اگلے چار دن ابراہیم اور تیمور نے اپنے منہ کے زاویوں کو صحیح کرنے میں لگا دئیے۔ رفیق بیگ کا ہر دفعہ سامنا ہونے پہ اِن کو یہی کہنا تھا پٹ کے آئے ہو پر شرمندگی سے بچنے کے لئے سارا الزام موٹر گاڑی پر ڈال رہے ہو۔ اِسلیے دونوں نے کمرے میں منہ چُھپا کے چار دن کیسے گزاے وہی جانتے تھے۔ تیمور کو بس ان لڑکیاں سے بدلہ لینا تھا۔ جنہوں نے فضول میں مار پڑوا دی بھلہ ہم نے نےکون سا چھیڑا تھا جو ایساکیا۔۔
اور ابرا ہیم کو اس نقاب آنکھوں والی سے سچا عشق ہو چُکا تھا۔ اسے یہی تھا ہو نہ ہو وہی رحمان انکل کی بیٹی ہے۔ پر تصدیق کیسے کرے اس بات کی۔ اور پھر سے تیمور کے پاس پہنچ گیا۔
'تیمور یار تم سے ایک کام تھا۔۔"
"ایک لفظ نہیں سُننا مجھے تمہارا "۔ تیمور نے اسکےپھر سے پڑنے والے کام کواچھے سے جانتا تھا کہ کیا ہو سکتا ہے۔
"دیکھوں یار میں یہاں جس کام سے آیا تھا۔ وہ تو کرنا ہی ہو گا نہ اب اسکے لیے جان جاتی ہے تو جائے میں پیچھے نہیں ہٹونگا۔"
”اور کہاں لکھا ہے کے تمہارے اس میشن میں میرا قربان ہونا ضروری ہے۔" تیمور نے چبا چبا کے کہا۔
"لو بھلا بھائی، بھائی کے کام نہیں آئے گا تو کیا دشمن کام آئیں گے کیا۔؟" ابراہیم نے معصوم سی صورت بنا کے کہا۔ تیمور نے منہ دوسری کر لیا۔
"مجھے اپنا دشمن ہی سمجھوں۔ مجھے پہلے ہی ان لڑکیوں پر غصہ ہے اور تم تو بات ہی نہ کرو۔"
"اچھا یار ہاتھ جوڑ کے معافی مانگتا ہوں۔ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا اور اب کی دفعہ سب پلان کر کے کریں گے۔ تم نے ان لڑکیوں سے بدلہ بھی تو لینا ہے" ابراہیم نے اپنا پینترا بدل کر تیمور کو منانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ تیمور کچھ سوچتے ہوئے گردن ہلا رہا تھا۔
"لڑکیاں نہیں صرف ایک لڑکی جس نے اپنے مسٹنڈے بھائیوں سے ہماری خاطر توازوں کا سامان بنوایا تھا۔"
ابراہیم اور تیمور نے حویلی کے ایک ملازم کو کچھ پیسے دیئے اور اپنی طرف کیا اور لڑکیوں کی ساری انفارمیشن حاصل کی۔ جمعہ کے دن وہ سب لڑکیاں لازمی کنویں والی زمیں پہ آتی تھیں۔ یہی صحیح موقعہ تھا ضویا کو دیکھنے کا۔ اور وہ خود ایک دن پہلے جا کے آس پاس کی جگہ دیکھ آئے تھے۔ پہلے جیسی کوئی بیوقوفی افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ ابراہیم کے بابا نے ایک ہفتے میں شادی کی تاریخ مقرر کردی تھی۔ دونوں نے خود کو محفوظ جگہ چُھپا لیا جہاں سے وہ سب پر نظر راکھ سکتے تھے۔ یعنی درخت کے اوپر یہ آئیڈیا تیمور کا تھا۔
"درخت پر کس کی نظر نہیں جائے گی اور ہم سب پہ نظر بھی جما لے گے۔"
"تمہیں یقین ہے نہ ہم کچھ غلط نہیں کر رہے۔" ابراہیم نے درخت پر چڑھتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں یار یقین رکھوں مجھ پر اور بسم اللہ کرو۔۔ آج بھابھی کا دیدار ہو ہی جائے گا انشااللہ۔۔"
برگد کے پیڑ پر دونوں چُھپ کے تو بیٹھ گئے پر جس جگہ تیمور بیٹھا تھا۔ وہی پینگ کے لئے رسی بندی تھی جس پر تیمور کی نظر نہ گئی۔
سب لڑکیاں ٹولیوں کی شکل میں کنوے کی زمین کی طرف آنے لگ گئی تھی۔ کنوے کی زمین خاص گاؤں کی عورتوں اور لڑکیوں کے لیے گوسپ پوائنٹ اور ملنے ملانے کی جگہ تھی۔ جہاں شام مغرب سے پہلے تک آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ دونوں آنے والی سب لڑکیوں کو دیکھ رہے تھے۔ کہی تو اُس دن والی لڑکیاں نظر آجائے۔حویلی کے ملازم نے بھی آج کے دن کا کہا تھا کے وہ سب ضرور آئیں گی۔ ایک دم سے تیمور نے دور سے آتی چھ لڑکیوں کو دیکھا جو حویلی والی لڑکیاں ہی تھی دونوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ ابراہیم کی نظر بڑی سی چادی میں لپٹی نقاب والی کی طرف ہی ٹھہر گئی۔ "وہ وہی ہے۔" ابراہیم نے ا اکسائٹمنٹ میں بول گیا۔ جس پر تیمور نے گھور کر خاموش رہنے کی تنبیہ کیا۔
جب سب کنوئیں کے پاس پہنچی تو پہلی دفعہ اس لڑکی نے اپنا نقاب ہٹایا ابراہیم دیکھتا ہی راہ گیا آنکھیں تو خوبصورت تھی جس پہ کھڑی ناک اور پھولوں کی طرح لال ہونٹ کوئی گلاب سے دھکتے گال حور معلوم ہوتی تھی۔
"کہتے ہیں جنت میں حوریں ملیں گی مجھے تو لگتا اللہ نے زمین پر ہی حور سے نواز دیا ہے۔"
ابراہیم نے بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی کو دیکھ کے کہا۔ جس پر تیمور نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔ اتنے میں پینگ پر کوئی موٹی سی لڑکی آکر بیٹھی اور اور درخت کی پگڈنڈی ٹوٹ گئی۔
"ہائے میں مر گئی سب"
"ہائے میں مر گیا۔۔“
لڑکی گری سو گری لڑکا کہاں سے آیا سب ہجوم کی طرح تیمور کے ارد گرد جمع ہو گئی۔ اُسی دن والی لڑگی نے آگے آکے کمر پہ دونوں ہاتھ رکھ کے گھور کے دیکھا۔
"تم وہی ہو نہ جس کی ویر جی نے خوب پٹائی کی تھی۔ مطلب چین نہیں آیا تھا کیا جو پھر سے آگئے ہو۔"
"بانو کون ہے یہ تم جانتی ہو۔" کسی لڑکی نے پوچھا۔
"لفنگے ہیں لڑکیوں کو تاڑتے ہیں۔ کہا ہے تمہارا جوڑی دار آج تو خیر نہیں اُس دن تو بچ گئے تھے آج نہیں۔" اتنے میں ابراہیم برے آرام سے درخت سے نیچے اُتر آیا۔ اور ان سے اپنے آنے کی اصل وجہ بتانے لگا۔ کہ اب کی دفعہ مار نہیں کھانی کیونکہ شادی کا دن نزدیک ہی تھا۔ وہ اپنے چہرے کا حلیہ نہیں بگاڑنا چاہتا تھا۔
"بہنوں سُنیں ہم کوئی لوفر بدمعاش نہیں ہیں۔ بس رحمان چوہدری کی بیٹی کو دیکھنے آئیں ہیں۔ آج انکوں دیکھ لیا بس اب ہم چلتے ہیں کیونکہ اگلے ہفتے ہماری شادی ہے۔" چادر والی لڑکی طرف اشارہ کر کے کہا۔ بانو اپنی ایڑیوں پر گھوم کر ابراہیم کی طرف موڑی اور کھا جانے والی نظروں سے ابراہیم کو دیکھا۔
"کون رحمان چوہدری کی بیٹی ہے یہاں۔" ابراہیم نے پھر اُسی کی طرف اشارہ کیا۔۔ "وہ راشی ہے۔ صویا نہیں۔ اسکا تو گھر سے نکلنا منع ہو گیا ہے شادی جو سر پر ہے۔" بانو کے یہ الفاظ ابراہیم کےسر پر کوڑوں کی طرح لگے۔۔
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔؟“
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
شازیب نے مہتاب کے ساتھ مل کر اسے سارے گاؤں کی سیر کروائی۔ گاؤں میں میلہ لگا ہوا تھا سب اُسی طرف جا رہے تھے۔
"آؤں تم کو گاؤں کی شان دیکھاتے ہے۔" مہتاب نے شازیب کو میلے کی طرف لے جاتے ہوئے کہا۔ جہاں آسمانی جھولے، کشتی جھولےکے علاوہ بہت سی اکٹویٹز ہو رہی تھیں۔ کہی کمارمٹی کے برتن بنا بنا کے دیکھا رہے تھے۔ کہی نامودنمائش کا سامان لگا تھا۔ گاؤں کی عورتوں کے ہاتھ سے بنے ملبوسات اور کہیں بچوں کے کھلونے تھے ہر چیز ایک سے بڑھ کر ایک تھی۔ دونوں نے موت کا کنواں ہاتھی، شیر کا تماشا اور جوکروں کے کرتب دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوئے ساتھ ساتھ بہت ساری ہاتھوں سے بنی چیزیں خریدی۔ جو یہاں تو سستے داموں ملتی ہے پر شہروں میں یہی چیزے بڑینڈڈ ٹیگ لگا کے ہزاروں لاکھوں میں بیچی جاتی تھی۔
"آسیہ میں کسی نہ محرم کے ہاتھ اپنا ہاتھ نہیں دینا۔۔ چاہے کچھ بھی ہو اللہ معاف کرے مجھے ۔" اچانک سے مہتاب کو جانی پہچانی آواز سُنائی دی۔ ایک دم سے نظرے گھوما کے ادھر اُدھر دیکھا۔ تو چوڑیوں کے سٹال پر گھڑی شانی پر نظر ٹھر گئی۔ وہ کسی سہیلی کے ساتھ محو گفتگو اپنے درس کی دوکان کھول کے بیٹھی تھی۔
"بھائی جی ایسا کرو اپنے اندازے سے اس کے ماپ کی چوڑیاں دے دو۔" آسیہ نے حل نکالا۔
"ہاں یہ ٹھیک بھائی جی آپ اندازے سے دے دو۔ آپ کو تو پتہ ہی ہو گا کسی کی کلائی کا کیا سائز ہے۔ کافی عرصے سے یہ کام کر رہے ہو گے۔ کیا اس سے آپ ک گھر خرچ چل جاتا ہے۔ لوگ کتنی چوڑیاں خرید لیتے ہوگے۔ یا کوئی اور کام بھی ساتھ میں کرتے ہو آپ۔؟ "
دوکانداد نے معصمیت سے جوب دیا
"اس سوہنےاللہ کا شکر ہے باجی جی وہ بھوکا سونے نہیں دیتا کبھی کسی کو بھی۔"
"بے شک ۔۔اُس ذات کی بات ہی نرالی ہے۔ اماں کہتی ہے ہر حال میں شکریہ ادا کرتے رہنا چاہیے میں بھی ہر چیز پر الحمد اللہ کہتی رہتی ہو۔"
"بس وہ نوازتا ہی بہت ہے شکر ادا کرنا تو بنتا ہے۔۔" دونوں دوکاندار اور شانی ایسے باتے کرنے میں مگن تھے جیسے برسوں کی جان پہچان ہو۔ پہلے تو مہتاب کو عجیب لگا پھر کل والی بات یاد آنے پرمسکرا دیا۔کہ وہ تو کسی سے بھی سالوں سال باتیں کرتی رہے پر پھربھی اس کی باتیں نہ ختم ہو گی۔ شازیب نے مہتاب کو مسکراتے دیکھا تو پوچھا۔
" کیا سوچ کے مسکرائے جا رہے ہو۔"
"سوچ نہیں رہا رشیدہ اماں کی بیٹی کی گفتگوں پہ مسکرا رہا ہو۔" شازیب حیران ہوتے ہوئے۔
"رشیدہ اماں کہا آگئی یہاں۔ ان کو تو میں ماں جی کے پاس دیکھا تھا۔"
"یار اماں نہیں ان کی بیٹی نالائق۔۔"
"اہ۔۔ اچھا کہاں ہے ان کی بیٹی اور اس دن دیکھ کے تو رنگ اُڑ گئے آج مسکراہٹ ہونٹوں سے جُدا نہیں ہو رہی ہے۔" مہتاب نے آنکھوں کے اشارے سے سٹال کی طرف اشارہ کیا۔
"ویسے ایک بات تو بتاؤں۔۔ مہتاب ملک۔"
"ہاں پوچھو"
"یونیوڑسٹی میں کبھی آنکھ اُٹھا کے لڑکیوں کو نہیں دیکھا۔ پر جب سے گاؤں میں قدم رکھا ہے۔ لڑکی بھی مل گئی اور لڑکیوں کو دیکھ کے مسکرانا بھی آگیا ہے کیا خاص بات ہے اس میں۔ اور تھوڑی شرم کرو وہ عمر میں تم سے کم ہی لگتی ہے۔۔" مہتاب نے بیچ بازار میں قہقہ لگایا کے آس پاس آتے جاتے لوگوں نے روک کر دیکھا بھی۔
"لگتا ہے تو پاگل ہوگیا ہے۔۔" شازیب کو اس کی حالت پہ ترس آیا۔ "نہیں یار میں پاگل نہیں ہوا کیوں کے میں نے بھی کسی سے یہی کہا تھا وہ مجھ سے بہت چھوٹی ہے میں کیسے اس سے شادی کروں۔ تو انہوں نے کہا تھا لڑکیاں شادی کے بعد برابر کی ہو جاتی ہیں تم فکر مت کرو۔"
"کس نے کہا تھا یہ تم سے ۔؟"
"تھی میری زندگی کی حِسین ترین شخصیت۔ کبھی بتاؤں گا صحیح وقت آنے پر۔"
★★★★★★★★★
پلیز آپ کی سہولیات کے لیے ہم پیج کو اچھے سے اچھا بنانے کی کوشش کریں گے اس کے لیے ہمارے ناول کی جو بھی قسط پڑھیں کومینٹس اور شئیر لازمی کریں۔۔
مزید ایسی پوسٹ کے لیے ہمارا پیج
AAP K LIYE Novel Hi Novel ناول ہی ناول Novel Links ناول لنکس
لائیک کریں اور ساتھ فالو کے بٹن پر کلک کر کے سی فرسٹ آل See First All پر کلک کریں
Muhammad Sadaqat Mehmood Chaudhry
★★★★★★★
ابراہیم نے تیمور کو سہارا دے کےگھر پہنچا اور تیمور کو صوفے پر بیٹھا رہا تھا۔ جب گھر میں ان کی آنے کی خبر پر چچی نے آکے بتایا کے بھائی صاحب آج شام تک آرہے ہیں اور شادی یہی اسی گھر میں ہوگی۔ ابراہیم کا دماغ پہلے ہی گھوما ہوا تھا شادی کی بات سن کے بنا کچھ کہے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
"اس کو کیا ہوا ہے۔؟'" چچی نے حیرانی سے دیکھا۔
"امی اس کو چھوڑئیں اپنے بیٹے کی خبر لیں بہت درد ہو رہا ہے۔" چچی کی حیرت کم نہ ہوئی تھی کہ ۔۔۔
"ایک دفع پھر سے چوٹ۔۔ تم دونوں بچے تھوڑی ہو جب بھی باہر جاتے ہو چوٹ لگوا آتے ہو احتیات سے نہیں ہوتا کوئی کام ۔ بتاؤں کہا لگی اس دفعہ ۔۔" اور تیمور کا منہ ادھر اُدھر کر کے دیکھا۔
"امی ٹانگ پہ لگی ہے۔۔ اس دفع منہ پہ نہیں آئی چوٹ۔۔" پینٹ اونچی کر کے اپنے گھٹنے کا حال دیکھایا اور بُری طرح سے زخمی تھا۔
"اللہ یہ کیسے لگوالی اندھے ہو گئے تھے۔ جو کچھ نظر نہیں آیا۔۔ اب سے تمہارے باپ سے کہتی ہو تمہاری یہ موٹر سائیکل ہی بند کر دے ہفتے میں دو دفعہ زخمی ہو گئے ہو۔" گھر میں اندر آتے احسان نے ٹوہکا دیا۔
"امی یہ بائیک سے نہیں گرا کہی اور سے ہی پٹ کی آیا ہے۔ کیونکہ دو دفعہ بائیک سے حادثہ ہوتو بائیک پہ ایک ضرب تو آنی چاہیے تھی پر یہاں تو ہر بار بھائی پر ہی ضربیں پڑتی ہیں بائیک پر نہیں۔۔"
"اللہ۔۔ تیمور کیا یہ سچ کہہ رہا ہے ؟ "
"امی آپ اسکی بات کا یقین کرتی ہیں ہے۔ ہر گھر میں آگ لگانے والے رشتے داروں کی طرح کا انسان ہیں۔۔" احسان ہنستے ہوئے۔
"جب کوئی بات خود سے نہیں بنی مجھے پہ الزام لگانے لگ گئے ہو بتا دو سچ ورنہ میں پتہ کروا سکتا ہو۔۔ "
" جاؤ کرواؤ پتہ نہیں بتاتا"
"اچھا اچھا جھگڑا نہ کرنے لگ جانا تم اپنے امتحان کی تیاری کرو احسان اور تمہارے لئے دوائی بھیجتی ہو لگا لینا۔" اور چلی گئی۔ احسان جاتے جاتے پھر سے موڑا۔
"بھائی بتا رہے ہو کے خود یاپتہ لگواؤں؟"
"دفع ہو جاؤں کے امی کو آواز لگاؤں۔"
"جا رہا ہو۔۔ جا رہا ہو پر یاد رکھنا "
"ہاں ہاں بہت دیکھے تم جیسے"
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بابا جان مجھے یہ شادی نہیں کرنی ہیں۔“
امتیاز بیگ نے غصے سے لال ہوتی آنکھوں سے اپنے اکلوتے بیٹے کو دیکھا۔
”کیا بک رہے ہو پتہ بھی ہے کہ ایک ہفتے میں شادی ہے اور تم انکار کر رہے ہو۔۔ کان کھول کے سن لو میں بالکل بھی تمہاری کوئی بات نہیں مانے والا بچپنہ ہی ختم نہیں ہوتا تمہارا۔۔ میں زبان دے چُکا ہو اب وہی ہوگا جو فیصلہ ہو چُکا ہے اس کے آگے ایک لفظ نہیں سُنوں چاہتا۔۔“
پر بابا جان میری بات تو سُن لے
اچھا سُناوں کون ہیں وہ لڑکی کیا نام ہے کہاں رہتی ہے بتاؤں ابھی میں میں بھی دیکھوں تمہاری پسند جس کی وجہ سے انکار کر رہے ہو۔۔“
بابا جان میں کسی کی وجہ سے انکار نہیں کر رہا۔۔“
”باپ ہو تمہارا کیا سمجھتے ہو مجھے پتہ نہیں چلے گا۔۔“
اور یہاں آکے ابراہیم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔۔ صراب ہی صراب تو تھا نہ وہ جانتا تھا کون ہے کہاں سے ہے نام بھی صحیح نہیں پتہ تھا۔۔ اتنا پتہ تھا اسکی سہلیاں راشی کہتی ہے اور یہ نام بتائے کیا۔۔کبھی نہیں۔۔۔ اور سر جُکا گیا ۔۔
”بولوں ابراہیم کون ہے وہ “
کچھ نہیں بابا جان آپ جو میرے حق میں فیصلہ کر چُکے ہیں وہی بہتر ہوگا۔۔“
بہت دیر کے بعد لمباسانس خارج کرنے پر اتنا ہی کہہ سکا۔۔ اور اپنے کمرے کی طرف جانے کو اُٹھا تو امتیاز بیگ نے روکا اور گلے سے لگا لیا۔۔ مجھے پتہ تھا میرا بیٹا میری بات کبھی نہیں ٹال سکتا مجھے فخر ہے تم پر جو بنا دیکھے میری پسند کو اپنی پسند بنا لیا اور یقین کروں میں کبھی بھی تمہارے لیے بُرا فیصلہ نہیں کروں گا۔۔ اور ہاں کل ہم بابا بلے شاہ کے مزار پر جا رہے ہیں وہ رحمان کی والدہ نےمنت مانگی تھی۔۔وہاں دیکھ بھی لینا ضویا کو اور بتانا کیسی لگی میری پسند۔۔ “
ابراہیم سر جُھکائے بہت ہی زبت سے صرف سر ہلا سکا اور کمر سے نکل گیا۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★