حویلی پہنچ کر قاسم نے موبائل کھولا
آگے میراج کی مسڈ کالز اور ایک میسج تھا
تو شفا کو نہیں سنبھال سکتا اس لئے میں شفا سے نکاح کر راہوں اور زارا میرے گودام پر ہے اسے نکالتے آنا.. میسج پڑھ کر قاسم کو حیرت کے جھٹکے لگے
او میرے خدایا میں کیسے بھول گیا آج تو میرا شفا سے نکاح تھا.. خود کو ملامت کرتا قاسم اس وقت چلنے سے قاصر تھا
وہ کیا سوچ رہی ہوگی. اس کے سامنے شفا کا نازک سا عیبی سراپا آکھڑا ہوا
تم مجھ سے نکاح کرنے والے تھے نا. خیالوں میں شفا کی درد بھری آواز گونجی
مجھے معاف کردو شفا.. کرب سے آنکھوں میں نمی آگئ جلدی سے حویلی میں داخل ہوا
کہیں رکے بغیر احساس ندامت کے ساتھ کمرے میں چلا گیا
................😍😍
میراج کی تو نیند کوسوں دور چلی گئی
سر کے نیچے ایک ہاتھ رکھ کر سر کو اوپر کیا ہوا یک ٹھک شفا کے کروٹ بدلے وجود کو دیکھ رہا تھا
صوفے کی دوسری طرف منہ کیۓ شفا محوخواب تھی
نائیٹ بلب کی روشنی ماحول کو فسوں خیز بنا رہی تھی
ابھی میراج اس ماحول کے سحر میں جکڑا ہی تھا کہ دور کہیں سے ازانوں کی آواز آئ
میراج نے بستر چھوڑا اور وضو کر کے مسجد کی راہ لی
نماز پڑھنے کے بعد جب واپس آیا تو شفا ہنوز نیند میں تھی
شفا کا سویا ہوا رخ میراج کی جانب تھا
میراج نے دلچسپی سے شفا کے معصوم سے چہرے کو دیکھا
ہمت کر کے قدم قدم چلتا شفا کے پاس آیا گھٹنوں کے بل بیٹھ کر شفا کے بالوں کو چہرے سے پیچھے کیا
سینے میں آگ سی لگ گئی دھیرے سے مہکتے لبوں سے شفا کی پیشانی چوم لی
انہونی کے احساس سے شفا کی آنکھ کھل گئی میراج بدستور ماتھے پر جھکا ہوا تھا
جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی میراج کی قربت نے شفا کی ریڑ کی ہڈی میں سنسناہٹ کی
میراج بے خودی کی کیفیت میں شفا کی گرن پر ہونٹ رکھ دیئے
شفا کہاں تیار تھی اس سب کے لئے پہلی بار کوئ مرد شفا کے اتنے پاس آیا تھا
شفا تھر تھر کانپنے لگی
چھو.. چھوڑیں.. ی.. یہ ..کک.. کیا کر رہیں ہیں کانپتے ہونٹوں سے کہا
میراج تو شفا کی کانپتی آواز پر اور شیر ہو گیا
جھٹکے سے بازؤں میں اٹھا کر بیٹ پہ لے آیا
آپ کیا کر رہے ہیں شفا میراج کو اپنے پاس بیٹھتے دیکھ کر روہانسی ہو گئ
میراج نے شفا کا ہاتھ پکڑ کر کھنچ کر پاس کیا
شفا سیدھا میراج کے سینےسے لگ گئی ہونٹوں کو شفا کے کان کے قریب لے جا کر دھیرے سے دانتوں سے کاٹا
شفا کے تو مانو سر پر لگی
میں معذور ہوں اور آپ مکمل آپ اسے مجھ سے زبر دستی نہیں کر سکتے
میراج نے شفا کی بات پر عجیب نظروں سے دیکھا اور اگنور کر کے شفا کے گالوں سے گال مس کرنے لگا
سائیں اماں ناشتے پر انتظار کر رہی ہیں ملازم نے آکر سارے سحر کو توڑ دیا
...................😍😍
قاسم پوری رات سو نا سکا
سائیں ناشتہ تیار ہے قاسم کے لازم نے آکر کہا
جلدی سے فرش ہو کر باہر آیا آج میراج سے شفا کے بارے میں بات کرنی تھی
کیسے ہو تم اور دیکھتے بھی نہیں ہماری طرف بھی چکر لگا لیا کرو نیلم جوکہ قاسم اور میراج کی چاچاذات تھی
تمھیں کتنی بار بولا ہے دروازہ کھٹکھٹاکر آیا کرو قاسم نے ناگواری سے جھڑک کر کہا
تو کیا ہوا ویسے بھی ہمارے کمرے ایک ہونے والے ہیں نیلم نے شریر لہجے میں کہا
نیلم تم خاموشی سے دفع ہو گی یا چلا کر باہر پھنکوں قاسم نے دانت پیس کر کہا
یااللہ اس حویلی کے لڑکے بھی نا نیلم نے دکھ سے قاسم کو دیکھ کر باہر کی جانب قدم بڑھا دیۓ
................😍😍
میراج تو ناشتہ کے لئے نکل گیا پیچھے شفا پر ابھی بھی ویسی ہی خماری چھائ ہوئ تھی
اف اللہ واقعی لڑکی معذور ہو کالی ہو جیسی بھی ہو بس لڑکی ہو شفا نے میراج کے بارے میں سوچا
کتنا گھنا ہے شکل سے اتنا شریف دکھتا ہے
بی بی ناشتہ جانے کب ملازمہ آئی شفا چونک گئ
رکھ دو یہیں رخسار پر ہاتھ پھرتی اٹھی
ابھی بھی میراج کی جسم کی خوشبو شفا کے بدن سے آرہی تھی
بی بی آپ نے یہ کیا پہنا ہے ملازمہ نے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
کیا پہنا ہے کپڑے ہیں شفا نے تنک کر جواب دیا
بی بی آپ کا ہاتھ ؟؟ ملازمہ ڈرتے ڈرتے بولی
میرا ہاتھ کیا 😡 شفا کو غصہ آگیا آواز خود باخود اونچی ہوگئ دروازہ کھلا تھا آواز سیدھی نچے جانے لگی
نکل یہاں سے نکل جان لے لوں گی چیختے ہوئے چیزیں اٹھا کر پھنکنے لگی
میراج شفا کی آواز سن کر پریشان ہوگیا
...............😍😍