وہ خود کش جیکٹ پہنے گاڑی میں بیٹھا اپنے ٹارگٹ کی طرف روانہ تھا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا کہ اب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بٹن حائل تھا، جسے دباتے ہی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا، جہاں حوریں اس کا استقبال کرنے کو مچل رہی ہوں گی۔ وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ وہ باہر نکلا، سامنے ہی اس کا ٹارگٹ تھا جہاں ہزاروں کا ہجوم تھا۔ وہ شہر کا ایک بہت بڑا دربار تھا جہاں ہر وقت بے شمار لوگ موجود رہتے تھے۔ اس کے قدم دربار کی طرف اٹھ گئے اور وہ محتاط انداز میں آگے بڑھنے لگا۔ یہ دربار اس کا جانا پہچانا تھا، جہاں پر وہ اپنی ماں کے ساتھ کئی بار آ چکا تھا۔ اس کے قدم دربار کی طرف مسلسل بڑھ رہے تھے۔
’’کیا تم نہیں جانتے کہ یہی وہ دربار ہے جہاں تمہاری ماں نے سالوں تک منتیں مرادیں مانگیں اور تب جا کر تم پیدا ہوئے۔۔ کیا تم بھول گئے سب کچھ؟‘‘ اچانک اس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی اور وہ چونک اٹھا۔ اس نے اپنے آس پاس دیکھا مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
وہ آگے بڑھنے لگا۔ مگر جوں جوں وہ آگے بڑھ رہا تھا دربار کے ساتھ جڑی بہت ساری یادیں اس پر حملہ آور ہوتی جا رہی تھیں جو اس کے اندر ایک عجیب سا ہیجان پیدا کر رہی تھیں۔ وہ لوگوں میں پہنچ چکا تھا جن کے دکھی چہرے اس کے سامنے تھے اور سب نے اپنے اپنے دکھوں کی گٹھڑیاں اٹھا رکھی تھیں۔ وہ جس چہرے پر بھی نظر ڈالتا وہ اس کے اندر اتر جاتا۔ پل بھر میں اس کے اندر اتنے چہرے اتر گئے کہ اس کے اندر دو لمحے آپس میں لڑ پڑے۔ ایک طرف جنت جو ایک بٹن میں چھپی ہوئی تھی اور دوسری طرف پریشان لوگوں کے مرجھائے ہوئے چہرے جو اپنی امیدوں کے گمشدہ راستے تلاش کرنے آئے تھے۔ اسے یوں لگا جیسے ان ہی لوگوں میں کہیں آس پاس اس کی ماں بھی موجود ہے جو آج بھی اسے مانگ رہی ہے۔ ماں کا خیال آتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اس کے اندر اترے ہوئے دو لمحے اور بھی شدت کے ساتھ لڑ پڑے۔ آتے جاتے مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان یہاں تک کہ معصوم بچے جنہوں نے اپنے ماں باپ کی انگلی تھام رکھی تھی، سب کے سب اس کی آنکھوں میں اتر گئے۔
اچانک اس کے ذہن میں اندھیرا بھر گیا اور اس کا جسم کانپنے لگا۔ ایک طرف اس کی جنت اور دوسری طرف معصوم بچوں کی بھٹکتی ہوئی جنتیں۔۔۔۔۔ وہ تذبذب کا شکار ہو گیا اور خود سے الجھ پڑا۔ کتنی ہی دیر تک وہ اپنے اندر جنگ لڑتا رہا۔ آخر کار اس نے اپنی جنت کا فیصلہ کیا اور اچانک دوڑ پڑا۔ دربار میں موجود ہزاروں لوگ حیرت زدہ ہو کر اسے بھاگتا ہوا دیکھنے لگے۔ اس کے پیروں میں بجلیاں سی بھر گئیں اور وہ اڑنے لگا۔ وہ کئی لوگوں سے ٹکرایا مگر وہ ایک پل کے لئے بھی نہیں رکا اور ہانپتا ہوا بھاگتا چلا گیا۔ اچانک فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی اور کئی گرم سلاخیں ایک ساتھ اس کے جسم کے آر پار ہو گئیں، جیسے ہی وہ نیچے گرا، ایک خوفناک دھماکہ ہوا اور اگلے ہی لمحے اس کے وجود کا نام و نشان نہیں تھا مگر اس وقت تک وہ دربار سے بہت دور جا چکا تھا۔
٭٭