جب سے بخشو کے ایمان کی اجلی چادر کو تنگدستی کی سیاہی نے داغدار کیا تھا، تب سے وہ دودھ میں پانی ملانے لگا تھا۔ پہلے دن پانی ملاتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپے تھے لیکن اس کے بعد تو جیسے اس کے ہاتھ شل ہی ہو گئے۔ وہ روزانہ دودھ دوگنا کر کے شہر لے جاتا اور شام کو لوٹتا تو نوٹ اس کی جیب سے باہر جھانکتے ہوئے آسودگی کی کتنی ہی کہانیاں سنا رہے ہوتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آمدنی بڑھنے لگی۔ حالات نے ابتری کا لباس اتار کر خوشحالی کی نئی پوشاک پہن لی۔ اس کے بچوں کے چہروں سے ویرانیوں کے کھنڈرات معدوم ہوتے چلے گئے اور خوشی و طمانیت کی روشنی ان کے چہروں سے پھوٹنے لگی۔ اپنے بچوں کے زندگی سے بھرپور اور آسودہ چہرے دیکھ کر وہ سکون کی بارش میں بھیگنے لگا۔ خوشحالی کے اس راج میں اس کے چھوٹے سے مکان نے حویلی کا روپ دھار لیا اور اس کے ڈھور ڈنگروں کی تعداد بھی کہیں سے کہیں جا پہنچی اورآسودگی کے کارواں اس کی حویلی میں پڑاؤ ڈالنے لگے۔ اب یہ اس کا روز کا معمول بن چکا تھا کہ وہ صبح سویرے دودھ دوہ کر اس میں خاطر خواہ پانی ملاتا اور شہر روانہ ہو جاتا۔
حسبِ معمول آج شام کو جب وہ لوٹا تو حیرت نے اسے سکتے میں ڈال دیا۔ برآمدے کی چار دیواری کے مغربی کونے سے کانٹوں کی ایک بیل نکلی ہوئی تھی، جس پر انتہائی نوکیلے بڑے بڑے کانٹے سر نکالے کھڑے تھے۔ وہ حیرت کا چشمہ آنکھوں پر لگائے کافی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ اس نے کانٹوں بھری ایسی عجیب بیل آج تک نہیں دیکھی تھی۔ اس نے بظاہر تو اسے قدرت کا نرالا پن سمجھ کر نظر انداز کر دیا لیکن حقیقت میں یہ وحشت خیز بیل اس کے دل میں جڑ پکڑ گئی۔ آتے جاتے غیر ارادی طور پر اس کی نظر اس پر ضرور پڑتی۔ اس کی چمکتی آنکھوں میں آہستہ آہستہ پریشانی کا اندھیرا پھیلنے لگا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ بیل ناقابلِ یقین حد تک تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس کے نوکیلے کانٹے اور بھی موٹے اور بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔ اِدھر بیل بڑھ رہی تھی اور اُدھر وحشت کے کانٹے اس کی روح میں اترتے چلے جا رہے تھے۔
ایک شام جب وہ کام سے واپس آیا تو دم بخود رہ گیا، بیل دیوار کو عبور کر کے برآمدے کی چھت سے ہوتی ہوئی اُس کمرے کے روشن دان کی طرف مڑ گئی تھی، جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سوتا تھا۔ دیوار پر پھیلی بیل کے خوفناک نوکیلے کانٹے دیکھ کر اسے یوں لگا، جیسے وہاں کسی نے بڑی بڑی کیلیں ٹھونک دی ہوں۔ یہ گمبھیر صورتِ حال دیکھ کر پریشانی کسی خودرو جھاڑی کی طرح سے اس کے چہرے پر اگ آئی۔ وہ کافی دیر تک پریشانی کے عالم میں اس بیل کو دیکھتا رہا اور بالآخر اس نے چپ چاپ درانتی اٹھائی، انتہائی احتیاط سے بیل کو کاٹا اور گھسیٹ کر باہر پھینک آیا۔ کانٹوں سے چھٹکارہ پا کر دیوار بھی اسے مسکراتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اسے بہت راحت ملی اور اس نے اپنے اندر اطمینان کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، جس کی سنہری دھوپ میں وہ سکون محسوس کرنے لگا۔ عرصے بعد وہ پہلی بار رات کو بے فکری کی نیند سو یا۔ مگر صبح جب وہ اٹھا تو اس کی طمانیت کے دریا میں بھنور پڑ گئے اور وہ بھونچکا رہ گیا۔ کانٹوں کی بیل دیوار سے ہوتی ہوئی روشن دان تک پہنچی ہوئی تھی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس نے تو بیل کو کاٹ ڈالا تھا، پھر یہ کیسے اگ آئی؟ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آ سکا اور وہ حیران و پریشان کافی دیر تک بیل کو دیکھتا رہا۔ کام پر دیر ہو جانے کے خدشے کے باعث وہ اس پریشان کن صورتِ حال سے نمٹے بغیر چلا گیا۔ جب شام کو واپس آیا تو یہ دیکھ کر پریشانی کے ان گنت کانٹے اس کے چہرے پر چبھتے چلے گئے کہ بیل پہلے سے بھی زیادہ پھیل چکی تھی اور اب وہ روشن دان کے راستے کمرے کے اندر بھی جھانک رہی تھی۔ خوف کا خونخوار درندہ اس کی طرف غضبناک نظروں سے دیکھنے لگا۔ اسے جھرجھری سی آ گئی۔ ایک لمحے کی بھی دیر کئے بغیر اس نے دوبارہ بیل کو کاٹا اور باہر پھینک آیا، مگر فکر اور وسوسوں کی کنکریاں اس کے دل و دماغ پر پڑتی رہیں، جنہوں نے اسے رات کو سونے نہیں دیا۔ اس نے رات کو کئی کئی بار اٹھ کر دیوار کو دیکھا، بار بار ہاتھ پھیر کر تسلی کی کہ کہیں بیل پھر سے تو نہیں اگی ہوئی؟ مدھم خوشی کی ایک ہلکی سی لہر اس کے اندر تک دوڑتی چلی گئی، بیل کا کہیں بھی نام و نشان تک نہیں تھا۔ یہ خوش کن صورتِ حال اسے سکون کی وادیوں میں لے گئی جہاں وہ چین کی نیند سو گیا۔ مگر صبح اٹھتے ہی وحشت نے اس کے چہرے پر خوف کی کئی لکیریں کھینچ کر اسے محصور کر ڈالا۔ بیل ایک بار پھر دیوار کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ اس کی سمجھ کا بے بال و پر پرندہ ایک انچ بھی پرواز نہ کر سکاکہ یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پریشانی کا تار تار لبادہ اوڑھے وہ دودھ لے کر شہر روانہ ہو گیا۔ جب شام کو لوٹا تو وحشت کی بے شمار جونکیں اس کے جسم سے چمٹ کر اس کا خون نچوڑنے لگیں، بیل روشن دان سے گزر کر کمرے کی دیوار پر پاؤں پسار چکی تھی۔ اس نے ایک بار پھر ہمت سے کام لیتے ہوئے بیل کو کاٹا اور گھر سے بہت دور واقع ایک بے آب کنویں میں پھینک آیا۔ بیل کاٹنے کے باوجود پوری رات اندیشوں کے گدھ اس کا گوشت نوچنے کے لئے اسے گھیر چکے تھے، وہ خوف کے مارے سو نہ پایا، بلکہ اس نے اپنی چارپائی صحن میں ہی لگا دی اور پوری رات اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے برابر دیوار کو گھورتا رہا کہ آخر ایک ہی رات میں بیل کیسے اگ آتی ہے؟ جب تک وہ جاگتا رہا، ایک بھی کانٹا اسے دیوار پر نظر نہ آیا مگر کب تک وہ جاگ پاتا؟ رات کے آخری پہر میں نیند نے اسے پچھاڑ ڈالا اور وہ سو گیا۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر سویا تھا کہ اچانک اسے اپنے بچوں کے چیخنے اور کراہنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا اور سیدھا ان کے کمرے کی طرف بھاگا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو ششدر رہ گیا اور دہشت کے ان گنت ہتھوڑے اس کے دماغ پر برسنے لگے۔ اس کے لہولہان بیوی بچے درد کی شدت سے بلبلا رہے تھے۔ بیل دیوار سے اتر کر ان کی چارپائیوں اور جسموں سے لپٹی ہوئی تھی اور اس کے بڑے بڑے نوکیلے کانٹے ان کے جسموں میں اتر چکے تھے، جن سے خون کی بے شمار دھاریں پھوٹ رہی تھیں۔ وہ کانپ اٹھا۔ اس نے فوراً بیل کو کاٹا اور بہت دور جا کے زمین میں دفنا دیا۔ اس کے چہرے پر سیاہ رات چھا چکی تھی۔ اس کے بیوی بچے اس کے سامنے تکلیف میں تڑپ رہے تھے اور وہ بے بسی کی رسیوں سے بندھا سوائے انہیں دیکھنے کے اور کچھ بھی نہیں کر سکا۔ وہ بجھا بجھا سا اپنے کام پر چلا گیا۔ مگر شام کو جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کا ما تھا ٹھنکا۔ منحوس بیل ویسے کی ویسی کمرے کے اندر تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اس معمے کو سلجھا نہ پایا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بیل کو کاٹا اور اب کی بار اسے جلا دیا۔ وہ اس وقت تک وہاں کھڑا رہا، جب تک کہ ایک ایک کانٹے نے راکھ کا لباس نہیں پہن لیا۔ مگر جونہی وہ صبح اٹھا تو تکلیف کی شدت سے چیخ اٹھا، خوف کے بے شمار بچھو اس کے جسم سے چمٹے اسے ڈنک مار رہے تھے۔ بیل اسی طرح کمرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بیوی بچے خون میں لت پت تھے اور کمرہ ان کی لرزتی آہوں سے گونج رہا تھا۔ بیل کے نوکیلے خوفناک کانٹے ان کے جسموں کے آر پار اترے ہوئے تھے۔ دہشت اور پریشانی کے شعلوں میں وہ بری طرح سے جلنے لگا۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ اس نے بہت سوچا، مگر اس کی سوچ کا کاغذ کورا ہی رہا، وہ اس پر کچھ بھی تحریر نہ کر سکا۔ اس نے کئی بار بیل کو کاٹا، اسے جلایا، زمین میں دفنایا، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کئے، غرضیکہ بیل سے پیچھا چھڑانے کے کئی طریقے آزما ڈالے لیکن وہ بار بار اگ آتی اور ہر صبح اس کے بیوی بچے اس میں جکڑے اور خون میں لتھڑے ہوئے ہوتے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو اس عذاب میں تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں پریشانی کا ملگجا دھواں بھر گیا، جس نے اس کی ساری ہمت کو آلودہ کر ڈالا۔ اس مشکل وقت میں نیند کی مہربان پری بھی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ رات بھر جاگ جاگ کر اس کی صحت گرنے لگی۔ چہرہ ہلدی ہو گیا، گال اندر کو دھنس گئے، آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے اور کمزوری اس کے جسم سے چمٹ گئی۔ وہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے کسی ڈھانچے پر کھال منڈھ دی گئی ہو۔ اس کی پریشان بیوی سے اپنے شوہر کی یہ ابتر حالت دیکھی نہ گئی اور وہ اپنا دل مسوس کر رہ گئی۔ خاوند کے کام پر جانے سے پہلے وہ اس کے پاس آئی اور کہا۔
’’مجھے تو لگتا ہے کہ یہ مصیبت اس دن سے ہمارے گھر میں آئی ہے جب سے تم نے دودھ میں پانی ڈالنا شروع کیا ہے۔ ہم حق حلال کی روکھی سوکھی کھالیں گے، مگر حرام کی کمائی پر پل کر مفت کا عذاب اپنے گلے نہیں لے سکتے۔ میں کہتی ہوں ملاوٹ سے باز آ جاؤ اور اس گناہ سے توبہ کر لو۔ تم دیکھنا یہ عذاب ہمارے سروں سے خود بخود ٹل جائے گا۔ اللہ کے واسطے تم میری بات مان کر تو دیکھو۔‘‘ بیوی نے اس کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔
وہ اپنی بیوی کی بیچارگی پر تڑپ اٹھا۔ اس نے اس کی بات پر بہت سوچا اور یہ بات اس کے دل کو لگی۔ اس نے اس گناہ سے توبہ کرنے کی ٹھان لی۔ پہلی دفعہ اس کے تاریک ذہن میں روشنی کا جھماکا سا ہوا اور ہر طرف اجالا پھیل گیا۔ اس اجالے میں وہ یہ دیکھ کر دہشت زدہ رہ گیا کہ وہ خود ہی اپنے گھر میں بیل لگا رہا تھا۔ اسے جھرجھری سی آ گئی اور اس نے ملاوٹ سے ہمیشہ کے لئے سچے دل سے توبہ کر لی۔ عرصہ بعد خالص دودھ لے کروہ شہر روانہ ہو گیا۔ پہلی بار وہ اپنے آپ کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے مدتوں سے اس کے سینے پر رکھا بہت بڑا پتھر ہٹ گیا ہو۔ اپنے پہلے دکاندار کے پاس پہنچ کر اس نے کہا
’’بھئی شیدو! آج میں بالکل خالص دودھ لایا ہوں۔ حرام ہے جو پانی کا ایک قطرہ بھی ملایا ہو، اور اب اسی طرح ہی خالص دودھ لایا کروں گا، ملاوٹ سے میں نے توبہ کر لی ہے۔‘‘ شیدو اس کی بات سن کر حیران رہ گیا
’’واہ بخشو بھئی واہ! کیا تبدیلی آئی ہے تمہارے ایمان میں، کمال ہے۔ مگر بخشو بھئی! میں تو اس دن سے ہی پانی ملا دودھ بیچتا آ رہا ہوں، جب تم مجھے شروع دنوں میں خالص دودھ دیا کرتے تھے۔ اب تو میرے گاہکوں میں میرا ایک نام بن چکا ہے۔ انہیں خالص دودھ بیچ کر میں اپنے کاروبار کا بیڑا غرق نہیں کر سکتا، اور ویسے بھی میں نے اپنا بھرا پرا گھر چلانا ہے، اگر اسی طرح خالص دودھ بیچتا رہا تو کمائی ہو چکی۔ کیا سمجھے بخشو بھئی؟‘‘
دکاندار نے بخشو سے دودھ سے بھرا برتن لیتے ہوئے کہا۔ بخشو اسے سمجھانا چاہتا تھا کہ یہ ایک غلط کام ہے، جس کی بہت بھیانک سزا ملتی ہے۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ سمجھانے سے کہیں وہ بگڑ ہی نہ جائے اور اس سے دودھ لینا بند نہ کر دے۔ وہ وہاں سے چپ چاپ رخصت ہو گیا۔ اس نے سبھی دکانداروں کے پاس جا کر یہی بات کی۔ بخشو کی بات پر سب کے سب دکاندار حیران تھے۔ ان میں سے بیشتر نے تواس پر قہقہے بھی لگائے۔ یہ وہ دکاندار تھے جن کو بخشو نے ہی پانی ملا دودھ بیچنے کی ترغیب دی تھی۔ مگر اب کوئی بھی دکاندار خالص دودھ بیچنے کو تیار نہیں تھا اور انہوں نے بخشو کو بھی صاف صاف کہہ دیا تھا۔ جس پر بخشو صرف خاموش ہی رہا اور ان سے کوئی بات نہ کی۔ شام کو وہ اطمینان کے ساتھ جونہی گھر میں داخل ہوا تو ٹھٹھک کر ڈیوڑھی میں ہی رک گیا۔ بیل اسی طرح سے چھت کے راستے روشن دان کے اندر داخل ہو رہی تھی۔
٭٭٭