’’کیا بچوں کو چھوڑنے کا تمہارا یہ آخری فیصلہ ہے۔۔۔؟‘‘ جج نے سامنے کھڑی عورت سے پوچھا جس کے دائیں طرف دو معصوم بچے سہمے ہوئے کھڑے تھے اور دونوں نے ایک دوسرے کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔
’’جی ہاں جج صاحب۔۔۔ میری طلاق کو دو سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور تب سے میں نے بچوں کو سنبھالا ہوا ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ بچوں کا باپ ان کا خرچہ ہر مہینے باقاعدگی سے دیا کرے گا مگر آج تک مجھے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی۔ اب میں دونوں بچوں کو ان کے باپ کے حوالے کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ عورت نے ڈھٹائی سے کہا
’’ہاں۔۔۔ تم کیا کہتے ہو۔۔۔؟‘‘ جج نے بچوں کے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جو خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’جج صیب۔۔۔ میں بہت غریب آدمی ہوں۔ کبھی دیہاڑی لگتی ہے اور کبھی نہیں۔ جو بھی کماتا ہوں وہ میری بیماری پر خرچ ہو جاتا ہے اور پھر اس عورت کے حق حقوق جو عدالت نے طے کئے تھے، وہ میں جیسے تیسے پانچ ہزار روپے ہر مہینے اسے دے رہا ہوں۔ مزید مجھ سے گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ بچوں کو اس کی ماں کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔ ویسے بھی بچے ماں کے ساتھ بہت خوش رہتے ہیں۔‘‘ بچوں کے باپ نے جج سے نہایت عاجزی سے کہا
’’نہیں جج صاحب۔۔۔ میں اس کے بچوں کو اب مزید نہیں پال سکتی اور میں آج بچوں کو اس کے حوالے کر کے ہی جاؤں گی۔‘‘ عورت نے انتہائی ٹھوس لہجے میں کہا
’’جج صیب۔۔۔ میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ میری حالت کافی خراب ہے، اس لئے بچوں کو اس کی ماں کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔ انہیں ماں سے الگ کر کے ان پر ظلم نہ کیا جائے۔‘‘ اس نے جج کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے روہانسے لہجے میں کہا اور اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ دونوں کی بات چیت سننے اور کافی دیر کے بحث و مباحثہ کے بعد جج صاحب نے حکم سناتے ہوئے کہا
’’دونوں بچوں کو باپ کے حوالے کیا جائے۔‘‘
اور جب بیلف بچوں کو ماں سے الگ کرنے لگا تو دونوں بچے دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ وہ امی امی پکارتے ہوئے اپنی ماں سے بار بار چمٹ جاتے۔ بیلف ایک بچے کو پکڑ کر باپ کے حوالے کرتا تو دوسرا ماں کے دامن سے لپٹ جاتا، وہ اسے الگ کرتا تو پہلے والا مچلتا تڑپتا باپ کا ہاتھ چھڑا کر روتا ہوا ماں کا بازو پکڑ لیتا۔ بچوں کی روح کو تڑپا دینے والی چیخ و پکار کمرۂ عدالت میں ہر طرف گونجنے لگی۔ مگر بچوں کی تڑپ اور ان کا بین ماں پر ذرا بھی اثر انداز نہ ہوا اور وہ انہیں جھٹک کر پاؤں پٹختی ہوئی عدالت سے باہر چلی گئی۔ ماں کو جاتا دیکھ کر دونوں بچے مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے باپ کے ہاتھوں سے نکل نکل جاتے۔ بڑی مشکل سے اس کے باپ اور بیلف نے بچوں کو پکڑ کے قابو کئے رکھا۔ جنہوں نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا اور امی امی کہتے ہوئے ادھ موئے ہو گئے تھے۔ کافی دیر تک وہ چپ نہیں ہوئے تو بالآخر جج نے جھنجھلا کر غصے میں بیلف سے کہا
’’انہیں باہر نکالو یار۔۔۔ مغز خراب کر دیا ہے۔‘‘
٭٭