شازیب کو شہر کی طرف روانہ کر نے کے بعد مہتاب واپس آرہا تھا۔ کہ ایک طرف بہت سے لوگوں کا حجوم دیکھا اور تجسس کے ہاتھوںوہاں ُروکا۔
"کیا ہوا ہے یہاں۔؟"
"چھوٹے چوہدری جی۔۔ آئے نے"
کافی لوگوں کی آواز میں جب مہتاب نے آگے کا منظر دیکھا۔تو دل دہلا دینے والا تھا ایک کسان اسکی دو بیٹیاں اور اور بیوی نے کنویں میں چھلانگ لگا کے خودکشی کر لی تھی۔
لوگوں کا کہنا تھا شوگر میل کا ورکر تھا اور یہ سب تو برسوں سے ہوتو آرہا تھا کوئی آواز نہیں اُٹھاتا ان کے خلاف۔ سب پردہ ڈال دیتے ہیں۔ ایک دم سے مہتاب کا دماغ گھوم سا گیا۔۔۔ اسکے گاؤں میں یہ سب ہو رہا ہے اور اس کو کانوں کان خبر نہیں ماں تک نے نہیں بتایا۔۔۔یہ سب سوچ رہا تھا۔۔۔اور سب گاؤں والوں کے ساتھ مل کر اس خاندان کی تدفین کروائی اور خاموشی سے حویلی کی طرف ہو گیا۔ اس نے کچھ نہیں بولا۔۔۔ بولنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ اس کے گاؤں میں یہ سب بھی ہو سکتا ہے اسے پتہ کیوں نہیں چلا۔ آخر لوگ ماں کے پاس آتے ہی ہونگے اپنا حال حوال لے کر یا ان کو بھی خبر نہیں ہےاسکی۔۔ یہی سوچتے ہوئے حویلی پہنچا اور جاتے ہی مجیدہ سے کہا شفی محمد کو بیٹھک میں بُلاؤں اور ماں کو بھی۔ تینوں بیٹھک میں موجود تھے۔ چوہدرائن نے آتے ساتھ پوچھا۔
"سب خیر ہے نہ پُتر تم تو شازیب کو سٹیشن چُھوڑنے گئے تھے۔؟"
"ہاں ماں جی شازیب خیر سے ہے پر مجھے نہیں لگتا گاؤں میں کچھ بھی خیرت سے ہے۔۔ ؟" اور باری باری شفی محمد اور ماں کو دیکھا۔ اماں نے پہلے شفی کی آنکھوں میں سوالیہ نظروں سےدیکھا۔ جو نظریں جُھکا گیا تھا اُسے بھی خبر ہوئی تھی پر بتانے میں دیر ہو گئی تھی۔ اسلئے چوہدائن انجان تھی۔ پھر مہتاب سے پوچھا۔۔"کیا ہوا ہے گاؤں میں۔؟"
"ماں جی یہاں سالوں سے کسان خودکشیاں کر رہے ہیں آپ کو اس کی خبر ہے یا مجھے ہی بے خبر رکھا گیا ہے۔۔" چوہدرائن نے روکی ہوئی سانس خارج کی ہو جسے پتہ نہیں کوئی اور ہی راز پتہ چال گیا ہو۔ پھر پیار سے بولی۔۔
"ایساہوتا ہی آرہا پُتر جی اور وہ کسان ہمارے نہیں ہیں شوگر میلوں کے ورکرز ہیں جن کے پاس زمینیں نہیں ہوتی یا جنہوں نے گروی رکھوائی ہوتی ہیں۔ ان کے پاس وہ ان کو معاوضہ نہیں دیتے اور ان کی اولادوں پر غلط نظر رکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں جب چوہدری صاحب نے سب سے کہا تھا۔ وہ ان کا قرض اتار دیں گیں کچھ سال ہی مفت میں کام کرنا ہوگا ان کے پاس پر ان گاؤں والوں نے ان کی ایک نہ سُنی اور اپنی زمینیں ان لوگوں کے حوالے کر دی اور زمینداروں سے مزدور بن کے راہ گئیں ہے۔"
"پر ان ملوں کے مالک ہمارے رشتے دار ہیں نہ۔۔؟"مہتاب نے کہا۔۔
"ہیں نہیں تھے۔۔" چوہدائن روکھائی سے بولی۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ابراہیم اپنے کمرے میں آیا اور دروازہ بند کر کے زمین پہ ہی بیٹھ گیا۔
"کیا ہو جاتا اللہ اگر وہی ضویا ہوتی۔ پہلی دفعہ کو لڑکی اس دل میں اتری تھی وہ بھی نہیں مل سکتی۔ ایک دم سے اتنی دور کر دی جو کل تک بہت اس دل کے بہت نزدیک لگ رہی تھی۔ صرف میری لگ رہی تھی آج اتنی دورکیوں کر دی۔۔۔ بے شک سانس کم کر لیتے پر جان تو باقی رہنے دیتے۔ کیسے سب کا مان رکھوں مجھے میں اتنی ہمت نہیں کچھ ہمت عطا کر دو۔۔میرے مولا۔۔ کچھ ایسا کر دوں میں سب کی عزت قائم رکھ سکوں نکال دو اس کو اس دل سے۔ میں کیا کروں اللہ میں سوچنا بھی نہیں چاہ رہا اسکے بارے میں کیا کرو۔۔۔اے کاش کے بس آنکھوں تک ہی محدود رکھ دیا ہوتا اس دل میں کیوں اتار دیا میں کسے ایک وقت میں دو لوگوں کو اس پر حکومت کرنے دو۔ بابا نے اپنی ساری زندگی میرے پروقف کر دی۔۔میں ان کا بھی دل نہیں توڑ سکتا کتنا غرور تھا ان آنکھوں میں میرے لیے۔ بس دعا ہے سانس اتنی دینا جب تک بردشت ہو اسے زیادہ نہیں۔" اور زمین پر ہی لیٹ گیا۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مہتاب نے اپنے گاؤں میں ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں شازیب کو بتایا۔ جس نے اپنے والد کو اور جاننے والوں کو جو ان کی اچھے سے مدد کر سکتے تھے بتایا۔اورطہ یہ پایا کہ گاؤں کی باہر والی زمینیں جہاں کھیتی باڑی نہیں ہوتی بنجر پڑی ہیں۔ وہاں ایک پلانٹ لگایا جائے۔ جہاں سے کسانوں کو ان کی حق کی کمائی ان تک پہنچائی جائے۔ جو کے کوئی چھوٹا موٹا کام نہیں تھا۔ منجھے ہوئے کھیلاڑیوں کا مقابلہ کرنے کے مترادف تھا۔ شازیب کے والد میجرز تک اثرورسوخ رکھنے والوں میں سے تھے جنہوں نے یقین دہانی کروائی تھی۔۔ سارا پلانٹ خیر و آفیت سے دو سال کے عرصے میں مکمل ہوگا۔ شازیب اور مہتاب اس کمپنی کے پچاس پچاس فیصد کی شراکت دار ہوں گے۔ اور ایک ماہ بعد جس کی بنیادرکھنی تھی اس پہ حویلی میں دھمکی بھرے کالز بھی آنے لگ گئی تھیں۔ پر پھر بھی مہتاب ملک کا جذبہ کم نہ ہوا اور کافی گاؤں والوں نے بھی اس کارے خیر میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہ چلا۔ اور ایک سال گزر بھی گیا تھا
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اماں کیا میں حویلی جا سکتی ہو۔۔"
"شانی وہ بات نہ کیا کرو جو میں تمہاری مانوں بھی نہ۔ جس راستے پر جانا ہی نہیں اس راستے کی طرف دیکھنا ہی کیوں ہے۔" شانی پیڑ پٹکتی ہوئی کمرے کی طرف چل دی۔
"پتہ نہیں سب کیا مصیبت ہے۔ میں چوہدرائن جی کو اتنی نہ پسند کیوں ہو جو مجھے کبھی حویلی میں گھسنے ہی نہیں دیتیں۔ لگتا بچپن میں ضرور کوئی شیطانی کی ہوگی جو مجھے نہ پسند کرتی ہیں۔ ورنہ تو اماں کے ساتھ اتنا اچھا رویہ اور میرے ساتھ دشمنوں والا رویہ نہ ہوتا۔ ہائے آج مریم باجی کی شادی ہے کیسے اُسے دلہن بنی دیکھوں گی۔ سب جا رہی ہے کمینیا ں۔۔۔مجھے ہی کوئی لینے نہیں آیا۔ اللہ جی کچھ تو کروں کوئی مجھے لینے آجائے حویلی سے اور کہے شانی یہ تقریب تمہارے بغیر ادھوری ہے۔ پر مجھ سے تو اماں کے علاوہ کوئی پیار ہی نہیں کرتا۔۔ جو ایسا کہے۔ ہائے عاشی نے ضرور لال والا فراک پہنا ہوگا کتنا پیارا تھا نہ۔" اچانک سے اماں کمرے میں آئی تو دل میں درد سا ہوا۔کبھی حویلی کی تقریب میں نہ گئی حالانکہ اسکا بھی اتنا ہی حق بنتا تھا جتنا سب کا۔ بلکے سب سے زیادہ پر۔۔
"شانی دیکھ میرا پُتر میں آج تیری پسند کا پلاؤں بنایا ہے۔ بہت پسند ہے نہ آ میں تجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں۔"
"نہیں کھانا میں کچھ بھی جا کے اپنی چوہدرائن کو کھلائیں۔" اور منہ پُھلا کے بیٹھ گئی۔ "دیکھ میری دھی ایسے کیوں ناراض ہوتی ہے۔ جہاں ہمارے لئے کوئی جگہ نہ ہو وہاں کی ضد ہی کیوں کرنی۔"
"اماں چوہدرائن کو کبھی کچھ نہیں کہا پھر ایسا کیوں ہیں وہ۔"
"میرا کرماں والا پُتر ہمیں کیا لینا کسی سے ہم اپنے گھر خوش ہے نہ۔ دفعہ کر حویلی کو۔" اور شانی کو اپنی گلے سے لگا لیا۔
"چل جلدی سے کچھ کھا لے مجھے جانا بھی ہے۔ اور جب تک تو کچھ نہیں کھائے گی میں کیسے جا سکتی ہو۔"
"نہیں آج تو بھی نہیں جائے گی اور نہ میں کچھ کھانے والی ہو۔"
'بُری بات شانی ہمارے کون سا کوئی مرد ہیں کمانے والا میں نہیں جاؤں گی تو گھر کیسے چلے گا۔"
"اماں دیکھنا میں بی۔اے کر کے ماسٹرانی لگ جانا ہے پھر تم کو کبھی حویلی نہیں جانے دو گی۔۔"اماں شانی کی بات پر مسکرا دی اور اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے لگ گئی۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
حویلی میں شازیب کے ساتھ مہتاب کی چھوٹی بہن مریم کی شادی طہ پائی شازیب کے والد نے ہی دوستی کو رشتے میں بدلنے کو کہا جس پہ چوہدرائن نے بڑی مشکلوں میں ہامی بھری۔
حویلی کو ہر طرف سے سجایا گیا۔ ہر رشتے دار کو بُلایا گیا۔۔ خاندان کے بڑوں میں کافی چہحمگویا ہوئی اس جوڑے کو لے کے وقت پھر نہ دوہرایا جائے۔۔۔ خاندان سے باہر شادی جو کی جا رہی تھی۔ یہ بات مہتاب کے کانوں میں بھی پڑی پر وہ شادی میں کوئی بدمزگی پیدا کرنا نہیں چاہتا تھا۔
ہر طرف شورشرابہ تھا لڑکیاں وہی اپنے مخصوص ٹپے گا نے میں مصروف تھی۔ اچانک سے مہتاب کو خیال آیا شانی بھی آئی ہو گی شادی میں تو اس نے شانی کی تلاش میں نظر گھومائی۔ پر وہ اسکوں کہیں بھی نظر نہ آئی۔ نامحسوس انداز میں گاہے بگاہے نظر سب پر گھوماتا رہا پر وہ کہیں نہ نظر آئی تو رشیدہ اماں سے باتوں باتوں میں پوچھ ہی لیا۔
"اماں شانی بھی آئی ہو گی شادی پر اسے کہہ دے ایک کپ چائے بنا دے۔ سر میں بہت درد ہے۔۔"
"نہیں باؤ جی وہ تو نہیں آئی شادی پر میں بنا دیتی ہو جی آپ کے لیئے چائے۔" مہتاب کو شاک سا لگا کہ اگر وہ رشیدہ اماں کی بیٹی ہے تو اسے کیوں نہیں بُلایا گیا۔
"اماں یہ آپ کا ہی گھر ہے جسے آپ آسکتی ہیں اسے بھی لے آتیں۔" اچانک سے رشیدہ سے کوئی بات نہ بن پائی تو کہہ دیا۔
"اس کے پیپر ہیں۔ اسی کی تیاری میں لگی ہوئی تھی۔ میں نے تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔"مہتاب کے لئے یہ جھوٹ ہضم کرنا مشکل ہی تھا اور وہ وہاں سے ہٹ گیا۔ انتظامات دیکھتے دیکھتے حویلی سے کب نکلا کسی کو خبر نہ ہونے دی۔ اور رشیدا اماں کے گھر کے دروازہ پردستک دی۔
"کون ہے۔۔۔کوئی راہ گیا تھا گاؤں میں جس نے ہمارے دروازے پر آنا تھا۔ سب تو حویلی پر ہیں ہمارے ہاں کس نے آنا ہے مجھے تو کوئی لینے نہیں آنے والا ہوگا۔"
"کون ہے بولوں بھی۔"
"میں ہو"
"میں ہو کا نام بھی ہے کے مجھے پر کوئی وحی نازل ہونی ہیں۔"
"میں مہتاب ہو حویلی سے اب تو کھولوں دروازہ۔" شانی کا رنگ بھک سے اُڑ گیا کہ واقع اسے کوئی حویلی سے لینے آسکتا ہے۔ دروازہ کھول کے خوشی سے بولی۔
"آپ مجھے شادی پر لے جانے آئیں ہیں۔چوہدرائن نے بھیجا ہو گا نہ اماں نے بتایا ہوگا۔ میں بڑی ضد کی مریم باجی کی شادی پر جانے کی۔" اور کمرے کی طرف بڑھ گئی دروازہ بھی اپنے پیچھے مہتاب کو بند کرنا پڑا اور صحن کی سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔ جو کے دروازے کے پاس بنی ہوئی تھی جن کا روخ صحن کی طرف تھا۔۔۔اور وہ تو جیسے تیار ہی بیٹھی تھی چارد لے کر تیار بھی ہو گئی۔۔
"میں تم کو لے جانے نہیں آیا نہ ہی ماں جی نے بھیجا ہے مجھے یہاں۔"
”کیا۔۔ آپ مجھے لے جانے نہیں آئیے تو کیوں آئیں ہے۔“
شانی کا سارہ جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اور منہ ایسے بنایا کہ ابھی رو دے گی۔اور پاس پڑی چار پائی پر بیٹھ گئی۔
"کوئی پیار نہیں کرتا مجھ سے اماں کو بھی آج جانا تھا مجھے اکیلا چھوڑ کے۔ جب کے پتہ ہے سارا گاؤں حویلی گیا ہوا ہے میں اکیلی ہو کوئی پروا نہیں کسی کو میری۔" اور رونے لگ گئی ایک دم سے مہتاب کو لگا اسکوں یو اچانک نہیں بتانا چاہیے تھا۔ اب وہ کیسے چپ کروائے وہ تو بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ مہتاب نے ادگر اُدھر دیکھا اور کچن کی طرف برھا ایک پانی کا گلاس لا کے شانی کی طرف بڑھایا۔۔
" پانی پیوں شانی۔۔ " اور وہ ایک ہی لفظ پر اٹک ہی گئی ہو جیسے
"کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا"
"شانی بات سنوں۔" شانی نہیں میں گردن ہلا کے وہی راگ آلاپ رہی تھی۔ اور روتی جا رہی تھی۔
"کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا"
"کیوں کوئی تم سے پیار نہیں کرتا میں کرتا ہوں نہ تم سے پیار دیکھوں اپنی بہن کی شادی چھوڑ کر آیا ہوں صرف تمہارے لیے اب ایسا کہوں گی تو میں ناراض ہو جاؤں گا۔" ایک دم سے شانی رونا بھول کو مہتاب کی شکل دیکھنے لگ گئی۔ جو پانی کا گلاس اسے تھما رہا تھا۔
"شانی پانی پیوں اور مجھے اچھی سی ایک کپ چائے بنا کے پلاؤ شاباش اُٹھو۔" اور اپنا ہاتھ بڑھایا۔ شانی نے سن ہی کب رہی تھی وہ تو بس ایک جملے میں ٹھہر گئی تھی۔ "میں کرتا ہونا تم سےپیار"۔
ایک خیال آنے پر کے وہ اتنی بڑی بات کیسے کہہ گیا تو احساس ہو کچھ غلط کہہ دیا شاہد۔۔۔ اپنی خفت مٹانے کے لئے اور بات بدلنے کے لئے بولا۔۔
”چائے ملے گی شانی“ شانی اپنے حواسوں میں واپس لوٹی تو کچن کی طرف بھاگی۔
فٹا فٹ چائے بنائی اور لا کر مہتاب کے آگے پیش کر دی۔ مہتاب نے مسکراتے ہوئے ایک گھونٹ بھرا تو چائے کم نمک والا پانی زیادہ لگا۔ پھر بھی مسکراہٹ قائم رکھی اور زہر مار کے چائے پی گیا۔ شانی سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھی۔
"کیسی بنی ہے چائے پسند آئی ؟ وہ کیا ہے نہ میں کبھی بنائی ہی نہیں آج پہلی دفعہ آپ کے لیے بنائی ہے۔" مہتاب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"آج سے پہلے میں نے ایسی چائے کبھی نہیں پی۔۔" شانی کا یہ سن کے ہوا میں اڑنا باقی رہ گیا تھا۔
"شادی پر جانا چاہتی ہو۔"مہتاب نے پوچھا تو شانی کا جواب نہ میں پا کر حیران رہ گیا۔
"ابھی تو شادی پر جانے کے لئے آنسوں بہائے جا رہے تھے اب کیا ہوا۔"
"جب کسی کو مجھ سے سروکار نہیں تو میں کیوں جاؤ وہاں۔۔"
"میں لے جا سکتا ہوں اگر تم کہوں۔" پھر بھی شانی نے نہ میں گردن ہلائی۔
"مجھے حویلی جانا ہی نہیں ہے۔ جب تک چوہدرائن دل سے نہ بُلائے میں جانا ہی نہیں وہاں۔"
"مطلب میں جو دل سے بُلا رہا ہو میری کوئی پروا ہی نہیں۔۔"
"بالکل بھی نہیں"
"میں ناراض بھی ہو سکتا ہوں۔"
"ہو جائیں۔"
"مطلب میری کوئی فکر نہیں ابھی میں نے تم سے کہا تھا میں تم سے پیار کرتا ہو دنیا میں سب سے زیادہ پھر بھی نہیں۔"شانی نے پھر سے گردن نہ میں ہلائی۔
"کیوں ایسا کیوں۔"
"کیونکہ جو میرے ہاتھ کی بنی کڑوی کسیلی چائے کو بھی مسکرا کے پی جائے اور میرے پوچھنے پر بھی میرا دل نہ توڑے وہ مجھے سے کیسے ناراض ہو سکتا ہے بھلا۔" اور دونوں کا مسکرا دئیے۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★