ڈھولک کی تھاپ گھر بھر میں گونج رہی تھی۔ کمرے میں رانو گوٹے والا سرخ دوپٹہ سر پر ڈالے منہ ڈھانپے دلہن بنی بیٹھی تھی اور آٹھ دس لڑکیاں اسے گھیرے ’’ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے، بابل اسی اڈ جانڑاں‘‘ گا رہی تھیں۔ گاتے ہوئے وہ اتنا زور لگا رہی تھیں کہ ان کے چہرے سرخی مائل ہو کر خوب دمک رہے تھے اور ہر چہرہ تازگی میں پھولوں کو کملا رہا تھا۔ مگر باہر وسیع صحن میں فیضو اپنے سر کو دونوں ہتھیلیوں پر رکھے اور داہنی ٹانگ کو بائیں ٹانگ پر دھرے کھاٹ پر پڑا ہر چیز سے بے نیاز یوں لیٹا تھا جیسے ڈھولک اس کے گھر میں نہیں کہیں اور بج رہی ہو۔ اس کا وجود کھاٹ پر پڑا تھا مگر اس کے چہرے سے صاف پتہ چلتا تھا کہ سوچوں کے اڑتے پنچھیوں کا پیچھا کرتے ہوئے وہ کسی اور جہانوں میں اترا ہوا تھا۔ وہ شدید تذبذب کا شکار لگ رہا تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس کا چہرہ میدانِ جنگ بنا ہوا ہے جہاں دو لمحوں کے بیچ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ کافی دیر تک وہ اسی حالت کا قیدی رہا اور پھر اچانک اس کے چہرے پر طمانیت یوں پھیلتی چلی گئی جیسے ٹوٹی پھوٹی دیوار پر سفیدی کی دبیز چادر چڑھا دی گئی ہو۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی ایک لمحے کی جیت ہو گئی ہے۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور اپنی ماں کو تلاشتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا جو اسے بھینسوں کے آگے چارا ڈالتی ہوئی نظر آئی۔ فیضو ننگے پاؤں ہی اپنی ماں کی طرف بڑھ گیا۔
’’اماں! میں بابے کو ڈھونڈنے شہر جاؤں گا۔‘‘ ماں کے قریب پہنچتے ہوئے اس نے کہا اور اس کی ماں چارہ ڈالتے ڈالتے یک لخت رک گئی۔
ڈھولک کی تھاپ اور لڑکیوں کے گانے کی آوازیں مسلسل گونج رہی تھیں۔ فیضو کی ماں چند لمحے تو ساکت کھڑی اسے دیکھتی رہی اور پھر بھینس کو چارہ ڈالتے ہوئے بولی
’’یہ تو کیا کہہ رہا ہے پتر؟‘‘ اس کے چہرے پر فکر اپنا نقشہ بنا نے لگی تھی۔
’’ہاں اماں! میں نے سوچا ہے کہ میں بابے کے واسطے شہر جاؤں گا۔‘‘ فیضو نے بھینس کی دائیں آنکھ کے قریب چمٹا ہوا بڑا سا تنکا ہٹاتے ہوئے کہا
’’ناں فیضو ناں! میں تجھے شہر نہیں جانے دوں گی۔ میں ڈرتی ہوں کہ شہر میں جا کر کہیں تو گم نہ ہو جائے۔‘‘ اس کی ماں تشویشناک لہجے میں بولی۔
’’نہیں اماں! مجھے کچھ نہیں ہو گا، تْو تو بس ایویں ہی پریشان ہو جاتی ہے، میں اتنا چھوٹا تو نہیں کہ بابے کو ڈھونڈنے شہر بھی نہ جا سکوں؟‘‘ فیضو نے بھینس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
اچانک بکری کی ’میں۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔‘ گونج اٹھی۔ فیضو نے صحن کے آخری کونے میں بندھی بکری کو دیکھا، جو اسی کی طرف دیکھے ’میں۔۔۔ میں۔۔۔۔‘ کیے جا رہی تھی، جیسے وہ اسے اپنی بھوک کا احساس دلا رہی ہو۔
’’مگر پتر! تمہارا اکیلے شہر جانا ٹھیک نہیں۔ سنا ہے کہ شہر کے حالات بہت خراب ہیں‘‘ اس کی ماں نے دو زانو بیٹھ کر بھینس کو چارہ ڈالتے ہوئے کہا۔
وہ اپنی ماں کو کوئی جواب دئیے بغیر برآمدے کی جانب چل دیا، وہاں سے ہری ہری گھاس اٹھائی اور جا کر بکری کے آگے ڈال دی۔ بکری بے چین ہو کر ممیانے لگ پڑی اور زور زور سے دم ہلاتے ہوئے ہری ہری گھاس کھانے لگی، جیسے وہ اس مہربانی پر فیضو کا شکریہ ادا کر رہی ہو۔
’’اماں! تو یہ بھی تو سوچ ناں کہ بابے کو شہر گئے ہوئے دو دن ہو گئے ہیں اور وہ ابھی تک نہیں آیا، ہم سب کتنے پریشان ہیں، بس اماں! میں بابے کو ڈھونڈنے شہر ضرور جاؤں گا۔‘‘ فیضو دوبارہ ماں کے پاس آ کر ٹھوس لہجے میں بولا
’’سوہنڑاں رب خیر کرے فیضو پتر! مگر تو اپنے باپ کو کہاں ڈھونڈے گا؟ شہر تو بہت بڑا ہے اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کس سنارے سے زیور لینے گیا ہے؟‘‘
اس کی ماں نے بھینس کا تازہ تازہ گوبر اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر ساتھ رکھے بڑے سے تھال میں ڈالتے ہوئے کہا۔ اس کے لہجے سے پریشانی پانی کے بوندوں کی طرح رس رہی تھی۔
’’اماں! تو وہم نہ کر، میں اب شہر جا سکتا ہوں۔ میں بابے کو تلاش کر لوں گا۔ کل رانو کی بارات آنے والی ہے اور بابے کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ہے‘‘ فیضو نے بے چینی سے مچلتے ہوئے کہا۔ اس کی ماں نے گوبر سے بھرا ہوا تھال اسے دیا اور وہ اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھائے وہاں رکھ آیا، جہاں اس کی ماں دیوار پر اپلے لگاتی تھی۔
بالآخر فیضو کی ضد اس کی ماں پر حاوی ہو گئی اور اسے فیضو کو شہر جانے کی اجازت دینا ہی پڑی۔ وہ اس کے شہر جانے پر رضا مند تو ہو گئی مگر اس کے چہرے پر فکر و تردد کی کتنی ہی تہیں چڑھتی چلی گئیں۔ وہ پہلے ہی اپنے خاوند کے شہر سے واپس نہ آنے پر پریشان تھی اور اب فیضو کا یوں اکیلے شہر جانا اسے مزید پریشان کر گیا۔
(۲)
اْس وقت سائے قدموں کو چومنے لگے تھے جب اٹھارہ سالہ فیضو اپنی ماں کے چہرے کی تیزی سے ماند پڑتی چمک کو ویرانی میں تبدیل کر کے شہر روانہ ہوا تھا۔ وہ خود بھی کافی الجھا ہوا تھا اور شہر پہنچنے تک وسوسوں کے گدھ اس پر جھپٹتے رہے، جن سے وہ خود کو ایک پل کے لئے بھی نہیں چھڑا پایا تھا۔ اسی ذہنی کشمکش میں وہ کب شہر پہنچ گیا، اسے پتہ ہی نہ چلا۔ اپنے سامنے شہر کی بلند و بالا خوبصورت عمارتیں، وہاں کی ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گیا۔ ہر طرف دھوئیں کے بڑے بڑے بادل چھوڑتی گاڑیاں، فضا میں چنگھاڑتے ہارن، مشینی انداز میں چلتا ہوا انسانوں کا جلوس، فضا میں گونجتی ٹریفک پولیس کی سیٹیاں، ٹھیلے والوں کی بلند ہوتی آوازیں اور عجیب طرح کا کان پھاڑتا ہوا شور کا ایک ریلا اچانک اس کے کانوں میں گھس گیا۔ اسے یہ سب بہت نا مانوس سالگا۔ اس کے چہرے پر ناگواری کی بارش ہونے لگی۔ اپنے سامنے سڑکوں کا الجھا ہوا جال دیکھ کر اس کا دماغ چکرا رہ گیا۔ کہاں سانپ کی طرح بل کھاتی اونچی نیچی گاؤں کی پگڈنڈیاں اور کہاں شہر کی بڑی بڑی پختہ سڑکیں۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ جائے تو جائے کس طرف؟ کافی دیر گزر جانے کے باوجود بھی وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ کیا کرے؟ شور کا اژدھا اسے نگل رہا تھا اور وہ بے بس اور پریشان کھڑا تھا۔ جب اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے اپنے قریب سے گزرتے ایک سفید ریش بزرگ کو روک لیا اور اپنی الجھن بتائی۔ بزرگ نے اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اسے صرافہ بازار جانے والی گاڑی پر بٹھا دیا۔ گھنٹے بھر کے سفر کے بعد وہ صرافہ بازار میں کھڑا تھا۔ بازار کی گہما گہمی، لوگوں کا ہجوم اور یہاں کی الگ تھلگ دنیا دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل کر کانوں کو جا لگیں۔ سڑک کے دونوں جانب سناروں کی بڑی بڑی خوبصورت دکانیں موجود تھیں۔ ہر دکان چھت تک صاف شفاف شیشوں سے مزین تھی، جہاں بے حساب برقی قمقمے جلتے نظر آ رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ دکانیں نہیں نور کی آبشاریں ہیں۔ فیضو جسم و جاں پر حیرت کی چادر اوڑھے ایک سنار کی دکان کی طرف بڑھ گیا۔ دکان سے امڈتا روشنی کا سیلاب اور ستاروں کی طرح چم چم کرتے دیدہ زیب زیورات دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے حرکت کرنا بھول گئیں۔ ایک ایک زیور کو دیدے پھاڑے وہ دیکھنے لگا۔ ابھی وہ جی بھر کر ان زیورات کو دیکھ بھی نہ پایا تھا کہ دکاندار نے اسے بری طرح سے جھڑک دیا۔ دکاندار کے اس نفرت انگیز رویے سے اس کا چہرہ اک دم سے بجھ گیا۔ اس نے دکاندار کو عجیب سی نظروں سے دیکھا اور پھر اپنے باپ کو تلاش کرتے ہوئے دکان پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائی مگر چند دوسرے لوگوں کے علاوہ اسے وہاں اپنا باپ نظر نہ آیا۔ وہ مایوس ہو کر آگے بڑھ گیا۔ اب وہ ایک دوسری دکان کے سامنے موجود تھا، یہاں پر بھی ہیرے، سونے، چاندی اور دوسری مختلف دھاتوں سے بنے ہوئے خوبصورت زیورات روشنیوں میں یوں چمک رہے تھے جیسے زیورات کے اندر بھی روشنی دوڑ رہی ہو۔ پہلے دکاندار کے سخت رویے نے اسے محتاط کر دیا تھا، اس لئے اس نے دوسری دکان پر زیادہ دیر رکنا مناسب نہ سمجھا۔ روشنی کا لبادہ اوڑھے اس کشادہ دکان کے اندر اس نے ایک بھر پور نظر ڈالی، جب اس دکان پر بھی اسے اپنا باپ دکھائی نہیں دیا تو اس کے قدم آگے کی طرف اٹھ گئے۔ ہر دکان خوبصورتی اور سجاوٹ میں دوسری دکانوں کو مات دے رہی تھی۔ وہ ہر ایک دکان کے اندر بغور جھانکتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا گیا، جیسے اسے یقین تھا کہ اس کا باپ ضرور کسی نہ کسی دکان پر بیٹھا ہو گا۔ کئی ایک دکانداروں سے اس نے اپنے باپ کے بارے میں پوچھ گچھ بھی کی، مگر ہر دکاندار نے عجیب سی نظروں سے گھور کر اسے چلتا کیا۔ پورا بازار گھوم پھر کر اس نے دیکھ لیا مگر اسے اپنا باپ کہیں بھی نظر نہ آیا۔ آخر اس نے بازار پر ایک طویل مایوس کن نظر ڈالی اور بازار سے باہر نکل آیا۔
اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ روشنیوں کے سیلاب میں دن کا سا سماں تھا مگر بازار سے نکلا تو اس نے دیکھا کہ اندھیرا شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ اس نے آسمان پر نگاہ دوڑائی تو وہ اچھا خاصا سیاہ ہو چکا تھا اور ستارے بھی نمودار ہونے لگے تھے۔ رات کو وہ شہر کا منظر پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا، چپے چپے پر دودھیا روشنی پھینکتے برقی چراغ اور گاڑیاں تھیں۔ ہر طرف روشنی ہی روشنی سانس لے رہی تھی۔ اپنے باپ کو مسلسل تلاش کرتے کرتے تھکاوٹ نے اسے ایسا پچھاڑ ڈالا کہ اب وہ اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے تھکن سے بے حال کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر پڑی اور پہلی باراس کے اندر اس احساس نے جنم لیا کہ وہ کافی دیر سے شدید بھوکا ہے۔ وہ بے تاب ہو کر ہوٹل کی طرف بڑھ گیا۔ وہ ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا، جہاں چند لوگ بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ بھوک اسے اتنا ستا رہی تھی کہ وہ اپنے باپ کی پریشانی بھول کر کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے خوب سیر ہو کر کھایا اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد جب اس نے پیسے دینے کے لئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اگلے ہی لمحے اسے پیروں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔ اس کا ہاتھ جیب کے اندر سے نکل کر باہر کی طرف جھانک رہا تھا۔ اسے پتہ ہی نہیں چل سکا تھا کہ کب اس کی جیب کٹ گئی تھی۔ کٹی جیب دیکھ کر اس کی چہرے پر سیاہ رات چھا گئی اور وہ گنگ سا ہو کر ہوٹل کے مالک کو ہونقوں کی طرح دیکھنے لگا۔ اس کی حالت دیکھ کر ہوٹل کے پٹھان مالک کو اصل بات سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی۔ وہ سارا معاملہ سمجھ گیا اور بڑے کرخت لہجے میں چیخ کر بولا۔
’’اے لکا، اب تم بولے گا کہ امارا جیب کٹ گیا ہے مگر خدا قسم گل خان تم جیسا بدمعاش چھوکرا کو اچی طرح جانتا ہے، گل خان کو پاگل بناتا ہے؟ تم نے کانے کا پیسہ نئیں دیا تو خدا قسم ساری رات تم کو کام کرنا پڑے گا ادھر ہوٹل پر، کیا سمجھا تم؟‘‘ گل خان کی چنگھاڑ اور اس کی آنکھوں سے نکلتی چنگاریوں سے فیضو لرز کر رہ گیا۔ یہ سب دیکھ کر ہوٹل پر کام کرنے والا چھوٹی عمر کا واحد لڑکا فیضو کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا تھا اور کھانا کھاتے لوگ بھی اس کی طرف دیکھنے لگے مگر فیضو کی یہ حالت تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ شدید سہم گیا تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ ایک تو اس کی جیب کٹ چکی تھی اور اوپر سے اس نئی مصیبت نے اسے اور بھی پریشان کر دیا۔ اس کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے گل خان پھر چیخا۔
’’اوئے چوٹے! اس چھوکرا کو کام پر لگا اور نظر رکھ اس پر، آ جاتا ہے لوفر گل خان کے ہوٹل پر۔‘‘ اس نے فیضو کی طرف دیکھ کر دہاڑتے ہوئے کہا۔
’’اچھا استاد‘‘ فیضو کے ساتھ کھڑے چھوٹے نے کہا اور وہ اسے بازو سے پکڑ کر اس طرف لے گیا، جہاں سالن سے بھری ہوئی چکنائی والی پلیٹیں پڑی تھیں اور اسے دھونے پر لگا دیا۔ وہ چار و نا چار کام کرنے لگا، اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس پر ایسی آفت بھی آ سکتی ہے۔ اسے اپنی ماں کی فکر ستانے لگی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے گھر نہ پہنچنے سے اس کی ماں فکر سے تڑپ رہی ہو گی مگر اس کی اپنی حالت بھی کسی تڑپتی مچھلی سے کم نہ تھی۔ ابھی اسے کام کرتے ہوئے آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اچانک ہوٹل پر پولیس کی ایک وین آ کر رکی اور اندر سے پولیس کا ایک دستہ نکلا اور آناً فاناً پورے ہوٹل کو گھیرے میں لے کر اس کی تلاشی شروع کر دی۔ ہو ٹل کا مالک گل خان چیختا چلاتا رہ گیا کہ یہ تلاشی کیوں لیا جا رہا ہے؟ مگر پولیس نے اس کی ایک نہ سنی اور اپنے کام میں لگی رہی۔ پولیس نے ایسی بھر پور تلاشی لی کہ تھوڑی ہی دیر میں ہوٹل کے اوپر بنے بالا خانے سے دو نوجوانوں کو پکڑ لیا گیا، جن کے قبضے سے خود کش جیکٹیں اور اسلحہ برآمد ہوا تھا۔ گل خان ہتھکڑیوں میں جکڑا جا چکا تھا اور ساتھ ہی ہوٹل پر کام کرنے والے دونوں لڑکوں کو بھی پولیس نے پکڑ لیا تھا، جن میں سے ایک غم کی شدت سے نڈھال فیضو بھی تھا۔
(۳)
’’کرماں جلی! تو نے اسے شہر بھیجا ہی کیوں تھا؟ اسے کیا پتہ شہر کے رستوں کا؟ کبھی تو عقل سے بھی کام لیا کر۔‘‘
فیضو کے باپ نیاز نے مرغی اوراس کے چوزوں کی طرف روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈال کر اپنی بیوی جنتو پر ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
دونوں میاں بیوی اس وقت صحن میں رکھی کھاٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چوزوں کی چوں چوں حویلی کا طواف کر رہی تھی، جو دانہ چگنے میں مصروف تھے۔ اندر کمرے میں رانو دلہن کے لباس میں ملبوس اور زیوروں سے لدی بیٹھی تھی، جہاں اس کی سکھیاں اور چند دوسری عورتیں اس کے بناؤ سنگھار میں مصروف تھیں۔ نیاز کے چہرے پر زخموں کے نشان تھے اور دائیں پنڈلی پر میلی سی پٹی بندھی تھی، جہاں خون کے موٹے موٹے دھبے نظر آ رہے تھے۔
’’میں کیا کرتی؟ وہ شہر جانے کی ضد کر بیٹھا تھا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا مگراس نے میری بات نہیں مانی۔ پتہ نہیں اس وقت کہاں ہو گا میرا لال؟‘‘ فیضو کی ماں جنتو نے نیاز کی ٹانگ سے مکھیاں اڑاتے ہوئے کہا، جو بار بار اس کے زخم پر بیٹھ رہی تھیں۔
اس کے چہرے کا رنگ پریشانی اور ملول سے اتر چکا تھا اور آنکھوں میں وحشت چھاپے مارتی پھر رہی تھی۔ گھر میں کافی گہما گہمی بھی تھی، مہمان آئے ہوئے تھے مگر فیضو کے شہر سے واپس نہ آنے پر گھر بھر میں کافی پریشانی تھی اور شادی کا ماحول بھی قدرے اداسی میں بدل گیا تھا۔ فیضو کے پیچھے ایک دو آدمی بھی شہر روانہ کئے گئے تھے مگر وہ بھی ناکام و نامراد واپس لوٹ آئے تھے۔
’’شہر سے آنے والی کتنی ہی گاڑیاں دیکھ لی ہیں مگر کسی میں بھی فیضو نہیں تھا۔ شہر سے آنے والوں سے بھی اس کے بارے میں پوچھا مگر کسی کو بھی اس کا نہیں پتہ‘‘
نیاز نے اپنی داڑھی کھجلاتے ہوئے ٹوٹے لہجے میں کہا۔
جنتو اچانک داہنا ہاتھ فضا میں لہرا کر ’’ہش۔۔۔۔ ہش۔۔۔۔۔‘‘ کی آوازیں نکالنے لگی۔
نیاز نے چونک کر اس طرف دیکھا تو ایک موٹی سرمئی رنگ کی بلی دبے پاؤں چوزوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس نے جلدی سے فیضو کا جوتا اٹھایا اور پوری قوت سے بلی کی طرف دے مارا، جو اس کے سر کے اوپر سے گزر گیا اور بلی دم دبا کر بھاگ گئی۔ مرغی اور اس کے چوزے بلی کی آمد اور اس کے بھاگ جانے سے بے نیاز چوں چوں کرتے دانہ چگنے میں لگے ہوئے تھے۔
’’اب تو بارات بھی پہنچنے والی ہے اور فیضو کی ابھی تک کوئی خیر خبر نہیں ہے۔ کیسے رخصت کروں گا رانو کو اس کے بغیر؟ یہ سب کیا دھرا تمہارا ہے عقل کی دشمن۔‘‘ نیاز نے کھاٹ پر لیٹتے ہوئے کہا۔
’’وہ تو تیری خاطر بہت بے صبرا ہو رہا تھا، تم جو زیور لینے گئے تو دو دن بعد لوٹے ہو۔ اس سے صبر نہیں ہو سکا اور وہ تجھے ڈھونڈنے شہر چلا گیا۔‘‘ جنتو نے سر پر دوپٹہ اوڑھتے ہوئے مردہ لہجے میں کہا۔
’’اری نیک بخت! میں کہاں جا سکتا تھا؟ کہا تو ہے کہ میرے ساتھ حادثہ پیش آ گیا تھا۔ ایک موٹر نے مجھے ٹکر مار کر بہت زخمی کر دیا تھا، اور مجھے ایک دو دن ہسپتال میں داخل ہو نا پڑا۔ شہر بڑی خطرناک جگہ ہوتی ہے، اس طرح کے حادثے تو وہاں روز ہوتے ہیں۔ اب پتہ نہیں فیضو پتر کہاں ہو گا؟‘‘ نیاز نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’میرا سوہنڑاں ربا! میرا فیضو جہاں بھی ہو، اسے اپنی امان میں رکھنا اور صحیح سلامت اسے گھر پہنچا دے۔‘‘ جنتو نے دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے روہانسے لہجے میں کہا۔ دونوں میاں بیوی کے چہرے فکر سے ماند پڑ چکے تھے۔
(۴)
دوپہر سے بارات نیاز کے آنگن میں اتری ہوئی تھی اور اب شام ہونے کو تھی مگر ابھی تک رانو کو رخصت نہیں کیا گیا تھا۔ مرد اس کی چوپال کے کھلے صحن میں موجود تھے اور عورتیں اس کے گھر کے آنگن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ مردوں کی آپس کی کھسر پسر سے فضا میں معمولی سا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔ نیاز نہایت فکر مندی سے باراتیوں کو بار بار دیکھ رہا تھا جن کے چہروں پر اب تازگی کی بجائے بیزاری چھلکنے لگی تھی۔ وہ سب کے سب بیچارے دوپہر سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ نیاز خود ان کی حالت دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھ رہا تھا۔ اس سے ذرا بھی آرام سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا، وہ بار بار آ جا رہا تھا اور اب تو تمام باراتی اسے گھورنے لگے تھے، جیسے وہ ان سب کا مقروض ہو۔ جب وہ چبھتی ہوئی بے شمار نظروں کا سامنا نہ کر سکا تو وہ ایک بار پھر اٹھا اور لنگڑاتا ہوا زنان خانے کی طرف آیا۔ اپنی بیوی جنتو کو بلوا کر کہا
’’مجھے اب باراتیوں کے سامنے جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ بیچارے دوپہر سے انتظار کر رہے ہیں۔ ہر کوئی میری طرف عجیب نظروں سے دیکھتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اب اپنی دھی رانو کو رخصت کر ہی دو، پتہ نہیں فیضو پتر اب آتا بھی ہے یا نہیں؟‘‘ نیاز نے الجھے ہوئے اداس لہجے میں کہا۔
’’نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ تھوڑا اور صبر کر لو، کیا پتہ فیضو پتر آ جائے۔‘‘ جنتو نے تڑپتے ہوئے کہا
’’اب اگر وہ نہ آئے تو اس کی سزا باراتیوں کو تو نہیں دی جا سکتی ناں؟‘‘ نیاز دائیں طرف تھوکتے ہوئے قدرے بیزاری سے بولا
’’بخشو کی منت سماجت کر کے اسے تھوڑی دیر اور روک لو، میرا دل کہتا ہے کہ فیضو پتر ابھی آ جائے گا۔‘‘ جنتو نے اس کے بازو کو پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا
’’اففو۔۔۔۔ آہستہ جنتو۔۔۔۔۔‘‘ نیاز نے اپنا بازو سہلاتے ہوئے کہا اور اس کا چہرہ مسخ ہو گیا۔ اس کے بازو میں درد انگڑائی لینے لگا اور جنتو نے جلدی سے اس کا بازو چھوڑ دیا۔ ابھی فیضو اسے کوئی جواب نہیں دے پایا تھا کہ پیچھے سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ نیاز نے مڑ کر دیکھا تو وہ دولہا کا باپ اور اس کا بڑا بھائی بخشو تھا۔
’’نازو بھرا! اب صبر نہیں ہوتا۔ بارات دوپہر سے آئی ہوئی ہے، اب دھی رانو کو رخصت کر دو۔ تمام لوگ انتظار کر کر کے تھک گئے ہیں۔‘‘ نیاز کے بھائی بخشو نے کہا۔ اس کے لہجے سے ناگواری عیاں تھی۔
’’بس بخشو بھائی! تھوڑی دیر اور صبر کر لو، شاید فیضو پتر آ جائے، رانو بھی بغیر بھائی کے رخصت ہو گی تو اداس جائے گی اور فیضو بھی خفا ہو گا کہ میرے بغیر رانو کو ڈولی میں کیوں بٹھایا؟ بس تھوڑی سی مہلت اور دے دو۔ شہر سے گاؤں کی آخری گاڑی بس آنے ہی والی ہے۔‘‘ فیضو نے اپنے بھائی بخشو کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے نہایت ہی ٹوٹے لہجے میں کہا۔
’’اچھا نازو بھرا! میں تھوڑا سا اور انتظار کر لیتا ہوں، بس اس کے بعد میں رانو دھی کو لے جاؤں گا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ بھائی بخشو! بے شک اس کے بعد ہم اپنی رانو کو ڈولی میں بٹھا دیں گے، بس دعا کرو کہ میرا فیضو پتر آ جائے۔‘‘
جنتو نے نیاز کے بولنے سے پہلے ہی تڑپ کر کہا۔
نیاز اور بخشو دوبارہ چوپال کی طرف چلے گئے مگر جنتو کی بے چین نظریں اس راستے پر گڑ گئیں، جہاں سے شہر کی آخری گاڑی چند لمحوں میں آنے والی تھی اور اس کے دل میں ایک ہی امید ہچکولے کھا رہی تھی کہ ’’میرا فیضو پتر آتا ہو گا۔۔۔۔۔ بس ابھی آتا ہی ہو گا۔‘‘
٭٭٭