ادھیڑ عمر شاکر کو اس خیال نے بری طرح سے جکڑ لیا تھا کہ اس کے جینے کے سبھی راستے اٹھا لئے گئے ہیں اور وہ عنقریب مرنے والا ہے۔ موت کے اس خیال نے اس کے دل و دماغ میں ایسی جڑیں پکڑ لیں کہ اسے یقین ہو چلا تھا کہ زندگی کی ڈگر پر موت کسی وقت بھی اس کا راستہ روک کر اسے اپنے ساتھ لے جا سکتی ہے۔ اس بھیانک وار سے زندگی اسے سناٹوں کے حوالے کر کے اس کے اندر سے فرار ہو گئی اور وہ بجھ سا گیا۔ اس کی بد حواسی دیکھنے والوں کے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتی کہ اس کے ارد گرد کسی اور دنیا کے سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔
حقیقت میں اس کے لئے یہ صورتِ حال ایک ایسا اجنبی لمحہ لے کر آیا تھا جو اس کی انگلی پکڑ کر اسے گندگی کے ڈھیر پر لے گیا جہاں اس کے آٹھ سالہ اکلوتے بیٹے کی لاش پڑی تھی جس کی شلوار پر جمے خون کے دھبے اور گردن پر پڑے رسی کے نشان اس کے ساتھ ہوئی بد فعلی کی ساری کہانی سنا رہے تھے۔ وہ پریشانیوں کے دشت میں بھٹکتے ہوئے مسلسل تین دنوں سے پاگلوں کی طرح سے اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا۔ جب سے وہ اس کی لاش اپنی باہوں میں لے کر گھر میں داخل ہوا تھا تب سے وہ اپنے اندر سے کہیں رخصت ہو گیا تھا۔ اس کے گھر میں تو جیسے قیامت خیمہ زن ہو گئی جس نے سب کو آہ و بکا کے حوالے کر دیا۔ اس کی بیوی جیسے تیسے ہمت کی انگلی تھامے اس قیامت خیز منظر سے باہر نکل آئی تھی مگر شاکر اس وحشی لمحے کا شکار ہو گیا اور وہ واپس نہ آ سکا۔ وہ اپنے اردگرد کے سبھی منظروں سے خود کو سمیٹ کر کمرے میں لگی اپنے بیٹے کی تصویر میں ہی کہیں اتر گیا۔ پہلے پہل تو اس کے گھر والوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی مگر جب وہ گم صم ہو گیا اور اس کا چڑچڑا پن گھر میں فساد کے نئے نئے بیج بونے لگا تو اس کے گھر والوں کا ما تھا ٹھنکا۔ خاص طور سے اس کی بیوی کو اس وقت خوف کے بچھو ڈنک مارنے لگے، جب شاکر نے اس پر آنکھیں گاڑتے ہوئے عجیب انداز میں کہا
’’مجھ سے جینے کے رستے گم ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ میں جلد مرنے والا ہوں، میرے بعد تم جی کر کیا کرو گی؟‘‘
وہ شاکر کا غیر متوقع سوال سن کر دہل گئی۔
شاکر پر خوف کا اس وقت کاری حملہ ہوا جب اس کے ہمسایے حاجی شہر یار کی موت کا اعلان محلے بھر میں گونجنے لگا۔ حاجی صاحب کی موت نے شاکرسے نیندیں چھین کر اسے رت جگوں کے حوالے کر دیا۔ اس کے ذہن پر ایک ہی بات سوار ہو گئی کہ رات کو میری دیوار کے دوسری طرف موت کا فرشتہ اترا تھا۔ اب وہ کسی وقت میرے سر پر بھی نازل ہو سکتا ہے۔ وہ سہما سہما سا رہنے لگا اور اس کے ہونٹوں پر خاموشیوں کے ایسے کڑے پہرے لگ گئے کہ وہاں لفظ اور قہقہے اگنا بند ہو گئے۔ وہ جہاں بھی ہوتا، تنہائی اسے ڈھونڈ کر کمرے میں بند کر دیتی۔ وہ ایک عجیب سی بیزاری کے شکنجے میں پھنس گیا۔ اس کی بیوی کومحسوس ہونے لگا کہ شاکر کے اندر کی دنیا دھیرے دھیرے بدل رہی ہے۔
اس میں پیدا ہونے والی ایک اور خوفناک تبدیلی نے اس کی بیوی کے ہوش اڑا دیئے۔ شاکر اب رات گئے تک ٹی وی سے چمٹا خبروں کے ساتھ ساتھ ایسے پروگرام دیکھنے لگا جس میں دل دہلا دینے والے واقعات کی بھرمار ہوتی، جو آہستہ آہستہ اس کی نفسیاتی کیفیات کو بدل رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر اسے ایک عجیب سا سکون ملنے لگتا۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ کوئی اور چینل لگا لے۔ اس کی دونوں بیٹیوں تک کو اپنے پسندیدہ کارٹون دیکھنے کی اجازت نہ تھی بلکہ اسے دھیرے دھیرے بیٹیوں سے کوفت ہونے لگی اور وہ انہیں بات بے بات ڈانٹنے لگا۔ اس کی سخت گیر طبیعت سے وہ بھی سہمی ہوئی رہنے لگیں۔ شاکر کے چہرے کا تناؤ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا تھا، جسے دیکھ کر اس کی بیوی فکر میں پڑ گئی۔ مگر وہ صحیح معنوں میں اس وقت خوف کی دلدل میں دھنس گئی جب اس نے شاکر کو اپنے بیٹے کی تصویر کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا وہ اس کی یہ حالت دیکھ کر دھک سے رہ گئی۔ اس نے جب شاکر کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ اس پر بڑی بڑی آنکھیں نکال کر برس پڑا۔ ناکامی نے اس کے چہرے پر ایک ساتھ کئی تھپڑ جڑ دیئے اور وہ شدید خوفزدہ ہو گئی۔
شاکر کی زندگی سکڑ کر صرف ایک لمحے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی جس میں اسے ہر وقت موت کی چاپ سنائی دینے لگی تھی۔ پہلے وہ اکثر دوستوں کے ساتھ گھومنے جایا کرتا تھا مگر اس کی ابتر حالت نے اس سے ساری دوستیاں چھین لیں اور اس نے بھی ہر جگہ سے اپنی جڑیں کاٹ کر خود کو لپیٹ لیا تھا۔ موت کا خیال عفریت بن کر اس پر ایسا جھپٹا کہ وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں ناکام رہا۔ آہستہ آہستہ اس کی ظاہری ہیئت بدلتی چلی گئی۔ اسے ہر وقت جاگتا دیکھ کر راتوں نے اس کی سرخ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے کھینچ دیئے۔ عجیب سی بیگانگی نے اس کی رنگت خراب کر دی۔ داڑھی بے ترتیب انداز میں بڑھ گئی اورآپس میں جکڑے بالوں نے اس کا حلیہ اور بھی بگاڑ دیا، جہاں سے جھانکتی ملگجی سفیدی نے اسے ایک الجھا ہوا انسان بنا دیا۔ اس کی بیوی اور بیٹیاں شاکر کا یہ وحشت خیز روپ دیکھ کر کانپ اٹھیں، مگر اسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
موت کے وسوسے میں قید شاکر آج کچھ زیادہ ہی بے چینی محسوس کرنے لگا۔ اس کے اندر بچھے سناٹوں نے اس میں ایک حبس بھر دیا اور وہ گھٹن زدہ سانسوں کا شکار ہو گیا۔ وہ دفتر سے آتے ہی سیدھا کمرے میں جا گھسا مگر پتہ نہیں کیوں آج اسے کمرہ بھی پناہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ لائٹ صبح سے غائب تھی اور بند ٹی وی اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ وہ بستر پر پڑا بار بار پہلو بدلتا رہا۔ جب اسے کسی طور قرار نہ آیا تو وہ گھر سے باہر نکل آیا۔ وہ بے ارادہ چہل قدمی کرتا ہوا کافی دور تک چلا گیا۔ اسے سڑک پر دوڑتی تیز رفتار زندگی کا کوئی احساس نہیں تھا بلکہ وہ جس نامانوس لمحے میں جی رہا تھا اس نے اسے آس پاس سے بے خبر کر دیا۔ وہ بکھرے بالوں کے ساتھ کھویا کھویا اپنی ہی دھن میں مگن چلا جا رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر سڑک کے بائیں طرف بیٹھے ایک عجیب الخلقت بوڑھے شخص پر جا پڑی۔ میل کچیل میں لتھڑا ہوا وہ درخت سے ٹیک لگائے اسی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ شاکر حیرت میں ڈوبا اسے دیکھتا ہوا قدم بڑھائے چلا جا رہا تھا۔ پاس سے گزرتے ہوئے جب اس کی نظریں اس شخص کے چہرے پر پڑیں تو اسے ایک زور کا جھٹکا لگا اور اگلے ہی لمحے خوف نے اسے بری طرح سے پچھاڑ ڈالا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ شخص کوئی اور نہیں شاکر خود تھا۔ پل بھر میں خوف نے اس کا سارا خون نچوڑ کر اسے ہلدی کر دیا۔ وہ دہشت زدہ ہو کر اسے دیکھے جا رہا تھا جبکہ اس شخص نے اپنی نظریں اس کے چہرے پر گاڑ رکھی تھیں۔
’’کب تک یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہو گے؟‘‘ اس بوڑھے شخص نے اس سے پوچھا
شاکر کے اندر کھلبلی مچی ہوئی تھی اور اسے بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے جا رہا تھا۔
’’خود کو دیکھ کر کیوں اتنا حیران ہو رہے ہو؟‘‘ وہ اس کی حالت کو نظرانداز کرتے ہوئے دوبارہ گویا ہوا۔
’’کون ہو تم۔۔۔۔۔؟‘‘ شاکر نے ہمت کر تے ہوئے خوف سے کانپتی آواز میں پوچھا
’’کمال ہے۔۔۔۔ تم مجھے نہیں پہچانتے؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
’’تمہاری شکل تو مجھ سے ملتی جلتی ہے، مگر میں تمہیں نہیں پہچانتا۔۔۔۔ تم ہو کون؟‘‘ شاکر حیرت سے بولا۔
’’عجیب انسان ہو۔۔۔۔۔۔۔ تم خود کو نہیں جانتے؟‘‘ اس بوڑھے نے شاکر کو گھورتے ہوئے جواب دیا
’’ہاں میں تمہیں نہیں جانتا۔۔۔۔۔ اب تم بتاؤ کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘ شاکر نے پریشانی سے پوچھا۔
’’تو سنو اندھے انسان۔۔۔۔ تجھ میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ہم دونوں ایک ہی ہیں۔‘‘ وہ شخص شاکر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا۔
’’مذاق مت کرو۔۔۔۔ مجھے سچ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو؟‘‘ شاکر کا لہجہ حیرت میں بدستور ڈوبا ہوا تھا۔
’’تو تم سچ سننا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ اگر تمہارے اندر اتنی ہی تاب ہے تو پھر سنو، میں تمہارا بڑھاپا ہوں‘‘ اس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا۔
شاکر اس کا جواب سن کر کانپ اٹھا۔ اس نے اس بوڑھے شخص کا جائزہ لیا۔ داڑھی اور سر کے لمبے لمبے الجھے ہوئے کھچڑی بال۔ چہرے اور گردن پر جمی میل کی موٹی موٹی تہیں۔ سیاہ رنگت، سرخ آنکھیں اور پلکیں آپس میں چمٹی ہوئیں۔ کانوں پر بالوں کے اگے ہوئے گچھے۔ کالر میل کچیل سے بری طرح سے لتھڑے ہوئے۔ پپڑی زدہ ہونٹ اور ہونٹوں سے جھانکتے ہوئے زردی مائل دانت۔ دھول مٹی سے اٹے ہوئے کالے کالے پاؤں۔ جسم پر بھنبھناتی مکھیاں اوراس سے اٹھتا ہوا تعفن۔ اس کی حالت دیکھ کر شاکر کو جھرجھری سی آ گئی۔
’’مگر میں تو ایک پڑھا لکھا انسان ہوں۔۔۔۔ میرا بڑھاپا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ شاکر نے پریشان ہو کر پوچھا
’’یہ بڑھاپا تمہارا اپنا چنا ہوا ہے۔‘‘ اس بوڑھے نے جواب دیا۔
’’مگر میں نے کبھیایسے بڑھاپے کا تصور بھی نہیں کیا۔‘‘ شاکر نے لرزتے لہجے میں کہا۔
’’تم نے اپنی حالت نہیں دیکھی کیا؟۔۔۔۔ تمہاری اسی حالت نے ہی تمھیں مجھ سے ملایا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’مگر۔۔۔۔۔‘‘
’’اگر مگر چھوڑو۔۔۔۔۔‘‘ اس بوڑھے نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’تم اپنے اس بڑھاپے سے انکار نہیں کر سکتے۔۔۔ جس کے بیج خود تم نے ہی اپنے اندر بوئے ہیں۔‘‘ بوڑھا بولا۔
’’میں نے کب بیج بوئے۔۔۔؟ تم جانتے ہو کہ میری یہ حالت میرے معصوم بیٹے کی وجہ سے ہے جسے اس ظالم سماج کے درندوں نے مار ڈالا۔۔۔ اور تم کہتے ہو کہ یہ بڑھاپا میں نے خود چنا ہے۔‘‘ شاکر غصے سے چیخا۔
’’کیا تم اس ظالم سماج کا حصہ نہیں ہو؟ تمہارے ساتھ بھی تو وہی ہوا جو تم نے کیا۔‘‘ وہ بوڑھا اس پر آنکھیں نکالتے ہوئے بولا۔
’’کیا بکواس کرتے ہو تم؟ میں نے کیا کیا ہے؟ میں تو مظلوم ہوں اور تم مجھے ظالم بنانے پر تل گئے ہو۔‘‘ اس نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔
’’لگتا ہے تم یوں نہیں مانو گے۔‘‘ بوڑھے نے غصے سے کہا اور اچانک اس کا گریبان پکڑ کر ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ شاکر اس اچانک افتاد کے لئے تیار نہیں تھا اور تنکے کی طرح اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ اس بوڑھے نے اسے اپنے اتنے قریب کر لیا کہ ان دونوں کی ناک آپس میں ٹکرانے لگی۔
’’اب جھانکو میری آنکھوں میں اور دیکھو اس کے اندر۔‘‘ بوڑھے نے غصے سے پھنکارتے ہوئے کہا۔
شاکر نے خوفزدہ ہو کر جب اس کی آنکھوں میں جھانکا تو وہاں ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی اور اسے کچھ دھندلے سے ہیولے حرکت کر تے نظر آ رہے تھے۔ شاکر حیرت سے دیکھنے لگا۔ اچانک وہاں ایک منظر جاگ اٹھا۔ وہ ایک بہت بڑا پل تھا، جہاں سے شہر بھر کا ٹریفک گزر رہا تھا۔ اس پل کے نیچے بڑے بڑے ستونوں کے بیچ پتھریلی زمین پر کمبل میں لپٹا ایک لاغر بوڑھا شخص لیٹا ہوا تھا، جس کے پاؤں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اس کے ساتھ ایک نوجوان کھڑا ہوا تھا، جو اسے وہاں لٹانے کے بعد چور آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتا ہوا اچانک تیز تیز قدم اٹھاتا ایک طرف کو چل پڑا۔ جب شاکر کی نظر اس پر پڑی تو وہ آندھیوں کی زد میں آ گیا اور سر سے پاؤں تک لرز اٹھا۔ وہ نوجوان کوئی اور نہیں شاکر خود تھا۔
’’یاد آیا کچھ۔۔۔۔۔؟‘‘ اس بوڑھے شخص نے شاکر کو ایک طرف پٹختے ہوئے پوچھا۔
مگر شاکر تھر تھر کانپتے ہوئے خوفزدہ نظروں سے اس بوڑھے کو دیکھنے لگا۔
’’تم کیا سمجھتے تھے کہ اپنے معذور نابینا باپ کو لا وارثوں کی طرح یوں سڑک پر پھینک کر چلے جاؤ گے اور سکون سے زندگی کے مزے لوٹو گے۔‘‘
بوڑھے نے اس پر اپنی لال لال آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔
مگر شاکر کی حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس پر لرزہ طاری تھا اور پل بھر میں اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کے موسم اتر آئے۔ اچانک اس نے بوڑھے کے پاؤں پکڑ لئے اور اس سے معافیاں مانگنے لگا۔
’’خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ میں نے اپنے باپ کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا۔‘‘
شاکر نے روتے ہوئے کہا اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔
’’مجھ سے کیا معافی مانگتے ہو۔۔۔؟ میں کون ہوتا ہوں تمہیں معاف کرنے والا۔۔۔؟‘‘ بوڑھا تلخ لہجے میں بولا
’’اس لئے کہ تم میرا بڑھاپا ہو اور میں یہ خوفناک بڑھاپا ہر گز نہیں چاہتا۔۔۔۔ خدا کے لئے تم واپس چلے جاؤ۔‘‘
شاکر نے اس کے سامنے گھگھیاتے ہوئے کہا۔
’’میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ تم چلے جاؤ یہاں سے‘‘ بوڑھے نے نفرت سے جواب دیا
اس بوڑھے شخص نے اسے دھتکار دیا تھا۔ اس دن سے شاکر پر نیندیں مکمل طور پر حرام ہو گئیں۔ مگر وہ آرام سے بیٹھا نہیں بلکہ روز وہاں آ کر اپنے بڑھاپے سے رو رو کر معافیاں مانگتا رہا۔ اسے روتے دھوتے کافی مدت گزر گئی اور اس کی آنکھوں کی جھیلیں خشک ہو گئیں مگر اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اور پھر ایک دن اس بوڑھے نے اس سے اچانک کہہ دیا۔
’’ٹھیک ہے کل آنا۔۔۔۔ تمہیں اس بڑھاپے سے نجات کا راستہ بتاؤں گا۔‘‘یہ سن کر شاکر کی باچھیں کھل اٹھیں۔
جب دوسرے دن شاکر وہاں گیا تو بوڑھا غائب تھا۔ وہ شدید پریشان ہو گیا اور وہاں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ مگر اس کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں تھا۔ وہ رات گئے تک وہاں بیٹھا رہا مگر بوڑھے کو نہ آنا تھا نہ آیا۔ شاکر بلا ناغہ وہاں آ کر اس کا انتظار کرنے لگا اور یہ انتظار لمبا ہوتے ہوتے دنوں سے ہفتوں، ہفتوں سے مہینوں اور مہینوں سے سالوں میں تبدیل ہوتا گیا۔ شاکر کی حالت بالکل ویسی ہو گئی تھی جیسی اس بوڑھے کی تھی۔ اب اس نے پکا پکا اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور آہستہ آہستہ اس بوڑھے کی جگہ لے لی تھی۔
٭٭٭