طاہر کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اُس کا محلے دار، ہمجولی اور اُس کا دوست سلیم ایک روز موت کو اپنے گھر بُلا کر چپ چاپ اُس کی انگلی تھامے یوں چلا جائے گا۔ وہ کتنی ہی دیر تک ملول چہرہ لئے اس کے زرد چہرے پر نظریں گاڑے بیٹھا رہا۔ سامنے پڑی سلیم کی لاش دیکھ کر بھی اسے یقین نہیں آیا کہ وہ ایک ایسے جہاں میں قدم رکھ چکا تھا جہاں صرف موت کی حکمرانی تھی۔ سلیم کی خودکشی نے اسے اندر سے چیر کے رکھ دیا۔ وہ اشکبار آنکھوں کے ساتھ اس کے گھر کے باہر سر جھکائے کھڑا تھا جہاں محلے کے اور افراد بھی جمع تھے۔ سلیم کے گھر میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی جہاں آہوں، سسکیوں اور چیخ و پکار کی شدید بمباری ہو رہی تھی۔ ہر آنکھ اشکبار اور ہر چہرہ اترا ہوا تھا۔ سلیم کی ماں پر غم کا اتنا بڑا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ اس کے حواس کچلے گئے۔ وہ سلیم کی لاش کے ساتھ لپٹ لپٹ جاتی اور بار بار طاہر کا گریبان پکڑ کراسے جھنجھوڑتے ہوئے چیخنے لگتی کہ
’’تم کیسے دوست ہو۔۔۔؟
میرا سلیم۔۔۔ میرا لعل چلا گیا اور تم نے اسے جانے دیا۔۔۔؟
تم نے اسے روکا کیوں نہیں۔۔۔؟
اس سے پوچھا کیوں نہیں؟
تم نے اسے کیوں جانے دیا۔۔۔۔؟
بولو نا۔۔۔۔ تم بولتے کیوں نہیں۔۔۔؟
تم کیسے دوست ہو۔۔۔۔؟
تم۔۔۔۔۔‘‘
طاہر کے لئے وہاں مزید رکنا مشکل ہو گیا اور وہ اس کی ماں اور بہنوں کو تڑپتا ہوا چھوڑ کر آنکھوں میں برسات لئے گھائل روح کے ساتھ باہر نکل آیا۔ سلیم کا ہلدی چہرہ اس کی آنکھوں میں گڑ گیا۔ اس کی اچانک خودکشی نے اس کے منہ پر کئی تھپڑ رسید کر دیئے اور وہ جیسے گہری نیند سے تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ طاہر آج تک یہی سمجھتا رہا کہ ایک بڑی سیاسی پارٹی سے وابستگی اور اپنے کالج کا سرگرم عہدیدار ہوتے ہوئے وہ لوگوں کے لئے دن رات کام میں لگا ہوا ہے اور سماج میں تبدیلی لانے کے لئے انتھک محنت کر رہا ہے مگر پڑوس میں رہنے والے اپنے دوست سلیم کی خودکشی نے اس کی آنکھیں کھول کر اسے شرمندگی کی دلدل میں دھنسا کے رکھ دیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی کہ وہ تو ابھی تک اپنے محلے میں ہی تبدیلی نہیں لا سکا معاشرے کی تبدیلی تو کوسوں دور کی بات تھی۔
اسے سلیم کے ساتھ گزرے دن یاد آنے لگے۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی جس نے غربت کے ڈھیر پر جنم لیا۔ اس کا شرابی باپ کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر دلالی کیا کرتا۔ اسی وجہ سے گھر میں ہر وقت جنگ جاری رہتی۔ سلیم کی ماں اس کی آنکھوں میں ٹپکتی شیطانیت دیکھ کر شدید ڈر گئی تھی اور بیٹیوں کی فکر نے اس کی نیندیں چھین لی تھیں۔ گھر میں دن رات کی لڑائی اور سخت مزاحمت کی وجہ سے اس کا باپ کہیں اور رہنے لگا تھا مگر جب بھی وہ گھر آتا تو لڑائی کا بازار گرم ہو جاتا۔ باپ کے غلیظ کام نے سلیم کو اس کے ساتھ نفرت کے رشتے میں باندھ دیا اور باپ ہونے کے باوجود وہ گھر میں اس کا وجود برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اسی کی وجہ سے ہی ان سب کو معاشرے میں چبھتی ہوئی نگاہوں کا سامنا رہتا۔ وہ اپنے حالات سے تنگ اور زندگی سے بہت دلبرداشتہ تھا۔ یہ طاہر ہی تھا جس نے اسے ہمیشہ زندگی کے چمکتے پہلو دکھا کر تاریک حالات سے لڑنے کی راہ دکھائی تھی۔ مگر اچانک ہی موت نے سلیم کے گھر پر چھاپہ مار کر سب کچھ ختم کر دیا۔ اس حادثے نے اسے توڑ کے رکھ دیا اور وہ اپنے دوست کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکا۔ مگر سلیم اجل کے سفر پر روانہ ہو کر اسے بہت بڑا سبق دے گیا کہ محض جھوٹی تسلیوں، دلاسوں اور کھوکھلے خوابوں سے نہ کسی کی زندگی کٹ سکتی ہے اور نہ ہی حالات بدل سکتے ہیں۔
اب اس نے کاندھوں پر دوہری ذمہ داری لے کر سلیم کے خواب بھی اپنی آنکھوں میں سجا لئے۔ طاہر جانتا تھا کہ وہ معاشرے کی آنکھوں میں اپنے اور گھر والوں کے لئے عزت کا شہر بسا دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے بھی طے کر لیا کہ وہ سلیم کا یہ ادھورا شہر ہر آنکھ میں تعمیر کرے گا۔ سلیم کے پڑھائے ہوئے سبق نے اس کے اندر ایک انقلاب جگا دیا اور اب وہ عملی طور پر اپنے کاموں میں مگن ہو گیا۔ مگر وہ سلیم کے گھر والوں سے غافل نہیں ہوا تھا۔ باپ کے ساتھ دکان پر ہاتھ بٹانا، کالج کی پڑھائی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود وہ ان کی برابر خبر گیری کرتا اور ان کے معاملات میں ان کا ساتھ دیتا۔ وہ جانتا تھا کہ سلیم کا باپ کسی بھی وقت ان پر آفت بن کر نازل ہو سکتا ہے۔ خود سلیم کی ماں نے بھی اس سے روتے ہوئے کہا تھا
’’بیٹا۔۔۔ مجھے دن رات اپنی بیٹیوں کی فکر چاٹے جا رہی ہے۔ میں ڈرتی ہوں کہ ان کا باپ کسی بھی وقت ہمارے سروں پر آ دھمکے گا۔ سلیم نے میری ساری فکریں سنبھال رکھی تھیں۔ اب تو تم ہی ہمارے سلیم ہو اور تم سے ہی ساری امیدیں ہیں۔‘‘
وہ جاڑے کی ایک سرد ترین رات تھی جب آدھی رات کو طاہر کا دروازہ دھڑا دھڑا پیٹا جانے لگا۔ سب گھر والے اس اچانک افتاد پر اٹھ بیٹھے۔ جب طاہر اپنے باپ کے ساتھ دروازے پر پہنچا تو وہ سامنے سلیم کی ماں کو دیکھ کر حیران رہ گئے جس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔
’’وہ سلیم کا باپ اور اس کے آدمی میری بیٹیوں کے ساتھ۔۔۔۔‘‘ اس نے کانپتی آواز میں کہا اور غم کی شدت سے بات اس کے حلق میں ہی کہیں اٹک کر رہ گئی۔
طاہر اور اس کا باپ اس کے گھر کی طرف بھاگے۔ وہاں جا کے دیکھا تو سلیم کے باپ کے ساتھ دو اور آدمی نشے میں دھت اس کمرے میں گھسے ہوئے تھے جہاں وہ سب سوتے تھے۔ چاروں بہنیں سہمی ہوئی ایک دوسرے میں گھسی اپنے ہی آنسوؤں میں بہی جا رہی تھیں۔ طاہر کو دیکھتے ہی وہ سب ’’بھیا۔۔۔ بھیا‘‘ کہتی ہوئیں اس سے آ کر لپٹ گئیں۔ خوب لے دے کے بعد طاہر اور اس کے باپ نے ان تینوں کو گھر سے نکال دیا۔ اندھیروں کے دامن سے پھوٹنے والے اس حادثے نے سب کو ہلا کے رکھ دیا۔ سلیم کی ماں تو جیسے دہل کر رہ گئی مگر طاہر سلیم کا روپ دھار کر ان سب کو حوصلوں کی پناہ میں لے آیا۔ اس واقعہ نے طاہر کی آنکھوں میں ایسے منظر کھینچ دیئے کہ جس میں اسے معاشرے کا ننگا پن صاف نظر آنے لگا۔ تہذیب کے پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے ناسور اسے اچھی طرح سے دکھائی دینے لگے، جنہوں نے سماج پر اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ طاہر کی آنکھوں میں وہ سب مناظر ایک ایک کر کے زندہ ہوتے چلے گئے جو کئی بار وہ ٹی وی پر دیکھ چکا تھا کہ کس طرح مجبور اور لاچار عورتوں سے دھندہ کروایا جاتا ہے۔ عصمت فروشی سے متعلق اخبار کی ایسی بے شمار خبریں اس کی آنکھوں میں اگ آئیں، جس کے پیچھے اسے پورا معاشرہ بے ردا نظر آنے لگا۔ سماج میں اسے کتنے ہی ننگے سر، ننگے بدن اور عزت کے لئے تڑپتے وجود نظر آنے لگے جنہیں ردا کی ضرورت تھی، جنہیں تن چھپانے کے لئے عزت کے شہر کی ضرورت تھی۔ اسی غلیظ دھندے کے بیچ اسے گندگی کے ڈھیر پر پھینکے گئے معصوم روتے بلکتے بچے بھی دکھائی دینے لگے اور خاموش گلی کوچوں میں گونجتی ننگی چیخیں بھی اسے صاف سنائی دینے لگیں۔ اسے یوں لگا جیسے یہ چیخیں نہیں بلکہ درد بھری فریادیں ہیں جو اپنا سننے والا تلاش کرتی پھرتی ہیں۔ ان چیخوں نے طاہر کے اندر اودھم مچا دیا اور اس کا دم گھٹنے لگا۔ اس سے سیاست کے معنی کھو گئے اور وہ پریشان ہو کر رہ گیا۔ اس پریشانی کے عالم میں اچانک سلیم نے اس کے کان میں سرگوشی کی کہ اس ننگے معاشرے کو سیاست کی نہیں، تمہاری ضرورت ہے۔ نکمی بھاگ دوڑ سے نہ پہلے کچھ ہوا ہے اور نہ اب ہو گا۔ اس بات نے طاہر کو سیاست کا نیا اور سچا مفہوم دے دیا، جس کے پیچھے سلیم جڑا ہوا تھا، جس نے پورا سماج اس کے سامنے بچھا کر اسے ایک ایسی آنکھ عطا کر دی تھی جس سے اب طاہر کو جگہ جگہ غربت کے ڈھیر پر پلتا ہوا جرم اور سسکتی بلکتی زندگی صاف نظر آنے لگی۔ معاشرے میں جگہ جگہ بھوک کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جن کے عقب میں اسے اپنے پارٹی لیڈر کے انقلاب کی آوازیں بھی ابھرتی سنائی دینے لگیں اور انقلاب کی حقیقت اس پر آشکارا ہونے لگی۔ اس کے دل نے بھی گواہی دے دی کہ اس ننگے سماج کو واقعی انقلاب کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وہ دن تھے کہ اس کے لیڈر کے انقلابی نعرے کی گونج ملک بھر میں سنائی دینے لگی تھی اور انقلاب کا بیج بونے کے لئے اس کا لیڈر ملک کے کونے کونے میں بڑے بڑے جلسے کرتا پھر رہا تھا۔ اب وہ اس کے شہر میں بھی اسی مقصد کے لئے آ رہا تھا۔ اس لئے شہر کے گلی کوچوں میں اس کے لیڈر کا ڈنکا بج رہا تھا اور طاہر کی خوشی بھی دیدنی تھی کہ اپنے لیڈر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا جس کے اس نے ہمیشہ گن گائے تھے۔ وہ اپنے لیڈر کی دلآویز شخصیت سے اتنا متاثر تھا کہ اس کے لئے وہ کئی بار کالج میں اپنے مخالفوں کے ساتھ لڑ بھی پڑا اور ایک بار تو ہا تھا پائی میں وہ زخمی بھی ہو گیا تھا۔ جب سے اس کے لیڈر نے ملک میں انقلاب کا نعرہ لگایا تب سے وہ اس کے نام کے کلمے پڑھنے لگا تھا۔ طاہر کے دل و دماغ میں اپنے دوست سلیم کا گھرانہ چھایا ہوا تھا۔ اس نے اپنے سینئرز کو ان کے حالات سے آگاہ کیا جنہوں نے سلیم کی ماں سے مل کر انہیں خوب تسلی دی اور وعدہ کیا کہ وہ ان کو اپنے لیڈر سے ضرور ملوائیں گے اور ان کے تحفظ کے انتظامات کروا کر انہیں معاشرے کے ناسوروں سے ہمیشہ کے لئے نجات دلوائیں گے تاکہ وہ معاشرے میں وہی عزت کما سکیں جیسا ان کا حق ہے۔
اس کامیابی نے طاہر کے اندر ایک جوش بھر دیا اور اس نے جلسے کی کامیابی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پوری پوری رات بازاروں، گلیوں، چوکوں میں اشتہار، بینر، جھنڈیاں لگاتا رہا۔ وہ تیاریوں میں اتنا دیوانہ ہو گیا کہ اپنے دوستوں کو ساتھ لے کراس نے شہر کے اس معروف علاقے میں بھی جانے سے دریغ نہ کیا جو مخالفوں کا گڑھ تھا۔ جب وہ وہاں پر اشتہار لگا رہا تھا تو اس کے مخالفوں نے ان پر ہلہ بول دیا اور سب آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ اس دنگے میں طاہر کو شدید چوٹیں آئیں مگر اس پر تو جیسے بھوت سوار تھا۔ پٹیوں میں لپٹا وہ اپنے کاموں میں ہی لگا رہا۔ اس پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ اپنے آپ کو مٹا کر معاشرے میں انقلاب لانا ہے اور پھر سلیم کی ماں کو اس کے باپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزادی دلوانی ہے۔
شہر کا نقشہ بالکل ہی بدلا ہوا تھا اور راستے خوب چمک رہے تھے۔ چوراہوں، چوکوں اور معروف عوامی مراکز میں ملک کے مشہور انقلابی لیڈر کی تصویریں اور بڑے بڑے بینر لگ گئے، جو آج شہر میں جلسہ کرنے آ رہا تھا۔ لوگ پارٹی کے جھنڈے، بینر اور تصویریں اٹھائے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے ہوئے خوب نعرے لگا رہے تھے۔ لگتا تھا کہ پورا شہر اس انقلابی لیڈر کا دیوانہ ہو گیا ہے۔ طاہر بھی میلہ اسٹیڈیم میں موجود تھا، جہاں ایک بہت بڑا سٹیج بنایا گیا تھا۔ آج وہ منت سماجت کر کے اپنے باپ کو بھی جلسے میں لے آیا تھا جو ان سیاسی جھمیلوں سے ہمیشہ ہی دور رہتا تھا۔ کیونکہ یہ طے کیا گیا تھا کہ سٹیج پر جہاں خاص شخصیات بیٹھیں گی وہاں عام لوگوں کو بھی بٹھایا جائے گا تاکہ ان کی عوامی پارٹی ہونے کا عملی مظاہرہ پوری دنیا دیکھ سکے۔ اس لئے وہاں پہنچتے ہی طاہر اپنے باپ کو سٹیج پر بٹھا کر خود دیگر معاملات میں الجھ گیا۔ اسٹیڈیم کے داخلی دروازے سے لے کر دور دور تک سڑک کی دونوں جانب لوگوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ لوگ اپنے محبوب لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے امڈے پڑے تھے۔ پولیس کے دستوں کے ساتھ ساتھ مقامی حکومت کے نمائندے بھی اپنے فرائض کی بجا آوری میں مصروف تھے جبکہ سیاسی کارکن الگ سے حفاظتی انتظامات کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ہاتھوں میں ڈنڈے لئے گھوم پھر رہے تھے۔
طاہر ایک مخصوص جگہ پر دیکھ بھال میں مصروف تھا کہ اچانک فضا زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس نے مچلتے تڑپتے لوگوں کی طرف نگاہ دوڑائی جو اچھل اچھل کر نعرے لگا رہے تھے۔ ملک کا انقلاب پسند لیڈر پہنچ گیا تھا۔ طاہر نے دیکھا کہ دورسے آتی گاڑی پر کھڑا اس کا لیڈر پھولوں کے ہاروں سے لدا مسکراتے ہوئے عوام کے نعروں کا جواب ہاتھ ہلا ہلا کر دے رہا تھا، جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ دیوانے ہوئے جا رہے تھے۔ سٹیڈیم کے گیٹ پر گاڑی رکی اور اس کا لیڈر نیچے اتر کر عوام کے سیلاب کو چیرتا ہوا سٹیج کی طرف بڑھ گیا۔ طاہر کے قریب سے گزر کر وہ سٹیج کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اس نے پہلی بار اپنے آئیڈیل لیڈر کو اتنے قریب سے دیکھا اور اس کی مسحور کن شخصیت میں ڈوب گیا مگر وہ زیادہ دیر تک اس کے سحر میں گرفتار نہ رہ سکا۔ اچانک عوام کا ایک ریلا سٹیج کی طرف پلٹ پڑا جسے روکنے کے لئے طاہر نے اپنا سارا زور لگا دیا اور دیگر کارکن بھی حرکت میں آ گئے جو لوگوں کو پیچھے کی طرف دھکیلنے لگے۔ اسی کشمکش میں بھگدڑ مچ گئی اور لوگ ایک دوسرے پر گر پڑے۔ کئی چیخیں بلند ہوئیں اور اس افراتفری میں کافی سارے لوگ لتھڑے گئے۔ لوگ مشتعل ہو کر ہا تھا پائی پر اتر آئے۔ اس کھینچا تانی میں طاہر کو بھی ایک چانٹا پڑ گیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر کارکنوں نے عوام پر اندھا دھند لاٹھیاں برسا دیں۔ بوکھلائے ہوئے طاہر کی نظر اچانک اپنے باپ پر جا پڑی جو اسی ریلے میں دھکے کھا رہا تھا، اس دوران کسی نے اس کی کمر پر تین چار زوردار ڈنڈے رسید کر دیئے اور وہ درد سے بلبلا اٹھا۔ طاہر اپنے باپ پر ڈنڈے برستے دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ وہ بھونچکا رہ گیا کہ اس کا باپ نیچے کیسے پہنچ گیا جبکہ اس نے تو اسے سٹیج پر بٹھایا تھا۔ اپنے باپ کا تکلیف سے مسخ شدہ چہرہ دیکھ کر اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی، اسے یوں لگا جیسے یہ ڈنڈے اس کے باپ کو نہیں، اس کی روح پر برسائے گئے ہوں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے جلسے میں اس کے باپ کا ایسا حشر ہو گا۔ غصے سے اس کا چہرہ لال انگارہ ہو گیا۔ عوام پرتو قابو پا لیا گیا تھا مگر طاہر کے اندر آندھیاں چلنے لگیں۔ اس کی آنکھوں میں ٹھہرا ہوا ذلت آمیز منظر اسے ڈسنے لگا۔ اس نے دور کھڑے اپنے نڈھال باپ پر ایک اداس نظر ڈالی اور دفعتاً سٹیج کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اوپر پہنچ کر جیسے ہی اس کی نظر سامنے پڑی تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور وہ بت بنا رہ گیا۔ سٹیج پر سلیم کا باپ اس کے باپ والی کرسی پر بیٹھامسکرا مسکرا کر اس کے لیڈر کے کانوں میں کھسر پھسر کر رہا تھا اور لیڈر اس کی باتوں پر مسکراتے ہوئے بار بار یوں گردن ہلا رہا تھا جیسے ان کی برسوں کی جان پہچان ہو۔ طاہر کو پوری دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ تکلیف کی کتنی ہی لہریں اس کی روح میں اترتی چلی گئیں۔ یہ منظر اس کے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ غصے سے بھنا ہوا جذباتی انداز میں تیز تیز سیڑھیاں اترنے لگا۔ نیچے اترتے ہی اس نے اچانک زمین پر اتنے زور سے تھوکا کہ جیسے اس نے زمین پر نہیں لیڈر کے چہرے پر تھوک دیا ہو۔ جھٹکے سے اپنے سینے پر لگا پارٹی بیج نوچ کر پھینکا اور غصے کے عالم میں اپنے باپ کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭