتا ہوں کیوں میراج نے بھی دھیمے لہجے میں کہا
بس مجھے کورس کرنا تھا سرسری سا جواب دیا
اچھا تو آپ کے پیرنٹس کی پرمیشن ہے کیا میراج نے کہا تو شفا کے آنکھوں میں کرب سے نمی تیرنے لگی میراج نے سمجھتے ہوئے افسوس سے سوچا میراج نے بارودی اہلکاروں کو اشارے سے وہیں رکنے کا کہا
مجھے معلوم نہیں تھا آپ کا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا مگر آپ کا کوئ بڑا تو ہوگا میراج نے سمجھانے کے انداز سے کہا
خالدہ آنٹی ہیں مگر وہ میری شادی اپنے بیٹے سے کروانا چاہتی ہیں شفا نے دکھ سے کہا
اچھا تو آپ یہاں سے بھاگنا چاہتی ہیں میراج نے شفا کی باتوں کا مفہوم سمجھتے ہوئے جواب دیا
ہاں صحیح کہا شفا نے سر اثبات میں ہلایا
آسمان کی طرف دکھتے ہوۓ دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی
آہ سر پر ہاتھ رکھ کر شفا بیٹھتی گئی
میراج نے پریشانی سے نیچے بیٹھ کر جیب سے گن نکالی
وڈے سائیں مجھے معاف کر دو چھوٹا سا بچہ ہاتھ میں گلیل پکڑے معافی مانگ رہا تھا
نکل ورنہ جان سے ماردوں گا میراج نے شدید غصے کی کیفیت میں کہا
ہاتھ ہٹاؤ زرا میراج نے غصے پر قابو پاتے ہوئے نرمی سے کہا
ماتھے سے خون کی ننھیں بوندیں نکل رہیں تھیں
میراج نے اردگرد دیکھا خون صاف کرنے کے لیے کچھ نا دکھا تو ہاتھ سے ہی صاف کرنے لگا
اب شفا میڈم زارو زار رو رہی تھی اور اس بچے کو برا بھلا کہہ رہی تھی
میراج نے شفا کوروتا دیکھ کر شفا کا چہرہ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیا اس کی نمکین پانی سے بھری آنکھیں میراج کو دیوانہ بنا رہیں تھیں
بے اختیار میراج نے شفا کی خون لگی پیشانی پر چھوا شفا میراج کے قرب سے خائف کوئ زرا سی پیچھے کو کھسکی
میراج نے ہاتھ پکڑ کر واپس قریب کیا
ہاتھ چھوڑو میرا میراج کی ہلکی گرفت سے ہاتھ چھڑا کر غصے سے دیکھا
کیوں ایسا بھی کیا کردیا میں نے میراج بھی غصہ ہوگیا
مدد کرو گے یا نہیں شفا نے اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا
ہاں کرلوں گا مگر میری ایک شرط ہے
...............😍
شفا کے جانے کے بعد زارا گھر کی طرف چل دی دو خوبصورت آنکھوں نے اس کا دور تک پیچھا کیا
قاسم نے زارا کی سادگی کو دل میں اتارتے ہوئے واپسی کی راہ لی
................😍
اماں میں نے کہہ دیا کہ کل نکاح ہو گا تو کل ہی ہوگا ناصر نے شفا کو میراج کے ساتھ دیکھ کر جلدی کر کے گھر آگیا اب گھر میں ناصر کے لڑنے کی آوازیں باآسانی سنائ دے رہی ہیں
کہا ہے نا ایک ہفتہ انتظار کر لے تیرا بابا بھی آجاۓ گا تو دھوم دھام سے کروں کی خالدہ نے بیٹے کی ضد پر مصلحتی انداز اپنایا
کل نہیں ہوا میرا نکاح شفا سے تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا
..........