’’سر جی۔۔۔!‘‘ اچانک میرے کانوں سے مانوس سی آواز ٹکرائی۔
میں جو کافی دیر سے اپنے سامنے رکھی فائل میں سر دیئے کمپیوٹر پر ماہانہ اعداد و شمار بنانے میں بری طرح سے الجھا ہوا تھا، چونک پڑا۔ سراٹھا کے دیکھا تو سامنے دفتر کا نوجوان چپڑاسی شاکر تھا، جس کے ساتھ نقاب اوڑھے ایک خاتون کھڑی تھی اور اس کی نگاہوں نے میرے چہرے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ ایک دم میرے ذہن سے تمام اعداد و شمار جھڑ سے گئے۔ میں نے کی بورڈ پر جلدی جلدی انگلیاں چلائیں اور بجلی جانے کے ڈر سے اب تک کا کیا ہوا کام محفوظ کیا۔ پھر اس خاتون پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہوئے سوالیہ نظروں سے میں شاکر کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے بھی شاید حیرت سے پھیلتی میری آنکھوں میں تیرتا سوال پڑھ لیا تھا۔
’’سر جی! ہیڈ کلرک صاحب نے میڈم کو آپ کے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ان کو کوئی سٹیٹمنٹ چاہئے۔‘‘
شاکر نے میڈم کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے، میں دیکھتا ہوں۔‘‘ میں نے آنکھوں سے حیرت جھاڑتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔ میری بات سن کر شاکر چلا گیا۔
میں نے طائرانہ نظروں سے میڈم کا لمحے بھر کے لئے جائزہ لیا، جس نے سفید چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اور دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ڈھیلے ڈھالے نقاب کو اپنے گالوں سے چپکا رکھا تھا۔ کالے رنگ کا ایک بڑا سا پرس بھی اس کے دائیں کاندھے سے لٹک رہا تھا۔
’’میڈم! آپ بیٹھئے نا۔۔۔ کھڑی کیوں ہیں؟‘‘
میں نے اپنے دائیں جانب کونے میں رکھی اکلوتی کرسی کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے پر تکلف انداز میں کہا
’’جی بہت شکریہ۔‘‘ اس نے ملائمت سے کہا اور کسی تابعدار شاگرد کی طرح کرسی پر بیٹھ گئی۔
وہ درمیانے قد کی ایک نفیس خاتون تھی، جسے جوانی خیر باد کہنے کو پر تول رہی تھی۔ اس کا سڈول اور بھرا بھرا جسم چادر سے باہر بھی اپنے خطوط واضح کر رہا تھا۔ ہلکے پیلے سوٹ میں وہ بہت نکھری ہوئی لگ رہی تھی۔ اس کے گھٹنوں سے لٹکتی قمیض کے گھیرے پر کسی ماہر کشیدہ کار کا فن بول رہا تھا۔ اس کے بیٹھتے ہی میرے نتھنوں میں بھینی بھینی خوشبو کے قافلے سے اترنے لگے۔ اس نے بہت ہی عمدہ خوشبو لگا رکھی تھی۔ میں دل ہی دل میں اس کے اعلیٰ ذوق اور خوش لباسی کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔
’’جی میڈم۔۔۔! فرمائیے کون سی سٹیٹمنٹ چاہئے آپ کو؟‘‘
میں نے اپنے سامنے رکھی فائل میں فلیگ لگا کر اسے بند کیا اور وھیل چیئر پر گھوم کر اس کی طرف دلجمعی سے دیکھتے ہوئے پوچھا
’’جی اصل میں، میں ایک NGO سے Related ہوں اور مجھے ایک Weekly Statement اپنے دفتر میں جمع کروانی ہے اور یہ سٹیٹمنٹ اس پروفارمے پر بنا کر دینی ہے۔‘‘ اس نے ایک تہہ کیا ہوا پروفارما اپنی گود میں رکھے پرس میں سے نکال کر مجھے تھماتے ہوئے کہا۔
اچانک دائیں طرف سے اس کا نقاب ڈھلک کر اس کے سرخ گالوں کی کہانی سنا گیا، جسے اس نے فوراً ہی ٹھیک کیا اور اس پر دوبارہ انگلیاں جما کر جھینپتی ہوئی مجھے یوں دیکھنے لگی جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔
میں نے پروفارما لیتے ہوئے نقاب سے باہر جھانکتی اس کی آنکھوں کو نظر بھر کے دیکھا۔ سرمے سے دھلی ہوئی اس کی روشن آنکھیں میری آنکھوں میں جیسے ٹھہر سی گئیں۔ مجھے ان میں ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی اور اس کی آنکھیں مجھے خوبصورت لگنے لگیں۔ اس کے دیئے ہوئے پروفارمے پر نظریں گاڑے میں کالموں کو غور سے دیکھنے لگا مگر پتہ نہیں کہاں سے میرے دل میں اس کی آنکھوں کو پھر سے دیکھنے کی خواہش مچل اٹھی، جو پل بھر میں شدت اختیار کر گئی۔ میں انہیں دوبارہ دیکھنے کے لئے دل ہی دل میں بات کرنے کا کوئی بہانہ تراشنے لگا۔ شاید میں اپنی آنکھوں کی تصدیق چاہتا تھا کہ واقعی وہ آنکھیں خوبصورت ہیں یا مجھے دھوکہ ہوا ہے۔
’’میڈم! آپ یہ بتائیں کہ یہ ڈیٹا آپ کو کب تک چاہئے؟‘‘
میں نے پروفارمے کو میز پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا اور اس کی آنکھوں کو بڑے اہتمام سے دیکھنے لگا۔
بظاہر وہ آنکھیں بہت زیادہ خوبصورت نہیں کہی جا سکتی تھیں مگر انہیں عام سی آنکھیں کہنا بھی نا انصافی تھی۔ ان میں کوئی بات ایسی ضرور تھی کہ کھلم کھلا باتیں کرتی اس کی چمکدار آنکھیں مجھے بار بار اپنی طرف بلا رہی تھیں۔ کوئی کچھ بھی کہتا مگر میری نظر میں وہ آنکھیں خوبصورت قرار پا چکی تھیں۔ عجیب اتفاق تھا کہ کچھ دن پہلے پڑھا ہوا سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’آنکھیں‘‘ میرے دماغ میں گھوم گیا۔ جس میں منٹو نے ایک معمولی لڑکی کی عام سی آنکھوں کا ذکر کچھ ایسے خاص انداز میں کیا تھا کہ مجھے بھی اس لڑکی کی آنکھیں خوبصورت لگنے لگی تھیں۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ وہی آنکھیں تھیں جو منٹو کے افسانے سے نکل کر میرے کمرے میں روبرو تھیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اِن آنکھوں میں روشنیوں کے میلے تھے اور منٹو کے افسانے میں لڑکی نابینا تھی۔
اس سے پہلے کہ میڈم میری بات کا جواب دیتی، اچانک ہمارا اکاؤنٹنٹ ارشد دندناتا ہوا میرے کمرے میں گھس آیا، جس کے ساتھ میری کافی بے تکلفی تھی۔ اس نے آتے ہی بھر پور انداز میں میڈم کا جائزہ لیا جو میری بات کا جواب دیتے دیتے رک گئی تھی اور متجسس نظروں سے ارشد کو دیکھنے لگی۔ مگر مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ وہ کمرے میں کیوں آیا ہے۔ وہ داخل ہوتے ہی مجھ سے گویا ہوا:
’’سوری شاہد صاحب! آپ کو ڈسٹرب کیا۔ میں صرف یہ بتانے کے لئے حاضر ہوا تھا کہ آپ نے کرسیوں کے لئے جو ڈیمانڈ بھیجی تھی۔ آپ کے حکم کی تعمیل میں نئی کرسیاں آ گئی ہیں۔ اگر کہیں تو آپ کے کمرے میں بھجوا دوں۔۔۔؟‘‘
ارشد نے مجھے دیکھتے ہوئے بڑے ہی سنجیدہ انداز میں کہا۔ مگر اس کی سنجیدگی کے پیچھے چھپی شرارت کو میں اس کی آنکھوں میں چمکتا ہوا واضح طور پر دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ نہ تو میں نے کرسیوں کی کوئی ڈیمانڈ کی تھی اور نہ ہی نئی کرسیاں آئی تھیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ گذشتہ ہفتے میں نے اپنے کمرے میں اکلوتے بلب کی جگہ ایک ٹیوب لائٹ لگانے کو اس سے کہا تو اس پر بھی اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا ’’یار! بجٹ نہیں ہے، کہاں سے لگوا کر دوں؟‘‘
خیر ابھی مجھے اس سے جان چھڑا نا تھی۔ میں نے ایک نظر میڈم کو دیکھا جو اس ساری صورتِ حال میں خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا یوں معصومیت سے دیکھنا مجھے بہت اچھا لگا اور میرے اندر انجانی مسرت کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ میں ارشد کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا:
’’بہت شکریہ جناب! آپ کی مستعدی کی داد دیتا ہوں۔ بس گذارش ہے کہ آپ فی الحال کرسیوں کو اپنے پاس رکھیں، میں فارغ ہو کر ابھی آپ سے رابطہ کرتا ہوں۔‘‘
میری بات سن کر ایک شریر سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر یوں ناچنے لگی جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ کیوں بچہ جمبورا! پکڑ لیا نا؟ اکیلے اکیلے گپیں لگاتے ہو؟
’’ٹھیک ہے سر! ہم تو حکم کے غلام ہیں۔ آپ نے حکم کیا اور فوراً اس کی تعمیل ہوئی۔ بس آپ بھی ہمارا خیال رکھا کریں۔‘‘
ارشد نے دایاں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر تابعدار انداز میں مسکراتے ہوئے کہا اور کنکھیوں سے میڈم کی طرف دیکھا، جو اصل حقیقت سے انجان خاموشی سے ہماری فرضی گفتگو سن رہی تھی۔ جبکہ میں دل ہی دل میں ارشد کی حرکتوں پر ہنس رہا تھا۔
’’جی جی جناب! آپ کا احسان ہے، بس میں ابھی آپ سے رابطہ کرتا ہوں‘‘
میں نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا اور آنکھوں کے مخصوص اشارے سے اسے وہاں سے چلے جانے کو کہہ دیا۔
اس کے جانے کے بعد میں میڈم کی طرف متوجہ ہوا تو اس کی آنکھوں نے جیسے پھرسے مجھے اپنے اندر اتار لیا۔ وہ جب تک میرے کمرے میں رہی، میں مختلف حیلوں بہانوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ہی گھومتا رہا۔ ایک بار تو دل میں اس حسرت نے بھی انگڑائی لی کہ کاش یہی آنکھیں میری بیوی کے چہرے پر لگی ہوتیں تومیں ہمیشہ اس کی آنکھوں میں ہی بسارہتا۔
میڈم کو ہفتہ وار سٹیٹمنٹ ہر سنیچر کو اپنے دفتر میں جمع کروانا تھی۔ مگر میں نے اسے کہا
’’یہ ایک پیچیدہ سٹیٹمنٹ ہے، جس کے لئے کچھ وقت درکار ہو گا۔ اس لئے وہ ایک دن پہلے یعنی ہر جمعہ کو آ کر پروفارما دے دیا کرے تواسے سہولت کے ساتھ دوسرے دن تیار سٹیٹمنٹ مل جایا کرے گی۔‘‘
میڈم نے ہامی بھر لی تھی، مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔ کام اتنا زیادہ نہیں تھا، وہ تومیں نے اس کی خوبصورت آنکھوں کے چکر میں مختصر کام کو چالاکی سے دو دنوں پر محیط کر لیا تھا۔ مجھے تو بس اس کی قربت میں ہی رہنا تھا۔
اب مجھے ہر جمعہ اورسنیچر کا شدت سے انتظار رہنے لگا، وہ جب آتی تو بس میں ہوتا اور اس کی کلام کرتی آنکھیں ہوتیں۔ مگر میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھ سے زیادہ انتظار میرے دفتر والوں کو رہتا۔ میڈم کے آنے سے جیسے دفتر کی دنیا ہی بدل جاتی۔ ہر بندہ کسی نہ کسی بہانے سے رال ٹپکاتا میرے کمرے میں آ نکلتا اور اس سے بات کرنے کا خواہاں ہوتا۔ میڈم کو متاثر کرنے کے چکروں میں تقریباً سبھی بن ٹھن کر آتے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ اپنی ان حرکتوں سے وہ سب دفتر بھر میں مذاق کا خوب نشانہ بھی بنے رہتے۔
مگر خوبصورت آنکھوں والی میڈم ان سب باتوں سے انجان بس اپنے کام کے لئے آتی اور چپ چاپ چلی جاتی۔ البتہ میرے ساتھ اس کی کافی گپ شپ رہتی۔ اس کی باتیں بھی اس کی آنکھوں کی طرح ہی خوبصورت تھیں۔ وہ بہت نکتہ دان واقع ہوئی تھی اور ہر موضوع پر منطقی گفتگو کر کے لاجواب کرنے کا ہنر خوب جانتی تھی۔ میں تو اس کی آنکھوں کا شیدائی تھا مگر مجھے احساس ہوا کہ اس کے دل کی دنیا بھی بہت روشن تھی۔
ایک دن میں نے اس کے سامنے اس کی آنکھوں کی تعریف کر دی۔ میری بات سن کر وہ ہنسنے لگی اور بولی:
’’عجیب بات کرتے ہیں آپ بھی۔ سادہ سی آنکھیں ہیں میری، بھلا کیسے خوبصورتی ڈھونڈ لی آپ نے؟‘‘
’’آپ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوبصورتیاں ڈھونڈ لیتی ہیں کہ جس کا ایک عام آدمی کو شعور تک نہیں ہوتا اورایسا کمال خوبصورت آنکھیں ہی کر سکتی ہیں۔‘‘ میں اس کی آنکھوں میں گھومتے ہوئے بولا
’’یہ تو احساس کی باتیں ہیں جناب! جس کے اندر احساس زندہ ہو اسے بدصورت انسان بھی خوبصورت لگتا ہے۔ اس میں آنکھوں کا کیا کمال؟‘‘
گویا اس نے مجھے لاجواب کرتے ہوئے کہا۔
’’بہر حال آپ جو کچھ بھی کہیں، مجھے تو آپ کی آنکھیں بہت اچھی لگتی ہیں، جہاں ہر وقت خوبصورتی ہی پلتی رہتی ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
’’چلیں جی ٹھیک ہے۔ آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں، ورنہ یہ میری آنکھوں کے ساتھ زیادتی ہے۔‘‘
اس نے کھلکھلا تے ہوئے کہا اور میں بھی اس کی بات پر ہنس پڑا۔
سچ تو یہ ہے کہ میری زندگی شروع ہی سے عجیب الجھنوں کا شکار رہی تھی۔ گھر والوں سے میری کبھی نہیں بن پائی تھی۔ جب کبھی تو تکار کی نوبت آ تی تو کڑواہٹ لیے دفتر کا رخ کرتا۔ تلخیوں سے فرار چاہا تو شادی رچا لی، مگر بعد میں پچھتایا کہ یہ کیا روگ پال لیا؟ شادی کے بغیر بھی گزر ہی جاتی۔ میرے مزاج میں جھنجھلاہٹ بہت بڑھ چکی تھی کہ اچانک یہ آنکھیں سکھ کا موسم بن کر میرے دل کے آنگن میں اتر آئیں۔ اندر سے آواز آئی کہ ان ہی کا ہو کے رہ جاؤ۔ ویسے تو مجھے این جی اوز کی دنیا بالکل فضول لگتی لیکن ان آنکھوں میں رہنے کا خواب جاگا تو میں بات بے بات میڈم اور اس کے کام کی دل کھول کر تعریف کرنے لگا۔ جس پر اس کی خوشی دیدنی ہوتی۔
اگلی بار جب وہ دفتر آئی تو معمول سے زیادہ خوش تھی اور اس کی آنکھوں کی غیر معمولی چمک نے اس میں نئے رنگ بھر دیئے تھے۔ میں اس تبدیلی پر خوشگوار حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ پھر باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اگلے دن اس کے گھر میں مدر ڈے کے حوالے سے ایک تقریب تھی، جس کے لئے وہ مجھے بطورِ خاص مدعو کرنے آئی تھی۔ میں اس کا یہ خوبصورت پہلو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ واقعی وہ دنیا کی خوبصورت ترین آنکھیں تھیں۔
میں اُس دن مقررہ وقت پرہی اس کے گھر پہنچ گیا۔ جہاں ایک الگ دنیا آباد تھی۔ بھر پور گہما گہمی میں اس کا سجا ہوا گھر مہمانوں اور بچوں سے بھرا پڑا تھا۔ میڈم نے اپنے خاوند کے ساتھ مل کر خوش دلی سے میرا استقبال کیا۔ میں پہلی بار میڈم کو بغیر نقاب کے دیکھ رہا تھا۔ وہ سفید ساڑھی میں اتنی حسین لگ رہی تھی کہ میں پہلی نظر میں اسے پہچان ہی نہیں پایا۔ اس کے دمکتے چہرے پر خوشیاں جیسے چہل قدمی کر رہی تھیں۔ سرمے سے بھری ہوئی اس کی چمکتی آنکھیں معمول سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ میڈم مجھے دیگر مہمانوں کے ساتھ لان میں رکھی کرسیوں پر بٹھا کر خود آنے والوں کے استقبال میں مصروف ہو گئی۔ لان میں ایک بڑا سا سٹیج بنایا گیا تھا، جہاں پندرہ بیس بڑی بڑی آرام دہ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ جن کے پیچھے ہیپی مدر ڈے کا ایک بڑا سا بینر لگا کر اس کے ساتھ ہی جھریوں بھرے چہرے والی مدر ٹریسا کی ایک بڑی سی تصویر بھی لگائی گئی تھی۔ ہوا کے دوش پر اڑتی رنگی برنگی جھنڈیاں ایک عجیب سی آواز پیدا کر رہی تھیں، جیسے وہ آج کے دن پر تالیاں بجا رہی ہوں۔ سفید اور سرخ رنگ کے اڑتے غباروں نے منظر میں اور بھی خوبصورتی بھر دی تھی۔ عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ عورتوں کی قطار میں ہر طرف میک اپ زدہ خوش شکل اور مسرور چہرے موجود تھے، جو خوش لباسی میں ایک دوسرے کو مات دے رہے تھے۔ مردوں میں اکثر تھری پیس سوٹ پہن کر آئے تھے جو ادھر ادھر تانک جھانک کرتے ہوئے آپس میں باتوں میں مصروف تھے اور بچے رنگ برنگے کپڑے پہنے ایک دوسرے میں گھسے خوب ہلہ گلا کر رہے تھے۔ لان کے ایک طرف سجی ہوئی میز کے درمیان میں گلاب کی پتیوں سے بھری ایک بڑی سی ٹوکری پڑی تھی، جس کے ارد گرد دائرے کی صورت میں کافی ساری تھالیاں سلیقے سے رکھی تھیں، جو گلاب کی سرخ پتیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ خوشبوؤں سے پورا لان معطر تھا۔ مدر ڈے کے حوالے سے ایسا اہتمام میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کبھی کبھی میں رشک بھری نظروں سے میڈم کی طرف بھی دیکھ لیتا جو بڑی گرم جوشی کے ساتھ مہمانوں کے استقبال میں مصروف تھی۔
مجھے بیٹھے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ اچانک میں گیٹ سے ’’وہ آ گئے۔۔۔ وہ آ گئے۔۔۔‘‘ کا ہلکا سا شور بلند ہوا اور اس کے ساتھ ہی گیٹ پر دوڑتے بھاگتے قدموں کی کئی آوازیں ابھریں۔
’’چلو بچو! جلدی سے یہاں آ جاؤ میرے پاس۔۔۔‘‘
میڈم نے بلند آواز میں پکار کر بچوں کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ وہ لان کے داخلی راستے پر کھڑی تھی۔
سب بچے شور مچاتے ہوئے فوراً میڈم کی طرف لپکے۔ جہاں اس نے بچوں کو جھٹ پٹ دونوں طرف قطار میں کھڑا کر دیا اور ہدایات دیتی ہوئی گلاب کی پتیوں سے بھری تھالیاں ان کے ہاتھوں میں تھما دیں۔ اس دوران میں میں گیٹ کھول دیا گیا اور سب کی نظریں اسی طرف ہی جم گئیں۔ ایک سفید رنگ کی بڑی سی وین اندر آ کر رکی، جس پرسرخ رنگ سے بڑا بڑا ’’امید ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ سب لوگ اپنی سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں بھی کھڑا ہو کر حیرت میں ڈوبا
سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ گاڑی کا دروازہ کھلا تو اندر سے مڑی ہوئی کمر والی ایک بوڑھی عورت نکلی، جسے میڈم نے دونوں ہاتھوں کا سہارا دے کر بڑی آہستگی سے نیچے اتارا۔ اس کے بعد دوسری بڑھیا نکلی۔۔۔ پھر تیسری۔۔۔ پھر چوتھی۔۔۔۔ پھر پانچویں۔۔۔
یہ عجیب سلسلہ میں حیرت سے دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک اگلا لمحہ مجھ پر قیامت بن کر جھپٹا، جس نے میری آنکھوں سے روشنی نچوڑ کر انگارے بھر دیئے اور میں تکلیف کی شدت سے بلبلا اٹھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہاں موجود سب لوگوں نے میرے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر کے مجھے بھری محفل میں ننگا کر دیا ہو۔ میری آنکھوں کے سامنے کانپتی ہوئی میری ضعیف ماں گاڑی سے اتر رہی تھی۔
٭٭٭