ٹرین کو سٹیشن پر رکے ہوئے کافی دیر ہو گئی اور وہ چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ حالانکہ وہ ایک چھوٹا سا سٹیشن تھا جہاں ٹرین عام طور پر دس منٹ سے زیادہ نہیں رکتی تھی۔ شدید گرمی نے لوگوں کو بدحال کر دیا تھا، بو گیوں میں پھیلی پسینے کی بدبو نے اتنی گھٹن اور تعفن پیدا کر دیا کہ لوگ اپنے پھیپھڑوں میں تازہ ہوا بھرنے کے لئے جھلستی دھوپ میں بھی بو گیوں سے باہر نکل آئے۔ پٹڑیوں کے آس پاس بچھے چھوٹے چھوٹے پتھر گرمی کی شدت سے انگارہ بنے ہوئے تھے اور ان کی تپش نے فضا کو اور بھی گرما رکھا تھا۔ سٹیشن پر پانی کا ایک ہی نلکا لگا ہوا تھا۔ جس پر نظر پڑتے ہی پیاس کے مارے لوگ جوش کے ساتھ نلکے کی طرف لپک پڑتے مگر وہاں پہنچ کر ان کے منہ لٹک جاتے کیونکہ زنگ آلود نلکے کی ہتھی ٹوٹی ہوئی تھی اور پیچ بھی غائب تھاجس سے پانی کا ایک بھی قطرہ نکالنا محال تھا۔ گرمی سے ستائے ہوئے لوگ مایوسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے۔ ایک تو گرم لو ان کی کھال جلا رہی تھی اور اوپر سے چاروں طرف ایک عجیب سی بساند رچی ہوئی تھی، جس نے ماحول کو آلودہ کر دیا تھا۔
سب ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے گھورتے ہوئے حیران ہو رہے تھے کہ آخر بات کیا ہے۔۔۔ ٹرین کیوں رکی ہوئی ہے۔۔۔؟ لوگوں کی مختلف قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ اچانک کہیں دور سے کسی عورت کی دھاڑیں فضا میں تیرتی ہوئی آئیں اور کانوں میں گھس گئیں۔ سب ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے چونک اٹھے۔ ان کے لئے یہ سب بہت غیر متوقع تھا اور وہ حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔
’’وہ دیکھو ادھر۔۔۔۔۔۔ بہت سے لوگ جمع ہیں۔‘‘
کسی نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے زور سے چلا کر کہا اور لوگ تجسس کے مارے فرسٹ کلاس بو گیوں کی طرف دوڑتے چلے گئے جہاں لوگوں کا ایک جمِ غفیر لگا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ مجمعے کو چیر کر آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجمع کے بیچوں بیچ تیکھے نقوش کی ایک سانولی عورت حلق کے زور پر دھاڑتی ہوئی روئے جا رہی تھی۔
’’مجھے میری بیٹی لا دو۔۔۔۔ میں اس کے بغیر مر جاؤں گی۔۔۔۔ خدا کے لئے کوئی تو میری بیٹی لا دے‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ پیٹتے ہوئے کہا۔
وہ پسینے میں شرابور تھی اور اسے اپنا کوئی ہوش نہیں تھا۔ اس کا دوپٹہ نیچے گر چکا تھا اور سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔
’’صبر کرو سلمہ۔۔۔ ہماری بیٹی ضرور کہیں آس پاس ہو گی۔۔۔۔ میں اسے ڈھونڈ کے لے آؤں گا۔۔۔۔ تم فکر مت کرو۔۔۔۔‘‘
ایک شخص نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا، جس نے اسے سنبھال رکھا تھا۔ شاید وہ اس کا شوہر تھا۔
’’جلدی لے آؤ میری رانی کو۔۔۔ پتہ نہیں وہ کہاں ہو گی، کس حال میں ہو گی۔۔۔۔؟
یہ سب تمہارا قصور ہے۔۔۔ تم نے اس کا خیال نہیں رکھا۔۔۔ ہائے میری معصوم نیلم۔۔۔۔ کہاں ہو تم۔۔۔؟‘‘
اس کی بیوی نے بین کرتے ہوئے کہا۔ رال اس کے منہ سے گر گر کر اس کا دامن بھگو رہی تھی۔
’’سلمہ۔۔۔ اپنے آپ کو سنبھالو۔۔۔ تم اکیلی نہیں ہو، میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔۔ تم فکر مت کرو، میں اپنی نیلم کو ابھی لے آؤں گا۔۔۔ تم صبر کرو۔۔۔‘‘
اس کے شوہر نے افسردہ لہجے میں اسے تسلی دیتے ہوئے کہا اور رو مال سے اس کا چہرہ صاف کرنے لگا جو پسینے اور آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔
ان کے آس پاس بہت سارے لوگ اکٹھا ہو چکے تھے اور سب حیران و پریشان انہیں دیکھ رہے تھے، جن میں عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے سبھی شامل تھے۔
’’بیٹا! کیا بات ہے۔۔۔؟ کیا ہوا ہے تمہاری بیٹی کو۔۔۔؟‘‘
ادھیڑ عمر سٹیشن ماسٹر نے اس کے خاوند کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا
اس سے پہلے کہ وہ سٹیشن ماسٹر سے کچھ کہتا اچانک دھاڑیں مارتی ہوئی اس کی بیوی اس کی بانہوں میں جھول گئی اور ایک دم خاموش ہو گئی۔
’’کیا ہوا سلمہ۔۔۔؟ سلمہ اٹھو۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔۔ اٹھو سلمہ۔۔۔‘‘
وہ روہانسی آواز میں چلاتے ہوئے اسے زور زور سے ہلانے لگا۔ سارے مجمعے پر سناٹا طاری ہو گیا تھا۔
’’میں ڈاکٹر ہوں۔۔۔ ذرا ہٹو، مجھے دیکھنے دو۔۔۔‘‘
مجمع میں کھڑے ایک کلین شیو نوجوان نے کہا اور تیزی سے آگے بڑھ کر اس کی نبض چیک کرنے لگا۔ اس کے بعد اس کے پپوٹوں کو اوپر کر کے اس کی آنکھیں دیکھیں اور پھر سے نبض چیک کرنے لگا۔
’’گھبرانے کی بات نہیں ہے۔۔۔ بے ہوش ہو گئی ہے۔۔۔ اسے یہاں سے اٹھا کر اُدھر بینچ پر لٹا دو۔‘‘
ڈاکٹر نے برآمدے میں رکھے بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ فوراً اسے اٹھا کر بینچ پر لٹا دیا گیا۔ برآمدے کی چھت پر ایک مریل سا پنکھا ’’غاں۔۔۔ غاں۔۔۔‘‘ کی آوازیں نکالتا ہوا مردہ چال سے گھوم رہا تھا۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر پانی منگوا کر اس کے منہ پر چھینٹے مارے جانے لگے۔
’’ابھی اسے ہوش آ جائے گا۔۔۔ تم گھبراؤ مت‘‘ ڈاکٹر نے اس کے شوہر کو تسلی دیتے ہوئے کہا
بینچ کے ارد گرد بھی لوگ جمع ہو کر کھسر پھسر کرنے لگے۔ سٹیشن پر مشروبات کی واحد ریڑھی کے پیچھے کھڑا منحنی سا شخص مجمعے کو عجیب سی نظروں سے گھور رہا تھا، جس کے پاس ایک بھی گاہک نہیں تھا۔
’’ہاں بیٹا۔۔۔ تم بتاؤ مجھے کہ کیا ہوا ہے تمہاری بیٹی کو اور وہ کہاں چلی گئی۔۔۔؟‘‘
سٹیشن ماسٹر نے دوبارہ اس کے شوہر سے پوچھا جو بینچ پر بیٹھا پریشانی میں ڈوبا اپنی بیوی کے چہرے کو تکے جا رہا تھا۔
اس نے لمحہ بھر کے لئے اپنی بیوی کو دیکھا اور پھر ڈبڈبائی آنکھوں سے سٹیشن ماسٹر کو دیکھتے ہوئے مخاطب ہوا:
’’ماسٹر صاحب۔۔۔ ہماری ایک ہی دس سالہ بیٹی ہے نیلم۔ اسے پیٹ میں ہر وقت تکلیف رہتی ہے اور ہم علاج کے لئے اسے بڑے شہر لے جا رہے تھے۔ وہ پچھلے سٹیشن تک تو ہمارے ساتھ تھی۔ ٹرین چلنے سے پانچ منٹ پہلے میں نے اسے بو گی کی لیٹرین میں داخل ہوتے دیکھا۔ اس لئے میں مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ جب ٹرین چلی تو ہم میاں بیوی باتوں میں مصروف تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد میری بیوی کو بیٹی کا خیال آیا تو میں چونک اٹھا۔ وہ ہمیں آس پاس کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میں فوراً اٹھ کر لیٹرین کی طرف بھاگا۔۔۔ مگر وہ وہاں بھی نہیں تھی۔ میں پریشان ہو گیا۔ پوری بو گی میں دوڑ تے ہوئے ہم دونوں اسے تلاش کرتے رہے۔۔۔ بار بار آوازیں لگائیں، ساری ٹرین چھان ماری مگر اس کا کچھ پتہ نہیں لگا اور میری بیوی کی صدمے سے یہ حالت ہو گئی۔‘‘ اس نے لرزتی آواز میں سب کچھ کہہ سنایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔
’’تت۔۔۔ تت۔۔۔ تت۔۔۔ تت۔۔۔‘‘ اس کی بات سن کر کئی افسوس بھری آوازیں مجمع سے ابھریں۔
’’دکھیاری‘‘ ایک نسوانی آواز گونجی۔
’’بیچاری۔۔۔ ممتا کی ماری‘‘ کسی عورت نے کہا۔
’’ہو سکتا ہے کہ وہ پچھلے سٹیشن پر کہیں رہ گئی ہو اور آپ لوگوں کو پتہ ہی نہ چلا ہو۔۔۔؟‘‘ سٹیشن ماسٹر نے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ ایسا ہی ہوا ہو گا۔۔۔‘‘مجمع سے کئی آوازیں اٹھیں۔
اس سے پہلے کہ اس کا شوہر کچھ کہتا اچانک اس کی بیوی کے جسم میں حرکت ہوئی۔ سب لوگ ایک دوسرے میں گھسے اسے دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ اس کی بیوی نے آنکھیں کھول دی تھیں اور وہ اپنے آس پاس کھڑے لوگوں کو خالی خالی نظروں سے یوں دیکھنے لگی جیسے اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو کہ یہ لوگ کیوں جمع ہیں؟ مگر اگلے ہی لمحے وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی اوراس کے چہرے پر ایک کرب سا چھا گیا، جیسے اسے سب کچھ یاد آ گیا ہو۔
’’کیا ہوا میری نیلم کا۔۔۔؟ وہ ملی کہ نہیں۔۔۔؟ تم بولتے کیوں نہیں۔۔۔؟ بولو نا۔۔۔ کہاں ہے میری بیٹی؟‘‘ اس نے اپنے شوہر کے کاندھے کو پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا اور رونے لگی۔ اس کا بین پھر سے شروع ہو گیا۔ شوہر بیچارہ اسے مسلسل دلاسے اور تسلیاں دے رہا تھا مگر وہ ممتا کی ماری سنبھلنے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔
اس کی درد بھری چیخیں فضا میں ارتعاش پیدا کر تی ہوئیں سیدھا دلوں میں اتر رہی تھیں اور لوگ اسے رحم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس پر ترس کھا رہے تھے۔ اب کئی عورتیں بھی اسے تسلیاں دے رہی تھیں مگر وہ واویلا کرتی ہوئی ادھ موئی ہوئی جا رہی تھی۔
’’بیٹا! میرا دل کہتا ہے کہ تمہاری بیٹی پچھلے سٹیشن پر ہی کہیں رہ گئی ہے۔ اگر وہ ٹرین پر چڑھی ہوتی تو اب تک اپنی ماں کو روتا دیکھ کر تمہارے پاس آ چکی ہوتی۔ تم اپنی بیوی کو ساتھ لے کربس کے ذریعے دوبارہ پچھلے سٹیشن چلے جاؤ۔ تمہاری بیٹی تمہیں ضرور مل جائے گی۔ ٹرین کو رکے ہوئے کافی دیر ہو چکی ہے۔ سواریوں کا کافی ہرج ہو رہا ہے اور اب ٹرین کو مزید روکنا ممکن نہیں۔ اس لئے تم میری بات مانو اور بیوی کو ساتھ لے کر پچھلے سٹیشن جاؤ۔۔۔ دو گھنٹوں میں تم وہاں پہنچ جاؤ گے۔‘‘ سٹیشن ماسٹر نے اس کے شوہر کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ بہت سارے لوگوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
اس نے غم سے نڈھال روتی دھوتی اپنی بیوی کو پچھلے سٹیشن پر جانے کا کہا تو وہ بین کرتے ہوئے ناں ناں کرنے لگی۔ مگر جب دوسری عورتیں بھی مل کر اسے سمجھانے لگیں تو وہ بڑی مشکل سے راضی ہوئی۔
شوہر نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا کیا۔ وہ دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھتی اور سسکتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ گرمی سے اس کا برا حال ہو چکا تھا۔ لوگوں نے اس کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے اسے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ وہاں سے رخصت کیا۔ اس کا شوہر اسے سہارا دے کر سٹیشن سے باہر لے آیا اور دونوں ایک آٹو رکشہ میں بیٹھ کر سیدھا لاری اڈے کی طرف روانہ ہو گئے اور جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔ وہاں اتر کر انہوں نے ایک سایہ دار جگہ تلاش کی اور آرام سے بیٹھ گئے۔ وہ خاموش تھے اور تھکاوٹ ان کے بجھے ہوئے چہروں پر واضح طور پر عیاں تھی۔ انہیں ابھی بیٹھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک سامنے سے تین لڑکے نمودار ہوئے اور چپ چاپ ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ وہ تینوں پسینے میں بھیگے ہوئے تھے۔
’’اف۔۔۔ آج تو بہت ظالم گرمی ہے۔۔۔‘‘
ایک لڑکے نے اپنی قمیض کے گھیرے سے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا، جہاں پسینہ پانی کی طرح سے رِس رہا تھا۔
’’ہاں بِلو۔۔۔۔ بولو کیا پراگریس ہے؟‘‘ اس کے شوہر نے اسی لڑکے سے بے صبری کے ساتھ پوچھا
’’آج بہت مال ہاتھ لگا ہے انکل۔۔۔‘‘
بلو نے اپنی ابھری ہوئی جیب پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا کر کہا جو اسی کے علاقے کا رہنے والا تھا اور غضب کا جیب کترا تھا۔ باقی دونوں لڑکے بلو کے جیب کترے دوست تھے۔
’’کسی کو کوئی شک تو نہیں ہوا۔۔۔؟‘‘ اس نے فکر مندی سے پوچھا
’’کیا بات کرتے ہیں انکل۔۔۔؟ آج تو باجی نے ایسی زبردست ایکٹنگ کی ہے کہ کمال کر دیا۔
سب لوگ باجی میں کھوئے رہے اور ہم آرام سے اپنا کام کرتے رہے۔۔۔ کسی کو کیا شک ہونا تھا۔۔۔؟‘‘
بلو نے توصیفانہ انداز میں اس کی بیوی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا مگر وہ اس کی بات سن کر ایک دم بھڑک اٹھی۔
’’یہ ایکٹنگ نہیں تھی۔۔۔۔۔ قسم خدا کی بالکل بھی ایکٹنگ نہیں تھی۔ جس ماں کی بیٹی ہسپتال میں پڑی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہو، وہ ماں ایکٹنگ کیسے کر سکتی ہے۔۔۔؟‘‘
اس نے جذباتی انداز میں کہا اور بلو سہم کر رہ گیا۔ اس کا شوہر اسے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا، جس کا چہرہ سرخی مائل ہو چکا تھا۔
٭٭٭