وہ زندگی میں کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا، جتنا ان دنوں میں تھا اور اس پریشانی کے باعث وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اپنے آپ میں ہی کہیں گم ہو کر رہ گیا۔ اسے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کیا جائے اور کس سے بات کی جائے؟
ایک بار تو اس کے جی میں آئی کہ اپنی بیوی کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کرے، جو پہلے بھی ایک دو بار اس کی حالت کو بھانپتے ہوئے اس سے پوچھ چکی تھی، مگر پھر اس نے سوچا کہ بیوی کو خواہ مخواہ پریشان کرنا مناسب نہیں، جو پہلے ہی گھر کے بکھیڑوں میں الجھی رہتی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد آخر کار اس نے اپنے ایک دوست سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ ضرور کوئی اچھا مشورہ دے گا۔ جب اس نے دوست سے بات کی تو وہ بھی فکر میں پڑ گیا۔
’’یار! میں تو کہتا ہوں، تمہارا معاملہ ایسا ہے کہ تم کسی مولانا سے بات کرو۔‘‘ دوست نے اسے تجویز دیتے ہوئے کہا۔
اور یہ بات اس کے دل کو لگی۔ ساتھ والے محلے میں نماز ادا کرنا اس کا معمول تھا۔ اس نے سوچا کہ وہاں کے مولانا صاحب سے ہی بات کرنی چاہئے، جو اکثر شرعی مسئلے بھی بتاتا رہتا تھا۔ ایک روز وہ نماز کے بعد اس سے ملا۔
’’مولانا صاحب! میں کافی عرصے سے بہت پریشان ہوں، دو خوابوں میں بری طرح سے پھنسا ہوا ہوں اور میری ذہنی حالت بہت خراب ہو گئی ہے‘‘ اس نے شکستہ لہجے میں کہا
’’اللہ جلا شانہ خیر کرے گا برخوردار۔ تم مجھے خواب سناؤ۔‘‘ مولانا نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے جی! میں آپ کو اپنا پہلا خواب سناتا ہوں جو میں کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں۔ ایک مذہبی جلوس ہے جو شہر کے مختلف حصوں سے گزر رہا ہے۔ جلوس میں نعرے ہیں، جوش ہے، غم ہے، واویلا ہے۔ چاروں طرف خون ہی خون ہے، جو لوگوں کے جسموں سے بہہ رہا ہے۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ جلوس میں موجود ہوتا ہوں، جو خود بھی گلے پھاڑ پھاڑ نعرے لگا رہے ہیں۔ ہر طرف غمزدہ چہرے ہیں اور ماحول سوگوار ہے۔ یہاں تک کہ دکانوں کی چھتوں پر بیٹھی عورتیں بھی بین کر رہی ہیں۔ بازار کے دونوں طرف کافی لوگ جلوس دیکھنے میں محو ہیں، میں بھی ان ہی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں۔ جلوس دیکھتے دیکھتے اچانک منظر بدل جاتا ہے اور میں خود کو چاروں طرف سے گھِرا ہوا پاتا ہوں۔ کچھ لوگ ہیں جو بپھرے ہوئے مجھے مارنے کی غرض سے ہاتھوں میں خون آلود تلواریں اور برچھیاں اٹھائے میری طرف بڑھ رہے ہیں، مجھے شدید خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ میں وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہوں مگر ہر طرف سے راستے بند ہوتے ہیں اور میں بری طرح پھنس جاتا ہوں۔ اپنی جان بچانے کے لئے میں اپنے دوستوں کو تلاش کرتا ہوں، مگراس وقت وہ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ میں پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہوں لیکن بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اتنی دیر میں وہ لوگ غضبناک ہو کر میرے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ بس وہ مجھے پکڑنے ہی لگتے ہیں کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ میرا جسم کانپ رہا ہوتا ہے۔ خوف کے مارے مجھے پھر نیند نہیں آتی۔‘‘
اس نے خواب کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا اور مولانا صاحب کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا، جہاں گہری سنجیدگی چھا چکی تھی۔ لگتا تھا کہ خواب سن کر وہ بھی فکر میں پڑ گئے تھے۔ وہ انتظار میں تھا کہ دیکھو مولانا صاحب کیا تعبیر بتاتے ہیں۔ اس کی حالت کو بھانپتے ہوئے مولانا نے کہا۔
’’برخوردار! اللہ جلا شانہ رحم فرمائے، تمہارا یہ خواب مبارک نہیں لگ رہا۔‘‘
وہ مولانا صاحب کی بات سن کر سراسیمہ ہو گیا۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد مولانا اس پر نظریں گاڑتے ہوئے پھر گویا ہوئے۔
’’میں اس کی تعبیر بتاتا ہوں مگر بہتر ہو گا کہ تم دوسرا خواب بھی سنا دو۔‘‘
’’جی مولانا صاحب‘‘ وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا:
’’یہ دوسرا خواب میں تقریباً ایک سال سے مسلسل دیکھ رہا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ میرے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے، جس میں پوری دنیا ڈوب رہی ہے۔ دور سے آسمان جتنی بڑی بڑی لہریں میری طرف بڑھ رہی ہیں۔ ہر طرف لوگوں کی چیخ و پکار ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ’’قیامت آ گئی۔۔۔ قیامت آ گئی‘‘ کی آوازیں بھی آ رہی ہوتی ہیں۔ میرے آس پاس کے سبھی لوگ چیختے چلاتے پانی میں ڈوب رہے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں بھی پانی میں ڈوبتی جا رہی ہیں۔ میں شدید خوفزدہ ہو جاتا ہوں۔ چاروں طرف کہیں بھی خشکی نہیں ہوتی سوائے اس جگہ کے، جہاں میں کھڑا ہوتا ہوں، مگر میرے ذہن میں یہ خوف ہوتا ہے کہ تیزی کے ساتھ میری طرف بڑھتی بڑی بڑی لہریں مجھے بس ابھی اپنے ساتھ بہا کر لے جائیں گی۔ ڈر کے مارے میں چھپنے کے لئے ادھر ادھر دیکھتا ہوں مگر ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے۔ ڈوبنے کے خوف سے میں تھر تھر کانپنے لگتا ہوں۔ جب پانی کی لہریں بالکل میرے سر پر پہنچ جاتی ہیں تو اچانک میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ دہشت کے مارے میں پسینے میں نہایا ہوتا ہوں۔‘‘
اس نے دوسرا خواب تفصیل سے سناتے ہوئے کہا اور فکر مندی سے مولانا کی طرف دیکھنے لگا۔ مولانا صاحب پہلے تو ہونٹوں کو ہلاتے ہوئے کچھ ورد کرتے رہے اور پھر ہاتھوں پر دم کر کے اپنے پورے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے
’’دیکھو برخوردار! اللہ جل شانہ معاف کرے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ تمہارے دونوں خواب اچھے نہیں ہیں۔ مگر ایک لحاظ سے تم بہت خوش نصیب بھی ہو کہ اللہ پاک کی طرف سے خوابوں کے ذریعے تمہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ سنبھل جاؤ۔‘‘
مولانا نے اپنی گھنی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تنبیہہ کی جا رہی ہے؟ میں سمجھا نہیں مولانا صاحب۔‘‘ اس نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’برخوردار! گھبراؤ مت، ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ پہلے مجھے یہ بتا ؤ کہ تم ساتھ والی کالونی میں رہتے ہو نا؟‘‘ مولانا نے پوچھا۔
’’جی جی، میں ساتھ والی کالونی میں ہی رہتا ہوں۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’بس پھر تو بات واضح ہو گئی اور تم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہو کہ اس کالونی میں کون لوگ رہتے ہیں؟ مگر کسی بات کا جاننا اور سمجھنا الگ الگ امر ہوتا ہے۔ اور بدقسمتی سے تم صرف جانتے ہو، سمجھتے نہیں کہ ان لوگوں کی حقیقت کیا ہے؟ اب ظاہر سی بات ہے کہ وہاں کے لوگوں کے ساتھ یقیناً تمہارا اٹھنا بیٹھنا ہو گا اور شاید تم ان کی محفلوں میں بھی آتے جاتے ہو گے، کیا ایسا ہے؟‘‘
مولانا نے اس سے پوچھا۔
’’جی ہاں مولانا صاحب، ایک ہی محلہ ہے، میں پیدا بھی وہیں ہوا اور پلا بڑا بھی وہیں ہوں، تو ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تو لگا ہی رہتا ہے۔ بلکہ میری تو ان کے ساتھ گہری دوستیاں بھی ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’تو برخوردار! کیا پھر بھی تمہیں یہ خوفناک خواب سمجھ میں نہیں آ رہے کہ یہ بار بار تمہیں کیوں آ رہے ہیں؟ اللہ جلا شانہ کی اپنے ساتھ محبت کا عالم تو دیکھوسبحان اللہ، کہ وہ خوابوں کے ذریعے سے اتنے واضح طور پر تمہیں خبردار کر رہے ہیں کہ اے غافل انسان سنبھل جا۔۔۔ مگر۔۔۔ یہ نادان انسان اللہ کی محبت کو سمجھتا ہی نہیں، جس طرح سب کچھ جانتے ہوئے بھی تم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ برخوردار! تمہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔ تم بہت خوش نصیب ہو اور مجھے تم پر رشک آ رہا ہے کہ خوابوں کے ذریعے سے تمہیں بار بار یہی تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تمہارا ایمان چاروں طرف سے شدید خطروں میں گھرا ہوا ہے۔ اللہ جلا شانہ کی اس لازوال محبت کو سمجھو اور اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔ مجھے ڈر ہے کہ غیر لوگوں کے ساتھ رہ رہ کر کہیں تم اپنے ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔‘‘
مولانا نے بڑے اعتماد کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کے اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا مگر اس ٹھہرے ہوئے لہجے نے اس کے اندر بھونچال پیدا کر دیا اور وہ بھونچکا رہ گیا۔ اس نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے خوابوں کی تعبیر ایسی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ تو اپنی پریشانی مٹانے آیا تھا مگر وہ ایک اور پریشانی لے کر لوٹا تھا۔
مولانا کی باتیں اس کے دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح برسنے لگیں۔ کئی دنوں تک وہ ان باتوں میں بری طرح الجھا رہا۔ اسے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ اس دوران اسے پھر سے خواب آیا تو وہ اور بھی ڈر گیا۔ اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا کہ اگر مولانا صاحب کی باتیں سچ ہو گئیں تو۔۔۔۔؟ اس کے آگے وہ نہ سوچ سکا اور لرز اٹھا۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جو اسے اپنے ساتھ بہا کر لے گیا اوراس نے مسجد میں مولانا صاحب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا۔
جوں جوں وہ اس کی محفل میں آنے جانے لگا، اسے مولانا کی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اسی لئے اس کا زیادہ تر وقت اس کے ساتھ ہی گزرنے لگا۔ اسے اندازہ ہوا کہ مولانا صاحب ایک اہلِ علم آدمی ہیں اور ان کی محفل میں وہ ایسی ایسی باتیں جاننے لگا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔ اسے شدت سے احساس ہونے لگا کہ اس کے پاس مذہبی علم بہت کم ہے۔ اب وہ مختلف قسم کی مذہبی کتابیں بھی پڑھنے لگا وہ جوں جوں کتابیں پڑھ رہا تھا، اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی۔ حقیقت میں وہ دھیرے دھیرے بدل رہا تھا اور خود کو آس پاس سے آہستہ آہستہ سمیٹ کر محدود کرنے میں لگا ہوا تھا۔ اس کے علاقے کے لوگوں اور خاص طور سے اس کے دوستوں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ وہ پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ وہ محلے داروں کے ساتھ اب بہت کم بولتا تھا، بلکہ اس کی کوشش ہوتی کہ ان سے بات کرنا ہی نہ پڑے۔
اس کا زیادہ تر وقت مسجد میں گزرنے لگا، اس کے اندر ایسی انقلابی تبدیلی آ چکی تھی کہ اس نے اپنا حلیہ اور خدوخال یکسر بدل لئے تھے۔ اس نے خود کو اپنے اندر قید کر کے بچپن کی پالی ہوئی محلے کی ساری دوستیاں ختم کر کے ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی ترک کر دیا۔ شروع شروع میں تو دوست اس کے دروازے پر آ کر اسے بلا لیا کرتے مگر آہستہ آہستہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس نے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اور یہ بات اس کے دوستوں نے بھی جانچ لی تھی، اس لئے انہوں نے بھی آنا جانا ختم کر دیا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو اڑوس پڑوس میں جانے سے بھی روک دیا۔ یہاں تک کہ قریبی پڑوسیوں کے گھرسے اپنے بچوں کی ٹیوشن بھی ختم کرا دی۔ اس کا ذہن مکمل طور پر بدل چکا تھا اور حیرت انگیز طور پر ان خوابوں سے اس کی جان چھوٹ گئی، جنہوں نے اس کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ اس کا اعتقاد اور بھی پختہ ہو گیا کہ اس نے صحیح راستہ پا لیا ہے۔ وہ اکثر اوقات مولانا صاحب کا شکریہ ادا کیا کرتا کہ اس کی دوستی اور صحبت نے اسے گمراہ ہونے سے بچا لیا۔
اب وہ رات بھر مزے کی نیند سوتا اور ہر طرح کی فکر سے آزاد ہو گیا تھا۔ مگر ایک رات وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ خوف کے مارے اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا اور وہ بری طرح سے سہما ہوا تھا۔ اس نے خواب میں پھرسے دیکھا کہ پوری دنیا پانی میں ڈوب رہی ہے اور وہ خود بھی ان طوفانی لہروں کی نذر ہونے والا ہے۔ مگراس نے کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ کچھ دنوں بعد پھر اسی خواب نے اس کی نیندیں اڑا کے رکھ دیں اور وہ ایک بار پھر پریشان ہو گیا کہ اب کی بار کیا ماجرا ہے؟ اس نے تو اپنے راستے بھی بدل لئے تھے مگر جب خواب مسلسل اسے تنگ کرنے لگے تو اس نے پھر سے مولانا صاحب سے بات کی۔
’’رفیق میاں! گھبراؤ نہیں۔۔۔ اللہ جلا شانہ کو تم سے بہت محبت ہے اوراس کی طرف سے اس محبت بھرے اشارے کو سمجھو گے تو دل کا سارا بوجھ اتر جائے گا اور تمہاری یہ پریشانی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ تم نے اللہ کے حکم سے تمام غلط دوستیاں ختم کر دی ہیں، جن سے تمہارے ایمان کو شدید خطرہ تھا، مگر پھر بھی تم رہتے تو ان ہی کے درمیان میں ہونا؟ اور یہ تو ایک کھلی سچائی ہے کہ انسان جہاں رہتا ہے وہاں کے اثرات سے کسی طور نہیں بچ سکتا۔
رفیق میاں! بات یہ ہے کہ ہجرت کرنا ہمارے مذہب میں بہت بابرکت عمل ہے اور یہ ہمارے پیارے نبی پاکﷺکی سنت بھی ہے۔ اور اللہ جلا شانہ ایمان والوں سے ہمیشہ یہی چاہتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ تم بھی اللہ پاک کے اس حکم کو پورا کرو اور اپنا مکان بیچ کر وہاں سے ہجرت کر کے ہمیشہ کے لئے ان غیر لوگوں سے دور ہو جاؤ۔‘‘
مولانا نے اسے مدلل انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا۔ لوہا پہلے ہی گرم تھا، اس لئے بات سیدھی اس کے دل میں جا اتری۔ بس پھر کیا تھا، اس نے اپنے آباء و اجداد کا برسوں پرانا مکان اونے پونے داموں بیچ ڈالا، جسے اس کے پرکھوں نے بڑی محبتوں اور چاہتوں کے ساتھ تعمیر کیا تھا اور جس کے کونے کونے میں بکھری محبت بھری چھاؤں میں وہ پل کر بڑا ہوا تھا۔ حالانکہ اس کے گھر والے اس بات سے بالکل بھی خوش نہیں تھے اور وہ اسے روکتے رہ گئے کہ مکان مت بیچو مگراس نے کسی کی بھی نہیں سنی۔ اس کے لئے اپنا ایمان بچانا سب سے زیادہ اہم تھا اور وہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھا۔ اس نے نیا مکان ساتھ والے اسی محلے میں ہی لیا، جہاں وہ نماز پڑھنے جایا کرتا۔ مکان کی چابی ملنے کے بعد اس نے ایک ہفتے میں ہی اپنی شفٹنگ مکمل کر لی اور آج اس نئے گھر میں اس کی پہلی رات تھی۔ دن بھرکی تھکن اس کے جسم میں رچی ہوئی تھی، جلد ہی نیند نے اسے آ لیا۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر سویا تھا کہ اچانک گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا اور اس کا پورا بدن خوف سے کانپ رہا تھا۔ خواب میں اس نے پھر سے اپنے آپ کو جلوس میں گھرا ہوا پایا تھا۔
٭٭٭