کائنات کی تخلیق قدرت کے کرشموں کا ایک ایسا حیرت کدہ ہے کہ جس کی بھید بھری دنیا تک رسائی کے لئے قدرت نے ہر طرف جلووں کے انوکھے سلسلے رکھ دیئے مگر ساتھ ہی کہیں ویرانیوں نے بھی چپکے سے جنم لے لیا اور کائنات کے جلوے ماند پڑنے لگے۔ قدرت سے کائنات کا یہ دکھ دیکھا نہ گیا، اس دکھ کے مداوے کے لئے یہاں پنپتی ویرانیوں کو مٹانے اور اپنے جلووں کو جلا بخشنے کی خاطر قدرت نے انسان کا وجود لازمی قرار دے دیا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ انسان خلد میں تھا، اسے کائنات کے اسرار بھرے جہانوں میں کیسے اتارا جاتا۔۔۔؟ انسانی وجود کو زمین پر لانے کے جواز میں قدرت نے کہانی کا سہارا لیا اور تین کرداروں پر مشتمل کائنات کی سب سے پہلی بڑی اور سچی کہانی لکھی، جس کے تجسس بھرے انجام کی بدولت انسان اس کہانی کا ایک متحرک کردار بن کر جنت سے زمین پر اتر آیا۔ فرشِ خاک پر قدم رکھتے ہی ایک اور زمینی کہانی نے انسان کو اپنے حصار میں لے کر ایک لازوال کردار بنا لیا۔ اس نئی کہانی نے نئے راستے تراشے اور انسانی کرداروں کا تجسس دیکھ کر کہانی نے انجام کا طوق پہننے سے انکار کر دیا۔ حیرتوں نے انسان کے اندر سرسراہٹیں کیں اور وہ ان سرسراہٹوں کا پیچھا کرتا ہوا کہانی میں پوشیدہ نئے زمانوں کی طرف جا نکلا جہاں سرخ آنکھوں والے کچھ نئے کردار داخل ہو گئے۔ جن کے باطن میں چھپے نامانوس جذبوں نے سر ابھارا، عداوتوں کے اجنبی موسم اترے اور کہانی میں حادثوں کی بارش ہونے لگی۔ سرخ نینوں والے کرداروں نے کہانی میں گھات لگائے اندھیروں کی طرفداری کر کے ان اجلے کرداروں پر وار کر دیا جن کے باطن میں روشنیوں کے شہر در شہر آباد تھے۔ خیر اور شر کی عالمی جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں زمین نے پہلی بارانسانی لہو چاٹ کر اس کا ذائقہ اپنے اندر اتارا تو اسے یہ نیا ذائقہ بھا گیا۔ کہانی میں پھوٹ پڑ گئی اور کردار دو حصوں میں بٹ گئے۔ کہانی آگے بڑھی اور زمانی حدود سے نکل کر کائنات میں پھیلتی چلی گئی۔ پرانے کردار مرتے گئے، نئے داخل ہوتے گئے اور کہانی موڑ در موڑ لیتے لیتے بالآخر زندگی ٹھہری۔ تب سے زندگی بھی جاری ہے، یہ کہانی بھی اور حادثوں کی بارش بھی۔ دلوں کے شہر کو تاراج کرتا ہوا جب کوئی حادثہ اترتا ہے تو اس کے احتجاج میں ہزاروں کہانیاں جنم لے کر کائنات میں پھیل جاتی ہیں۔
منیر احمد فردوس
0333-997-3550
[email protected]