میراج نماز پڑھنے کے بعد سیدھا گودام پر آگیا
جی تو آپ وہاں اتنی صبح کیا کر رہی تھی میراج نے آتے ہی سوال کیا
جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا آمنے سامنے دو چارپائیاں تھیں ایک پر زارا تھی دوسری پر میراج بیٹھ گیا
زارا نے تذبذب سے اردگرد دیکھا میراج کے ہمہ وقت دو اہلکار ضرور ہوتے تھے جن کی موجودگی میں زارا شفا کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتی تھی
تم دونوں جاؤ باہر.. زارا کا حرج دیکھ کر میراج نے دونوں کو باہر بھیج دیا
ملگجے حلیے میں سر پر بڑی کالی چادر چہرہ تھکن سے نڈھال اگر کوئی اور وقت ہوتا تو زارا کو خود کو اس حلیے میں میراج کے سامنے بہت سبکی ہوتی مگر اس وقت اسے شفا کا خیال تھا اور کچھ نہیں
وہ میری کزن گم ہو گئی ہے میں کل رات سے اسے ڈھونڈرہی ہوں مجھے لگتا ہے وہ کسی مصیبت میں ہے.. اہلکاروں کے جاتے ہی شفا پھٹ پڑی اب زور وشور سے رو رہی تھی
وہ جن کا ایک بازوں نہیں ہے.. میراج کو بہت شاک لگا مگر پھر بھی دل کو دلاسہ دے کر پوچھ لیا
جی وہی ہے وہ تو خود کچھ نہیں کر سکتی مدد کریں ہماری
پھر سے رونا شروع کر دیا
.....................😍
ناشتے میں بڑا سارا دسترخوان انواقسام کے کھانوں سے بھرا پڑا تھا پیٹ بھر کر کھا کر واپس آگئی چارپائی پر لیٹ کر مسکرا کر آسمان کو دیکھا زیرلب اللہ کا شکر ادا کیا اور آنکھیں موند لیں پیٹ بھرا تھا سو پھر نیند آگئی
دوپہر کے کھانے کے وقت قاسم بھی آگیا اسے اسہی طرح دیکھ کر جلدی سے پاس آیا دل میں ایک خدشہ سا ابھرا
نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا خود کلامی کرتے ہوئے شفا کے ہاتھ کو پکڑ کر نبض چیک کی
شکر اللہ اسے ذندہ دیکھ کر خوشی سے سوچا
کسی کا لمس محسوس کرکے شفا کی آنکھ بھی کھل گئی قاسم کو اتنا پاس دیکھ کر جلدی سے اٹھ بیٹھی
آپ یہاں میں جاہی رہی تھی سوچا زرا آرام سے چلی جاؤں شفا سمجھی وہ اسے نکالنے آیا ہے
نہیں میں یہ کہنے نہیں آیا مجھے آپ کے بارے میں سب پتہ لگ گیا ہے آپ کو گھر سے نکال دیا گیا ہے آپ زارا کی کزن ہیں آپ کے آگے پیچھے کوئ نہیں ہیں اب آپ کو جو میں کہوں گا صرف آپ کی بھلائ کے لئے یہ فیصلہ کیا ہے اگر پسند آئے تو ٹھیک ورنہ کوئی زبردستی نہیں ہے قاسم نان اسٹاپ بولتے ہوئے رک کر شفا کے چہرے کو جانچا
جی اگر آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو مجھے ایک شرط پر منظور ہے میں نے سنا ہے سارے وڈیروں کی چار چار پانچ پانچ بیویاں ہوتیں ہیں مگر میں صرف ایک ہی ہونا چاہتی ہوں شفا نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مدعا بیان کیا
اس بے شرمی پر قاسم حیرت زدہ رہ گیا گاؤں کی لڑکیاں تو اسی باتوں سے ہی شرما جاتیں اورشفا دی گریٹ سب کچھ پلین کر کے بیٹھی تھی
ہم آپ کے ملازم نہیں جو آپ کی ہر بات مانیں اور شام کو پنچائت میں نکاح ہوگا اور کچھ نہیں سنوں قاسم نے رعب سے اٹھتے ہوئے کہا
.................😍
سائیں پورا گاؤں چھان مارا مگر وہ چھوکری نہیں ملی ملازم نے میراج سے ادب سے کہا
اگر گاؤں میں نہیں ملی تو پورے پاکستان میں ڈھونڈو ورنہ تم سب کی جان کی خیر نے میراج حد سے بڑھ کر غصے میں تھا
میراج کے غصے سے سب واقف تھے ملازم تو میراج کی بات سن کر تھر تھر کانپے لگے
دفع ہو جاؤ اب تم لوگ نکلوں کسی کام کے بھی نہیں غصے سے دھکتی انگارہ آنکھوں میں طیش لیۓ غصے سے بولا اس وقت خود کو اتنا بے بس سمجھ رہا تھا اسے رہ رہ کر اس کی معذوری کا خیال آتا وہ اگر واقعی مصیبت میں ہے تو خود کو بچاۓ گی کیسے
ابھی وہ اسی حالت میں ٹہل رہا تھا.تبھی موبائل بجا سرسری دیکھا تو قاسم کا فون تھا اس کا من نہیں تھا کسی سے بھی بات کرنے کا مگر مسلسل بجتے موبائل تنگ آکر اٹینڈ کیا
مجھے اس وقت کسی قسم کی فالتو بات نہیں کرنی کوئ ضروری بات ہے تو بول ورنہ بند کر فون اٹھاتے ہی میراج نے تنبھی کردی
ارے بھائی ضروری بات ہی ہے آج عصر کی نماز کے بعد میں نے پنچائت کو بلایا ہے نکاح کررہا ہوں قاسم نے بھی بغیر لگی لپٹی کے مدعا بیان کیا
اچھا زارا مان گئی کیا اس نے قاسم کے لئے خوشی سے کہا
نہیں یار مسلا ہوگیا ہے زاراکی ایک معذور کزن ہے اسکا کوئی نہیں ہے اور زارا کی ماں نے اسے گھر سے نکال دیا اب میں نے سوچا اس سے نکاج کر کے شہر میں جہاں کی وہ رہنے والی ہے وہیں گھر لے کر رکھ دوں یا حویلی میں رکھ دوں ویسے تو مجھ سے پہلے آجانا میرے چوبارے پر نکاح کے کاغذات وغیرہ پر نام لکھوانے ہوۓ اس کا نام شفا ہے اوکے قاسم نے میراج کو سب کہانی سناتے ہوئے کہا
اور میراج کی سوئ زارا کی کزن معذور ہے, زارا کی کزن معذور ہے مطلب گودام میں جو لڑکی ہے وہ زارا ہے اور قاسم کے پاس شفا ہے نہیں نہیں میں قاسم کو دو ذندگیاں برباد کرنے نہیں دوں گا میں قاسم کو دوسرا شاہنواز چاچا نہیں بننے دوں گا ابھی تو میں واپس آیا ہوں میں پھر نہیں جانا چاہتا خود کلامی کرتے ہوئے میراج پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا
میراج تو سن رہا ہے کہ نہیں جواب تو دے ہیلو ہیلو قاسم کب سے بول رہا تھا اور میراج جواب نہیں دے پارہا تھا قاسم نے سگنل کا مسئلہ سمجھ کر کال کاٹ دی
..............😍
زارا کو میراج نے تسلی دی تھی سو زارا پرسکون ہوگئ تھی اسے رہ رہ کر میراج کی باتیں یاد آرہیں تھیں دھیرے سے مسکرا کر آسمان کو دیکھا ابھی دوپہر ہوئ تھی مگر موسم حسین ہورہا تھا آسمان پر بادلوں نے گھیرے ڈالے ہوئے تھے سندھ میں ایسا موسم کبھی کبھی ہوتا زارا کے مسکراتے چہرے پر اچانک بارش کا ایک قطرہ گرا جس نے زارا کو اندر تک سیراب کر لیا بارش کی ننھیں بوندے ماحول پر چھاۓ حبس کو نکال رہیں تھیں ہر قطرے میں میراج کا عکس زارا کو دکھ رہا تھا زارا بھی ہر قطرے کو اپنے ہاتھوں میں چھپانے لگی
ابھی وہ یہ کھیل کھیل رہی تھی کہ باہر سے میراج کی ہلکی آواز آئ زارا جلدی سے خود کو ٹھیک کرنے لگی
مگر آواز ابھی بھی باہر سے ہی آرہی تھی زارا تجسس کے مارے دروازے سے کان لگا کر سننے لگی
آواز تھی کے پگلا ہوا سیسا زارا دروازے کے ساتھ بیٹھتی چلی گئی اسے آپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا آنکھوں سے بے اختیار آنسو پھٹ پڑے
آخری بات اس لڑکی کو یہاں سے بھاگنے نہیں دینا یہ میرے کزن کی مانگ ہے میراج کہتے ہی چلا گیا مگر پہلے کی ساری باتیں زارا کو جھوٹ لگ رہیں تھی
اس کا خیال رکھنا بہت میراج مجھے یقین نہیں آرہا تم بھی روایاتی وڈیرے ہو تم بھی اسے نکلے چیخنے لگی مگر اب تک وہ دونوں جا چکے تھے
........................