کہاں گئی تھی یوں اکیلے منہ اٹھا کر۔"
"کیا مطلب آپ کا۔؟ میں جہاں بھی جاؤں آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے اپنی اماں سے اجازت لے کر گئی تھی۔۔“ عاشی سے ملنے بچاری کی رخصتی ہے کل اور کوئی اس سے ہمدردی تک نہیں کر رہا گاؤں میں۔ مانا غلطی ہے اسکی پر اسکی سزا بھی تو مل گئی ہے اسے۔ رو رو کے بُرا حال کیا ہے اسنے اپنا۔ کمینہ وہ لڑکا اسکے باپ کے سامنے مکر گیا کے یہ خود ملنے آتی تھی میں نے کبھی نہیں کہا ملوں اور ایسی لڑکیوں سے شادی نہیں کی جاتی۔ تو اسکے ابو نے کروا دی اسکی شادی پنتالیس سے کم کا نہیں ہو گا دیکھا میں خود کو چالیس کا کہتا ہے ہونہہ۔" شانی کی بولتی زبان پر کبھی بریک نہیں لگ سکتا تھا۔ اور مہتاب ناگواری سے اسکی کتھا سن رہا تھا۔
"تم کو بہت ہمدردی جاگ رہی ہے تو بتاتا چلوں وہ وہی لڑکا ہے۔ جو اس دن سڑک پر تنگ کر رہا تھا۔ اور پتہ ہے اسنے تمہارے لئے رشتہ بھی بھیجا ہے ماں جی نے چھان بین کا کہا تھا شفی محمد کو اور ابھی تصویر دیکھ کر آرہا ہو پر تم کو کیا کروہمدردیاں۔۔ اور شادی بھی کر لینا۔۔"
"اللہ معاف کرئے باؤ صاحب میں کیوں شادی کرنے لگی اس لفنگے سے۔ اور اسکی ہمت کیسے ہوئی ہے میرے گھر رشتہ بھیجنے کی۔"
"تمہاری دوست نہیں بیسٹ فرینڈ کہنا چاہئے اسنے پتہ دیا تمہارے گھر کااسے۔"
"آسیہ نے۔۔؟"مہتاب دانت پیسے ہوئے بولا
"عاشی عرف عائشہ بی بی نے۔"
"کیا۔۔ اسنے ایسا کیوں کیا۔؟"
'یہ تو میں نہیں بتا سکتا۔ پر تمہاری شادی کسی اور سے نہیں ہوگی آج میں تم کو بتا رہا ہو اور کل اماں کو بھی بتا دوں گا۔ سمجھی تم۔" شانی کو کچھ سمجھ نہ آئی کے باؤ صاحب کہنا کیا چاہتے ہیں۔
"پر چاہتے کیا ہے آپ کو مجھ سے۔ میں ایک بھی بات کا مطلب نہیں سمجھی کیوں فکر ہو رہی ہے آپ کو۔" مہتاب چلتے چلتے روکا اور کھیتوں کے سائیڈ پر بنی پگڈنڈی پر بیٹھ گیا۔ اور شانی روک کے اسے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
"آپ کو ہوا کیا ہے۔ بنا ہاتھ پیر کے بات کیے جا رہے ہیں مجھے صحیح سے سمجھائے جلدی سے۔"
"بیوقوف ہو تم میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ بس اتنی سی بات ہے۔ آئی تمہاری سمجھ میں میری بات یا اور کسی طریقے سے سمجھاؤں میں کیوں پریشان ہو اتنا تمہارے لیے۔"
شانی نے حیران ہوتے ہوئیے مہتاب کو دیکھا۔
"آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔ مجھ سے"
"ہاں۔ کوئی شک ہے تمہیں۔۔؟"
"آپ یہ بولوگے نہ چوہدرائن سے انکار ہی سُننے کو ملے گا کوئی اپنی ملازمہ کی اولاد سے اپنی اونچے شملے کو داغ نہیں لگنے دیتا۔ خیالوں سے باہر آجاؤ جی۔ اور نہ میں کرنے والی ہو آپ سے شادی۔"
"شادی تو تم سے ہو گی میری ہر حال میں یاد رکھنا اور اگر کوئی ہے بھی تمہارے ذہن میں تو اسے نکال دوں سمجھی۔" مہتاب اسکے انکار سن کے ایک دم آگ بگولا ہو رہا تھا اور بازو کھینچ کے اسے تنبیہ کیا۔
"چھوڑے مجھے آپ زبردستی ہاں نہیں کروا سکتے اپنے ساتھ ساتھ میری بھی بدنامی کروایں گے۔"
"چھوڑوں گا تو اب مر کر ہی۔ دعا کرو یا تو میں مر جاؤں یا اپنا دماغ اور دل بدلوں۔۔"
"میں آپ کو ایک اچھا انسان سمجھتی تھی پر آپ ویسے ہی نکلے جیسے سب مرد ہوتے ہیں۔ جن کی تان شادی پر ہی ختم ہوتی ہے۔"
"تو کیا تم بنا شادی کے رشتہ بنانا چاہتی ہو۔ تو مجھے وہ بھی منظور ہے پر کسی اور کا بھی سوچانہ تو میرے سے برا کو ئی نہ ہوگا۔ اور آئندہ سے مغرب کے بعد گھر سے باہر نظر مت آنا۔" شانی کو ایک دم سے رات ہونے کا خیال آیا۔ پر باؤ جی سے یہ امید ہرگز نہ تھی اسے چوہدارئن حویلی میں گُھسنے نہ دے اور انکے صاحب زادے شادی کی بات کرتے ہیں۔
شانی نے وہی سے دوڑ لگائی بنا پیچھے مڑے۔ مہتاب نے لمبا سا سانس اندد کھنچا ایک عجیب سے بوجھل ہوتے دل کے ساتھ چل دیا۔ اسنے کبھی نہیں سوچا تھا وہ اس طرح کی دھمکیاں بھی لگا سکتا ہے۔ پر ایک تو شانی تھی بہت ڈھیٹ اوپر سے اس لڑکے کی حرکتوں سے دماغ کھول رہا تھا جس نے عاشی کی ویڈیوں بنا کے اسے بلیک میل کر رہا تھا۔ سب شفی محمد نے راز داری سے بتایا۔ کافی دنوں سے کسی بندے کو اسکے گھر کام پر لگا کے یہ انفارمیشن حاصل کی تھی۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
"ماں جی آپ کہہ رہی تھی نہ میں اپنی پسند کی لڑکی آپ کو بتاؤ۔ میں شانی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
چوہدرائنایک دم سے غصے میں آگئی اپنی اس بیٹے پر جس کو کبھی گرم ہوا بھی نہ لگنے دی تھی۔۔
"یہ کیا کہہ رہے ہو۔ تمہارا دماغ تو ٹھکانے پر ہے۔ جو یہ بات کر رہے ہو میں کبھی بھی اس بات کو نہیں مانو گی۔ ساری دنیا میں تم کو اور کوئی لڑکی نہیں ملی جو تم شانی جیسی بیوقوف سے شادی کرنا ہے۔۔ جسے دنیا داری ذرا بھی نہیں آتی ہے۔"
"میں اگر شادی کروں گا تو صرف شانی سے ورنہ کبھی شادی نہیں کرو گا۔اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے سن لے آپ بھی۔۔
"تم مجھے دھمکی دے رہے ہو اب مجھے یہ دن بھی دیکھنا ہوگے کیا۔؟ میں ہرگز اس میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں۔"
"یہ لیجیے سارے پیپرز میں سب تصدیق کر وا کے لایا ہو اگر اب بھی آپ کو کوئی مثلا ہے تو بتائیں۔" مہتاب نے ایک نیلے رنگ کی فائل ماں کے آگے بڑھائی جسے نا سمجھی میں چوہدرائن نے تھام لیا۔ ”کیا ہے اس میں۔۔“
"کھول کر دیکھیں اسکے بعد اگر آپ کو یہ رشتہ نا منظور ہے تو میں سب اسے بتا دوں گا۔ کم سے کم وہ اپنی اصلیت سے واقف تو ہو۔"
چوہدرائن نے فائل میں موجود پیپرز کو پڑھنا شروع کیا تو ان کے رنگ اُڑ گیا۔۔
"یہ، یہ کہاں سے لی ہے تم نے اور میں کیسے مان لو یہ سچ ہے۔"
"ماں جی شفی محمد سے میں سب معلوم کر لیا ہے اتنا تو اعتماد کا بندہ ہے نہ جو سب کچھ جانتا ہو گا۔"
"میں کیا کہوں تم کو مہتاب پُتر بہت غلط کر رہے یوں اسکی زندگی کے ساتھ بھی اور اپنی زندگی کے ساتھ بھی میں اپنا خاندان ختم نہیں کرنا چاہتی ہو اسکی وجہ سے۔"
"ماں جی جب آپ نے یہ کیا تھا تو تب مجبوری رہی ہو گی پر میں اب اس قابل ہو کے سب کچھ سنبھال سکتا ہوں"۔
"میں کبھی شانی کی دشمن نہ رہی تھی بس اسکی حفاظت کرنا چاہی تھی میرا اور کوئی مقصد نہ تھا۔" چوہدرائن نے اپنے پلوں منہ پر رکھ کر رونےشروع کریا۔۔ مہتاب جلدی سے ماں کے پاس آیا اور گلے لگا لیا۔
"ماں جی میں جانتا ہو آپ کسی کا برا نہیں سوچ سکتی ہیں۔ نہ کسی کے ساتھ بُرا ہوتے دیکھ سکتی ہیں آپ پلیز چپ ہو جائیے۔"
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مہتاب اور چوہدرائن ،چھوٹی بہن مریم اور شازیب مل کے رشیدہ اماں کے گھر شانی کا رشتہ لینے گئے تھے۔ سب راضی خوشی طہ پایا۔ پر شانی اس دن والی ناراضی قائم رکھے ہوئے تھی۔ جو سیدھے بُلانے کو رواں دار نہ تھی پر چوہدرائن اور مریم باجی کے پہلی دفع گھر آنے پر پُھولے نہ سما رہی تھی۔ اسے لیئے یہی احساس کافی تھا کے اماں کی طرح چوہدرائن اسے بھی چاہے گی۔ اور وہ حویلی جائے گی۔ پر جس کے نام سے اس حویلی میں جائے گی اسی سے خفا تھی۔
"رشیدہ اماں نے کہا شانی چائے بہت اچھی بناتی ہے۔" تو سب نے فرمائش کے وہ شانی کے ہاتھ کی بنی چائے پئیں گے پر مہتاب کا کہنا تھا نہیں وہ چائے نہیں پیتا۔ سب سے پہلے شازیب کا منہ کُھولا۔
"کیا کہہ رہے ہو۔۔؟ میرے کان یہ کیا سن رہے ہیں ماں جی کہیں میری سماتوں سے جو بات ٹکرائی ہے یہ سچ ہے کے وہم ہے میرا۔"
"بکو مت۔ ہر جگہ تمہارا مسخرا پن شروع ہو جاتا ہے مریم سمجھاتی نہیں ہو اپنے میاں کو۔"
"بھائی آپ کے دوست ہیں خود ہی سمجھا لے میری کہاں سنتے ہیں۔"
"بیگم صاحبہ یہ سراسر ناانصافی ہم آپ کے غلام ہے جو آپ حکم کرتی ہیں بجا لاتے ہیں۔" سب ہنسی خوشی چل رہا تھا ۔۔اتنے میں شانی چائے بنا لائی۔ مہتاب نے شانی کا موڈ دیکھتے ہوئے چائے پینے سے انکار کر دیا تھا۔۔کیا پتہ اب کے زہر ہی ملا کر لے آئی ہو۔۔ پر شانی نے کپ مہتاب کی طرف بڑھایا تو آنکھوں سے دھمکایا۔ مہتاب کی ہنسی چھوٹتے چھوٹتے رہ گئی۔ اور کپ تھام لیا۔ مہتاب کو پورا یقین تھا کہ چائے دینی والی کے تیور کچھ اچھے نہیں ہے پھر بھی مجبوراََ زہر مار کے پینے لگا۔ پر آج چائے میں نمک کا نہیں گرم مصالے کا تڑکا لگایا گیا تھا۔
سب نے اپنے اپنے کپ سے چائے پیتے ہوئے شانی کی تعریف کر رہے تھے اور مہتاب کی جان پر بنی ہوئی تھی کہ اگر چائے پینے سے انکار کیا تو کہی شانی رشتے سے ہی انکار نہ کر دے۔۔ اس لئے مجبورن چائے کم زہر کے گھونٹ ہلگ سے نیچے اتارہ کے اچھو لگ گیا اور واش روم کی طرف بھاگا۔ سب ایک دم سے پریشان ہوگئیں۔۔
"اسے کیا ہوا ہے۔؟" شازیب نے پوچھا۔۔۔
شانی پیچھے گئی تو اسکو بُری طرح کھانستا اور الٹی کرتے دیکھا تو رنگ فق ہو گیا۔ اور اپنی اس حرکت پر پچھتائی۔
"تمہارے ہاں گھر آئے مہمانوں کی یوں خاطر داری کی جاتی ہے دوسری دفعہ ہوا ہے میرے ساتھ اور سوچ لو گن گن کے بدلے لو گا۔" شانی کو کبھی کسی نے دھمکی نہیں لگائی تھی نہ اونچی آواز میں بات کی تھی اسکے لئے یہ سیچویشن نیو تھی پر وہ اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے پانی کا گلاس آگے کو بڑھایا۔
"پانی پی لیں اور اگر میرے ساتھ کچھ بھی الٹا سیدھا کرنے کی کوشش کی تو اس سے بھی برا ہو گا اور میں بدلہ چُکتا کرتی ہو اُدھار کسی کا نہیں رکھتی" مریم پیچھے سے آگئی۔
”اووو ہو۔۔۔یہ ملنے کا بہانا تھا کیا۔؟ ہم سے کہتے بھائی ہم آپ کے لئے بہترین جگہ ڈھونڈتے جہاں کوئی ڈسٹرب نہ کرے آپ دونوں کو۔"
"چھوٹی تم باز آجاؤں شازیب کی دوسری کاپی بنتی جا رہی ہو۔۔" دونوں ہنستے ہوئے بیٹھک کی طرف رووانہ ہوئے۔ شانی نے آنکھیں نکال کے اور منہ بھگاڑ کے مہتاب کو دیکھا۔اور مہتاب ہنسے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔
★★★★★★★★★
بہت سوچ سمجھ کر تم کوئی اُمیدرکھنا
محبت بھی آتی ہے مگر میں آجکل فریبی ہو
تیمور نے شعر پڑھا اور ایک آنکھ بند کر کے بانو کو اشارہ کیا جس پر بانو کا خون کھول اُٹھا۔ "کیا بدتمیزی ہے یہ۔۔؟"
"ہم نے کیا گُستاخی کر دی محترمہ آپکی شان میں۔ ہم تو محفل لوٹنے کے چکر میں ہیں۔ آپ کو داد دینی چاہئے ہمیں اس خوبصورت سے شعر پر۔۔"
"خوبصورت لگ ہی نہ جائے کسی کو ۔۔ہونہہ“
"یہ کیا یار تم لوگ جب بھی آمنے سامنے آتے ہو تو جنگ کا علان کیوں کرتے پھیرتے ہو ختم بھی کرو یہ لڑائی ہماری شادی کو دو سال ہو گئے ہے پر تم دونوں کا جھگڑا ابھی بھی قائم ہے۔"
"میں جھگڑ رہا ہویا یہ محترمہ۔" تیمور نے بانو کی طرف اشارہ کیا۔
"میں کب جھگڑ رہی میں تمہاری حرکت پر غصہ ہووہ تم نے جو۔" بانو ایک دم سے چپ ہو گئی۔۔“وہ کیسے بتائے تیمور کی اس حرکت کے بارے میں۔۔ وہ سب ایک ساتھ بیٹھ شعروشعاری اور ادھر اُدھر کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کافی عرصے بعد سب شانزہ کے عقیقے پر حویلی کی تقریب میں شامل ہوئے تھے۔ بانو ضویا کی چچاذاد بہن تھی اور انکی بچپن سے کافی دوستی تھی۔ آج حویلی میں سب کزن ایک ساتھ اکھٹا ہوئے تھے۔ اور تیمور اپنے شوق انداز میں ساری محفل کی جان بنا ہوا تھا۔ اور شانزہ کو گودہ میں اٹھائے گھوم رہا تھا۔"اوئے مانی یار دیکھ تمہارا میری چھوٹی سی جان سے رشتہ بھی پکا ہو گیا اور اِدھر میرے بارے میں کسی کو پروا ہی نہیں کے لڑکے کی عمر شادی کی ہو گئی ہے۔ کسے گھر والے ہیں میرے۔" مانی کو خاک سمجھ آنی تھی تیمور کی پر بار بار وہ اس معصوم سی گڑیا کو پیار کیے جا رہا تھا اور سب کو ایسے خوشی خوشی بتا ریا تھا کے دنیا کی سب سے خاص خوشی مل گئی ہو ۔
"چاچو یہ میری گڑیا ہے بھوا نے کہا ہے یہ مانی کی ہوئی اب میں اسکو سکول ساتھ لے کر بھی جاؤں گا۔"
"پر یار یہ تو بہت چھوٹی ہے سکول تو نہیں جا پائے گی۔ تم ایسا کرنا جب بڑی ہو جائے تو تب اسکو پڑھا دینا ابھی اسے ہمارے پاس رہنے دو" اور پہلے مانی اور پھر شانزہ کو پیار کیا۔ ہال میں سب اپنی اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے تھے۔۔ تیمور کی نظر بار بار بانو پر جا کے ٹھہرتی جو کافی دیر سے اسکی اس حرکت کو محصوص کرتے ہوئے چڑ رہی تھی۔۔تیمور کو اسکا چڑنا مزہ دے رہا تھا۔ بے جی نے بانو کو اپنے پاس بُلایا اور سب کے لئے چائے بنانے کو کہا تووہ کچن کی طرف گئی اسی وقت تیمور نےسب کو دیکھا کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا اور شانزہ کو اُٹھائے کچن کی طرف ہو لیا۔
"اہم۔۔۔کیا ایک گلاس پانی مل سکتا ہے۔۔" بانو نےگھور کے دیکھا تو تیمور نے پھٹ سے آنکھ ماری۔
" ایسے اتنے پیار سے کیوں دیکھ رہی ہو کیا اتنا خوبصورت لگ رہا ہو کیا۔"
"بہت فضول بولتے ہیں آپ ۔اور حرکتیں ایسی ہیں کے کسی کو بتائی بھی نہیں جا سکتی۔"
"اہ ہو مسئلہ یہ ہے کے میری حرکتوں کے بارے میں آپ کسی کو نہیں بتا سکتی ہے اسلیے چھپ رہی ہیں ہم سے۔"
"آپ یہاں سے جائیں کوئی آجائے گا اورکتنی بدنامی ہوگی سو الگ۔"
"بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا شانزہ گڑیا۔بتاؤ اپنی ہونے والی چچی کو۔"
"استغفار اللہ۔ کیا سیکھا رہے ہیں بچی کو۔تسی تے واقعی بہت لوفر سے بندے ہو۔ قسم سے میں آپ سے شادی تو کبھی نہیں کرنی۔"
"دیکھوں لڑکی مجھے بھی اگر شادی کرنی ہے۔ تو تم سے ہی کرنی ہے ورنہ ایسے ہی مر جانا ہے۔ پھر روتی رہنا کے ایک تھا کوئی پاگل تمہارے لئے۔"
"کجھ بھی بول دیتے ہیں آپ شرم ہی کر لیا کرو کچھ۔"
"وہ کیا ہے نہ جب سے آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔ شرم تو ہم سے شرماں سی گئی ہے۔"
"شرم ہوتی تو شرماتی نا۔" دونوں نے ایک دم سے پیچھے مڑکر دیکھا۔ تو ابراہیم کو کھڑا پایا۔ تیموربالکل ریلیکس تھا پر بانو وہاں سے بھاگ نکلی۔۔
"یار شرم تو نہیں آتی میرے سسرال میں میری ہی سالی صاحبہ سے چکر چلائے جا رہے ہیں۔"
"یار چکر تو مت بول یہ تو محبت ہے عشق ہے تم کیا سمجھو زن مرید۔" ابراہیم نے ایک گھوسا جڑا تیمور کو۔
"اور تو کون سے پیرو مرشد کی مریدگی اختیار کر رہا تھا بدتمیز انسان۔" دونوں کا جناتی قہقہ بلند ہوا۔ جس پر شانزہ نے ڈر کے رونا شروع کر دیا تو ابراہیم نے بڑے پیار سے تیمور کے ہاتھوں سے شانزہ کو اپنی گود میں لیا۔
"میری پالے سے بچے کو چاچو نے رولا دیا اوے میرا بچہ چپ چپ بابا ہے نہ۔" اور پیار کیا۔
"واہ بچی کو ابھی سے بدظن کر مجھ سے پہلے ہی اتنی مشکل سے دوستی ہوئی ہے ہماری۔" اور شانزہ اپنے بابا کی گود میں آتے ہی چپ ہو گئی۔
"بڑی کو بدید اولاد ہے بالکل اپنے باپ پر گئی ہے۔" ابراہیم نے پھر سے قہقہ لگایا پر اس دفعہ ذرا دھیمے سے۔
"یار میں بات کرو گا بابا سے اور چچا ،چچی سے تمہارے رشتے کے لئے اور وہ خود ہی آگے بات کر لے گے تو اپنے کام کی طرف سے کچھ سنجیدہ ہو جا۔"
”اگر کام میں سنجیدہ ہونے سے یہ رشتہ پکا ہو سکتا ہے تو سمجھوں میں نے کل سے آفس جوائن کر لیا ہے تم لوگوں کے ساتھ۔"
"یہ ہوئی نہ بات بس پھر اگلے مہینے لازمی بات کروں گا۔"
'اگلے مہینے کیوں ابھی کیوں نہیں۔"
"او جلدباز انسان ہم کیا کہیں گے۔ ہمارے نکمے نکھٹوں بیٹے کو اپنی بیٹی کے لئے پسند کر لیں بعد میں اگر اسکا دل کیا تو کام بھی کر لے گا ہے کہ نہیں۔"
'ہائے مطلب واقعی آفس جوائن کرنا پڑے گا۔" اتنے میں ضویا کچن میں داخل ہوئی تو ان دونوں کو دیکھ کے ایک منٹ کے لئے روکی اور شکی نظروں سے دونوں کو دیکھا۔
"کونسی پلینگ چل رہی ہے یہاں آپ لوگ جب بھی ایک ساتھ ہوتے ہیں اگلا لمحہ خیریت کا نہیں ہوتا۔"
"استغفار اللہ۔۔ بھابھی کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ آب تو میں کل سے آفس جوائن کرنے کی بات کر رہا تھا بے شک پوچھ لے اپنے مجازی خدا سے۔"
"رہنے دو یار عورتوں کو شک کرنے کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔۔"
"یار تم تو دو سال میں کافی دکھی ہو گئے ہو۔" "توبہ یا اللہ میں کیوں ہونے لگا دکھی میں تو اپنی ضویا کے ساتھ بہت خوش ہوں اور مرتے دم تک خوش ہی رہوں گا۔"
" آمین۔" تیمور نے دل سے کہا۔
اسی وقت بانو گھبرائی ہوئی اندر آئی رنگ اُڑے ہوئے تھے اور ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ سب نے پریشانی سے اسکی طرف دیکھا ضویا جلدی سے اسکے پاس گئی بس گرنے والی ہو جیسے ۔ "کیا ہوا بانو۔۔رنگ کیوں پھیکا پڑ رہا ہے تمہارا ۔؟" تیمور نے فکر مندی سے پوچھا۔
"وہ فون آیا ہے ابھی۔۔ وہ انہوں نے چچا جان کی گاڑی پر فائر کروائے ہیں جس سے چچا جان نہیں رہے۔" تیمور اور ابراہیم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ایک ساتھ بولے۔
"کونسے چچا جان؟۔"اور تیمورکی طرف دیکھ کر بولی۔
"آپ کے ابو جی۔" تیمور نے باہر کی طرف دوڑ لگائی۔ ابراہیم نے شانزہ کو ضویا کے ہاتھوں میں احتیاط سے دیا اور تیمورکے پیچھے باہر کو بھاگا۔ جہاں اکبر رحمان پہلے سے ہی گاڑی سٹارٹ کر رہے تھے۔
"کس ہسپتال میں ہے بھائی جی۔؟"
"آؤں بیٹھوں گاڑی میں۔"
مہتاب اور شانی کی شادی کی رسومات میں پورا گاؤں مدوع تھا۔ خوشیوں اور دعاؤں میں رخصتی ہوئی تو شانی کا رو رو کے بُرا حال تھا۔ ایک تو اماں اکیلی رہ جائے گی اور گاؤں میں ماسٹرانی بننے کا خواب بھی ابھی پورا نہیں ہوا تھا جو شادی کر دی اماں نے۔ شانی نے کہا بھی ایک دو سال تک شادی نہیں کرائے گی۔ پر مہتاب نے کہا وہ اسی ہفتے شادی کرے گا نہ ایک دن کم نہ ایک دن زیادہ۔
"پُتر جی ہزار کام ہوتے ہے لڑکی والوں کے لینا دینا سب کچھ تھوڑا تو وقت دو نہ۔"
"نہیں اماں میں جتنا وقت دوں گا آپ نے اتنی ہی تیاریوں میں لگ جانا ہے آپ بس دو بول پڑھا دے اور بس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ مجھے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں اگر شانی کو کچھ چاہیے ہو تو میں حاضر ہو۔" شانی دروازے کے پیچھے چُھپی سب سن رہی تھی۔ مہتاب سب جانتا تھا۔
"اماں آپ پوچھ لیں اگر شانی نے شہر سے کچھ بھی منگوانا ہو تو بتا دے میں کل شہر جا رہا ہو وہ سب لیتا آؤں گا۔" شانی کو مہتاب کی باتیں دل کو تو لگی تھی پر اتنا احسان نہیں لینا چاہتی تھی۔
"اماں مجھے کچھ نہیں منگوانا ہر چیز ہے۔ میرے پاس اور کچھ لینا ہوگا تو میں اور آپ لے آئیں گے۔"
ہر طرح کی تیاری حویلی میں ہونا طہ پائی تھی۔مہتاب نے شازیب کے گھر والوں کو پرسنلی جا کے انوائٹ کیا۔ سب حیران تھے کہا شادی نہیں کرنے کی رٹ لگانے والا مہتاب کہاں ہفتے میں دولہن لانے کو بےتاب تھا۔۔۔
مہتاب نے اپنی پسند کا لہنگا مریم کے ساتھ جا کر خریدہ اسکے علاوہ اور بہت ساری شاپنگ کی۔۔۔ ہر کام اللہ کے کرم سے خوش اصلوبی سے ہو گیا تھا۔ وہ دن بھی آگیا جب شانی مہتاب کے نام سے اس کے گھر میں موجود تھی۔ مہتاب نے سارے گھر کو پھولوں اور چراغوں سے سجایا تھا۔
"یار اب یہ چراغ کیوں ۔؟لائٹنگ کی تو ہے۔" شازیب نے کہا۔
"میں شانی کا ہر خواب سچ کرنا چاہتا ہوں۔۔“ یہ اس دن اسنے کالج میں شانی کے منہ سے سنا تھا۔ شانی نے جب حویلی میں قدم رکھا تو ایسا لگا کے وہی خواب دیکھ رہی ہو۔ دل میں یہی تھا کہی آنکھ نہ کھول جائے۔
"یہ سب خواب نہ ہو حقیقت ہو اللہ جی۔" شانی دل پر ہاتھ راکھ کر کہا۔۔۔
جبہی مہتاب کی آواز کان کے بالکل پاس سے آئی۔
"یہ خواب نہیں ہے حقیقت ہے کیا اس حقیقت میں ساری عمر کو میرے ساتھ دو گی شانی میں ہر ممکن کوشش کروں گا تمہارے ہر خواب کو تعبیر کا رنگ دوں۔" شانی دھیرے سے مسکرا دی اور سر کو اثبات میں ہلا دیا۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★