ارے اسے شام سے بخار ہے اور تم ابھی بتا رہی ہو آصف پریشان ہوگئے
میں آپ کا انتظار کر رہی تھی آپ آئیں تو ساتھ ڈاکٹر کی طرف لے جائیں گے راحیلا بھی پریشانی سے دوچار تھی
چلو پھر ڈاکٹر کو دکھا آئیں آصف جلدی سے کھڑا ہوگیا
ڈاکٹر کی طرف سے واپسی پر بخار کافی کم ہوگیا تھا مگر نقاہت اور کمزوری ہوگئ تھی
پاپا مجھے روم میں لے جائیں نیند آرہی ہے شفا نور نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا
اوکے بیٹا آپ کا کھانا روم میں ہی بھیج دیں گے آصف نے شفا نور کے سر پر چپت لگا کر کہا
روم میں جانے کے لئیے قدم بڑھائے ہی تھے کہ باہر سے ملازم آیا
صاحب جی ایک آدمی آیا ہے اور باہر بہت سا سامان بھی لا یا ہے کہتا ہے اپنے مالک کو بلاؤ
راحیلا تم نے کچھ منگوایا تھا کیا آصف سمجھے ڈلیوری سروس کی جانب سے کوئی ہوگا
نہیں تو میں نے کچھ نہیں منگوایا نور بیٹا تم نے منگوایا کیا اپنا بتانے کے بعد شفا سے پوچھا نو ماما جی
اس نے بھی حیرت سے جواب دیا
اوکے فائن میں دیکھتا ہوں آصف باہر کی جانب بڑھ گئے
واقعی باہر سامان کا ڈھیر تھا مختلف پیکٹس گفٹس اور کھانے کی اشیاء سے بھرے پڑے تھے
سامنے ہی ایک مغرور سا آدمی اپنی بیش قیمتی کار کے بونٹ کے ساتھ لگ کے کھڑا تھا
آصف نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑایا جسے شاہ نواز نے اگنور کردیا 43.تریالیس سالہ شاہنواز تین بیویاں ہوتے ہوئے بھی کسی بھی خوبصورت لڑکی سے خفیہ شادی کرنے کے بعد اسے استعمال کر کے چھوڑ دیا کرتا
مدعے کی بات پر آتے ہیں مغرور انداز سے کہتا موٹاپے کی جانب مبذول جسم پر کارٹن کا سوٹ پہنے برینڈڈ پرفیوم کی خوشبو سے ہی آصف کو اس کی شخصیت کے بارے میں پتہ چل گیا
جی آصف نے بھی مختصر سا جواب دیا
میں تمہاری بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں لاپرواہی سے کہتا ہنوز سنجیدگی کے ساتھ
میری بیٹی تو بہت چھوٹی ہے اور تم نکلو یہاں سے ورنہ گارڈز کو بلوا کر باہر پھنکواؤں آصف کی آواز غصے کی حالت میں اونچی ہوگئ
اور یہ اپنا کباڑ بھی لے جاؤ آصف نے اوقات یاد دلائ
اے بڈھے آواز نیچے کر کے بات کر اور تو جانتا نہیں ہے مجھے شادی تو کروں گا تیری بیٹی سے وہ بھی اس کی مرضی کے مطابق تیرا حشر بہت برا ہوگا تیری بیٹی سے میں نا شادی کر پایا تو کوئ اور بھی نہیں کرےگا شاہنواز کو بھی حد سے زیادہ غصہ آگیا
...........................
شفا یار بیٹھ جا اب کافی دیر سے کھڑی دنیا جہان سے بے خبر وہ اپنے ہی خیالوں میں تھی
ہاں کیا......... زارا کے آواز دینے پر چونک کے دیکھا
ہمارا اسٹیشن آنے والا ہے زارا نے پھر مخاطب کیا
ہاں میں سامان اٹھاتی ہوں.... وہ سامان کی طرف ہاتھ بڑھانے لگی
نہیں شفا میں اٹھا لوں گی تو رہنے دے بیٹھ جا کب سے کھڑی ہے زارا نے فکرمند انداز سے کہا
میراج بھی اپنی جگہ بیٹھ گیا
یار عاقب یہ لڑکیاں جب اترنے لگیں تو ان کی مدد کرنا مجھ سے نہیں ہوپاۓ گی اب....... شفا کو ایسے دیکھ کر بہت تکلیف ہو رہی تھی اور اب اس کا سامنا کرکے لوگوں کی طرح ہمدردی کا اظہار نہیں کرنا چاہتا تھا
اچھا ٹھیک ہے بیچاری اتنی خوبصورت لڑکی ہے مگر کیا کیا جائے میں تو شادی کے بارے میں سوچ رہا تھا عاقب نے مصنوعی دکھ سے کہا
پلیز میں نے تمہیں تبصرے کرنے کا نہیں کہا .....دبے دبے غصے سے کہا
اچھا شاہ غصے نہیں کرنا.... وہ مسکرایا
یار میرا دل نہیں کررہا فشنگ کا من نہیں ہے ..... دل ہر چیز اچاٹ ہوگیا تھا
ارے تین دن کی بات ہے دیکھنا بہت مزہ آۓ گا... عاقب نے دھیان بدلنا چاہا
ہمم ...... وہ چاہ کر بھی کسی اور طرف سوچ نہ پایا
وہ لڑکیوں سے دور ہی رہتا مگر آج پہلی بار وہ کسی کو اتنا سوچ رہا تھا
زارا کی نظریں گاہے بگاہے میراج کے خوبرو چہرے کا طواف کررہیں تھیں
میراج نے نظروں کا ارتکاز محسوس کر کے اٹھ کر دوسری طرف چل دیا
جاتے وقت پیچھے مڑ کر شفا کے حسین چہرے کو اپنی نظروں میں محفوظ کر لیا شفا نے بھی کسی خیال کے تحت اوپر دیکھا اور دونوں کی نگاہیں ٹکرائیں
پھر محبت کا آغاز ہوا
میراج کا ہاتھ خود با خود دل پر گیا شفا نے جلدی سے سر کو جھکا دیا
............................