شفا جیسے ہی ڈریسنگ میں آئی ڈوپٹے سے جان چھڑانے کی کوشش کرنے لگی
ڈوپٹہ اتار کر پھینکنے کے انداز میں رکھا ابھی وہ شرٹ ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ باہر سے میراج سیدھا اندر آگیا
مسکراتے ہوۓ اندر آیا تھا اور شفا کو دیکھتے ہی ساری مسکراہٹ اڑ گئی
گلا کافی گہرا ہونے کی وجہ سے کندھوں سے نیچے گر رہا تھا جس سے شفا کے حسن کی رعنائیاں بکھر رہیں تھیں
میراج یک ٹھک دیکھے گیا ہاتھ سے شرٹ پھسل کے نیچے گر گئی
یہ سب ایک لمحے میں ہوا شفا کو سنبھلنے کا موقع بھی نا ملا میراج نے بہت مشکل سے نظریں چرائیں
جلدی سے باہر بھاگا شفا میراج کے خفت ذدہ چہرے کو دیکھ کر سرخ پڑگئ
باہر آکے میراج نے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا تو ڈائجسٹ کی ہیروئنز کی طرح کان کی لوئیں سرخ ہو رہیں تھیں
شفا نے خود کو سنبھالتے ہوئے جلدی سے اس کھلے سے عذاب سے جان چھڑائ
کافی دیر تک جب شفا باہر نہیں آئ تو میراج کو پریشانی ہوئی
آپ نے چینج کر لیا تو باہر آجائیں میں سو گیا ہو. میراج سمجھا شاید میری وجہ سے نہیں آرہی
ایک ہاتھ سے شرٹ پہنتے ہوۓ شفا چونک گئ
جی آپ سو جاؤ مجھے ایک ہاتھ کی وجہ سے ذیادہ ٹائم لگتا ہے. شفا کو میراج کی بات سمجھ آگئی تھی سو جلدی سے وجہ بتائ
اچھا آپ کا بلینکٹ صوفے پر رکھ دیا ہے, شفا کے لیۓ تکیہ اور بلینکٹ رکھتے ہوئے میراج نے نرمی سے کہا
....................😍😍
قاسم نے زارا کو گاڑی میں بیٹھایا اور گھر تک ساتھ گیا
زارا آپ جاؤ میں یہی ہوں اگر گھر میں کوئ مسئلا ہوا تو میں آپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا قاسم نے زارا کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
قاسم کی آنکھوں میں جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کر زارا نے جلدی سے نظریں جھکا لیں
زارا کی اس حرکت پر قاسم دل سے نہال ہوا
مطلب زارا اس کی آنکھوں کی زبان پڑھ سکتی تھی دل میں سوچ کر بے پناہ خوش ہوا
جی ٹھیک ہے زارا نے گاڑی سے نکلتے ہوئے کہا
زارا لمبے لمبے قدم اٹھاتی گھر تک پہنچی دل زور زور سے دھڑکنے لگا
اگر گھر سے نکال دیا تو کیا عزت رہے گی قاسم سائیں کی آنکھوں میں میری زارا نے ڈرکتے دل سے سوچا
.................
شفا کے آنے سے پہلے ہی میراج سونے کے لئیے لیٹ چکا تھا
شفا آہستہ سے صوفے پر بیٹھ گئی ڈوپٹہ پہنے کی جگہ گلے میں ڈال دیا تھا
آرام سے صوفے کے ایک کونے میں بیٹھ گئی تھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی
والدین کے انتقال کے بعد اسے نیند کا کافی مسئلہ ہوگیا تھا
شفا کسی خیال میں گم تھی جب سوۓ ہوۓ میراج نے کروٹ بدلی
انجانے میں شفا نے میراج کو دیکھا ماتھے پر بکھرے بال مغرور ناک اور بند آنکھیں معصوم سے چہرے پر میٹھی سے سنجیدگی کسی کا بھی ایمان ڈگمگانے کے لئے کافی تھی
شفا کا دل چاہا میراج کی نرم سے سنجیدگی کو اس کے چہرے سے لے کر اپنے دل میں چھپا لے
شفا بے اختیار اپنے جگہ سے اٹھی مگر پھر واپس بیٹھ گئ
کاش میں مکمل ہوتی آج میں پورے استحقاق سے میراج کی آنکھیں چوم لیتی دل میں ایک ہوک سی اٹھی
😍😍..............
دروازہ کھٹکھٹایا تو کسی نے بھی کھولنے کی ضرورت محسوس نا کی
زارا بہت پریشانی سے زور سے کھٹکھٹانے لگی مگر جواب ندارد
یااللہ عزت رکھنا ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلا
کون ہے رات کو بھی لوگ دروازے کی جان نہیں چھوڑتے دروازے پر زارا کا چھوٹا بھائی تھا
آپی آپ چھوٹے نے زارا کو دیکھ کر خوشی سے چیخ کر کہا اور جھٹکے سے گلے لگا لیا
آپی آپ کہاں تھیں ہم نے آپ کو بہت ڈھونڈا روتے ہوئے کہا چھوٹا بھائ آج دل کے بہت قریب لگ رہا تھا
زارا کی آنکھیں بھی بھرنے لگیں
مجھے اندر تو آنے دو بھیگے لہجے میں کہتی اندر بھڑ گئی
شکر ہے اللہ میری عزت رکھ لی اندر آکر زار نے شکر کا سانس لیا
آپی بھائ گھر چھوڑ کے چلے گئے
چھوٹے نے ایک زور دار بم زارا کے سر پر پھوڑا
............😍😍
رات کے پچھلے پہر میراج کو پیاس محسوس ہوئ تو پانی پینے کی غرض سے اٹھ بیٹھا
آپ ابھی تک جاگ رہی ہو شفا کو صوفے پر چوکڑی مارے دیکھ کر کہا
کیا آپ یہاں تنگ ہورہیں ہیں شفا نے جواب نا دیا تو دوسرا سوال کردیا
میراج اپنی جگہ سے اٹھا اور لائیٹ آن کی کمرہ روشنی میں نہا گیا
میراج اٹھ کر شفا تک آیا
کیا میں آپ کی کوئ مدد کرسکتا ہوں میراج شفا کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا
میں سمجھ رہا تھا یہ مجھے دیکھ رہی ہے شفا کو بیڈ کی طرف دیکھتا پاکر میراج کو خوشفہمی ہوئ تھی
اوۓ یہ تو سو رہی ہے شفا کا ہاتھ پکڑ کر دیکھا تو کوئ ردعمل نہیں ہوا
کھلی آنکھوں سے سوئ شفا اس وقت خوبصورت مورت لگ رہی تھی
میراج کا دل بے قرار ہوا دھیرے سے شفا کی ناک انگلیوں کی پوروں سے چھوئ شفا ہلکا سا کسمکائ
میراج نے شفا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر آنکھوں کو نرمی سے بند کیا
آرام سے بنا آواز کے شفا کے نہنے وجود کو صوفے پر لیٹانے لگا
اوپر بلینکٹ ٹھیک کرکے نرمی سے شفا کے کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوا
شفا نے بے اختیار کروٹ بدلی
میراج نے جلدی سے لائٹ آف کی اس کی پیاس تو بنا پانی کے بجھ گئی تھی
.😍😍.................
زارا کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر قاسم نے شکر کا سانس لیا
آہستہ سے گاڑی اسارٹ کی اور چل پڑا
زارا کا شرم سے لال چہرہ قاسم کی آنکھوں کے آگے گھوم رہا تھا
ڈش بورڈ پر پڑے فون پر نظر گئی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا
گھر جا کر دیکھ لوں گا موبائل کو نظر انداز کر کے واپس ڈرائیورنگ کرنے لگا
.................😍😍