رشید نے پورا محلہ سر پر اٹھا رکھا تھا۔ شور شرابہ سن کر بہت سارے محلے دار وہاں جمع ہو گئے تھے جو اپنے پڑوسی شوکت کی بیٹھک کو دھڑا دھڑ پیٹے جا رہا تھا۔
’’باہر نکلو لوفر انسان! میں کافی دنوں سے موقع کی تلاش میں تھا۔ آج تیرا بچ نہیں ہے۔ نکل باہر لچا کہیں کا۔۔۔‘‘
شدید گرمی کے باعث وہ پسینے میں نہایا ہوا تھا اور چیخ و پکار نے اس کے چہرے کو اور بھی بگاڑ دیا تھا۔ سب لوگ حیران تھے کہ ماجرا کیا ہے؟
’’حاجی صاحب! آپ ہی کچھ بتائیں کہ ہم شریف لوگ اب کہاں جائیں؟ شوکت کے چھوکرے سلیم کے لچھن سے پورا محلہ واقف ہے پھر بھی سارے خاموش ہیں مگر میں اب چپ نہیں رہوں گا، آج میں اس کا پول کھول کے رہوں گا۔‘‘ رشید نے دھاڑتے ہوئے سفید ریش حاجی اکرم سے کہا جو ابھی ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر آ رہے تھے۔
’’میں کہتا ہوں کہ شرافت سے باہر نکل آ مردود انسان۔۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ اندر تم کیا گل کھلا رہے ہو۔ میں نے خود تمہاری بیٹھک میں ایک عورت کو داخل ہوتے دیکھا ہے۔
خدا کی قسم! آج میں تمہیں سب کے سامنے ننگا کر کے رہوں گا۔ یہ شریفوں کا محلہ ہے، یہاں یہ لچر بازیاں نہیں چلیں گی۔ جلدی سے دروازہ کھول دو۔‘‘
وہ بیٹھک کا دروازہ پیٹتے ہوئے دھاڑا۔ غصے کی شدت سے اس کے ہونٹوں سے جھاگ نکل آیا تھا اور آنکھیں لال ہو گئی تھیں۔
حاجی صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ مزید بگڑ گیا۔ دو تین اور لوگوں نے جب اس کا ساتھ دیا تو وہ اور بھی شیر ہو گیا۔
سارا محلہ جانتا تھا کہ رشید بہت تند مزاج تھا اور لڑائی جھگڑا اس کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔
’’حاجی صاحب۔۔۔۔۔۔ محلے کے سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ ذلیل انسان اب سارے محلے کے لئے ایک وبا ہے۔ کیا ہوا جو میری کوئی اولاد نہیں مگر محلے کی دوسری بچیاں بھی تو میری دھی بیٹیاں ہیں ان پر بھی برا اثر ہو گا اور آج میں یہ فحاشی کا اڈہ ختم کر کے رہوں گا۔‘‘ رشید کی زبان مسلسل چل رہی تھی اور لوگوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا دی تھی۔
’’مجھے پتہ ہے کہ تم اندر ہو، اگر تم شرافت سے باہر نہ آئے تو میں پولیس کو لے آؤں گا۔ پھر اپنی عزت بچاتے رہنا۔ بھلائی اسی میں ہے کہ دروازہ کھول دو۔‘‘
رشید نے ایک بار پھر دروازہ پیٹتے ہوئے حلق پھاڑ کر کہا۔ دو تین اور لوگوں نے بھی اس کی پیروی میں دروازے پر دھڑا دھڑ ہاتھ مار دیئے۔
اچانک دروازہ کھلا اور ایک عورت نمودار ہوئی۔
’’رشید تم۔۔۔۔؟‘‘ سامنے شہر کی مشہور رنڈی کو دیکھ کر رشید کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور اس کی آنکھوں میں اندھیرا بھر گیا۔
’’تم بھی اسی محلے میں رہتے ہو۔۔۔؟ عرصہ ہوا تم نے پھر خدمت کا موقع ہی نہیں دیا۔۔۔۔۔۔ چلو تمھارے ہاں بھی اب آنا جانا لگا رہے گا۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے شرارت بھرے انداز میں کہا
مگر رشید تو وہاں تھا ہی نہیں، وہ تو کب کا شرمندگی کی دلدل میں دھنس چکا تھا۔ حاجی صاحب زور زور سے ’’استغفراللہ‘‘ پڑھتے ہوئے وہاں سے کھسک گئے اور مجمعے پر سناٹا طاری ہو چکا تھا۔
٭٭