دینو موچی کو یہ اندیشہ ہر وقت دامن گیر رہنے لگا تھا کہ خستہ حالی کے باعث اس کا مکان کسی وقت بھی گر سکتا ہے۔ یہ حوصلہ شکن خیال اس کے دل و دماغ میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر چکا تھا کہ دن رات گھر کی سوچ دیمک بن کر اس کے حوصلے کی دیوار کو کھوکھلا کرتی جا رہی تھی۔ ویسے تو اس کی ساری عمر پریشانیوں کے کانٹوں پر ننگے پاؤں چلتے ہی گزری تھی، مگر گھر کی پریشانی کا کانٹا کچھ اس طرح سے اس کے تلووں میں اتر چکا تھا کہ اسے نکالنا اس کے بس میں نہیں تھا اور تکلیف کا احساس اسے ہر وقت تڑپاتا رہتا۔ مگراس تکلیف کو جھیلنے میں وہ اکیلا نہیں تھا، اس کی بیوی بھی اس کی برابر کی شریک تھی۔
گھر کیا تھا؟ بس ایک چھوٹا سا کمرہ اور اس سے بھی چھوٹا صحن۔ باپ دادا کی یہی نشانی ہی اس کی کل کائنات تھی۔ سالہا سال سے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کا گھر اب اس حال کو آ پہنچا تھا کہ ہلکی سی بارش یا آندھی بھی اسے ملیا میٹ کر کے اپنا آپ منوا سکتی تھی۔ بارش کے ننھے قطروں نے بار بار کی بمباری سے چھت کو جگہ جگہ سے چھید ڈالا تھا، جن سے بارش کا پانی ٹپک ٹپک کر اپنی من مانی کرتا رہتا۔ چھت سے ٹپکتا ہر ایک قطرہ دینو کے دل و دماغ پر ہتھوڑے سے بھی شدید ضرب لگاتا۔ محلے کے کافی سارے لوگ بھی جانتے تھے کہ دینو کا گھر اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور کسی وقت بھی زمین کی برابری کر سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ چند ایک افراد نے ہمدردی کی بھیک دیتے ہوئے ایک دو بار دینو سے کہا بھی کہ وہ اپنے گھر کی طرف توجہ دے، مگر جواب میں دینو نے اپنی آنکھیں ان کے چہروں پر یوں گاڑ دیں جیسے ان کے دمکتے چہروں کی رونق اپنی ویران آنکھوں میں بھرنا چاہتا ہو۔ وہ بھی دینو کی سنسان آنکھوں میں سلگتی ویرانی دیکھ کر دہل سے گئے تھے۔ اس کے بعد پھر کبھی کسی نے دینو سے اس کے گھر کے بارے میں بات نہیں کی تھی۔
اِدھر گھر کی فکر دونوں میاں بیوی کو گھن کی طرح چاٹے جا رہی تھی اور اُدھر تنگدستی کا سانپ انہیں مسلسل یوں ڈس رہا تھا کہ اس کا تریاق کسی صورت بھی ممکن نہیں تھا۔ بالآخر اس کی بیوی نے اسے محلے والوں سے ادھار مانگنے کو کہا۔ پہلے تو دینو نے صاف انکار کر دیا، مگر جب اس کی بیوی نے اس پر دباؤ ڈالا تو وہ چارو نا چار تیار ہو گیا۔ اس نے ہمت کر کے محلے کے ایک معززسے اتنی عاجزی سے ادھار مانگا، جیسے وہ ادھار نہیں بھیک مانگ رہا ہے۔ مگر ناکامی کے عفریت نے اس کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ حوصلہ ہار کر چپ بیٹھ جاتا اپنی بیوی کے کہنے پر وہ اور لوگوں کے پاس بھی گیا مگر کہیں بھی کام نہ بن سکا۔ جس کسی کے پاس بھی جا کر اس نے ہاتھ پھیلایا، ہر کسی نے اسے سر سے پاؤں تک یوں گھورا، جیسے وہ ان کے سامنے ننگا کھڑا ہو۔ جب ناکامی نے ہر جگہ اس کا منہ چڑایا تو اس نے اپنی بیوی کو سمجھایا کہ لوگوں کی ہمارے لئے اتنی ہمدردی ہی کافی ہے کہ وہ ہمیں کئی بار ہمارے گھر کی خستہ حالی کا احساس دلا چکے ہیں۔ مجبوراً دونوں میاں بیوی نے چپ سادھ لی اور پھر سے گھر کی پریشانی کی پھٹی چادر اوڑھنے پر مجبور ہو گئے۔
اس روز موسم ابر آلود تھا اور صبح تڑکے ہی سے بوندا باندی شروع ہو گئی تھی۔ دینو نے صبح سویرے کچھ کام دینا تھا اس لئے وہ معمول سے پہلے ہی دکان پر پہنچ گیا اور آتے ہی کام میں جت گیا۔ اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز میں بڑی تیزی سے چل رہے تھے اور شاید اسی وجہ سے اس نے کام وقت سے پہلے ہی نمٹا لیا۔ وہ فارغ ہوا ہی تھا کہ گرج چمک کے ساتھ آسمان اچانک چنگھاڑ اٹھا۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ گہرے سیاہ اور سرمئی بادلوں نے ہلہ بول کر آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اوراس کے خطرناک تیور بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہے تھے۔ دینو پریشان ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بوندا باندی تیز بارش میں بدل گئی اور تھوڑی ہی دیر میں آسمان کھل کر برس پڑا۔ چنگھاڑتے آسمان پر چمکتی بجلی کی تلواروں کے وار سے لگتا تھا کہ وہ آسمان کاٹ ڈالیں گی اور ساتھ ہی چھاجوں برستی بارش کے آثار بتا رہے تھے کہ آسمان سارا پانی زمین پر انڈیل کر ہی دم لے گا۔ دینو کے چہرے پر فکر مندی کی گہری بارش ہونے لگی اوراسے گھر کی فکر نے بری طرح سے جکڑ لیا۔ اس نے اسی وقت گھر جانے کی ٹھان لی اور جلدی جلدی سے اپنے بکھرے اوزار رکھنے لگا۔ وہ ابھی آدھاسامان ہی رکھ پایا تھا کہ اچانک کوئی دوڑتا ہوا اس کی دکان پر آ کر رکا اور ہانپتے ہوئے بولا
’’دینو! تمہارا گھر گر گیا ہے۔‘‘ دینو کے ہاتھ سے ہتھوڑی گر پڑی اور اسے اتنے زور کا جھٹکا لگا جیسے اس کا جسم بجلی کی تاروں کی لپیٹ میں آ گیا ہو۔
اگلے ہی لمحے وہ موسلا دھار بارش میں سڑک پر ننگے پاؤں یوں سر پٹ دوڑ رہا تھا، جیسے موت اس کے تعاقب میں لگی ہو۔ اس کا رخ اپنے گھر کی طرف تھا۔ ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود وہ اتنا تیز دوڑا کہ چند لمحوں میں ہی اپنے گھر پہنچ گیا۔ دور سے ہی اس نے دیکھ لیا کہ اس کے گھرکا واحد کمرہ زمین بوس ہوا پڑا ہے اور چند افراد ملبے کے سامنے جمع ہیں۔ وہ ہانپتا ہوا آ کر ایک لمحے کے لئے رکا، اس کی سانسیں بری طرح سے اکھڑی ہوئی اور آنکھوں میں پانی اترا ہوا تھا جبکہ پاؤں کیچڑ سے لتھڑے ہوئے تھے۔ وہ لوگوں کو چیر کر تیزی سے آگے بڑھا اور عالمِ دیوانگی میں رندھی ہوئی آواز میں اپنی بیوی کو آوازیں دینے لگا ’’پروین۔۔۔ پروین۔۔۔‘‘ مگر سوائے بارش کی ٹپ ٹپ کے اس کی بیوی کی آواز کسی بھی کونے سے نہ ابھر سکی۔ اس نے لمحہ بھر کے لئے ادھر ادھر دیکھا اور پھر وہ دیوانہ وار یوں ملبہ ہٹانے لگا، جیسے اسے یقین تھا کہ اس کی بیوی اسی ملبے تلے کہیں دبی پڑی ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی وہاں پر کھڑے دوسرے لوگ بھی ملبہ ہٹانے لگے۔ بارش کی ٹپ ٹپ میں روح کو تڑپا دینے والی دینو کی لرزتی سسکیاں بھی ابھر رہی تھیں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اچانک دینو کے تیزی سے چلتے ہاتھ رک گئے اور اس کے منہ سے آواز نکلنا یوں بند ہو گئی، جیسے اس کے ہونٹوں کو کسی نے سی ڈالا ہو۔ وہ جہاں تھا وہیں پربت بنا رہ گیا۔ دوسرے لوگ ملبہ ہٹاتے ہٹاتے رک گئے اور حیرت سے جب دینو کی طرف دیکھا تو اگلے ہی لمحے ہر چہرے پر سیاہ رات چھا گئی۔ اس کی بیوی کی لاش نہایت بری طرح سے کچلی پڑی تھی اور اس پرسکتہ طاری ہو چکا تھا۔ اس کے ساکت وجود کو دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے اپنی بیوی کے ساتھ اس کی روح بھی پرواز کر چکی ہے۔ اس مشکل وقت میں وہاں پر موجود لوگوں نے اسے سنبھالا۔ سب نے مل کر اس کی بیوی کی لاش ملبے سے نکالی اور اس کے کفن دفن میں مصروف ہو گئے۔ بارش رکنے پر اس کی بیوی کی نمازِ جنازہ ادا کر لی گئی، جس میں گنتی کے لوگ کے ہی شامل ہوئے تھے۔ مگر دینو کو کوئی ہوش نہیں تھا کہ کون اس کی بیوی کی آخری رسومات میں شامل ہے اور کون نہیں۔ وہ سب سے یوں لا تعلق ہو کر رہ گیا جیسے اس بھرے علاقے میں وہ بالکل اکیلا رہتا ہو۔ چند ایک محلے دار اس کے پاس تعزیت کے لئے بھی آئے مگر وہ ان کے سامنے بھی یوں گم صم بیٹھا رہا جیسے وہ انہیں جانتا ہی نہیں۔ اس کی بیگانگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے خود ہی اپنے گھر کا ملبہ صاف کیا اور کہیں سے ایک چھوٹا سا ٹینٹ لے آیا، جسے اس نے گرے ہوئے کمرے کے بیچوں بیچ نصب کر کے اپنے لئے مسکن تیار کر لیا۔
چند روز بعد اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ گروہ کی صورت میں محلے بھر میں گھروں کے چکر لگاتے پھر رہے ہیں۔ مگر دینو نے ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، بس اس نے ایک نظر ان پر ڈالی اور پھر انہیں یکسر نظر انداز کر دیا۔ اگلے ہی روز دینو دکان پر بیٹھا اپنے کام میں مصروف تھا کہ وہی گروہ اس کی دکان پر آ پہنچا۔ جس میں موجود ایک سرخ و سفید رنگت اور بھاری بھرکم وجود کے مالک شخص نے اپنی بھاری آواز میں دینو سے مخاطب ہو کر کہا
’’دینو بھائی! جیسا کہ تم جانتے ہو کہ پیر اکبر سائیں کا عرس قریب ہے۔ چونکہ ان کا مزار شریف ہمارے علاقے میں ہے، اس لئے اس کی دیکھ بھال بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے اور یہ ہم سب کے لئے بڑی سعادت کی بات ہے۔ کافی عرصہ سے پیر صاحب کا مزار توجہ نہ دینے سے جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ اس لئے علاقے کے لوگوں نے سوچا ہے کہ چندہ اکٹھا کر کے ان کے مزار کی تعمیر و مرمت عرس آنے سے پہلے ہی کر دی جائے۔ اس کے لئے علاقے کا ہر فرد اس کارِ خیر میں اپنا حصہ شامل کر رہا ہے۔ ہم سب تمہارے پاس بھی اسی غرض سے حاضر ہوئے ہیں کہ اگر تم بھی اس نیک کام میں اپنا حصہ شامل کر لو تو پیر صاحب کے صدقے تمہارا گھر بھی آباد ہو گا۔‘‘
وہ شخص اپنی بات مکمل کر کے دینو کو امید بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ باقی سب لوگ بھی اس پر نظریں گاڑے اس کے جواب کا انتظار کرنے لگے۔ مگر دینو اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ بس وہ خالی خالی نظروں سے انہیں یوں گھورتا رہا جیسے وہ ان کی چمکتی آنکھوں سے روشنی سلب کر کے ان میں ویرانیاں بھرنا چاہتا ہو۔ اس کی بنجر آنکھوں میں حزن و ملال اور تاسف کے گہرے سائے لہرانے لگے۔ چند لمحے اسی طرح خاموشی سے گزر گئے۔ جب دینو نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا تو وہ شخص پھر سے گویا ہوا
’’اچھا خیر ہے دینو! کوئی بات نہیں، تم اپنا کام کرو۔ ہمیں تمہاری پریشانی کا پورا اندازہ ہے۔ پھر بھی اگر ہو سکے تو مزار کی تعمیر میں اپنا حصہ ضرور ڈال دینا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ سب آگے بڑھ گئے۔ دینو گنگ سا ہو کر انہیں دور تک جاتا ہوا یوں دیکھتا رہا، جیسے وہ اسے گالی دے کر گئے ہوں۔ اچانک اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکلے اور اس کی گالوں پر سے راستہ بناتے ہوئے اس کی گھنی داڑھی میں گم ہو گئے۔
٭٭٭