افسانچے
وہ نوجوان انتہائی زہریلی نظروں سے لوگوں کے مجمع کو گھور رہا تھا جو شہر کی معروف چوک میں ہونے والے جلسے میں شریک تھے۔ شہر کا ایم این اے جوشیلے انداز میں تقریر کر رہا تھا
’لوگو۔۔۔ یاد رکھو! آپ کے بغیر ہم کچھ نہیں۔۔۔ یہ ملک کچھ نہیں۔۔۔ یہ نظام کچھ نہیں۔۔۔ آپ ہی اس ملک کی اصل طاقت ہیں۔ آپ لوگوں کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔ پچھلے الیکشن میں بھی اپنے اس خادم کو جتوا کر آپ سب نے اپنی قسمت بدلنے کا مجھے موقع عطا کیا اور ہماری عوامی حکومت نے آپ لوگوں کے لئے دن رات ایک کر دیئے۔ عوام کو روزگار دیا۔ غربت مکاؤ پروگرام شروع کیا۔ اسی شہر میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا اور لوگوں کے سرد چولہے جل اٹھے۔ عام آدمی کی سوئی قسمت کو ہم نے جگایا۔
آج پھر آپ لوگوں کا خادم آپ سب کے پاس آیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پہلے کی طرح اس بار بھی آپ سب اس یادگار چوک پر فتح کے جھنڈے گاڑیں گے اور یہاں سے اپنی خوشحالی کا ایک نیا سفر شروع کریں گے۔‘‘
فضا نعروں اور تالیوں سے گونج اٹھی مگر وہ نوجوان لیڈر کی کھوکھلی اور بے تکی باتیں سن کر غصے کی آگ میں بری طرح سے جل رہا تھا۔ وہ عوام کی بے حسی پر پیچ و تاب کھاتا ہوا اندر ہی اندر روتا ہوا اپنے آنسوؤں میں ڈوبتا جا رہا تھا جنہوں نے اس کے باپ کی قربانی کویکسر بھلا ڈالا تھا، جس نے پچھلے سال اس ظالم نظام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے غربت سے تنگ آ کر اسی چوک پر خود کو آگ لگا دی تھی مگر لوگ اس نظام سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوئے تھے جو اس کے باپ کی لاش پر کھڑے ہو کر اس ناکارہ نظام کے حق میں تالیاں پیٹ رہے تھے۔ سینہ تانے سٹیج پر کھڑا لیڈر فاتح بن کر ہوا میں ہاتھ لہرا رہا تھا اور دوسری طرف اس کے باپ کی لاش آج بھی دھڑا دھڑ جل رہی تھی۔
٭٭