’’کون ہو تم لوگ۔۔۔؟‘‘ داروغہ کی گرجدار آواز گونجی۔
’’ہم جنت کے وارث ہیں اور بڑی مشکل سے جنت کا راستہ تلاش کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک بولا، وہ تعداد میں سات تھے۔
’’کس راستے سے آئے ہو تم لوگ۔۔۔؟ اور تمہارے چہرے اتنے سرخ کیوں ہیں؟‘‘
’’اس لئے کہ ہم سرخ راستے سے یہاں تک پہنچے ہیں۔‘‘
’’مگر جنت کا تو سفید راستہ ہے۔۔۔ یہ سرخ راستہ کون سا ہے۔؟‘‘
’’کمال ہے۔۔۔۔ آپ جنت کے داروغہ ہیں اور آپ شہیدوں کے سرخ راستے سے ناواقف ہیں؟‘‘ وہ چیخے
’’شہیدوں کے راستے سے آنے والوں کے چہرے سرخ نہیں ہوتے، وہ تو چمکتے چہرے ہوتے ہیں۔ میں دکھاتا ہوں تمھیں کہ شہید کیسے ہوتے ہیں۔‘‘ داروغہ نے کہا اور پھر ایک اشارہ کیا۔
کرنوں کی ایک روشن رتھ وہاں آ کر اتری۔ جس پر دمکتے چہروں والے بہت سارے بچے بیٹھے ہوئے تھے، جن کے سروں پر رکھے تاج جگمگا رہے تھے۔
’’انکل۔۔۔ یہی ہیں۔۔۔۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے سکول میں داخل ہو کر ہمیں گولیاں ماریں۔‘‘ بچے چلائے۔
’’انکل۔۔۔ یہ دیکھیں، میں تو اپنا ہوم ورک کر کے گیا تھا اور ٹیچر نے ایکسیلنٹ بھی لکھا تھا، پھر ان لوگوں نے مجھے گولی کیوں ماری؟‘‘ ایک بچے نے خون میں لتھڑی ہوئی اپنی کاپی دکھاتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔
’’انکل۔۔۔۔۔ میں تو پیپر کی فل تیاری کر کے گیا تھا اور خود سے پیپر کر رہا تھا، ایک لفظ کی بھی نقل نہیں ماری تھی۔ یہ دیکھیں میرا سارا پیپر لال ہو گیا ہے۔ ان لوگوں نے میرا پیپر کیوں خراب کر دیا۔۔؟ ایک بچے نے اپنا سرخ پیپر دکھاتے ہوئے دکھی لہجے میں پوچھا۔
’’انکل۔۔۔۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ میرے یونیفارم پر جب کبھی سیاہی گرتی تو ماما مجھے بہت ڈانٹتی تھیں، مگر ان لوگوں نے میرا پورا یونیفارم سرخ کر دیا ہے۔۔۔۔۔ انکل اب میں گھر نہیں جاؤں گا، میرا سرخ یونیفارم دیکھ کر ماما مجھے ماریں گی۔‘‘ ایک اور بچے کی اداس آواز گونجی
’’انکل۔۔۔۔ یہ دیکھیں۔۔۔۔۔ میرا ڈرائنگ کا پیپر۔۔۔۔۔ میں تتلی میں اتنے پیارے پیارے رنگ بھر رہی تھی اور میری ٹیچر مجھے بار بار شاباش دے رہی تھی، مگر انہوں نے میری تتلی پر سرخ رنگ ڈال کر میری تتلی کو خراب کر دیا، اب میری ٹیچر مجھ سے ناراض ہو جائیں گی اور مجھے ڈرائنگ کے پیپر میں فیل کر دیں گی۔‘‘ ایک معصوم بچی نے اپنی ڈرائنگ دکھاتے ہوئے کہا اور افسردہ ہو گئی۔
داروغہ کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا۔ اس نے قہر آلود نظروں سے ان ساتوں کو گھورا اور گرجتے ہوئے بولا:
’’دفع ہو جاؤ تم ملعون لوگ۔۔۔۔ تم ان معصوموں کو روند کرسیاہ راستے سے یہاں تک پہنچے ہو اور سیاہ راستے سے آنے والوں کی منزل جنت نہیں جہنم ہے۔‘‘
اس کے بعد داروغہ نے ایک اشارہ کیا ور اچانک خوفناک چہروں والی سات لمبی لمبی گردنیں نمودار ہوئیں اور ان ساتوں کو گردنوں سے اچک کر لے گئیں۔ وہ تڑپنے لگے اور ان کی خوفناک چیخیں گونجتی رہ گئیں۔
’’تھینک یو انکل‘‘
بچوںے نے داروغہ سے کہا اور دمکتے چہرے والے سارے بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔
(سانحہ پشاور کے شہدا کے نام)
٭٭