یا اللہ یہ آزمائش کب ختم ہوگی
بھیگے چہرے پر ناراضگی لیئے وہ ہمیشہ کی طرح اللہ سب شکوہ کررہی تھی
ایک تو تو روز روز رونے بیٹھ جاتی ہے گزارا کرلے نا اب زارا نے سمجھانے کی کوشش کی
تم کرسکتی ہو..بتاؤ ایک ہاتھ کے ساتھ بغیر ماں باپ کی
تم جی بھی نا سکو گی باتیں کروالو چل نکل یہاں سے اکیلا چھوڑ دے مجھے...
...............
بابا آپ کہاں ہو
میراج نے ڈر کر پوچھا
بیٹا میں ٹھیک ہوں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے مجھے کچھ نہیں ہوا
میراج کے پرشان اور خوف ذدہ لہجے کی وجہ سے تفصیلی بات کی
اوکے میں آپ کو بہت مس کرہا ہوں فون پر دونوں جانب چاموشی چھاگئ
بس بیٹا تمہارے ہے شوق تھے اب ہم کیا کرسکتے ہیں
دکھی لہجے میں جواب دیا
میں بہت جلد آجاؤ گا آپ بس اپنا خیال رکھنا اگر آپ چاہتے ہیں تو سب چھوڑ کر آجاؤگا بابا آپ سے بڑھ کر میرے لئے کچھ نہیں
میراج نے محبت بھرے لہجے میں کہا
نہیں تمہاری تعلیم ضروری ہے یہاں کا ماحول خراب ہے تم پڑھ لکھ جاؤ گے تو میں آرام سے آنکھیں بند کر لوں گا
بچوں کی طرح سمجھتے ہوئے کہا
اچھا چلو بیٹا میں آرام کروں تم اپنی پڑھائ پر توجہ دو
آخری کلمات ادا کر کے فون بند کردیا
ایکسیڈنٹ کا سن کر میراج کی جان ہی نکل گئی تھی اپنے بابا سے بے پناہ محبت کرنے والا میراج رودینے کو تھا مگر اب بات کرکے سکون ملا
............
شفا بیٹا اور کتنی دیر کھیلو گی چلو شام ہونے کو آئ
آصف کی ایک لوتی بیٹی بہت منتوں مرادوں سے ہوئ تھی
آصف کے لئے تحفے سے کم نہیں تھئ شادی کے پندرہ سال کے طویل عرصے بعد اللہ نے ایک ننھی منی پری انہیں دی جو اب پورے 16 سہولہ سال کی ہو گی تھی مگر پارک میں بچوں کے ساتھ کھیلانا نہیں چھوڑا
منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئ نا کوئ بہن نا بھائ کروڑروں کی جائیداد کی اک لوتی وارث خوبصورت میں بھی لاکھوں میں ایک اچھی پرورش کی وجہ سے اخلاق بھی اعلیٰ
بابا کل جلدی آئیں گے آصف کے بلانے پر بھاگ کر آئ
چلوں پھر آپ کو آئسکریم بھی کھلاتا ہوں پیار سے اس کے بواۓ کٹ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
ییییییییسسسسسس پاپا لو یو خوشی سے چھلانگ لگائی
مگر اس کی خوشیوں کو پیچھے بیٹھے شخص کی کالی نظر لگ گئ
خدا تمہاری حفاظت کر ننھی پری پارک کے ہر ذرے نے اس کی خوشیوں کے لئے دعا کی مگر وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا
..........
حویلی میں تیاریاں عروج پر پر ہیں ارے میں نے کہا تھا فرش کورگڑ رگڑ کر صاف کرنا کلموہی نکل شمو اری و شمو کسی کو بھیج یہاں ارے پردے لگاۓ کمرے میں افراتفری کے عالم میں ادھا ادھا کام کررہی ہیں
یہ میراج کی ماں ہے
سفید چکن کے سوٹ میں ملبوس صوفہ پر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے دادی نے اپنی رعب دار نگاہوں سے بس صرف دیکھا سب رک گئے اپنی جگہ پر دھی راٹیں سب کج تھی ویندو.
(بیٹیا رانی سب کچھ ہوجاۓ گا)
دادی نے مقامی زبان میں کہا
بڑی ماں آؤں ڈاڈی خوش آہیاں ہن کرے
(بڑی امی آج میں بہت خوش ہوں بس اس لئے)
آج میراج کی واپسی ہے اور حویل کو دلہن کی طرح سجایا جا رہا ہے
........
مجھے بھوک لگی ہے زارا کچھ کھانے کو دے
نقاہت ذدہ لہجے میں کہا
شفا یار ابھی تو کھانے کو کچھ نہیں ہے کل ہماری واپسی ہے امی ابو کے پاس کچھ پیسے تو ہوںگے وہ سب سنبھال لیں گے
دکھ سے جواب دیا
شفا کو بخار تھا اور کوئ کمانے والا تو تھا نہیں دوائیوں کے لیۓ زارا نے اپنی نوز پن بیچ لی
اب وہ بھی ختم ہونے والے تھے زارا اس کی سوتیلی کزن تھی ہمیشہ سے دونوں کی بہت دوستی رہی مشکل کے اس وقت میں زارا نے ہی اس کا ساتھ دیا کل ان کو سندھ کے گوٹھ جانا تھا
........
ہیلو ہاں یار مگر حویلی والے انتظار کر رہے ہیں میراج نے الجھن سے کہا
تو کیا ہوا پہلے ہم دوست فشنگ ٹرپ کر لیں پھر گھر چلے جانا
عاقب نے دوستانہ انداز سے سمجھایا
اچھا ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں
عاقب پٹھان تھا اس کی دوستی پڑھائ کرتے ہوئے ہوئ تھی اب دونوں گھومنے پھرنے کے پلان بھی ساتھ بناتے.
مجھے پھر ایئرپورٹ سے نکالنے کا انتظام کر
میراج نے اہستہ آواز سے کہا
اچھا ٹیشن نا لے میں آ جاؤں گا
اوکے جی
میراج نے خوشگوار آواز میں کہا
...............