میراج نے حویلی کے اندر بنے گیراج میں گاڑی روکی
شفا نےگیراج دیکھا گاڑیوں کے نت نئے ماڈلز کی کارز اور بائیکس کھڑیں ہوئیں تھیں شفا تو بہت حیران ہوئ
جس گاڑی میں اس وقت شفا بیٹھی تھی وہ بھی کروڑوں میں تھی
شفا کے کپڑے جو یہ سوٹ پہننے سے پہلے پہنے ہوئے وہ قاسم کے چوبارے پر ہی رہ گئے تھے یہ کھلے اور بڑے کپڑے پہنے ہوئے تھے
شفا ہنوز گھونگٹ میں بیٹھی تھی میراج اپنی طرف سے دروزہ کھول کر گاڑی سے باہر نکلا
اتنے میں میراج کا خاص ملازم بھاگتا ہوا آیا
سائیں مجھے بتا دیا ہوتا بڑی اماں آپ کا پوچھ رہیں تھیں. اللہ رکھا نے میراج سے معتبر انداز میں کہا
جب ہی ملازم کی نظر گاڑی میں بیٹھی لڑکی پر گئ گھونگٹ سے اس کے رشتے کے بارے میں پتہ چل گیا تھا
چھوٹی مالکن کو میرے کمرے میں لے جاؤ اور ہاں سیدھا لے کر جانا راستے میں رکنا نہیں میں زرا دادی کو دیکھ کر آتا ہوں آخری بات زرا زور سے کہی تھی تاکہ شفا بھی سن لے
میراج نے شفا کی طرف کا دروازہ کھولا اور ہاتھ آگے بڑھایا
جو شفا نے اگنور کیا اور باہر آگئی
ملازم شفا کو لے کر حویلی کے اندر داخل ہوا
یہ حویلی کا کھلا حصہ تھا سفید ٹائلز سے بنا فرش جہازی سائز صوفہ سیٹ بیچ میں کانچ کا خوبصورت سا میز روشنیوں سے نہایا حال شفا نے اوپر دیکھا تو ایک وسیع جھومر جو دیکھنے پر ہیروں سے جڑا معلوم ہو رہا تھا
دائیں طرف کمرے بنے تھے پانچ فل سائز کمرے اور بائیں طرف کچن تھا ساتھ پیچھے کی طرف ٹیلیویژن روم تھا اور اس کے آگے مہمان خانہ (گیسٹ روم) تھا
دو طرفہ اوپرجاتی سیڑھیاں اوپر سب کمروں کے سائیز بھی بہت بڑھے تھے
ملازم سیڑھیاں چڑھنے لگا شفا بھی پیچھے ہی تھی گھر میں بہت لوگ تھے جن کو شفا نہیں جانتی تھی
شفا نے خود کو مکمل ڈھانپ دیا تھا کسی کو معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ اس کا ایک ہاتھ نہیں
گھر کے افراد مڑ مڑ کر شفا کو دیکھ رہے تھے چونکہ ملازم میراج کا تھا سو کسی کی ہمت نہ ہوئی روک کر پوچھنےکی
شفا کو روم میں پہنچا کر اللہ رکھا واپس چلا گیا
میراج کے روم میں تمام سہولیات میسر تھیں ایسا لگتا تھا جیسے شہر کا کوئ گھر ہو روم اتنا بڑا تھا شفا حیران رہ گئی اتنا تو شفا کے گھر کے تین روم بھی ملا کر نا بنیں
.......................😍😍
زارا کو جب سمجھ آئ تو نامحسوس انداز میں قاسم کے حصار سے باہر نکلی
ہاتھ ابھی بھی قاسم کے ہاتھوں میں تھے
تو پھر میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں کیونکہ شفا بلکل صحیح سلامت ہے میرے چوبارے پر ہے آپ کا ذیادہ دیر تک باہر نہیں ہونا چاہیۓ قاسم نے گہری آنکھوں سے زارا کو دیکھا
سچ میں او شکر ہے اللہ ہے زارا نے خوش ہوکر قاسم کے ہاتھوں میں دبے اپنے ہاتھوں کو نکال کر قاسم کے ہاتھوں پر ڈباؤ ڈالا
قاسم نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کر لیۓ زارا نے محسوس نا کیا
چلو پھر ....قاسم نے جلدی سے باہر کی جانب بڑھا
....................😍😍
کمرے کا جائزہ لینے کے بعد گھونگٹ اوپر کر کے صوفے پر بیٹھ گئی
ایک گھنٹہ انتظار کروں گی اگر نا آیا تو سو جاؤں گی ورنہ اس نے اگر کوئی بات کرنی ہوئ تو
شفا نے سوچتے ہوئے اندازہ لگایا
میراج چونکہ بہت عرصہ مغربی ملک میں رہ کر آیا تھا تو ڈبل اسٹائل ڈریسنگ کرتا تھا پینٹس شرٹس بھی اور شلوار سوٹ بھی
کمرہ بھی مغربی اسٹائل کا سیٹ کیا گیا تھا
........................😍🙈😍
دادی کی گود میں سر رکھے میراج لیٹا ہوا تھا
میرا بچہ آج کیسے اماں کی یاد آگئی دادی نے لاڈ سے کہا
دادی آپ سے بات کرنی تھی مگر سمجھ نہیں آرہی کیسے کروں شرمندہ سے لہجے میں کہا
میرا بچا مجھ سے بھی شرمانے لگا بتاؤ تمہارے لئے تو دادی نے سب کچھ تبدیل کر دیا
گاؤں کا اصول تھا کہ بالغ ہوتے ہی شادی کرلیتے تھے مگر میراج نے شادی کرنے سے صاف منع کر دیا سو اس کی وجہ سے قاسم نے بھی نہیں کی تو دادی نے یہ اصول ہی ختم کردیا
دادی میں نے نا...........میراج نے شفا کے بارے میں بتایا مگر اس کی معذوری کا نہیں بتایا اور نکاح کے بعد میں بھی بتا دیا
میرا بچہ ,دادی نے میراج کے افسردہ چہرے کو اٹھا یا اور پیشانی پر پیار کیا
میں یہ اصول نہیں بدل سکتی کہ برادری سے باہر شادی کی جاۓ اس طرح گاؤں کی لڑکیوں کو چھوڑ کر باہر سے شادی کریں گے دادی نے نرم لہجے میں کہا
اب میں کیا کروں اماں میں کسی کو نہیں بتاؤں گا کہ وہ برادری سے باہر کی ہے میراج نے آئیڈیا دیا
مگر دادی کے چہرے پر پیشانی صاف دیکھ رہی تھی
اچھا تو کمرے میں جا میں کچھ کرتیں ہوں اپنے بچے کے لئے
میراج دادی کی پیشانی چوم کر باہر آگیا
......................😍😍
شفا ہنوز صوفے پر دبکی بیٹھی تھی جب اسے قدموں کی آواز آئ شفا نے دروازے کو نا دیکھا بس سامنے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھی
دروازہ کھلا اور میراج اندر آیا میراج نے شفا کو دیکھا تو سیدھا شفا کی جانب بڑھا
آپ چینج کرلو میں کھانا منگوتا ہوں میراج نے دھیمے سے کہا شفا نے نگاہیں موڑ کر میراج کو دیکھا
میرے کپڑے آپ کے کمرے میں ہیں کیا طنزیہ انداز میں کہا
میراج کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کرے
آپ فریش ہوجاؤ پھر بات کرتے ہیں میراج نے باتھ روم کی طرف اشارہ کیا
شفا اٹھنے لگی تو ڈوپٹہ ریشمی ہونے کی وجہ سے پھسل گیا قمیص کا گلا کافی گہرا تھا غیر ارادی طور پر میراج کی نظریں اٹھیں شفا نے جلدی سے گلا پکڑ لیا
میراج نے نچے سے ڈوپٹہ اٹھا کر واپس اوڑھایا
شفا جلدی سے باتھ روم میں گھس گئی باتھ روم بھی شفا کے پورے کمرے جتنا بڑا تھا جب تک شفا فریش ہورہی تھی میراج نے کھانا منگوایا
چنجنگ روم میں کپڑے تبدیل کیۓ ڈھیلی سی ٹی شرٹ اور بلیک کلر کا ٹراؤزر پہن کر باہر آیا تو شفا پہلے سے بیٹھی کھانا کھا رہی تھی
کیسی لڑکی ہے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا
میراج بھی شفا کے پاس بیٹھ گیا
میراج کو اپنے اتنے پاس دیکھ کر شفا کو اچھو لگ گیا
میراج نے جلدی سے پانی کا گلاس اٹھایا اور شفا کے لبوں سے لگادیا جسے شفا نے اچھے بچوں کی طرح پی لیا
کھانے کے برتن بجھوا کر میراج جہازی سائز بیڈ پر شفا کے پاس ہوکر بیٹھ گیا آپ بیڈ پر سوئیں گی ؟؟سوالیہ انداز میں پوچھا
نہیں میں صوفہ پر سو جاؤں گی شفا کو سوال عجیب لگا جلدی سے اٹھ کر صوفے پربیٹھ گئی
آپ ان کپڑوں میں تنگ ہوںگی آپ میری کوئ شرٹ پہن لیں میں صبح آپ کی ضرورت کی ہر چیز منگوالوں گا میراج نے شفا کے معصوم سے چہرے کو نظروں کی گرفت میں لیتے ہوئے کہا
میراج کی نظریں شفا کو الجھا رہیں تھیں سو جلدی سے بھاگ کر ڈریسنگ میں گئ
ارے الماری میں سے شرٹ تو لے جاؤ میراج نے کہا اور مسکرا کر الماری سے شرٹ نکالی اور ڈریسنگ روم کی جانب بڑھا
....................😍😍😍