شریف کے ماں باپ کے لڑنے جھگڑنے کی تیز و تند آوازیں عقاب بن کر شریف پر جھپٹیں، جو نیند کا لحاف اوڑھے سو رہا تھا۔ اس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں اور فوراً اٹھ بیٹھا۔ شاید وہ دیر تک سویا رہتا اگر دیگچی کے گرنے اور اس کے لڑھکنے کے بے ہنگم شور کا خنجر اس کی نیند کی چادر کو تار تار نہ کر ڈالتا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور جلدی جلدی آنکھیں ملتا ہوا ننگے پاؤں ہی کمرے سے باہر نکل گیا۔ اسے حویلی کے وسط میں چائے کی دیگچی اوندھی پڑی نظر آئی اور ساتھ ہی دمدار ستارے کی طرح ایک لمباسا گیلا دھبہ دکھائی دیا، جو یقیناً چائے کا تھا، جسے حویلی کے کچے فرش نے اپنے سینے میں اتار لیا تھا اور اس میں سے ہلکی ہلکی بھاپ ابھی تک اٹھ رہی تھی۔ اس کی چھوٹی بہن برآمدے میں چارپائی پر بیٹھی تلاوت کر رہی تھی اور اس کے ماں باپ چولہے کے قریب بیٹھے حسبِ عادت لڑ رہے تھے۔
’’میں نے تم سے زیادہ نکھٹو اور نکمی عورت نہیں دیکھی۔ تم سے ٹھیک طرح سے چائے بھی نہیں بنائی جا سکتی۔ اسے تم چائے کہتی ہو؟ نِرا پانی گرم کر کے منہ پر دے مارا ہے۔ نہ رنگ، نہ روپ، نہ ذائقہ۔ صبح ہی صبح دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ تمہاری کام چوری کی وجہ سے آج پھر مجھے خالی پیٹ ہی کام پر جانا پڑے گا۔ تم نے ہمیشہ میرے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ کام سے لوٹوں یا جاؤں، کبھی تم نے ڈھنگ کا کھانا نہیں دیا۔ جانوروں کی طرح کماتا ہوں، مگر تمہیں ذرا بھی احساس نہیں۔ تم عورت نہیں، جلاد ہو جلاد۔ مجال ہے جو رتی بھر خاوند کی فکر ہو۔‘‘ اس کے باپ نے کاٹ دار لفظوں کے زہریلے تیر اس کی ماں کی روح میں اتار دیئے۔
’’اگر جانوروں کی طرح کما کر لاتے ہو تو میری تلی پر تو نہیں رکھتے نا۔۔۔؟ سب کچھ جوئے میں ہی اڑا دیتے ہو۔ کبھی روپے آدھ کی کوئی چیز لائے ہو تو بتاؤ۔ ایک تو خرچے کے پیسے نہیں دیتے ہو اور اوپر سے پکی پکائی میں سے کیڑے نکالتے ہو۔ اگر گھر کا کھانا پینا اتنا ہی زہر لگتا ہے تو ہوٹل کے کھانے چاٹ کر آیا کرو، یہاں میرا دماغ مت چاٹا کرو۔ اگر میں کشیدہ کاری سے ہاتھ کھینچ کر آرام سے بیٹھ جاؤں تو دیکھتی ہوں کہ تمہیں کیسے پکی پکائی ملتی ہے؟ ایک تو محنت مزدوری کر کے گھر کو سنبھال رکھا ہے اور اوپر سے تمہاری کڑوی کسیلی باتیں سن سن کر دماغ پکنے لگتا ہے۔ نہ بیوی کی کوئی قدر، نہ حق حقوق کی باتیں، نہ اولاد کی کوئی پرواہ، نہ گھر کی کوئی خیر خبر کہ کیسے دن گزر رہے ہیں؟ خرچہ کس طرح پورا ہوتا ہے؟ کس نے کیا کھایا ہے؟ بس آ جاتے ہو پکی پکائی پر مشٹنڈوں کی طرح، جواری کہیں کا۔‘‘
اس کی ماں نے حلق کے زور پر چنگھاڑتے ہوئے کئی پٹاخے ایک ساتھ چھوڑ دئیے۔ وہ ماتھے پر کپڑا باندھے چولہے پر بیٹھی تھی اور دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھام رکھا تھا۔ اس کے سامنے رکھے کشکول میں آٹے کے تین چار پیڑے گندھے پڑے تھے۔ چولہے پر خالی توا چڑھا ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف سے آگ کی لپٹیں لمحہ بھر کے لئے باہر جھانک کر دوبارہ اندر منہ چھپا لیتی تھیں۔
’’خبر دار، جو تم نے پھر مجھے جواری کہا۔۔۔۔ ورنہ چٹیا سے پکڑ کر گھر بھر میں گھسیٹوں گا۔ اپنی زبان مٹھی میں دبا کے رکھ بد معاش خاندان کی بدمعاش رن۔‘‘
اس کے باپ نے بھی غصے سے پھنکار کر دائیں ہاتھ کی انگلی اس کی ناک کے قریب لے جاتے ہوئے کہا۔ اس کا غصہ اور اس کی منتشر حالت دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ ابھی اپنی بیوی کو چیر پھاڑ کے رکھ دے گا۔
’’خبردار، جو میرے خاندان پر کوئی بات کی۔ تم اپنے خاندان کی خبر لو۔ ہفتہ بھر سے تمہارا بڑا بھائی جیل میں بند پڑا اپنے خاندان کی جو ناک ناموس اونچی کر رہا ہے، وہ سب جانتے ہیں۔ خاندان کا ہر فرد ایک سے بڑھ کر ایک لوفر لفنگا اور ہر وقت مرنے مارنے پر تیار۔ پتہ نہیں میرے باپ نے کیا چیز دیکھ کر مجھے تمہارے پلے باندھ دیا تھا۔ میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔ نہ شکل و صورت، نہ سیرت، نہ اخلاق، نہ تعلیم، نہ خاندان۔ میری جگہ کوئی اور ہوتی تو ایک دن سے زیادہ نہ ٹک پاتی۔۔۔۔۔ کب کی یہاں سے دفع ہو چکی ہوتی۔‘‘ اس کی ماں نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔ اس کی آواز اب رندھ گئی تھی اور آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں، اب بھی وقت ہے دفع ہو جاؤ۔ روکا کس نے ہے تمہیں۔ جب سے اس گھر میں تمہارے منحوس قدم پڑے ہیں، گھر جہنم میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ایسے گھر سے تو کسی فٹ پاتھ کا کونا پکڑ لوں، تو کم از کم چین کی نیند تو نصیب ہو گی۔‘‘
اس کے باپ نے چیختے ہوئے کہا۔ تھوک اس کے ہونٹوں کے کناروں پر جھاگ بن کر نکل آیا تھا اور غصے کا پرندہ اس کے سر پر پھڑ پھڑا رہا تھا۔
وہ دونوں شریف سے بالکل بے خبر لفظوں کے تھپڑ پوری قوت سے ایک دوسرے کی روح پر جڑ رہے تھے۔ شریف جانتا تھا کہ ان کی یہ بیگانگی حسبِ معمول تھی۔ جب وہ لڑنے پر آتے تو انہیں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ جھگڑ وہ رہے تھے مگر اذیت کا بچھو شریف کو ڈس رہا تھا۔ وہ کربناک حالت میں غصے کے پسینے میں شرابور انہیں گھورے جا رہا تھا جو اس سے بے نیاز لڑائی کی دلدل میں گردن تک ڈوبے ہوئے تھے۔
’’کسی دن یہاں سے دفع ہو کر تمہارا یہ ارمان بھی پورا کر دوں گی۔ تم جیسے بے قدرے سے اس کے علاوہ اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے؟ ایک تو ساری عمر تمہارے ساتھ غربت کی جھلسا دینے والی دھوپ تاپی۔ جس حال میں بھی تم نے رکھا، اف تک نہ کیا۔ نہ کبھی کوئی فرمائش کی، نہ تنگدستی کی شکایت۔ تمہارا ہاتھ بٹانے کے لئے راتیں آنکھوں میں کاٹیں اور کشیدہ کاری کر کے گھر کی ڈانواں ڈول گاڑی کو کھینچا۔ اور نتیجہ یہ کہ اوپر سے کوئی نام نیکی نہیں۔ ساری عمر سوائے مار پیٹ، گالم گلوچ اور ذلالت کے تم نے مجھے دیا کیا ہے؟‘‘
اس کی ماں نے روہانسی اور لرزتی آواز میں کہا اور ساتھ ہی اس کی سسکیاں گھر بھر میں گونجنے لگیں۔ وہ آنسو بھی بہا رہی تھی اور بار بار چنی کے پلو سے اپنی آنکھیں بھی پونچھ رہی تھی۔ شریف جانتا تھا کہ ان کی لڑائی کا اختتام ہمیشہ اس کی ماں کے رونے پر ہوتا تھا۔ حقیقت میں اس کی ماں کا رونا اس کے باپ کی شکست کا ڈنکا ہوتا اور ایسے موقع پر وہ چپ چاپ گھر سے نکل جاتا۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا باپ ایک جھٹکے سے اٹھا اور صحن میں اوندھے منہ گری دیگچی کو ایک زوردار ٹھوکر مارتے ہوئے گھر سے چلا گیا۔ شریف نے اپنی بہن کی طرف دیکھا جو قرآن بند کئے، اپنے چہرے کو ہتھیلیوں پر رکھے کسی سوچ میں گم بیٹھی تھی۔ یقیناً اسے بھی صبح صبح کی لڑائی نے رنجیدگی کے دشت میں لا کھڑا کیا تھا۔ شریف چند لمحے آنسو بہاتی اپنی ماں کو بے بسی سے دیکھتا رہا اور پھر ہاتھ منہ دھو کر بِنا ناشتہ کئے چپ چاپ اپنے کام پر چلا گیا۔
شریف نے بچپن سے ہی اسی ابتر اور ناگوار ماحول کی آلودہ آب و ہوا اپنی سانسوں میں اتاری تھی۔ اسے جب سے شعور نے گود لیا، اس نے اپنے والدین کو لڑائی جھگڑے کے کیچڑ میں لت پت دیکھا۔ ان کی آپس میں کبھی نہیں بن سکی تھی۔ اس کا باپ بلا کا جواری تھا۔ جو کچھ کماتا، جوئے میں ضائع کر دیتا۔ کبھی کبھار گھر سے بھی پیسے چوری کر لیتا جو اس کی ماں کی کشیدہ کاری کی اجرت ہوتی۔
شریف کو اس بات کا ادراک تھا کہ ساری عمر غربت کا کڑوا اور بدبو دار پانی پیتے پیتے ان کے والدین کے حوصلوں کی آ ہنی دیوار زنگ آلود ہو گئی اور غربت چڑ چڑے پن کا روپ دھار کر ان دونوں کے اندر حلول کر گئی تھی۔ اب وہ اس حال کو آ پہنچے تھے کہ لمحہ بھر کے لئے بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ بلکہ اب تو لڑائی کا سانپ کنڈلی مارے ہر لمحہ اس کے گھر کی دہلیز پر بیٹھا رہتا۔ وہ خود والدین کی محبت و شفقت کی بارش تلے نہیں نہا سکا تھا۔ شاید اس لئے اس کی روح ہمیشہ سے بنجر اور پیاسی رہی تھی۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا مگر وہ آٹھویں سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ گھر کے بے رحم حالات نے اس کے ہاتھ سے کتابیں چھین کر اسے ایک پرنٹنگ پریس پر لا کھڑا کیا، جہاں وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ کام کرتے کرتے اب بائیس سال کی عمر کو آ پہنچا تھا۔ باپ کی سخت اور جھگڑالو طبیعت کی وجہ سے اسے کبھی بھی اپنے باپ سے محبت نہیں ہو سکی تھی۔ البتہ کبھی کبھار اپنی ماں کو وہ گھر کے ابتر حالات اورسوگوار ماحول کا آئینہ ضرور دکھاتا رہتا۔ مگر جب اس کی ماں اس کے باپ کے ہتک آمیز رویے اور اس کے ساتھ گزری زندگی کی تصویریں اس کے سامنے رکھتی تو وہ اپنی تمام تر ہمدردیاں اپنی ماں کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا۔ لیکن دونوں کی لڑائی میں اس نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ ایک بار اس نے اپنی ماں کی ہمدردی میں اپنے باپ سے آنکھیں نکال کر بات کی تو ماں نے الٹا اسے ہی ایک زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا تھا، جس کی گونج آج بھی اس کے کانوں میں قید تھی۔ تب سے آج تک پھر اس نے کبھی ان کی لڑائی اپنے اوپر طاری نہیں کی تھی اور ہر وقت اپنے اوپر چپ کی چھتری تانے رکھتا۔ وہ صبح سویرے کام پر روانہ ہوتا اور رات گئے واپس آتا۔
شاید رات گیارہ بجے کا عمل تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔ شریف اپنے کمرے میں رضائی اوڑھے سو رہا تھا۔ اس کی ماں اور بہن دوسرے کمرے میں ایک ہی چارپائی پر سو ئی ہوئی تھیں۔ اس کی ماں تھوڑی دیر پہلے ہی کشیدہ کاری سے فارغ ہو کر لیٹی تھی، مگر ابھی تک پوری طرح سوئی نہیں تھی۔ دو تین بار کی دستک کے بعد وہ ناگواری سے اٹھی اور بغیر کسی پوچھ پریت کے جا کر دروازہ کھول دیا۔ وہ جانتی تھی کہ دروازے پر اس کا نکما خاوند ہی ہو گا۔ جس نے اندر داخل ہوتے ہی اس سے بگڑے ہوئے لہجے میں کہا
’’مجھے دو سو روپے کی سخت ضرورت ہے۔ تم مجھے پیسے دے دو، ایک دو دنوں میں تمہیں لوٹا دوں گا۔‘‘ سردی بھاپ بن کر اس کے منہ سے نکل رہی تھی۔
’’میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔
’’تمہیں کہہ رہا ہوں نا کہ ایک دو دنوں میں واپس کر دوں گا۔‘‘ اس کے خاوند نے غصے میں کہا، جس کے لفظ لفظ میں تلخی گردش کر رہی تھی۔
’’میں نے کہہ جو دیا ہے کہ ایک روپیہ بھی نہیں ہے میرے پاس، تو پھر کہاں سے لاؤں۔۔۔؟‘‘ اس نے اسی طرح بے رخی سے کہا اور دوبارہ لحاف میں دبک گئی۔
’’دن رات کماتی ہو۔۔۔ آخر جا تا کہاں ہے تمہارا پیسہ۔۔۔؟‘‘ اس کے خاوند نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔
’’دن رات اگر محنت کرتی ہوں تو تم لوگوں کے پیٹ کا ہی جہنم بھرتی ہوں۔ اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ کما کما کر تمہارے ہاتھ پر رکھتی رہوں اور تم جوئے میں اڑاتے رہو۔‘‘ اس نے خاوند کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔
’’میں تمہارا مجازی خدا ہوں مگر ٹکے کی بھی حیثیت نہیں ہے میری اس گھر میں۔ تمہیں میری کوئی پرواہ نہیں۔ آخر میرے بھی کچھ حقوق ہیں تم پر۔۔۔۔ کبھی خیال آیا ہے تمہیں۔۔۔۔؟‘‘ اس کے خاوند نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
اس شور و غل میں ان کی بیٹی کی آنکھ کھل گئی۔ معاملہ بھانپتے ہی وہ سہمی سہمی اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔
’’میں نے ہمیشہ تمہارا خیال رکھا ہے اور شروع دن سے ہی تمہاری ضرورتیں پوری کر رہی ہوں، مگر جواب میں تم نے مجھے کیا دیا؟ مار پیٹ، بے عزتی، گالیاں، ذلالت۔ کیا ایک بیوی کے یہی حق حقوق ہوتے ہیں۔۔۔؟‘‘ اس نے چنگھاڑتے ہوئے اپنے خاوند کو جواب دیا جو غیض و غضب کی تصویر بنا اس کے سر پر کھڑا تھا۔
’’میں یہاں تمہاری بکواس سننے نہیں آیا۔ سیدھی طرح سے پیسے نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دو۔‘‘ اس نے بدستور غصیلے لہجے میں پھنکارتے ہوئے کہا۔
غصے کی شدت سے وہ لال انگارہ بنا ہوا تھا۔ اس کے بگڑے تیور دیکھتے ہوئے اس کی بیٹی سہم کر اپنی ماں کے پہلو میں دبک گئی۔
’’میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہہ رہی ہوں کہ تمہیں دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ اس نے بے نیازی سے جواب دیا۔
’’تم اس طرح سے نہیں مانو گی۔ اٹھو اور شرافت سے مجھے پیسے دو۔‘‘
اس نے چلا کر کہا اور اپنی بیوی کا دایاں ہاتھ پکڑتے ہوئے ایک جھٹکے سے اسے رضائی سے باہر گھسیٹ ڈالا۔
’’چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔۔ کوئی حرام کی کمائی نہیں ہے میری جو تمہیں اٹھا کر دے دوں، جاؤ دفع ہو جاؤ۔‘‘
اس نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا اور اپنے آپ کو سنبھا لا، جو چارپائی سے نیچے لڑھک گئی تھی۔
’’میں آخری بار تم سے کہہ رہا ہوں، مجھے پیسے دے دو، ورنہ بہت برا ہو گا تمہارے لئے۔‘‘ اس نے حلق کے زور پر دھاڑتے ہوئے کہا۔ وہ اس کے سر پر جلاد بن کر کھڑا تھا۔
’’تم چاہے جو بھی کر لو۔ میں تمہیں پھوٹی کوڑی بھی نہیں دوں گی۔‘‘ اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔
اس کا یہ جواب سن کر وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اگلے ہی لمحے کمرے میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ اس نے غصے میں پاگل ہو کر اپنی بیوی کو چٹیا سے پکڑ کر چارپائی سے گھسیٹتے ہوئے نیچے زمین پر پٹخ دیا اور اس پر تھپڑوں لاتوں کی بارش کر دی۔ اس کی بیٹی اپنی ماں کواس طرح بے دردی سے پٹتے دیکھ کر تڑپ کر اٹھی اور ایک زوردار چیخ مار کر اپنی ماں سے لپٹ گئی۔ کمرے میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ اس کی اپنی چیخ و پکار۔۔۔۔ اس کے خاوند کا غیض و غضب اور اس کی بیٹی کی درد بھری آہ و بکا نے کمرے کو ماتم کدہ بنا ڈالا۔ شاید وہ دیر تک مار کھاتی رہتی، اگر شریف دوڑتا ہوا آ کر اپنے باپ کو دھکا نہ دیتا۔ اس کا باپ گرتے گرتے بچا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو سامنے غصے کی شدت سے ہانپتا ہوا شریف کھڑا تھا۔
’’الو کا پٹھا۔۔۔۔ باپ پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔‘‘ اس نے غصے سے دھاڑتے ہوئے کہا اور شریف کو زور دار دو تھپڑ جڑ دئیے اور سرکے بالوں سے پکڑ کر چارپائی پر پٹخ دیا۔ پھر غصے سے پھنکتا اور گالیاں نکالتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ ماں نے خوف سے کانپتی اپنی بیٹی کو سینے سے لگا تے ہوئے شریف کو دیکھا جو چارپائی پر اوندھے منہ گرا پڑا تھا اور اس کا وجود کانپ رہا تھا شاید وہ رو رہا تھا۔ اس کی ماں اپنے اور اپنی بیٹی کے آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھی اور شریف کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ اس نے اسے اٹھایا اور پیار کرتے ہوئے اسے اپنے کمرے میں بھیج دیا۔ وہ بے بسی سے آنسو بہاتی اپنی ماں کو رحم بھری نظروں سے دیکھتا ہوا چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ پھر وہ اپنی کانپتی ہوئی بیٹی کو سینے سے لگا کر لحاف میں دبک گئی۔ اس کی بیٹی کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ لگتا تھا اچھل کر باہر آ گرے گا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی سسکیاں کمرے میں ابھی تک گونج رہی تھیں۔ وہ اپنی بیٹی کو نہایت ملائمت اور شفقت سے سہلانے لگی۔ مگر خود اس کے اپنے دل و دماغ میں کہرام مچا ہوا تھا۔ اسے اپنے خاوند پر بے پناہ غصہ آ رہا تھا، جس نے اسے کپاس کی طرح دھن ڈالا تھا۔ کتنی ہی دیر تک وہ اپنے خاوند کے ایسے سنگدلانہ رویے پر کڑھتی رہی اور دل ہی دل میں اسے ڈھیروں کوسنے دیتی رہی۔ آنسوؤں نے اس کی آنکھوں کو مسکن بنایا ہوا تھا، اور سوچوں نے اس کے دل و دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ سوچتے سوچتے اچانک وہ ماضی کے حصار میں داخل ہو گئی۔ ماضی کے سالہا سال پھلانگتے پھلانگتے اس کی نظروں میں اس کے ماں باپ کے چہرے ابھر آئے۔ وہ بھی تو ہر وقت لڑتے رہتے تھے۔ اس کا باپ نشہ کرتا تھا، اس کی یہی عادت اس کی ماں کو پسند نہیں تھی اور دونوں کے درمیان ہر وقت ایک جنگ چھڑی رہتی۔ جب وہ بیاہ کے آئی تو یہاں کے حالات بھی اس کے اپنے گھر جیسے ہی تھے۔ صرف منظر اور کردار تبدیل ہوئے تھی، باقی کہانی وہی تھی۔ اپنے خاوند کے ساتھ گزرے دنوں کی تمام تلخیاں اس کی آنکھوں میں اتر آئیں اور زندگی کی محرومیاں تپتی سلاخیں بن کر اس کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ اپنے ماں باپ کی لڑائی، پیار محبت کی محرومی، احساسِ کمتری، خاوند کا جابرانہ رویہ، اس کی گالم گلوچ اور مار پیٹ اس کے ذہن پر سوار ہو گئی۔ وہ سالہا سال سے ایسی زندگی جیتے جیتے اکتا گئی تھی۔ ایسی ذلت بھری زندگی آخر کب تک؟ اس کے ذہن میں سوال ابھرا، مگر جواب اسے ذہن کے کسی بھی گوشے سے نہ مل سکا۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ مستقبل کی دہلیز تک آ پہنچی مگر وہاں بھی اسے دور دور تک گھنگور اندھیرے نظر آنے لگے اور کہیں کوئی کرن نہیں تھی۔ وحشت خیز اندھیرے دیکھ کر وہ ڈر گئی اور اس کا دم گھٹنے لگا۔ سینے میں حبس بھر گیا اور دھڑکن رکنے لگی۔ اسے ایسے پرہول مستقبل سے خوف آنے لگا۔ وہ بے حال ہو گئی، اس کے اندر سے بے چینی کی بے شمار چیونٹیاں نکل کر اس کے جسم پر پھیل گئیں اور جگہ جگہ اسے کاٹنے لگیں، اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے جسم میں ڈھیروں سوئیاں چبھو دی ہوں۔ وہ اذیت سے تڑپ اٹھی۔ اس نے چاروں طرف دیکھا، دور دور تک اسے نہ کوئی ہمدرد نظر آیا اور نہ ہی بچاؤ کا کوئی راستہ دکھائی دیا۔ بے چینی کے اس عذاب کو جھیلتے جھیلتے وہ اندر سے ٹوٹ کر بکھر گئی۔ نجات کے تمام راستے اوجھل تھے۔
اچانک اس کے دل میں ایک خیال نے ننھی سی چٹکی لی اور لمحہ بھر میں اس خیال نے دھوئیں کی طرح پھیل کر اس کے دل و دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ ایک عجیب سی راحت محسوس کرنے لگی۔ خود کشی کے خیال نے اس کے انگ انگ میں سکون کی انگنت لہریں دوڑا دیں۔ اس نے دیکھا کہ ایک طرف زندگی کی پریشانیوں کی لامحدود ٹیڑھی میڑھی تاریک پگڈنڈیاں بچھ رہی تھیں اور دوسری طرف ان پگڈنڈیوں سے چھٹکارے کی چھوٹی سے امید۔۔۔ خود کشی کا راستہ اپنی بانہیں کھولے اسے بلا رہا تھا۔ اس نے پریشانیوں کی پگڈنڈیوں کو دیکھا، جو ہر لمحہ الجھتی جا رہی تھیں اور ہر پگڈنڈی پر ببول کے بڑے بڑے نوکیلے کانٹے سر نکالے کھڑے تھے۔ وہ کانپ گئی۔ اس نے خودکشی کا راستہ دیکھا۔ انتہائی مختصر اور بالکل صاف۔ اسے اس راستے پر چلنا بہت آسان لگا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اسی راستے پر چلے گی۔ وہ فوراً تیار ہو گئی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ رات کا کون سا پہر ہے۔ اس کے خاوند کی چارپائی ابھی تک خالی پڑی تھی۔ اس کی بیٹی بھی پتہ نہیں سسکیاں بھرتے بھرتے کب کی سو چکی تھی۔ وہ جانے سے پہلے کتنی ہی دیر تک اپنی بیٹی کوافسردہ نظروں سے دیکھتی رہی، جس کے اداس چہرے پر معصومیت پر پھیلائے سو رہی تھی۔ ان آخری لمحات میں اس نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنی بیٹی کو خوب پیار کیا۔ اس نے اسے درجنوں بوسے دے ڈالے۔ آخری نشانی کے طور پر اس نے اپنی بیٹی کے گالوں پر اپنے گرم گرم آنسوچھوڑے۔ اس نے ایک تاسف بھری نظر اپنی بیٹی پر ڈالی اور اپنی آنکھیں پونچھتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب اس کے اور خودکشی کے راستے کے درمیان کوئی حائل نہیں تھا۔ جو اس کی تمام پریشانیوں کی بدلے اسے ابدی سکون دینے والا تھا۔ آگے بڑھتے بڑھتے پتہ نہیں کہاں سے شریف کو آخری بار دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں بیدار ہوئی، وہ چلتے چلتے رک گئی۔ واپس مڑی اور دھیرے دھیرے شریف کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ بند کواڑوں کے سامنے جا کر ایک پل کے لئے رکی۔ اسے ڈر تھا کہ ذرا سا کھٹکا اس کے اور خود کشی کے راستے میں آ ہنی دیوار کھڑی نہ کر دے۔ اس نے نہایت آہستگی سے دروازہ کھولا۔ جونہی وہ اندر داخل ہوئی، اچانک دہشت کا ایک بہت بڑا عفریت پوری قوت سے اس کے اوپر جھپٹا اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑی۔ شریف پنکھے کے ساتھ بندھی رسی سے کمرے کے بیچوں بیچ لٹکا ہوا تھا۔
٭٭٭