’’تومیو ماتا چہ، پتا تو امیوا، تو امیو بندھوس چہ سکھا تو امیوا، توامیوودیادراوی نانگ امیوا، توامیو سرومام دیو دیو‘‘ گھر بھر میں اشلوک گونج رہے تھے اور حسبِ معمول آنند کی آنکھ اپنی ماتا کے اشلوک پر ہی کھلی۔ اس نے ناگواری سے کروٹ بدلی اور منہ پر لحاف کھینچ کر پھر سے سو گیا۔ اس نے بستر اس سمے چھوڑا جب اس کی بہنا سرسوتی اسے سورج چڑھے اٹھانے آئی۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا کمرے سے باہر نکلا۔ ایک نظر اپنی ماتا پر ڈالی جو برآمدے میں فرش پر بچھی دری پر بیٹھی، موٹے شیشوں کی عینک لگائے، کمر کو کمان کئے کشیدہ کڑھائی میں منہمک تھی۔ آنند کو یوں لگا جیسے وہ کپڑے پر بیل بوٹے نہیں بلکہ اپنے سامنے غربت کی چادر پھیلائے اس میں سے خوشیاں کشید کر رہی ہے۔ آنند نے پیار بھری نظروں سے اپنی ماتا کو دیکھا اور صحن میں الگنی پر لٹکتا تولیہ ہاتھ میں لے کر اشنان کرنے چلا گیا۔ وہ جب باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ماتا کام چھوڑ کر دیوار سے ٹیک لگائے کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی ہے۔ وہ کئی دنوں سے اسے اسی طرح سے کھویا کھویا دیکھ رہا تھا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ اس کی ماتا کیوں پریشان ہے۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ جس ماں کی جوان بیٹی گھر میں کنواری بیٹھی ہو اور اس کا کوئی رشتہ بھی نہ آ رہا ہو تو وہ ماں کیسے چین کی نیند سو سکتی ہے؟ بڑا بھائی ہونے کے ناطے اسے خود بھی یہ چنتا کھائے جا رہی تھی کہ سرسوتی کی عمر نکلی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ کی محلے کی دوسری لڑکیاں اور خود اس کی کئی سکھیاں کب کی سہاگنیں ہو چکی تھیں۔ وہ خوبصورت بھی تھی، تعلیم بھی اچھی خاصی تھی مگر غربت کا سانپ ان کی دہلیز پر بیٹھا ہوا تھا جو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی رشتہ گھر میں داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس نے یاس بھری نظروں سے اپنی ماتا کو دیکھا اور زور سے گلا کھنکارا، اس کی ماں چونک پڑی اور ترنت اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ آنند نے جلدی جلدی بھوجن کیا، ماتا کے چرن چھوئے اور کام پر روانہ ہو گیا۔
آنند نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ سانسوں کا سلسلہ بحال رکھنے کے لئے اسے کسی گارمنٹس کی دکان پر سیلز میں جیسی معمولی نوکری کرنی پڑے گی۔ وہ اس وقت یونیورسٹی کا طالب علم تھا جب اسے تعلیمی سلسلے کو خیر باد کہنا پڑا۔ اس کے ماتا پتا کی آشا تھی کہ وہ ایک مہان پُرُش بنے۔ اس کے پتا نے کبھی بھی غربت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے تھے بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیشہ اس کا مقابلہ کیا اور آنند کی ہر ضرورت کو پورا کیا تھا۔ اپنے ماتا پتا کی آشاؤں کو دیکھتے ہوئے آنند بھی اپنی جگہ پر بہت بے کل تھا کہ کب اس کی شکھشا پوری ہو اور وہ اپنے ماتا پتا کے سپنوں کو تعبیر کے آسمانوں پر سجائے۔ مگر بھگوان نے اس کے لئے کچھ اور ہی راستے چن رکھے تھے۔ ایک روزاس کا پتا کام کے لئے گھر سے نکلا تو دوپہر کو لہو میں لت پت اس کی لاش گھر آئی تھی۔ وہ شہر کی بلند ترین عمارت پر کام کرتے ہوئے زمین پر آ گرا تھا۔ اس کا پتا مفلسی و غربت کو گھر کا سربراہ بنا کر بِنا کسی سے کچھ کہے موت کے ہاتھ میں ہاتھ میں ڈال کر چلا گیا۔ مفلسی جیسے سنگدل سربراہ نے آنند کے ساتھ ایسا بہیمانہ رویہ اپنایا کہ اس سے کتابیں چھین کر محنت مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا۔ آنند نے جی توڑ کوشش کی کہ اسے کسی جگہ پر کوئی اچھی سی نوکری مل جائے مگر ناکامی نے شکست دے کر اس پر خوب قہقہے لگائے۔ مجبوری کے طور پر وہ گارمنٹس کی دکان پر کام کرنے لگا۔ اس کی ماتا کشیدہ کاری کر کے گھر کی گاڑی کھینچنے میں اس کی مدد کر رہی تھی۔ مگر اتنے کٹھن حالات کے دشت میں بھٹکنے کے باوجود آنند نے اپنی سوچوں کے نئے اور اجلے منظر تراش کر بھگوان کے سامنے رکھے ہوئے تھے اور ان میں داخل ہونے کے راستے معلوم کرنے میں لگا ہوا تھا۔
ایک روز اخبار دیکھتے ہوئے اس کی نظر ایک خبر پر ٹک سی گئی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ ٹھیک بیس دن بعد سورج گرہن ہو گا اور یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ اس وقت لوگ گھروں میں رہیں تاکہ گرہن کے مضر تابکاری اثرات سے بچا جا سکے۔ ساتھ ہی سورج گرہن پر ایک چھوٹا سا دلچسپ فیچر بھی چھپا ہوا تھا جسے وہ دلچسپی کے ساتھ پڑھنے لگا۔
(۲)
’’ماں جی۔۔۔! مجھے پچاس ہزار روپے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ آنند نے ماتا کے قدموں میں آلتی پالتی مارتے ہوئے کہا۔ آنند کی بات سن کر وہ چونک گئی جو ایک ٹانگ لمبی کئے اور دوسری پر فریم رکھے کشیدہ کاڑھنے میں مصروف تھی۔ آنند کا مطالبہ تھا کہ تیر۔۔۔ اس کے تیزی سے کشیدہ کاڑھتے ہاتھ رک گئے۔ اس کی بات پر اس کی بہن سرسوتی بھی اسے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگی جو صحن میں الگنی پر کپڑے ڈال رہی تھی۔
’’اتنے سارے پیسے۔۔۔؟ خیر تو ہے بیٹا۔۔۔؟‘‘ ماتا نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
’’ہاں ماں۔۔۔ چنتا کی کوئی بات نہیں۔‘‘ اس نے یوں سکون سے کہا جیسے اس کے لئے معمولی بات ہو۔
’’مگر اتنے سارے پیسوں کی تمہیں کیوں ضرورت پڑ گئی۔۔۔؟ کچھ مجھے بھی تو بتاؤ۔۔۔؟‘‘ ماتا نے فریم کو ایک طرف رکھا اور اپنی عینک اتارتے ہوئے پریشانی سے پوچھا
’’ماں جی۔۔۔ میں گھر میں گؤ ماتا لانا چاہتا ہوں۔‘‘ آنند نے جواب دیا۔
’’گؤ ماتا لانا چاہتے ہو۔۔۔؟ مگر کیوں بیٹا؟ ہمیں فی الحال گاؤ ماتا کی ضرورت نہیں ہے۔ گھر میں پوجا پاٹ کے لئے بھگوان کی مورتی ہے نا۔۔۔؟‘‘ ماتا نے حیرت سے کہا۔ ادھر سرسوتی بھی آنند کی عجیب سی بات سن کر قمیض نچوڑتے نچوڑتے رک گئی تھی۔
’’نہیں ماں۔۔۔ اس وقت ہم سب کو گؤ ماتا ہی کی ضرورت ہے اور مجھے ہر حال میں پچاس ہزار روپے چاہئیں۔‘‘ آنند نے انتہائی پکے لہجے میں کہا۔
’’بیٹا آنند۔۔۔ مجھے تمہاری بات کی بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ آخر گؤ ماتا گھر میں لا کر ہم کریں گے کیا؟‘‘ ماتا نے تذبذب بھرے انداز میں پوچھا۔
’’دیکھو ماں جی۔۔۔ آپ کی آشا ہے نا کہ ہمارے حالات اچھے ہو جائیں اور کٹھن سمے ختم ہو جائے۔۔۔؟‘‘ آنند نے اپنی ماتا کے سوکھے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر پیار سے سہلاتے ہوئے پوچھا
’’ہاں میرے لعل۔۔۔ میری تو سب سے بڑی آشا ہی یہی ہے مگر۔۔۔‘‘ ماتا کو خاموشی لگ گئی۔ آنند کی باتوں نے اسے الجھا کے رکھ دیا اور وہ عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
’’تو بس ماں جی۔۔۔ اس کے لئے ہمارے گھر میں گؤ ماتا کا ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘ آنند نے اپنی ماتا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ سرسوتی بھی اب تجسس کے مارے اپنا کام چھوڑ کر ماتا کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی اور اپنے بھیا کو عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔
’’مگر بیٹا۔۔۔ میرے پاس اتنے سارے پیسے کہاں سے آ گئے؟‘‘ ماتا نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔ آنند نے لمحہ بھر کے لئے اپنی ماتا جی کا بجھا ہوا چہرہ دیکھا اور پھر بولا
’’ماں جی۔۔۔ اگر سرسوتی کے زیورات بیچ دیں تو گھر میں گؤ ماتا آ سکتی ہے۔‘‘ اس کی بات سن کر ماتا جی ایک دم سے چونک اٹھی۔
’’آنند بیٹا۔۔۔ کیوں مزید پریشان کرنا چاہتے ہو۔۔۔؟ تمہیں پتہ بھی ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ ماتا جی نے پریشانی کے عالم میں بجھے ہوئے لہجے میں کہا
’’ماں جی۔۔۔ آپ مجھ پر وشواس کریں۔۔۔ میں آپ کو وچن دیتا ہوں کہ ہمارے حالات ترنت ٹھیک ہو جائیں گے۔ بس اس کے لئے گھر میں گؤ ماتا کا ہونا بہت ضروری ہے اور آپ وہی کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔‘‘ آنند نے ماتا جی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ چند لمحوں تک ماتا اسے تجسس بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی اور پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔
دوسرے ہی دن اس کی ماتا نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر زیورات اس کے حوالے کر دیئے۔ دو تین دن بعد اس کی ماتا اور بہنا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آنند ایک ایسی گؤ ماتا گھر لایا جو حاملہ تھی۔ انہیں آنند کی اس بات کی بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ مگر آنند ان سے بے نیاز صرف سورج گرہن کے دن کا انتظار کرنے لگا۔ اس دوران وہ گؤ ماتا کا بہت خیال رکھتا۔ سورج گرہن والے دن اس نے کام سے چھٹی کی۔ وہ ایک مکمل سورج گرہن تھا جو کافی دیر تک رہا اور مختلف ٹی وی چینلز نے اس کی مکمل کوریج کی تھی۔ سورج گرہن کے ختم ہونے کے بعد ماتا نے محسوس کیا کہ آنند کچھ بے چین ساہو گیا ہے اور ہر وقت گؤ ماتا کے ارد گرد گھومنے لگا ہے۔ وہ اس سے بات کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اس دوران گؤ ماتا نے بچھڑے کو جنم دے دیا اور بچھڑے کو دیکھتے ہی اس کی ماتا اور بہنا کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بچھڑے کے قدموں میں گرے پڑے تھے۔ چمتکار ہو گیا تھا، بچھڑے کے پیٹ کے دونوں طرف بڑا بڑا اوم لکھا ہوا تھا۔ حیرت اور خوشی سے ماتا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مگر آنند ان کی حالت سے خوب محظوظ ہو کر مسکراتا ہوا انہیں دیکھ رہا تھا۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور شردھالُوؤں کا ایک سمندران کے گھر پر امنڈ پڑا۔ جن میں میڈیا کے لوگ پیش پیش تھے۔ پہلے ہی دن ان کے گھر اتنی لکشمی اتری کہ وہ اسے سنبھال بھی نہ پائے۔ آنند کی ماتا اور بہنا خوشی سے دیوانی ہوئی جا رہی تھیں کہ ان کے گھر میں بھگوان نے چمتکار کر دکھایا ہے مگر یہ تو صرف آنند ہی جانتا تھا کہ سورج یا چاند گرہن کے وقت حاملہ جانوروں یا پرندوں کے پیٹ پر جو کچھ بھی لکھا جائے وہ ان کے پیدا ہونے والے بچوں کی کھال پر قدرتی طور پر لکھا ہوتا ہے اور اس نے قدرت کے اس نرالے اصول سے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔
٭٭٭